Tuesday, 12 April 2016

بن دیکھے سودا

حضرت ابنِ جوزی رحمہ اللہ روایت کرتے ھیں کہ،
ھرات میں ایک سادات کنبہ تھا۔ خاتون جوانی میں بیوہ ھو گئیں۔ بچیوں والی تھیں۔ تنگ دستی آئی تو انہوں نے سمرقند کی طرف ھجرت کی۔ وھاں پہنچیں تو لوگوں سے پوچھا کہ،
یہاں کوئی سردار، کوئی سخی ھے...؟
لوگوں نے بتایا کہ یہاں دو سردار ھیں، ایک مسلمان ھے اور ایک آتش پرست۔
خاتون مسلمان سردار کے گھر گئیں اور کہا کہ میں آلِ رسولؐ ھوں، پردیسن ھوں، نہ کھانے کو کچھ ھے نہ ھی رھنے کا کوئی ٹھکانہ ھے۔
سردار نے پوچھا:
"تمھارے پاس کوئی نسب نامہ ھے...؟"
خاتون نے کہا:
"بھائی میں ایک نادار پردیسن ھوں، میں سند کہاں سے لاؤں؟"
وہ کہنے لگا:
"یہاں تو ھر دوسرا آدمی کہتا ھے کہ میں سیّد ھوں، آلِ رسولؐ ھوں۔"
یہ جواب سن کر وہ خاتون وھاں سے نکلیں اور مجوسی سردار کے پاس گئیں۔ وھاں اپنا تعارف کروایا۔ اُس نے فوراً اپنی بیگم کو اُن کے ھمراہ بھیجا کہ،
جاؤ! اِن کی بچیوں کو لے آؤ۔
رات سرد تھی، خاتون اور اُن کی بچیوں کو کھانا کھلا کر مہمان خانے میں سونے کیلئے جگہ دے دی گئی۔
اُسی رات کو مسلمان سردار نے خواب دیکھا کہ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم جنّت میں سونے سے بنے ہوئے ایک خوبصورت محل کے دروازے پر کھڑے ھیں۔
یہ عرض کرتا ھے:
"یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم! یہ محل کس کا ھے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ھیں: "ایک مسلمان کا ھے۔"
یہ کہتا ھے:
"مسلمان تو میں بھی ھوں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ھیں:
"اپنے اسلام پر کوئی سند پیش کرو۔"
وہ شخص کانپ جاتا ھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ھیں:
"میرے گھر کی بیٹی تیرے دروازے پر چل کر آئی اور تُو نے اُس سے سادات ھونے کی سند مانگی؟ میری نظروں سے دُور ھو جا!"
جب اُس کی آنکھ کُھلی تو وہ ننگے سر اور ننگے پاؤں باھر نکل آیا اور شور مچانا شروع کر دیا کہ وہ پردیسن خاتون کہاں گئی؟
لوگوں نے بتایا کہ وہ تو آتش پرست سردار کے گھر چلی گئی۔
وہ اُسی حالت میں بھاگا بھاگا گیا اور اُس سردار کے دروازے کو زور زور سے کھٹکھٹانے لگ پڑا۔ گھر کا مالک باھر نکلا اور پوچھا:
"کیا ھوا؟"
"وہ خاتون جو اپنی بچیوں کے ھمراہ تمہارے گھر میں ٹھہری ھوئی ھیں، مجھے دے دو وہ میرے مہمان ھیں۔.."
"حضور، وہ میرے مہمان ھیں، آپ کے نہیں۔ میں آپ کو نہیں دے سکتا۔"
"مجھ سے تین سو دینار لے لو اور اُنہیں میرا مہمان بننے دو!"
مجوسی سردار کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، کہنے لگا:
"بھائی! میں نے بن دیکھے کا سودا کیا تھا، اب تو دیکھ چکا ھوں، اب میں تمھیں کیسے واپس کر دوں؟ میں نے خواب دیکھا کہ جنّت کے دروازے پر اللہ کے نبی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کھڑے تھے، تجھے کہا جا رھا کہ دُور ھو جا! اُس کے بعد رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم میری طرف متوجہ ھوئے، فرمانے لگے کہ تُو نے میری بیٹی کو کھانا اور ٹھکانا دیا، تُو اور تیرا سارا خاندان بخش دیئے گئے ھیں۔ سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے جنّت کا فیصلہ کر دیا ھے۔ آنکھ کُھلتے ھی میں ایمان لا چکا ھوں، میرا سارا خاندان کلمہ پڑھ چکا ھے۔ ھم وہ دولت کبھی آپ کو واپس نہیں کریں گے۔"

حضرت مولانا طارق جمیل کے ایک بیان سے اقتباس

No comments:

Post a Comment