(ساگر ٹائمز ) اسلام کا سب سے بنیادی عقیدہ ’ عقیدۂ توحید ‘ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں جتنے بھی پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام آئے ، ان کی بنیادی تعلیم یہی تھی کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہیں اور اسی کی عبادت کرنی ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُوْلٍ إِلَّا نُوْحِیْ إِلَیْْہِ أَ نَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُوْن.
(الانبیاء : ۲۵)
جہاں یہ بات ضروری ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے ، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ کسی اور کو اس کی خدائی میں شریک نہیں ٹھہرایا جائے ؛ اسی لئے علم کلام کے شارحین نے لکھا ہے کہ،
کلمہ لا اِلٰہ الا اللہ میں نفی اور اثبات دونوں پہلو کی رعایت ضروری ہے کہ اللہ کی ذات معبود ہے اور اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ،
( شرح العقیدۃ الطحاویہ : ۱۰۹)
اگر قرآن مجید کی الفاظ کے تہہ میں جھانک کر دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی آیت ہو جس میں صراحتاً یا اشارۃ ًبراہ راست یا بالواسطہ توحید کا ذکر نہ آیا ہو ؛ لیکن کم سے کم اکیانوے آیتیں ایسی ہیں ، جو صراحتاً اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو بیان کرتی ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیثیں تو اتنی کثرت سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے بارے میں منقول ہیں کہ اگر ان سب کو جمع کردیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ہوجائے گی ، یہی عقیدہ آپ اکی زندگی بھر کی دعوت اور آپ کی تعلیمات کا خلاصہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانچ باتوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا اور توحید کو اس کا سب سے پہلا رکن بتایا ، ( بخاری ، عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حدیث نمبر : ۸)
’ لا اِلٰہ الا اللہ ‘ کو جنت میں داخل ہونے کی کلید قرار دیا گیا ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جو بھی لا اِلٰہ الا اللہ پر یقین رکھتے ہوئے دنیا سے رُخصت ہوگا ، وہ جنت میں داخل ہوگا :
من مات وھو یعلم انہ لا اِلٰہ الا اﷲ دخل الجنۃ.( مسلم ، حدیث نمبر : ۲۶)
توحید کی ضد شرک ہے ، شرک سے مراد ہے : کسی بھی مخلوق کو — خواہ وہ اپنی طاقت ، پھیلاؤ ، ظاہری نفع رسانی ، ضرر رسانی اور علومرتبت کے اعتبار سے کتنی ہی بڑی ہو. اللہ تعالیٰ کی ذات میں یا آپ کی صفات و اختیار میں شریک اور ساجھی ٹھہرانا ، توحید کی جتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے ، شرک کی اتنی ہی زیادہ برائی اور مذمت بیان کی گئی ہے ، قرآن مجید نے انبیاء کے اپنی قوموں سے خطابات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ، ان میں ہر جگہ شرک کی مذمت کی گئی ہے اور اس کو سب سے زیادہ مبغوض اور قابل نفرت فعل ٹھہرایا گیا ہے ۔
قرآن مجید ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ صرف یہی کافی نہیں ہے کہ انسان اللہ کو ایک مانے اور عملی طورپر اپنے آپ کو شرک سے بچائے رکھے ؛ بلکہ موقع و محل کے لحاظ سے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عقیدۂ شرک اور مشرکانہ شعائر ( جس میں مشرکانہ نعرے بھی شامل ہیں ) سے اپنی براء ت اوربے تعلقی کا اظہار کرے ؛ اسی لئے پیغمبروں نے اپنی قوم سے کہا کہ میں ان تمام مشرکانہ چیزوں سے بری اور بے تعلق ہوں ، جن کو تم کیا کرتے ہو ، جیساکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :
یَاقَوْمِ إِنِّیْ بَرِیٌٔ مِمَّا تُشْرِکُوْنَ‘‘
(الانعام : ۷۸)
اور حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو گواہ بناتے ہوئے فرمایا کہ تم سب گواہ رہنا کہ میں تمہارے مشرکانہ افعال سے بری ہوں :
وَاشْہَدُوْا أَنِّیْ بَرِیٌٔ مِّمَّا تُشْرِکُوْن
(ہود : ۵۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف عقیدۂ توحید کی تعلیم دی بلکہ ہر لمحہ اس کو ذہن میں راسخ کرنے کیلئے ایسی دُعائیں سکھائیں ، جو ہر عمل کیساتھ انسان کو خدائے واحد کی یاد دلاتی ہے ، کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ، صبح میں اور شام میں ، سفر کی طرف جاتے اور واپس آتے ہوئے ، ایک دوسرے کو سلام کرتے ہوئے ، غرض کہ کوئی موقع ایسا نہیں جس میں دُعاء اور ذکر کے اُسلوب میں اللہ کی وحدت کا یقین انسان کے ذہن میں راسخ نہ کیا گیا ہو ، اسی طرح شرک کے جتنے راستے ہوسکتے تھے ، اسلام نے ان سب کو بند کیا ، بعض گذشتہ آسمانی مذاہب میں مجسمہ بنانے کی اجازت تھی ؛ لیکن شریعت محمدی میں اسے منع کردیا گیا ؛ کیوںکہ یہ چیز بتدریج انسان کو شرک تک پہنچادیتی ہے ، اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانے سے منع فرمایا گیا :
من حلف بغیر اﷲ فقد اشرک
( ابوداؤد ، عن ابن عمر ، حدیث نمبر : ۳۲۵۱)
قبروں کو اونچی بنانے کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ممانعت فرمائی ہے:
لا تدعن قبراً مشرفاً الاسویتہ
( نسائی ، عن علی ، باب تسویۃ القبور اذا رفعت ، حدیث نمبر : ۲۰۳۱)
کیونکہ یہ چیز بھی انسان کو شرک تک پہنچادیتی ہے ، بدشگونی کو منع کیا گیا کہ اس میں انسان اپنے نقصان کے لئے خالق کی بجائے مخلوق کو مؤثر سمجھنے لگتا ہے :
الطِیَرۃ شرک
(ابوداؤد ، عن عبد اللہ بن مسعود ، حدیث نمبر : ۳۹۱۰)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی باتوں کو بھی منع فرمایا ، جن میں شرک کا شبہ پایا جاتا تھا ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کو سجدہ کرنے کی اجازت طلب کی ، ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عبادت کی نیت سے سجدہ کی اجازت کیسے مانگ سکتے تھے ؟ مقصود تعظیم و احترام کے طورپر سجدہ کرنا تھا ؛ لیکن آپ انے اس سے بھی منع فرما دیا ،
(مسند احمد ، حدیث نمبر : ۱۲۶۳۵)
رب کے معنی آقا اور مالک کے بھی ہیں ، اسی لئے اسلام سے پہلے غلام اپنے مالک کو رب کہا کرتے تھے؛ لیکن چوںکہ رب ، اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں شامل ہے ؛ اس لئے اس بات کی ممانعت کردی گئی کہ کوئی غلام اپنے مالک کو رب کہے ، عبد کے معنی بندے کے بھی ہیں اور غلام کے بھی ، اسی نسبت بندگی کو ظاہر کرنے کے لئے انسان کو ’ عباد اللہ ‘ کہا جاتا ہے ، اس لفظی مشابہت سے بچانے کے لئے آپ انے اس بات سے منع فرمایا کہ غلام کو
میرے عبد ( یا عبدی) کہہ کر مخاطب کیا جائے ۔
(مسلم ، کتاب الالفاظ من الادب وغیرہا ، باب حکم اطلاق لفظۃ العبدۃ ، حدیث نمبر : ۲۲۴۹)
ہر مسلمان اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ آخرت کی کامیابی اور ناکامی توحید اور شرک سے متعلق ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسے دریافت کیا گیا،
وہ دو کونسی چیزیں ہیں جو جنت کو اور دوزخ کو واجب کرنے والی ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا،
جس کی موت اس حال میں ہو کہ وہ اللہ کیساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا ، اور جس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہوگا ،
( مسلم عن جابر رضی اللہ عنہ ، حدیث نمبر : ۹۳)
اسی لئے کوئی مسلمان اس بات کو گوارہ نہیں کرسکتا کہ اپنی زبان سے مشرکانہ کلمہ کا تلفظ کرے ، ہر مسلمان کیلئے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سامنے رکھے جانے کے لائق ہے کہ رسول اللہ انے مجھے دس باتوں کی نصیحت فرمائی ، جن میں سے پہلی بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، چاہے تم کو مار ڈالا یا جلا ڈالا جائے،
لا تشرک باﷲ شیئاً وان قتلت وان حرقت
(مسند احمد ، حدیث نمبر :۲۲۱۲۸)
اسلام میں عقیدۂ توحید کی اہمیت اور شرک کے ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے کسی مسلمان سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی مخلوق کو محبوب سے بڑھ کر معبود کا درجہ دے دے ، محبت ماں باپ سے ہوتی ہے ، اولاد سے ہوتی ہے ، شوہر و بیوی سے ہوتی ہے ، اسی طرح اس مٹی سے بھی ہوتی ہے ، جس میں وہ پیدا ہوا ہے ، جس کی فضاؤں میں وہ پروان چڑھا ہے ، یہ ایک فطری محبت ہے ، جیسے انسان کو یہ سمجھانے اور یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ تمہیں اپنی اولاد سے محبت کرنی چاہئے ، اسی طرح وطن کی محبت بھی ایک فطری چیز ہے ، انسان پردیس میں رہتے ہوئے اپنے ملک کی ایک ایک چیز کو یاد کرتا ہے ، اگر اس کے ملک سے وابستہ کوئی خبر مل جائے تو اسے شوق کی آنکھوں سے پڑھتا ہے ، اجنبی ملک میں رہتے ہوئے اپنے وطن کا کوئی آدمی مل جائے تو گھنٹوں اس سے بات کرنا چاہتا ہے ، کہیں جاکر اپنے وطن کو واپس آئے تو دل کو سکون اور آنکھوں کو راحت میسر آتی ہے، اسی لئے کسی ملک میں رہنے والے کو اس ملک سے محبت کی یاد دلانا ایک بے معنی اور غیر منطقی بات ہے اور پھر یہ بڑا ظلم ہے کہ ایک گھر میں چار بھائی رہتے ہوں اور ایک بھائی دوسرے بھائی سے مطالبہ کرے کہ تم اس گھر سے وفاداری اور محبت ثابت کرو ، محبت اور وفاداری کا مطالبہ کرایہ دار اور مزدور سے تو کیا جاسکتا ہے لیکن مالک اور حصہ دار سے نہیں کیا جاسکتا ۔
افسوس کہ اس ملک میں نفرت کے سوداگروں کا اقلیتوں کے ساتھ یہی رویہ ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آزادی کی لڑائی میں انگریزوں کی پشت پناہی اور قوم سے غدای کا راستہ اختیار کیا اور ملک کی آزادی کے لئے ان کے تلووں میں ایک کانٹا بھی نہیں چبھا ، یہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے مختلف خود ساختہ نعرے وضع کرتے ہیں اور اس کو حب الوطنی کے لئے کسوٹی قرار دیتے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ ہر آدمی کو وندے ماترم کہنا چاہئے اور اب کہتے ہیں کہ لوگوں کو ’ بھارت ماتا کی جئے ‘ کہنا سکھانا چاہئے ، سوال یہ ہے کہ آپ کو کیا حق ہے سکھانے کا ، کیا ہمارے ملک کے دستور نے ایسا نعرہ لگانے کی تلقین کی ہے ؟
آر ، ایس ، ایس نے تو اس قسم کی بحثیں اصل مسائل سے توجہ ہٹانے اور اپنی دلت دشمنی کے کھلتے ہوئے راز پر پردہ ڈالنے کیلئے چھیڑ دی ہے لیکن بہت سے مسلمان بھائیوں نے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کو سمجھے بغیر اس کو مادر وطن سے محبت کا ایک سیدھا سادہ جملہ سمجھ لیا ہے ، یہ غلط فہمی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اگر ’بھارت ماتا کی جئے ‘ کا معنی صریح اور متعین طورپر وطن کو معبود قرار دینے کا نہ ہو تب بھی اس فقرہ میں وطن کی معبودیت کا اشارہ ضرور پایا جاتا ہے اور اس کے کئی قرائن ہیں :
1. ماول یہ کہ یہ اس بدنام زمانہ ناول میں درج کیا جانے والا نعرہ ہے ، جسے ۱۸۸۲ء میں بنگال کے ہنکم چندرا چٹرجی نے آنندا مت کے نام سے لکھا ، اس ناول کا مرکزی خیال ہی یہی ہے کہ وطن کو خدا کا درجہ دیا جائے ،
2. دوسرے : ہندوستان میں بنارس اور ہری دوار کے بشمول کم سے کم چار مندر بھارت ماتا کے نام سے بنائے گئے ہیں ، بنارس کے مندر کی بنیاد گاندھی جی نے رکھی تھی ، جس میں کوئی مورتی نہیں ہے اور دوسرے مندر کی اندرا گاندھی نے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس بھارت ماتا کی تعبیر میں ملک کو معبود کا درجہ دیا گیا ہے ،
3. تیسرے : ماتا کے معنی اگرچہ ماں کے ہیں لیکن ہندو دیویوں کو بکثرت ماتا کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جیسے درگا ماتا ، کالی ماتا ، لکشمی ماتا ، یاگائے کو گئو ماتا ،
4. چوتھے : ’ ماتا ‘ کا ترجمہ سنسکرت میں ماں باپ ، لڑکی اور سرپرست کیساتھ ساتھ درگا کے پاس آنے والے سے بھی کیا گیا ہے ، نیز اس کو سنسکرت الفاظ گھٹاکا Ghataka اور وسوا Visva کا مترادف قرار دیا گیا ہے ، گھٹاکا کے معنی مارنے والے کے اور ’وسوا ‘ کے معنی یقین و بھروسہ کئے جانے کے لائق کے ہیں ، یہ وہ صفات ہیں جو مختلف مذاہب میں خدا کیلئے ذکر کی جاتی ہیں ،
5. پانچویں : بھارت ماتا کو مختلف شکلوں میں ہی پیش کیا گیا ہے ، اس وقت آر ایس ایس جو تصویر پیش کررہی ہے ، اس کے مطابق اس کے ایک ہاتھ میں تلوار یا ترشول ہے اور وہ شیر پر بیٹھی ہوئی ہے ، دوسرے ہاتھ میں بھگوا جھنڈا ہے اور بعض تصویروں میں اس کے کئی کئی ہاتھ ہیں ، یہ تقریباً اسی طرح کی تصویر ہے جو ہمارے ہندو بھائیوں کی دیویوں اور دیوتاؤں کی ہوتی ہے ،
5. چھٹے : یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ’ بھارت ‘ کا نام جس راجہ کے نام پر ہے ، وہ مرد تھا نہ کہ عورت ، اس لئے بھارت ماتا میں اس راجہ کی نسبت نہیں ہوسکتی ، یہ کسی مذہبی دیوی ہی کی جیت کا نعرہ ہوسکتا ہے ،
7. ساتویں : جے کے معنی زندہ باد کے بھی ہیں اور اسی معنی کے لحاظ سے ’جے ہند ‘ کہا جاتا ہے لیکن چونکہ جے میں زندہ رہنے کے معنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت ’حیٌ‘ (ہمیشہ زندہ رہنے والے) کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا کرتا ہے ، شاید اسی لئے ہمارے ہندو بھائی ’ جئے شری رام ، ہنومان جی کی جے ، جے بجرنگ بلی' ، وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ، خود سنسکرت لغت میں اس کا ایک ترجمہ ’ اِندر کی جیت ‘ سے کیا گیا ہے. ماتا اور جے کے یہ ترجمے Sir Monier Villiams کی سنسکرت ، انگلش ڈکشنری سے لئے گئے ہیں ۔
اس لئے غالب گمان یہی ہے کہ اس فقرہ میں وطن کی معبودیت کا ذکر ہے نہ کہ صرف محبوبیت کا ، اگر ایسا نہ ہوتا تو سنگھ پریوار کے لوگوں کو اس لفظ پر اتنا اصرار نہ ہوتا ؛ اس لئے کہ ان کے یہاں حب الوطنی مقصود نہیں ، اگر وہ محب وطن ہوتے تو شروع سے ترنگا لہراتے اور ملک کے دستور پر یقین کا اظہار کرتے لیکن انھوں نے بمشکل تمام کچھ عرصہ پہلے سے یہ کڑوا گھونٹ اپنے حلق سے اُتارا ہے ، ان کا مقصد اپنے مذہبی تصورات کو دوسری قوموں پر مسلط کرنا ہے، اس لئے مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر ایسے مشرکانہ یا کم سے کم شرک آمیز نعروں کو قبول نہیں کرنا چاہئے ، یہ ان کو آزمانے کی اور بتدریج اس مقام تک لانے کی کوشش ہے جو فرقہ پرست تنظیموں کا منصوبہ ہے ، ہم وطن سے محبت اس لئے رکھتے ہیں کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اس کی تعلیم دی ہے ، ہمیں اس کیلئے کسی کی سر ٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے لیکن کوئی بھی مسلمان جانتے بوجھتے ایسے نعروں کو قبول نہیں کرسکتا ۔
(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
Saturday, 2 April 2016
ایک نیا مشرکانہ نعرہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment