Tuesday, 26 April 2016

ﺟﻤﻌﮧ ﮐﺎ ﻏﺴﻞ

بَابوُجُوبِ غُسْلِ الْجُمُعَةِ عَلَى كُلِّ بَالِغٍ مِنْ الرِّجَالِ وَبَيَانِ مَا أُمِرُوا بِهٖ

صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۹۴۷/ حدیث متواتر مرفوع

۱۹۴۷۔ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيٰی قَالَ قَرَأْتُ عَلٰی مَالِکٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْغُسْلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ۔

۱۹۴۷۔ یحیی بن یحیی، مالک، صفوان بن سلیم، عطاء بن یسار، حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جمعہ کے دن غسل کرنا ہر احتلام والے پر ضروری ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۹۴۸/ حدیث متواتر مرفوع

۱۹۴۸۔ حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَی قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهٗ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ الْجُمُعَةَ مِنْ مَنَازِلِهِمْ مِنْ الْعَوَالِي فَيَأْتُونَ فِي الْعَبَاءِ وَيُصِيبُهُمْ الْغُبَارُ فَتَخْرُجُ مِنْهُمْ الرِّيحُ فَأَتٰی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْسَانٌ مِنْهُمْ وَهُوَ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَنَّکُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِيَوْمِکُمْ هٰذَا۔

۱۹۴۸۔ ہارون بن سعید ایلی، احمد بن عیسی، ابن وہب، عمرو بن عبید اللہ بن ابی جعفر، عروة بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جمعہ (پڑھنے کے لئے) لوگ اپنے گھروں اور بلندی والی جگہوں سے ایسے عبا پہنے ہوئے آتے تھے کہ ان پر گردوغبار پڑی ہوئی تھی اور ان سے بدبو آتی تھی ان میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کاش کہ آج کے دن کے لئے تم خوب پاکی حاصل کرتے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۹۴۹/ حدیث متواتر مرفوع

۱۹۴۹۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ النَّاسُ أَهْلَ عَمَلٍ وَلَمْ يَکُنْ لَهُمْ کُفَاةٌ فَکَانُوا يَکُونُ لَهُمْ تَفَلٌ فَقِيلَ لَهُمْ لَوْ اغْتَسَلْتُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ۔

۱۹۴۹۔ محمد بن رمح، لیث، یحیی بن سعید، عمرة، عائشہ فرماتی ہیں کہ لوگ خود کام کرنے والے تھے اور ان کے پاس کوئی ملازم وغیرہ نہیں تھے تو ان سے بدبو آنے لگی تو ان سے کہا گیا کہ کاش تم لوگ جمعہ کے دن غسل کر لیتے۔

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺳﻌﯿﺪ ﺧﺪﺭﯼ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧُ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺍﻟﺴﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﺮ ﺑﺎﻟﻎ ﭘﺮ
ﺟﻤﻌﮧ ﮐﺎ ﻏﺴﻞ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ 
( ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻣﺴﻠﻢ )
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻤﺮﺕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧُ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺍﻟﺴﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ
ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻭﺿﻮ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﭼﻬﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻏﺴﻞ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻏﺴﻞ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ 
( ﺍﺑﻮ ﺩﺍﻭﺩ ﺗﺮﻣﺬﯼ )
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧُ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺍﻟﺴﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺟﻤﻌﮧ
ﮐﮯ ﺩﻥ ﻏﺴﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭼﻬﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺗﯿﻞ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﻄﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺯ ﺭﮨﺎ ﭘﻬﺮ ﺟﺘﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﻘﺪﺭ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮍﻫﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﺎ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻨﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ
ﺟﻤﻌﮧ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﺱ ﺟﻤﻌﮧ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻄﺎﺋﯿﮟ ﻣﻌﺎﻑ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ 
(ﺑﺨﺎﺭﯼ )
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﮨﺮﯾﺮﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧُ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺍﻟﺴﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ
ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﻏﺴﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻏﺴﻞ ﺟﻨﺎﺑﺖ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﭘﻬﺮ ﮔﯿﺎ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﻧﭧ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺳﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻧﺒﮧ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﭼﻮﺗﻬﯽ ﺳﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﺳﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻀﮧ ﮨﯽ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻄﺒﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ (ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﺍﺑﻬﯽ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺎ ) ﺗﻮ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺑﻬﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺫﮐﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﻨﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ 
(ﺑﺨﺎﺭﯼ -ﻣﺴﻠﻢ )
Sahih Bukhari Hadees # 895
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""غُسْلُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ"".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بالغ کے اوپر جمعہ کے دن غسل واجب ہے۔
www.theislam360.com
تشریح:
شروع میں جب کہ اسلام کا ابتدائی دور تھا مسلمانوں کی زندگی محنت و مشقت اور تنگی و ناداری سے بھر پور تھی، ایسے بہت کم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جو مال دار اور خوش حال تھے۔ زیادتی اور کثرت ایسے ہی لوگوں کی تھی جو دن بھر محنت و مشقت کرتے اور جنگلوں اور شہروں میں مزدوری کرتے۔ اس طرح وہ حضرات مشکلات و پریشانی کی جکڑ بندیوں میں رہ کر اپنے دین و ایمان کی آبیاری کیا کرتے تھے۔ لیکن تنگی و پریشان حالی کا یہ دور زیادہ عرصہ نہیں رہا جب اسلام کی حقیقت آفریں آواز مکہ اور مدینہ کی گھاٹیوں سے نکل کر عالم کے دوسرے حصوں میں پہنچی اور مسلمانوں کے لشکر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لئے ان تمام سختیوں اور پریشانیوں کو زادہ راہ بناتے ہوئے قیصر و کسری جیسے والیان ملک کی حشمت وسلطنت اور شان و شوکت سے جا ٹکراے اور جس کے نتیجے میں انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں پر اپنی فتح و نصرت کے عَلم گاڑ دئیے تو تنگی و پریشان حالی کا وہ دور خدانے فراخی و وسعت میں تبدیل کر دیا۔ اب مسلمان نادار اور پریشان حال نہ رہے بلکہ مالدار اور خوش حال ہوگئے اور محنت و مشقت کی جگہ دنیا کی جہانبائی و مسند آرائی نے لے لی۔
اس حدیث میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جمعہ کے روز غسل کے حکم کی وجہ بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کے ان دونوں ادوار کا ایک ہلکا اور لطیف خاکہ پیش فرمایا ہے کہ پہلے تو مسلمان اتنے نادار اور تنگ دست تھے کہ نہ تو ان کے پاس ڈھنگ سے پہننے کے کپڑے تھے اور نہ معیشت کی دوسری آسانیاں میسر تھیں بلکہ وہ لوگ دن بھر محنت و مزدوری کر کے سوکھا روکھا کھاتے اور اونی لباس پہنا کرتے تھے جس کہ وجہ سے جب سخت گرمی میں ان کو پسینہ آتا تو مسجد میں بیٹھے ہوئے آس پاس کے لوگوں کو پسینے کی بو سے تکلیف ہوا کرتی تھی۔ مگر جب بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان پر مال و زر کے دروازے کھول دئیے تو وہ بغیر کسی کوشش اور محنت کے مال دار اور خوش حال ہوگئے اور اللہ نے ان پر اسباب معیشت کی بے انتہا فراوانی کر دی۔
حدیث کے آخری لفط بَعْضًا مِنَ الْعِرَقِ میں لفظ من بیان کیلئے ہے لفظ بعض کا اور یہاں بعض سے مراد اکثر ہے اس طرح اس جملے کے معنی یہ ہوں گے کہ اکثر لوگوں کے پسینے جو آپس میں لوگوں کو تکلیف پہنچاتے تھے خوشحالی اور اسباب معیشت کی فراوانی کی وجہ سے ختم ہوگئے۔
بہر حال حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پسینے کی بدبو کی کثرت کی وجہ سے ابتدائے اسلام میں جمعہ کے روز غسل کرنا واجب تھا مگر جب اسباب معیشت کی فراوانی اور مسلمانوں کی خوشحالی کی وجہ سے یہ چیز کم ہوگئی تو غسل کے وجوب کا حکم منسوخ ہوگیا اور اس کی جگہ سنت کے حکم نے لے لی۔ اس طرح اب جمعہ کے روز غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔
سلام،  زبدة الفقہ،   کتاب طہارت،
غسل کا مسنون طریقہ
غسل کا مسنون طریقہ جو شخص غسل کرنا چاہے اس کو چاہیے کہ کوئی کپڑا تہبند وغیرہ باندھ کر نہائے اور اگر ننگا نہائے تو کسی ایسی جگہ نہائے جہاں کسی نامحرم کی نظر نہ پہچ سکے۔ عورت کو اور ہر ننگا نہانے والے کو بیٹھ کر نہانا چاہیے اور ننگا نہانے والا قبلہ کی طرف منہ کر کے نہ نہائے۔ سب سے پہلے دونوں ہاتھ کلائی تک تین مرتب دھوئے پھر استنجائ کرے یعنی پیشاب و پاخانہ کے مقام کے دھوئے خواہ استنجائ کی جگہ پر نجاست ہو یا نہ ہو۔ اور بدن پر جہاں جہاں نجاست حقیقی لگی ہو اس کو بھی دھو ڈالے پھر کلی غرارہ کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور اس میں مبالغہ کرے اور اگر روزہ دار ہو تو غرارہ نہ کرے اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ نہ کرے مسواک بھی کرے اور پورا وضو کرے ۔ ہاتھ پیر کی انگلیوں اور داڑھی کا خلال بھی کرے۔ اگر کسی چوکی یا پتھر وغیرہ پر بیٹھ کر غسل کرتا ہو تو وضو کرتے وقت پائوں بھی دھو لے پھر بعد میں دھونے کی ضرورت نہیں اور اگر ایسی جگہ ہے کہ پائوں بھر جائیں گے اور غسل کے بعد دھونے پڑیں گے تو پائوں نہ دھوئے بلکہ غسل سے فراغت کے بعد دوسری جگہ ہٹ کر پائوں کو دھوئے۔ وضو کے بعد پہلے سر کو دھو لے پھر تمام بدن پر تھوڑا سا پانی ڈال کر ہاتھ سے ملے یا گیلا ہاتھ تمام بدن پر پھرائے تاکہ جب پانی ڈالے تو بدن پر سب جگہ اچھی طرح پہنچ جائے اور کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے۔ پھر سارے بدن پر تین مرتبہ پانی بہالے اور ہر دفعہ بدن کو ملے کہیں سوکھا نہ رہ جائے۔ بدن پر پانی اس ترتیب سے ڈالے کہ پہلے اپنے داہنے مونڈھے پر تین مرتبہ پھر بائیں مونڈھے پر تین مرتبہ پھر سر پر پھر سارے بدن پر تین مرتبہ پانی ڈالے اور اصح و ظاہر الروایت و حدیث کے موافق یہ ہے کہ پہلے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالے پھر دائیں کندھے پر تین مرتبہ پھر بائیں کندھے پر تین مرتبہ ڈالے۔ اور غسل فرض ہو تو سوائے بسم اللہ کے اور کوئی دعا نہ پڑھے اور بسم اللہ بھی کپڑے اتارنےسے پہلے پڑھ لے اور نہاتے وقت بغیر سخت ضرورت کے کسی سے کوئی بات نہ کرے۔ غسل کے بعد چاہے تو اپنے جسم کو کسی کپڑے سے پونچھ ڈالے اور نہانے کے بعد فوراً کپڑے پہن لے اور اب بلا وجہ ستر کو کھلا نہ رکھے۔
سلام،  زبدة الفقہ،   کتاب طہارت،
هل اغتسال يوم الجمعه واجب أم سنة؟
نرجو بسط الأدله في ذلك.
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:
فقد لخص الإمام النووي رحمه الله الخلاف في وجوب غسل الجمعة في شرح مسلم 133/6فقال: واختلف العلماء في غسل الجمعة، فحكي وجوبه عن طائفة من السلف، حكوه عن بعض الصحابة، وبه قال أهل الظاهر، وحكاه ابن المنذر عن مالك، وحكاه الخطابي عن الحسن البصري ومالك، وذهب جمهور العلماء من السلف والخلف وفقهاء الأمصار إلى أنه سنة مستحبة ليس بواجب، قال القاضي: وهو المعروف من مذهب مالك وأصحابه، واحتج من أوجبه بظواهر هذه الأحاديث، واحتج الجمهور بأحاديث صحيحة منها: حديث الرجل الذي دخل وعمر بن الخطاب يخطب، وقد ترك الغسل، وقد ذكره مسلم، وهذا الرجل هو عثمان بن عفان، جاء مبيناً في الرواية الأخرى، ووجه الدلالة أن عثمان فعله وأقره عمر وحاضرو الجمعة، وهم أهل الحل والعقد، ولو كان واجباً لما تركه ولألزموه. 
ومنها: 
قوله صلى الله عليه وسلم: "من توضأ، فبها ونعمت، ومن تغسل فالغسل أفضل" حديث حسن في السنن المشهورة، وفيه دليل على أنه ليس بواجب.
ومنها: 
قوله صلى الله عليه وسلم: "لو اغتسلتم يوم الجمعة" وهذا اللفظ يقتضي أنه ليس بواجب، لأن تقديره لكان أفضل وأكمل، ونحو هذا من العبادات 
وأجابوا عن الأحاديث الواردة في الأمر به بأنها محمولة على الندب جمعاً بين الأحاديث) وقد أجاب قبل ذلك عن ظواهر الأحاديث التي تفيد الوجوب كقوله صلى الله عليه وسلم عن غسل الجمعة: "واجب على كل محتلم" أي: متأكد في حقه، كما يقول الرجل لصاحبه: حقك واجب عليّ، أي: متأكد، لا أن المراد الواجب المحتم المعاقب عليه. وقد سار ابن حزم في عكس الاتجاه الذي سار فيه النووي في الترجيح، فرجح الوجوب وحشر على ذلك من الأدلة ما وسعه حشره حيث قال: وغسل الجمعة فرض لازم لكل بالغ من الرجال والنساء... إلخ كلامه في كتابه: المحلى (1/255) كتاب الطهارة. 
وما ذهب إليه ابن حزم هو الذي مال إليه ابن دقيق العيد في شرح عمدة الأحكام حيث قال: ذهب الأكثرون إلى استحباب غسل الجمعة، وهم محتاجون إلى الاعتذار عن مخالفة هذا الظاهر. "غسل يوم الجمعة واجب"، وقد أولوا صيغة الأمر على الندب، وصيغة الوجوب على التأكيد، كما يقال: إكرامك عليّ واجب، وهو تأويل ضعيف، إنما يصار إليه إذا كان المعارض راجحاً على الظاهر، وأقوى ما عارضوا به هذا الظاهر حديث: "من توضأ يوم الجمعة فبها ونعمت، ومن اغتسل فالغسل أفضل" ولا يعارض سنده سند هذه الأحاديث. انتهى.
والحاصل أن المذاهب الأربعة على استحباب غسل الجمعة وأنه ليس بواجب وهو الراجح إلا أنه ينبغي المحافظة على فعله قدر الإمكان لما ورد من الترغيب فيه ولما في فعله من الخروج من الخلاف المعتبر. والله أعلم.
http://googleweblight.com/?lite_url=http://www.hadithurdu.com/09/9-1-510/&ei=v-rB1yda&lc=en-IN&s=1&m=770&host=www.google.co.in&ts=1483965278&sig=AF9NedncAFwQ5Hqv4usWi4QqXumkpvJCZQ

السلام علیکم، 
غسل جمعہ کے دن کرناضروری ہے یا جمعرات کی رات بعد مغرب کسی بھی وقت کر سکتے ہیں؟
جمعہ کا غسل جمعہ کا دن شروع ہونے کے بعد کسی بھی وقت کر سکتے ہیں اس سے جمعہ کے غسل کی فضیلت حاصل ہو جائے گی لیکن زیادہ بہتر اور افضل یہ ہے کہ جمعہ کی نماز سے کچھ دیر قبل ہی غسل کیا جائے اور اسی غسل سے نماز جمعہ ادا کی جائے۔
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/jumay-ka-ghusal-kab-kia-jay/2013-07-04


No comments:

Post a Comment