Wednesday, 27 April 2016

کیا مقدسات اور حلال اشیا کوشراب سے تشبیہ دینا جائز ہے؟

فضیل احمد ناصری ابن مولانا جمیل احمد ناصری 
یہ تو سبھی جانتے ہیں اور نہیں جانتے تو جاننا چاہیے کہ شراب نوشی اسلام میں سراسر حرام ہے، مسلمانوں کے لئے اسے منہ لگانا، خریدنا، فروخت کرنا سب ناجائز ہے-اگر کوئی اہلِ ایمان شغلِ مےخواری میں پکڑا گیا تو اس کے لئے اسّی کوڑے کی سزا ہے-اسلام نے معاشرے کی اصلاح اور دنیوی معاملات کو خوش گوار بنانے کے لئے جن سزاوں کو بیان کیا ہے انہیںحدود کہاجاتاہے۔یعنی شریعت کی طرف سے مقرر کردہ سزائیں، جیسے چوری پرہاتھ کاٹنا، زنا پر سوکوڑے یا سنگسار کرنا، کسی پر زنا کا الزام لگانا اور ثبوت فراہم نہ کرنے پر اسّی کوڑے لگنا وغیرہ۔ شراب نوشی بالاتفاق حرام ہے، اس میں کسی بھی امامِ ہدایت کا کوئی اختلاف نہیں، مگر صدحیف،کہ اس امت کا ایک بڑا طبقہ اسے منہ لگانے کو حرام سمجھنے کے باوجود جام پر جام چھلکا رہاہے، بالخصوص شعرا جب تک بنتِ عنب سے ہم آغوش نہیں ہوجاتے، ان کا دماغ ہی ئھکانے پر نہیںرہتا۔ یہ بھی عرض کردوں کہ اگرآپ عربی شاعری پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے یہاں زن پرستی ہے ،عربی شاعر کا دل اچکنے والا کوئی لڑکا نہیں ،بلکہ لڑکی ہوتی ہے، لیکن ایرانی تہذیب کے اثر سے ہندوستانی شعرانے بھی امرد پرستی کی بدترین مثالیں قائم کیں ،چناں چہ ان کے کلاموں میں ان کا دل ربا ہمیشہ مذکر رہا ہے ،
میرتقی میر کی سنئے ....
دلی کے کج کلاہ لڑکوں نے 
کام عشاق کا تمام کیا
امرد پرستی کے جراثیم کے علاوہ جس چیز نے ان کے ادب کو بدنام کیا ،اسے، خواہ یک آتشہ ہو، یا دو آتشہ ،یا سہ آتشہ ؛شراب کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک جام نوشی غمِ گیتی مٹانے کا خوب صورت ذریعہ ہے۔میں یہاں اردو شعرا کی بات کررہاہوں۔ اردو کے بڑے بڑے شعرا اس بلانوشی کے بری طرح شکار نظرآئے۔مرزا اسد اللہ خاں غالب کو ہی دیکھئے، شدید بڑھاپے اور انتہائی گرتی ہوئی بیماری میں بھی کس طرح بہک رہے ہیں،
گو ہاتھ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دَم ہے 
رہنے دے ابھی ساغر ومینا مرے آگے
چغد صاحب پر دختِ رز کا ایساجادو سوارہے کہ دین کی باتیں بھی کرتے ہیں تو شراب نہیں بھولتے،
 ہرچند ہو مشاہد حق کی گفتگو 
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
 بلا نوش شعرا نے شراب کے لئے عجیب عجیب تعبیرات بھی ایجاد کی ہے، چناں چہ مے، خم، بنتِ عنب، جام، مینا، دخترِ رز، بلا،بادہ، صہبا، آبِ نشاط انگیز، آبِ آتش لباس اور نہ جانے کیا کیا!....جب کہ شراب خانے کے لئے مے کدہ، مےخانہ، خم خانہاس کے ماسوا اور بھی بہت کچھ۔.... شراب پلانے والوں کے لئے ساقی، پیرِمغاں اور پینے والوں کےلئے رند، مےکش، بادہ خوار، بادہ نوش، بلانوش جیسے الفاظ زبان زدِ خاص و عام ہیں۔........ شراب نوشی پر ملّا اور رند میں ہمیشہ نوک جھونک بھی رہی ہے، ملّا نے اسے حرام سمجھ کر مسترد کیا تو رند شاعر نے اس کے فضائل ومناقب کا ایک طویل سلسلہ ہی قائم کردیا......
غالب کہتے ہیں: 
کیوں ردّ و قدح کرے ہے زاہد! 
 مے ہے یہ، مگس کی قے نہیں ہے 
ایک موقع پر فرماتے ہیں،
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ 
بس اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتاتھا کہ ہم نکلے
بلکہ چغد صاحب تو جنتی شراب کا مذاق بھی اڑاتے نظر آتے ہیں ،
واعظ نہ تم پیو ،نہ کسی کو پلا سکو 
 کیابات ہے تمہاری شرابِ طہور کی 
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب شراب نوشی حرام ہے تو پھر اس کا ذکر اس انداز میں کہ مخاطب اس کی طرف مائل ہوجاے، کیاحکم رکھتاہے ؟تو اس سلسلے میں آئیے ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں، علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں،
 ولا وصف الخمر المہیج الیھا والدیریات والحانات (الحظر والاباح /ص/426)
یعنی کلام میں شراب کا اس طرح ذکر کرنا کہ انسانی طبیعت اس کی طرف راغب ہوجاے، حرام ہے۔افسوس کہ ہمارے شعرا نے اس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی اور انگور کی بیٹی سے بے تکلف رنگ رلیاں مناتے رہے....ایک شاعر نے تو بڑے ہی بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا ہے، مولوی صاحب کا استہزا کرتے اور بلانوشی پر فخرومباہات کا اظہار کرتے ہوے یہاں تک کہہ گئے ہیں،
لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد! 
ہاے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
اردو کے بہت سارے شعرا مےکدے تو نہیں جاتے، مگر تشبیہات واستعارات کے طور پر انگور کی چھوکری کا تذکرہ کر ہی ڈالتے ہیں، چناں چہ مسجد کو مےخانہ اور مدرسہ کو ساقی کدہ کہنا ہرگز نہیں بھولتے،پوری اردو شاعری شراب وکباب سے متاثر ہے۔ میں نے قرآن وحدیث کا ایک زمانے سے مطالعہ کیا، الحمدللہ بقدرلب ودنداں اب بھی یہ سفر جاری ہے، مگر کہیں کوئی ایسا لفظ نہیں ملا جہاں مقدس یا جائز شے کو شراب سے تشبیہ دی گئی ہو۔حالاں کہ پانچ وقت کی نماز کو پانچ مرتبہ نہر میں نہانے سے تشبیہ دینا موجود ہے، اسی طرح قرآن کو نور کہنا، عالم اور عابد کو چاند اور ستاروں سے تشبیہ دینا اور ان جیسی سیکڑوں مثالیں اس سلسلے میں دی جاسکتی ہیں،سمجھ میں نہیں آتا کہ جو چیز حرام ہے اس سے حلال حتی کہ مقدس اشیا کو بھی کیوں کر تشبیہ دے دی جاتی ہے؟ حدتو یہ کہ کسی بڑے اہلِ علم کا انتقال ہوتاہے تو نامور اہل قلم اور مذہبی قسم کے لوگ بھی اس شعر کےساتھ ماتم کرتے ہیں،
 جوبادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
 کہیں سے آبِ بقاے دوام لا ساقی
میں یہ سمجھتاہوں کہ شراب کو حلال اور مقدسات سے تشبیہ دینا ناجائز ہے، ہاں، اس سے منع کرنا مقصود ہو یا اس کی تحقیر و برائی ذہن میں ہو تو درست ہے، جیسے ابراہیم ذوق نے کہا،
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا 
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
زمانہ جاہلیت میں انگور کو کرم کہاجاتاتھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ شراب پینے والے کی طرف لوگوں کی بڑی توجہ ہوتی تھی، اسے احترامی نگاہوں سے دیکھا جاتاتھا، جب شراب حرام ہوئی توحضور علیہ الصلوة والسلام نے اصلاح کرتے ہوے فرمایا،
 لاتسمواالعنب الکرم فان الکرم قلب المومن
 انگور کو کرم نہ کہا کرو، اسے انگور ہی کہو، کیوں کہ کرم مسلمان کے دل کو کہاجاتاہے۔اس حدیث کی تشریح میں مشہور محدث ملّا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں،
 فلماحرم الخمر نہاھم عن ذالک تحقیراً للخمر وتاکیداً لحرمتھا وبین لھم وان قلب المومن ھوالکرم لانہ معدن التقوی لاالخمرالمودی الی اختلال العقل وفساد الراء(مشکوة مع حاشیہ /ص/407)
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور یعنی شراب کو کرم کہنے سے اس لئے منع فرمایا کیوں کہ امت کی نظر میں شراب کی حقارت بٹھانا اور اس کی حرمت کی قطعیت کو بتانا مقصود تھا، چوں کہ مسلمان کا دل تقویٰ کی کان ہے،اس لئے کرم کا اطلاق قلبِ مومن پر کیاجاے، نہ کہ شراب پر، کیوں کہ شراب اور مسلمان کے دل کے درمیان تباین کی نسبت ہے-مومن کا دل خیر کا مرکز جبکہ شراب ام الخبائث ہے۔ اس سے پیش تر تشبیہات واستعارات کے لئے جملوں میں شراب کا استعمال میں بھی بڑے چاو سے کیا کرتا ،مگر جب سے یہ حدیث اور فقہ کا یہ قاعدہ نظر سے گزرا ،میں اس کا عام استعمال ناجائز سمجھتاہوں-ہمارے کئی اہم صوفیا اور علما سے یہ غلطی سرزد ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ انجانے میں ہوئی، اس لئے انہیں برا بھلا نہیں کہاجاسکتا۔مسئلہ معلوم ہونے کے بعد جوکوئی ایسا کرتا ہے، اللہ کے یہاں جواب دہی کے لئے تیاررہے۔

No comments:

Post a Comment