تحریف قران کا عقیدہ روافض کا متفقہ عقیدہ ہے. ان کی سب سے اہم کتاب یعقوب کلینی کی "اصول کافی" ہے. یہ کتاب ان کے نزدیک اتنی مستند ہے کہ خود ان کے 12 ویں امام جو تقریبا 13سو سال سے غائب ہیں، ساری دنیا کے روافض صدیوں سے ان کے ظاہر ہونے کی دعائیں کررہے ہیں، "عجل اللہ فرجہ "کہتے کہتے ان کی زبانیں سوکھی جارہی ہیں، مگر امام ہیں کہ ظاہر ہی نہیں ہوتے. ایسا امام جس کی اطاعت ان کے اوپر اسی طرح فرض پے جیسے رسول کی اطاعت. ایسا امام جس کو اللہ نے حلال وحرام کے تمام اختیارات دے رکھے ہیں .تمام اولین وآخرین کے علوم عطا کر دئے ہیں. اس امام غائب نے اصول کافی کو مستند ہونے کی سند عطا کرتے ہوئے کہا ہے کہ
"ھذا کاف لشیعتنا " یعنی یہ کتاب ہمارے شیعوں کیلئے کافی ہے. اصول کافی میں تحریف قران سے متعلق 2 ہزار روائتیں ہیں.جن میں کہا گیا ہے کہ قران میں کئی طرح کی تحریف ہوئی ہے.اسمیں آیتیں بڑھائی گئی ہیں .کچھ ایتیں کم کردی گئی ہیں خاص طور پر وہ آیتیں جن میں اہل بیت کے فضائل تھے.بارہ اماموں کے نام کنیتوں سمیت تھے.قران کی ایات میں تقدیم وتاخیر کی گئی ہے جس سے معنی بدل گئے ہیں کہیں مطلب خبط ہوگیا ہے.
ایک روایت ہے کہ کسی نے امام جعفر صادق سے دو آیتوں کے درمیان ربط دریافت کیا.تو انھوں نے فرمایاکہ ان دو آیتوں کے درمیان ربط کیسے ہوسکتا ہے ان کے درمیان سے ایک تہائی قران غائب کردیا گیا ہے.
ایک روایت ہے کہ موجودہ قران میں کفر کے ستون قائم ہوتے ہیں.
عام طور پر جب روافض سے تحریف قران کے عقیدہ کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے تو اس سے انکار کرتے ہیں. ان کے یہاں 4 علما ایسے گزرے ہیں جنھون نے تقیہ کرتے ہوئے تحریف سے انکار کیا ہے. ان میں شیخ صدوق اور محقق طوسی شامل پیں (دو علما کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں ارہا ہے ] تو جب بھی ان پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ ان چاروں میں سے کسی ایک کا قول پیش کر دیتے ہیں .مگر جب اصول کافی کی روایات اور امام کی سند کا ذکر کیا جاتا ہے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں. تقیہ ان بد ذاتوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور ہم سے بہت سے افراد اس کا اپنے بھولے پن کی وجہ سے شکار ہوجاتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے فرقہ باطلہ پے نگاہ رکھنے والا ادنی سا طالب علم بھی ان کے ان کرتوتوں سے بخوبی واقف ہوگا.
الحر العاملی محمد بن الحسین وہ شخص ہے جس نے اپنی کتاب " وسائل الشیعہ " میں قرآن کریم میں تحریف کے صریح بہتان پہ مشتمل روایات کو جمع کیا، اور اپنی طرف سے ان روایات پر کسی قسم کے تبصرہ یا تنقید کا اظہار تک نہ کیا، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے، کہ یہ روایات اپنے تمام تر مدلولات سمیت اس کے نزدیک درست ہیں ، انہی روایات میں سے ایک روایت یہ بھی ہے، جسے اس نے ابراہیم بن عمر کے واسطہ سے ابو عبداللہ ( رح ) سے نقل کیا ہے،
قال؛ ان فی القرآن مامضی وماھو کائن وکانت فیه اسماء الرجال فالقیت وانماالاسم الواحد علی وجوہ لاتحصی یعرف ذلک الوصاة۔
( وسائل الشیعه ص 145 مطبوعہ ایران )
ترجمہ ؛ ابو عبداللہ کہتے ہیں ، کہ قرآن میں زمانہ گذشتہ اور آئندہ کے اخبار واحوال موجود تھے، اس میں ان لوگوں کے نام بھی مذکور تھے ، جنہیں حذف کردیا گیا ہے، حالانکہ اکیلا ایک نام بھی بےشمار مطالب کا حامل تھا ، جن کی معرفت صرف ائمہ کو حاصل ہوتی ہے۔
ابوالحسن العاملی النباطی؛
اس نے اپنی کتاب " مرآة الانوار ومشکوة الاسرار " کے مقدمے میں متعدد مقامات پہ قرآن کریم میں تحریف کی صراحت کی ہے، مثلا وہ لکھتا ہے،
اعلم ان الحق الذی لا محیص عنہ بحسب الاخبار المتواتر الآتية وغیرھا ان ھذاالقرآن الذی فی ایدینا قد وقع فیه بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم شیئ من التغیر واسقط الذین جمعوہ بعدہ کثیرا من الکلمات والآیات وان القرآن المحفوظ عماذکرالموافق لماانزله اللہ تعالی ماجمعه علی وحفظه الی ان وصل الی ابنه الحسن وھکذاانتہی الی القائم وھوالیوم عندہ الخ۔
( مقدمہ مرآة الانوار ومشکوة الاسرار للبناطی مطبوعہ ایران )
ترجمہ؛ معلوم رہے کہ درج ذیل متواتر روایات کے علاوہ دوسری اخبار کی رو سے یہ ناقابل تردید سچ ہے، کہ یہ قرآن جو اس وقت ہماری پاس موجود ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد رد و بدل واقع ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں نے اسے جمع کیا،( یعنی صحابۂ کرام علیھم الرضوان ) انہوں نے ہی اس کی بہت ساری آیات اور کلمات کو ( بقول شیعہ ) حذف کردیا، تاہم جو قرآن ان عیوب سے پاک اور تنزیل الہی کے موافق ہے، وہ علی ( رضی اللہ عنہ ) کا جمع کردہ ہے، جو ان کے پاس محفوظ شکل میں تھا ، ان کے بیٹے حسن تک، پھر درجہ بدرجہ قائم ( بارھواں امام ) تک پہنچا، اور اس وقت یہ قرآن ان کے پاس محفوظ ہے۔
نوری طبرسی ( حسین بن محمد تقی النوری الطبرسی )
اس کا شمار متاخرین شیعی علماء کے اس گروہ سے ہے، جو قرآن میں تحریف کا قائل اور مدعی ہے، بلکہ یہ اس تحریک کا سب سے بڑا علمبردار اور نمایاں ترین کردار اداکرنے والاشیعی عالم ہے، اس نے انتہائی جرات و بیباکی سے اس دعوی کا اظہار کیا، اور یہ انکشاف کیا ، کہ یہ تمام شیعوں کا متفقہ عقیدہ ہے، اس اعتبارسے اس نے اپنی حقیقت کو اور اسلام کے خلاف اپنے خبث باطن کو پوری طرح آشکار کردیا ہے، اس مقصد کے تحت اس نے " فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب " نامی کتاب لکھی ، اس کتاب میں اس نے تحریف کے دعوی کو ثابت کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیں صرف کردیں ، اپنے ائمہ سے منقول روایات اور متقدمین کی تصریحات کے انبار لگادینے کے بعد اس نے اپنی طرف سے ہر قسم کی عیارانہ تشریحات کو بطور استدلال کے پیش کیا ہے، اس کے علاوہ اس نے اپنی کتاب میں قرآن کریم میں تحریف کے منکر شیعی علماء کی سخت گرفت بھی کی ہے، اور ان کے شبھات کا ازالہ بھی کیا ہے، ساتھ ہی انہیں اس نےعدم تحریف کے عقیدہ کو اپنانے پر سخت ملامت بھی کی ہے، اور ان پر زور دیاہے، کہ وہ تحریف قرآن کے مؤقف ہی کو اختیار کریں ، کتاب کا مؤلف یہ سمجھتا ہے، کہ وہ اپنے مکروہ اور خبیث عمل کے ذریعہ اللہ تعالی کے قرب کا مستحق بن سکتا ہے، یہی وجہ ہے، کہ اس نے اپنی مذکورہ بالا کتاب کےمقدمہ میں لکھا ہے،
وبعد فیقول العبدالمذنب المسمی حسین تقی النوری الطبرسی جعله الله من الوافقین ببابه المتمسکین بکتابه! ھذاکتاب لطیف وسفر شریف عملته فی اثبات تحریف القرآن وفضائح اھل الجور والعدوان وسمیته " فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب " وجعلت له ثلاث مقدمات وبابین واودعت فیه من بدیع الحکمة ماتقربه کل عین وارجو ممن ینتظررحمة المسیؤن ان ینفعنی به فی یوم لاینفع فیه مال ولا بنون۔
( مقدمه فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب ص 6 مطبوعہ ایران )
ترجمہ؛ وبعد؛ خطاکار و گناھگار بندہ حسین تقی نوری طبرسی اللہ تعالی سے اپنے درپرحاضری سے فیض یاب ہونے اور اپنی کتاب پر عمل پیرا ہونے والوں میں داخل فرمائے، کہتا ہے، کہ یہ عمدہ کتاب اور نفیس صحیفہ ہے، جسے میں نے قرآن میں کی گئی تحریف کو ثابت کرنے اور ظلم و زیادتی اور حد شکنی کرنے والوں کی ذلتوں کو نمایاں کرنے کی خاطر تالیف کیا ہے، میں نے اپنی اس کتاب کا نام " فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب " رکھا ہے، یہ تین مقدمات اور دوابواب پر مشتمل ہے، اس کے اندر میں نے نادر و نایاب حکمتوں کو جمع کردیا ہے، جس سے ہر آنکھ کو ٹھنڈک محسوس ہوگی ، مجھے اس ذات سے امید ہے، جس کی رحمت گناھگاروں کے لئے مرغوب ہے، کہ مجھے اس کتاب کے اجر سے اس دن سرفراز فرمادے، جس دن مال کام آئے گا اور نہ ہی اولاد۔
نوٹ ؛ ایسی گمراہی اور ضلالت سے اللہ کی پناہ، کہ قرآن مجید کو تحریف شدہ بھی ثابت کررہا ہے، اور اس پہ اللہ سے اجر کا بھی طلبگار ہے،
تیسرا مقصد؛
قرآن کریم کی تحریف کے دعوی کو اپنی معتمد کتابوں میں بیان کرنے والے خاص خاص متقدمین اور متاخرین شیعی علماء کے نام؛
1) ابو جعفر محمد بن حسن صفار نے اپنی کتاب " بصائر الدرجات " میں،
2) ابو نصر محمد بن مسعود المعروف عیاشی نے اپنی " تفسیر عیاشی" میں،
3) علی بن ابراھیم القمی نے اپنی " تفسیر القمی " کے مقدمہ میں،
4) محمد بن یعقوب الکلینی نے اپنی کتاب " الکافی " میں ،
5 ) ابو عبد اللہ محمد بن النعمان ملقب به شیخ مفید نے اپنی کتاب " اوائل المقالات" میں،
6) نعمت اللہ الجزائری نے اپنی کتاب " الانوار النعمانیہ " میں ،
7 ) الفیض الکاشانی نے اپنی تفسیر الصافی میں ،
8) ابو منصور الطبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج" میں ،
9 ) ملا باقرمجلسی نے اپنی دو کتابوں " بحار الانوار اور مرآة العقول" میں ،
10 ) یوسف البحرانی نے اپنی کتاب " الدرر النجفیه " میں،
11) عدنان البحرانی نے اپنی کتاب " مشارق الشموس الدریہ " میں،
12) نوری الطبرسی نے اپنی کتاب " فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب " میں،
13) الحر العاملی محمد بن الحسین نے اپنی کتاب " وسائل الشیعه " میں،
14) ابو الحسن العاملی النباطی نے اپنی کتاب مرآة الانوار و مشکوة الاسرار " میں، 15) مرزا حبیب الخوئی نے اپنی کتاب " منھاج البراعہ فی شرح نھج البلاغہ " میں،
16) الاردبیلی نے اپنی کتاب "حدیقة الشیعه " میں ،
17) الکرمانی نے اپنی کتاب " ارشاد العوام " میں ، 18) الکاشانی نے اپنی کتاب " ھدیة الطالبین " میں۔
یہ ان چیدہ چیدہ شیعہ کے معتبر ترین محدثین ، مجتھدین ، اور مراجع کے نام بمعہ کتب کے نام ہیں ، جو عقیدۂ تحریف قرآن کے صرف قائل ہی نہیں ، بلکہ بڑی ڈھٹائی سے اپنی معتمد و مستند کتب میں اس عقیدے کو بڑی صراحت اور واشگاف الفاظ میں لکھ رہے ہیں، اور تحریف والی روایات کو ائمہ کرام علیھم الرحمة والرضوان کی طرف منسوب بھی کر رہے ہیں۔
چوتھا مقصد؛
اکابر شیعی علماء کی شیعوں کے محدث اول محمد بن یعقوب الکلینی کے متعلق گواہی، کہ وہ قرآن کریم کے محرف ہونے کا مدعی و معتقد تھا۔
No comments:
Post a Comment