محترم حضرات، آج بندہ اپنے تاثرات قلمبند کر رہا ہے لیکن ایک بات جو بار بار دل میں آرہی ہے اور میری اداسی کا سبب بن رہی ہے اور اس بات پر میں جتنا افسوس کروں کم ہے ہر چیز مقدر سے ملتی ہے ان احباب کو دیکھ کر رشک کرتا ہوں جنھیں یہ عظیم الشان نعمت اللہ رب العزت نصیب فرمائی ہے.
وہ عظیم الشان دولت علم کی دولت ہے اور دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل کی دولت ہے، آج ناچیز تحریری طور پر اپنے تاثرات پیش کر رہا ہے ساتھ ساتھ میں دل اسی بات پر رنجیدہ بھی ہو رہا ہے اور ایک آرزو تمنا حسرت ہو رہی ہے اے کاش میں بھی دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کرتا خوش نصیب ہیں وہ علماء کرام جنہوں نے اس مدرسے سے فراغت حاصل کی.
میں اپنی زبان سے کچھ کہوں تو یقینا ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے کے قابل بات ہوگی لیکن حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب قاسمی رحمۃاللہ علیہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند فرمارہے ہیں
یہ الہامی مدرسہ ہے. اس کا آغاز بھی الہام سے ہوا ہے اس کی تعمیر بھی الہام سے ہوئی اور طلباء کا داخلہ بھی الہام سے ہی ہوتا ہے. بلکہ بعض واقعات سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس کے اساتذہ کا تقرر اور تعین بھی خاص زاویوں میں ہوتا ہے اور یہاں کی خدمت ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی. اس مدرسے کا آغاز اور مدرسوں کی طرح رسمی رسمی مشورے سے نہیں ہوا بلکہ وقت کے اکابرو مشائخ کا ایک اجماع سا ہے
میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ دارالعلوم کی تاسیس کے وقت میں کسی کو کشف ہوا کہ یہاں پر ایک دینی مدرسے کی بنیاد ڈالنی چاہیے.. کسی نے خواب میں دیکھا کہ یہاں پر ایک مدرسے کا قیام ہونا چاہئے. کسی پر القا ہوا کہ اب ہندوستان میں اسلام کا تحفظ دینی اداروں سے ہی ہو سکتا ہے. اسی طرح تعمیر کے وقت بنیاد کھودنے کے لئے کچھ نشانات لگا دیئے گئے جتنا احاطہ اب ہے اس سے آدھے پر نشان لگایا گیا تھا.
الہامی سنگ بنیاد :
اس کا سنگ بنیاد بھی الہام سے ہی رکھا گیا. بنیاد کے لئے لوگوں نے جو نشان لگایا تھا اس پر ابھی کام شروع نہیں ہوا تھا کہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمۃاللہ علیہ نے خواب دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے ہیں. عصائے مبارک ہاتھ میں ہے اور فرماتے ہیں کہ.
یہ احاطہ تنگ رہے گا کافی نہیں ہوگا.
چنانچہ آپ نے مولانا نصیر احمد صاحب کی درسگاہ کے پاس سے نشان لگایا.
حضرت شاہ رفیع الدین صاحب نید سے بیدار ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ لکیریں بالکل اسی طرح موجود ہیں. پھر شاہ صاحب نے فرمایا کہ بنیاد اسی پر کھودی جائے گی اب مجھے کسی سے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے..
الہامی اہتمام :
دارالعلوم کے سب سے پہلے مہتمم حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمۃاللہ علیہ تارک الدنیا اور نہایت ہی قوی النسبت بزرگ تھے. نہ لکھنا جانتے تھے اور نہ کتاب پڑھ سکتے تھے. مولانا نانوتوی نے انہیں بلایا اور اہتمام پیش کیا، آپ نے قبول کر نے سے انکار کر دیا. اور فرمایا کہ میں نہ تو لکھنا جانتا ہوں نہ پڑھنا، مجھے مہتمم بنا کیا کیجئے گا. حضرت نے فرمایا. نہیں. منجانب اللہ یہی مقدر معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہی اہتمام قبول کریں. چنانچہ آپ نے قبول فرمایا..
الہامی طلباء :
حضرت شاہ رفیع الدین صاحب نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ مولسری کے احاطہ میں جو کنواں ہے اس کی منڈیر پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف رکھتے ہیں اور دودھ تقسیم فرمارہے ہیں. دودھ لینے والوں میں سے بعض کے ہاتھ میں پیالہ ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہے وہ ہاتھ پھیلا کر چلو ہی سے پی لیتا ہے.. حضرت جب بیدار ہو ئے تو مراقبہ فرمایا کہ آخر یہ کیا چیز ہے. کچھ دیر مراقب رہنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ دودھ صورت مثالی علم کی ہے.. اور قاسم العلوم نبی اکرم ص ہیں اور آپ علم تقسیم فرمارہے ہیں اور طلباء فرق مراتب کے ساتھ علم حاصل کر رہے ہیں..
اس واقعہ کا علم لوگوں کو اس طرح ہوا کہ ایک بار شاہ رفیع الدین صاحب رحمۃاللہ علیہ احاطہ مولسری میں کھڑے تھے ایک طالب علم شوربہ کا پیالہ آپ کے سامنے لیکر آیا اور اسے پھیک کر کہنے لگا. نہ اس میں گھی ہے نہ مسالہ ہے اور شاید مفتی صاحب اس سے وضو کے جواز کا فتوی بھی دے دیں
یہ ہے آپ کا اہتمام..
جب وہ طالب علم چلا گیا تو آپ نے پوچھا کیا یہ مدرسہ دیوبند ہی کا طالب علم ہے؟ لوگوں نے کہا، ہاں حضرت یہ مدرسہ دیوبند ہی کا طالب علم ہے. اور مطبخ سے اس کا کھانا ہے. اور مطبخ کے رجسٹر میں اس کا نام درج ہے.. آپ نے فرمایا نہیں. یہ مدرسہ کا طالب علم معلوم نہیں ہو تا. تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اسی نام کا ایک دوسرا طالب علم ہے اصل میں کھانا اس کا تھا. لیکن نام میں اشتراک کی بنا پر غلطی سے ٹکٹ اسے مل گیاتھا..
طلبہ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا حضرت بات تو وہ ہوئی جو آپ نے فرمایا تھا. مگر آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس پر آپ نے دودھ والا واقعہ بیان فرمایا اس کے بعد جو عجیب بات فرمائی وہ یہ کہ جب شوال میں طلباء داخل ہو تے ہیں تو میں ایک ایک کو دیکھ کر پہچان لیتا ہوں. کہ یہ بھی اس مجمع میں تھا. اس طالب علم پر میں نے تین مرتبہ نگاہ ڈالی تو مجھے یہی معلوم ہوا کہ یہ اس مجمع میں شریک نہیں تھا..
بہرحال میں یہ عرض کر تھا. کہ یہ مدرسہ الہامی مدرسہ ہے. اس کا آغاز بھی الہام سے ہوا. اور طلباء کا انتخاب بھی الہام سے ہوتا ہے.
شاد باش وشاد زی اے سر زمین دیوبند
ہند میں تونے کیا اسلام کا جھنڈا بلند
اسم تیرا با مسمی ضرب تیری بے پناہ
دیو استبداد کی گردن ہے اور تیری کمند
کفر ناچا جن کے آگے بارہا تگنی کا ناچ
جس طرح جلتے توے پر رقص کرتا ہے سپند
ماخوذ خطبات حکیم الا سلام
ناقل:راشد علی نعمانیؔ
متعلم دارالعلوم وقف دیوبند
قسم الأدب العربي
No comments:
Post a Comment