Monday, 4 April 2016

مدرسہ میں داخلہ فیس کی کیا ہے حیثیت؟

لینا چاہئے یا نہیں؟؟

اگر عدم جواز ہو تو آج تک لی ہوئی فیس واپس کرنا ضروری ہے؟

بحوالہ مدلل بحث فرمائیں۔۔۔۔

Daakhla fees jise admission fees bhi kehte hai
Iskee ek shakl to hai donation jisko bolte hai yaani school ke liye laazmi chandaa
Ye shakl najaiz hai illa ye ke waaliden apni khudhi aor marzi se jo kuch de

Doosree shakl
Ye hai ke bacche ko ham apne idare me padhne ke liye qabool kar rahe hai lihaza aapko school se kich chize kharidni padegi
Iski bhi 2 soorte hai
1... ikhtiyaari isme jaaiz hai ke school wale apne taor par nafaa rakhe
2...laazmi isme bazari narkh par dena zaruri hai

Teesri shakl ye hai ke aap foram ke paise do
Jaisa ke hanare maadare ilmi madarsa jamia islsmia talimuddin dabhel simlak me hai taqriban 20 yaa 30 rs ye jaaiz hai ke foram chaapne wagera kaa maaqool kharch hai

Chothee shakl ye hai ke taalimi idare bhot se hai lekin aap apne bacche ko hamare idare hi me bhejna chahte ho to is baat ke liye ke ham aapke bacche ko apne idare me qabool karle aapko 2000 rs masalan dena padegaa
Ye shakl sarasar rishwat me daakhil hai

Paanchwi shakl ye hai ke aap apne bacche ko hamare idare me daakhil karna chahte hai lihaza hamari shart hai ke poore saal kee fees advance deni hogee
Ye shakl jaaiz hai
Hawala⬇
189/Sd=6/1436-U

اسکول میں فیس دے کر طلبہ کے پڑھنے اور تنخواہ لے کر اساتذہ کے پڑھانے کی شرعی حیثیت اِجارے کی ہوتی ہے اور اِجارے میں اصل چیز اجرت اور مدت کی تعیین ہے چاہے یہ تعیین صراحتا معاہدے کے ذریعے ہو یا عرف کی بنا پر ہو، اگر اجارے میں اجرت اور مدت متعین کردی گئی، تو شرعاً اجارہ صحیح ہوجائے گا، بشرطیکہ اِجارے میں کوئی فاسد شرط نہ لگائی جائے، اس بنیادی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں:
(۱) اگر اسکول کے داخلہ فارم پر یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ پورے سال کی تعلیمی فیس اتنی ہے، جس میں تین ماہ چھٹیوں کی بھی فیس لی جائے گی یا آپ کے علاقے میں چھٹیوں کی بھی فیس لینے کا عرف ہے، تو معاہدے یا عرف کے مطابق تین ماہ کی چھٹیوں کی فیس لینا شرعاً جائز ہے۔ 
(۲-الف) جی ہاں معاہدے کے مطابق اساتذہ کو ڈیڑھ ماہ چھٹیوں کی تنخواہ دینا جائز ہے، چاہے اساتذہ سے چھٹیوں کے دوران کوئی کام نہ لیا جائے، ڈیڑھ ماہ کی تنخواہ باعمل جو مقرر کی گئی ہے، اس کی حیثیت یہ ہوگی کہ گویا وہ سارے سال کے مجموعی عمل پر ایک اجرت اضافیہ ہے جو معلوم ہے اور فریقین کی رضامندی سے جائز ہے۔
(۲-ب) بچوں سے امتحان کی فیس لینا جائز ہے۔
(۳- الف) ری ایڈمیشن فیس لینا بھی جائز ہے۔
(۳- ب) اگر فارم داخلہ پر یہ بات لکھ دی گئی ہے یا آپ کے یہاں کا عرف ہے کہ طالب علم کو پورے سال کی فیس دینی ہوگی چاہے وہ حاضر رہے یا غیر حاضر، تو ری ا یڈمیشن فیس لینے کے بعد ا خراج سے پہلے کے مہینوں کی فیس لینا جائز ہے، چاہے طالب علم اس میں غیر حاضر رہا ہو۔ 
(۵) جی ہاں! معاہدے یا عرف کے مطابق سالانہ رزلٹ پروگرام کے لیے امتحانی فیس لینا جائز ہے۔
(۶) ڈبل پرموشن دینے پر ڈبل یا معمول سے زیادہ فیس لینے کی مکمل تفصیل لکھیں، پھر اس جزء کا جواب دیا جائے گا۔
(۷) غیرحاضری کرنے والے بچوں سے مالی جرمانہ وصول کرنا شرعاً ناجائز ہے، اگر وصول کرلیا گیا، تو اس کو واپس لوٹانا ضروری ہے۔ 
(۸) بیع وشراء میں منافع کی کوئی حد نہیں ہے، آدمی کو شرعاً اختیار ہے کہ وہ اپنی مملوکہ اشیاء جس قدر منافع کے ساتھ فروخت کرے؛ البتہ متعارف منافع سے زیادہ لینا خلافِ مروت ہے۔
قال الحصکفی: وشرطہا کون الأجرة والمنفعة معلومتین؛ لأن جہالتہا تفضي إلی المنازعة (الدر المختار مع رد المحتار: ۹/۷، کتبا الإجارة، زکریا، دیوبند) وقال في الہندیة في شرائط صحة الإجارة: منہا بیان المدة - ومنہا أن تکون الأجرة معلومة- إلخ (الفتاوی الہندیة: ۴/۴۱۱، کتبا الإجارة، زکریا دیوبند) امداد افتاوی: ۳/۳۸۷- ۳۹۴- ۳۹۸ -۴۰۲ ، زکریا، دیوبند، و چند اہم عصری مسائل، ص: ۲۸۳-۲۸۶، مکتبہ دارالعلوم، فتاوی عثمانی: ۳/۳۶۶- ۳۷۴، کتاب الاجارة، زکریا، دیوبند، فتاوی رشیدیہ، ص: ۴۵۵، مکتبہ الحق ممبئی۔
======================
جواب درست ہے، بشرطیکہ آپ طلبہ کو پابند نہ کریں کہ وہ سامان آپ ہی کے یہاں سے لیں ورنہ پھر متعارف منافع سے زیادہ لینا ظلم ہوگا۔ 

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،dewband
Talibeilm

ہی سمینار، آج کا سوال نمبر 174
21جمادی الثانی ۱۴۳۷ھ  مطابق 31 مارچ
٢٠١٥ع    بروز پنج شنبہ۔

No comments:

Post a Comment