میرا سوال ۲۷ رجب کے متعلق ہے ، ۲۷ رجب کو کسی عبادت کا حکم ہے اور ہے تو پھر آج کل کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب بدعات ہیں ، کیا یہ حقیقت ہے اس کے متعلق تفصیل سے بتادیجیےجزاک اللہ خیرا.
جواب : ستائیس رجب کی شب کے بارے میں عوام میں یہ مشہور ہوگیا ہے کہ یہ شب معراج ہے ،سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ۲۷ رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے ، کیونکہ اس بارے میں مختلف روایتیں ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب کا اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے ، اس لئے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ کونسی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی ، جس میں آنحضرت صلی معراج پر تشریف لے گئے ،اس سے آپ خود اندازہ کرلیں کہ اگر شب معراج بھی کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، لیکن چونکہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷ رب کو شب معراج قرار دینا درست نہیں۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ یہ واقعہ معراج سن ۵ نبوی میںپیش آیا ، یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شب معراج پیش آئی ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد ۱۸ سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف فرمارہے ،لیکن اس دوران یہ کہیںثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو ، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو ، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شب قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے ، نہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے ، اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے ، نہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی ، اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
پھر سرکار دو عالم صلی اللٌٰہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں موجود رہے ،اس پوری صدی میںکوئی ایک واقعہ ایسا ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۲۷ رجب کو خاص اہتمام کرکے منایا ہو ، لہذا جو چیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی ، اور جوآپ کے صحابہ کرام نے نہیں کی ، اس کو دین کا حصہ قرار دینا ، یا اس کو سنت قرار دینا ، یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے اوراس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
جامعہ بنوریہ کی تاسیس
محرم 1374ھ مطابق 1954ء میں محدث الکبیر علامہ شیخ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے علامہ بنوری ٹاؤن مسجد میں اس جامعہ کی بنیاد رکھی.
دارالافتاء
No comments:
Post a Comment