ادب کی اردو دنیا میں ڈاکٹر اقبال "بہت بڑا نام " ہے-ان کا ستارۂ اقبال اس قدر بلند ہے کہ انجم اس خوف سے سہمے جاتے رہے کہ ؎
"یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جاے;
اتنی چست شاعری کہ "آبِ نشاط انگیز "کا اس پر گمان ہو- تعبیرات پر شاہانہ گرفت، استعارات وتمثیلات پر کامل دستگاہ وقدرت،ایہامات و کنایات پر ملوکانہ دسترس، تسلسل وروانی پر حیرت ناک عبور، ترسیل افکار و پرورشِ سوز وساز میں سب پر فائق-"فیاضِ ازل"نے انہیں "رومی "اور "غزالی "جیسے صوفی وفلسفی کا آہنگ بھی عطا کیا- آسمانِ شہرت پر ان کا کوئی ہم عصر شاعر ان کی ہمسری نہ کرسکا-وہ عالمِ شعر و سخن کے واحد "شاعرِ مشرق "ہیں،
لیکن بایں ہمہ وہ انسان ہی تھے "معصوم عن الخطا "نہ تھے، اس لئے اگر ان سے کوئی فکری لغزش صادر ہوئی تو اسے "لغزش "ہی سمجھنا چاہئے، وحی و الہام نہیں! میں ان کے مداحوں میں ہوں، بلکہ مستفیدین میں; مگر ان کے کلام میں جابجا فکری "ٹھوکریں " دیکھ کر اپنے آپ کو نہ روک سکا- چوں کہ بعض ادب دوست ان کا ہر شعر "استناداً "پیش کرتےہیں، اس لئےضروری ہے کہ ان کی غلط فہمی دور کی جائے،; اس سلسلےمیں سب سے پہلےتو یہ عرض ہے کہ ڈاکٹر اقبال "علامہ" نہیں تھے- اس خطاب کے جملہ حقوق بحق "ماہرشریعت" محفوظ ہیں- میری نظر میں ان کی جو علمی غلطی سب سےپہلے سامنےآئی، وہ یہ ہے کہ انہوں نے "اقنطوا "کی جگہ"تقنطوا "کہہ دیا-دیکھیے یہ شعر؎
جس کی نومیدی سے روشن ہو درونِ کائنات
اس کےحق میں "تقنطوا "اچھا ہے یا لاتقنطوا
اسی طرح ان کا ایک شعر آج کل بری طرح گردش کررہاہے اور لوگ بے محابا "بطورسند "اسے نقل بھی کررہےہیں، حالاں کہ یہ صریح غلط شعر ہے ؎
پتھر کے ان بتوں میں سمجھا ہے تو، خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہرذرہ "دیوتا "ہے،
ایک مولانا نے "بھارت ماتا کی جے " کے جوازکی تغلیط میں قرآن وحدیث کی متعدد دلیلیں پیش کیں اور اپنے مضمون کی تان اس مصرع پر توڑی ؎
"خاکِ وطن کا مجھ کو ہرذرہ دیوتا ہے."
گویا دلائل سے جس کی نفی کرر رہے تھے، اس مصرع سے اپنے سارے فراہم کردہ مواد پر جھاڑو پھیر بیٹھے- لفظ "دیوتا " کو اقبال نے اگرچہ "محبوب " کے معنیٰ میں لیا ہے، مگر یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے- محبوب کے مفہوم کی ادائیگی کیلئے "صنم" موجود ہے اور یہ کثیر الاستعمال بھی ہے، لیکن "دیوتا "؟؟؟کبھی نہیں!!! اقبال کی ایک نظم تو اور بھیانک ہے، اس کی شدت کا اندازہ آپ بھی لگائیے! فرماتےہیں; ؎
اتنی چست شاعری کہ "آبِ نشاط انگیز "کا اس پر گمان ہو- تعبیرات پر شاہانہ گرفت، استعارات وتمثیلات پر کامل دستگاہ وقدرت،ایہامات و کنایات پر ملوکانہ دسترس، تسلسل وروانی پر حیرت ناک عبور، ترسیل افکار و پرورشِ سوز وساز میں سب پر فائق-"فیاضِ ازل"نے انہیں "رومی "اور "غزالی "جیسے صوفی وفلسفی کا آہنگ بھی عطا کیا- آسمانِ شہرت پر ان کا کوئی ہم عصر شاعر ان کی ہمسری نہ کرسکا-وہ عالمِ شعر و سخن کے واحد "شاعرِ مشرق "ہیں،
لیکن بایں ہمہ وہ انسان ہی تھے "معصوم عن الخطا "نہ تھے، اس لئے اگر ان سے کوئی فکری لغزش صادر ہوئی تو اسے "لغزش "ہی سمجھنا چاہئے، وحی و الہام نہیں! میں ان کے مداحوں میں ہوں، بلکہ مستفیدین میں; مگر ان کے کلام میں جابجا فکری "ٹھوکریں " دیکھ کر اپنے آپ کو نہ روک سکا- چوں کہ بعض ادب دوست ان کا ہر شعر "استناداً "پیش کرتےہیں، اس لئےضروری ہے کہ ان کی غلط فہمی دور کی جائے،; اس سلسلےمیں سب سے پہلےتو یہ عرض ہے کہ ڈاکٹر اقبال "علامہ" نہیں تھے- اس خطاب کے جملہ حقوق بحق "ماہرشریعت" محفوظ ہیں- میری نظر میں ان کی جو علمی غلطی سب سےپہلے سامنےآئی، وہ یہ ہے کہ انہوں نے "اقنطوا "کی جگہ"تقنطوا "کہہ دیا-دیکھیے یہ شعر؎
جس کی نومیدی سے روشن ہو درونِ کائنات
اس کےحق میں "تقنطوا "اچھا ہے یا لاتقنطوا
اسی طرح ان کا ایک شعر آج کل بری طرح گردش کررہاہے اور لوگ بے محابا "بطورسند "اسے نقل بھی کررہےہیں، حالاں کہ یہ صریح غلط شعر ہے ؎
پتھر کے ان بتوں میں سمجھا ہے تو، خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہرذرہ "دیوتا "ہے،
ایک مولانا نے "بھارت ماتا کی جے " کے جوازکی تغلیط میں قرآن وحدیث کی متعدد دلیلیں پیش کیں اور اپنے مضمون کی تان اس مصرع پر توڑی ؎
"خاکِ وطن کا مجھ کو ہرذرہ دیوتا ہے."
گویا دلائل سے جس کی نفی کرر رہے تھے، اس مصرع سے اپنے سارے فراہم کردہ مواد پر جھاڑو پھیر بیٹھے- لفظ "دیوتا " کو اقبال نے اگرچہ "محبوب " کے معنیٰ میں لیا ہے، مگر یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے- محبوب کے مفہوم کی ادائیگی کیلئے "صنم" موجود ہے اور یہ کثیر الاستعمال بھی ہے، لیکن "دیوتا "؟؟؟کبھی نہیں!!! اقبال کی ایک نظم تو اور بھیانک ہے، اس کی شدت کا اندازہ آپ بھی لگائیے! فرماتےہیں; ؎
لبریز ہے شراب حقیقت سے جامِ ہند
سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے "رامِ ہند ".
یہ ہندیوں کے" فکرِ فلک رس" کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند
اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں "ملک سرشت "
مشہورجن کےدم سے ہے دنیامیں نامِ ہند
ہے "رام "کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو "امامِ ہند "
اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں، جوش محبت میں فرد تھا۔۔
سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے "رامِ ہند ".
یہ ہندیوں کے" فکرِ فلک رس" کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند
اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں "ملک سرشت "
مشہورجن کےدم سے ہے دنیامیں نامِ ہند
ہے "رام "کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو "امامِ ہند "
اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں، جوش محبت میں فرد تھا۔۔
اس نظم کا ہر شعر اسلامی نظریات و عقائد کے خلاف ہے -یہ میں نے "مشتےنمونہ از خروارے "پیش کیا ہے، ورنہ ان کی فکری ٹھوکروں سے کم وبیش نصف کلیات متاثر ہے- میرے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اقبال کا ہرشعر یاد کئے جانے کے ہرگز قابل نہیں، بلکہ چن چن کر کلیات سے ایسے اشعار نکال دینے چاہئیں جو "روح محمد "سے تصادم رکھتےہوں، خواہ کلیات کی ضخامت آدھی کیوں نہ ہوجائے-
(فضیل احمد ناصری القاسمی ابن مولانا جمیل احمد ناصری)
No comments:
Post a Comment