Wednesday 20 April 2016

تصویر کے شرعی احکام

دارالعلوم دیوبند
الجواب حامداومصلیا
ڈیجیٹل سسٹم کے تحت اسکرین پر جو مناظر، یعنی تصویریں وغیرہ آتی ہیں، وہ سب شرعاً تصویر کے حکم میں ہیں ، یہ سینما کی تصویروں کے مثل ہیں، فرق اتنا ہے کہ سینما میں ریز ( بہانے والا کسی چیز کا ٹکڑا) سامنے سے ڈالی جاتی ہے اور ٹی وی میں پیچھے سے، جو مفاسد سینما کی تصویروں سے پیدا ہوتے ہیں ، وہی سارے مفاسد ٹی وی کی تصویروں سے بھی پیدا ہوتے ہیں، اس لیے ان تصاویر کا دیکھنا شرعاً ناجائز قراردیا جائے گا، دارالعلوم دیوبند کے اربابِ افتاء کا فتویٰ اور موقف یہی ہے، البتہ شرعی ضرورت اور اضطرار کی حالت کے احکام اور ہوں گے ۔
فقط والسلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ حبیب الرحمن عفا الله عنہ،
مفتی دارالعلوم دیوبند1430/4/28

الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، وقار علی غفرلہ، فخر الاسلام عفی عنہ زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، نائب مفتی دارالعلوم دیوبند

دارالعلوم کراچی
ڈیجیٹل کیمروں یا موبائل سےتصاویریاویڈیو بنانے سے متعلق مسئلہ میں کچھ تفصیل ہے وہ یہ کہ ڈیجیٹل کیمروں یا موبائل کے ذریعے جو شکلیں نظر آتی ہیں،جب ان شکلوں کاپرنٹ لے لیا جائے،یا انہیں پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش کر لیا جائے تو ان پر شرعاً تصویر کے احکام جاری ہوں گے۔ البتہ جب تک ان کا پرنٹ نہ لیا گیا ہو،یا انہیں پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش نہ کیا گیا ہوتو ان کے بارے میں علماءِ عصر کی آراء مختلف ہیں:
۱۔بعض علماء انہیں بھی تصویر قرار دیتے ہیں ، لہذا تصویر ہونے کی حیثیت سے ان علماءکے نزدیک ان کو دیکھنا جائز نہ ہوگا ۔
۲۔بعض علماء اس پر تصویر کے احکام کااطلاق نہیں کرتے۔
۳۔بعض علماء کہتے ہیں کہ وہ ان کی رائے میں تصاویر تو ہیں ،لیکن چونکہ ان کے بحکم تصویر ہونے یا نہ ہونے میں ایک سے زائد فقہی آراء موجود ہیں،لہٰذا مجتہد فیہ ہونے کی بنا پربوقتِ حاجتِ شرعیہ،مثلاً جہاد وغیرہ کے موقع پر ان کے استعمال کی گنجائش ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کے حضراتِ اکابر کی تحقیق کے مطابق دوسری رائے راجح ہےبشرطیکہ وہ پائیدار طور سے کسی چیز پر نقش نہ ہوں،لیکن ایک اعتبار سے احتیاط پہلی رائے میں ہے جیسا کہ ظاہر ہے،اور دوسرے اعتبار سے ہمیں احتیاط دوسری اور تیسری رائے میں معلوم ہوتی ہے،کیونکہ دینِ اسلام پر دشمنانِ اسلام کی جو یلغار الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ منظّم طریقہ سے ہورہی ہےاس سے دفاع کرنا بھی امت کی ذمہ داری ہے، جس سے حتیٰ الامکان عہدہ برا ہونے کیلئے الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جو فواحش و منکرات سے پاک ہو۔ لہٰذا جو علماءِ کرام مذکورہ بالا تین آراء میں سے کسی سے متفق ہوں اور اس پر عمل کریں وہ سب قابلِ احترام ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہمارے نزدیک مستحقِ ملامت نہیں۔(مأخذہ التبویب:10/1039,43/878) واللہ تعالی اعلم بالصواب

تصویر سے متعلق ایک فتویٰ
از حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری
(صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند)
حضرت مولانا شیخ حکیم فضل الکریم صاحب الحسینی مفتی اعظم مدنی دارالافتاء، آسام نے حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ سے تصویر کشی کے ابتلائے عام ہو جانے کی وجہ سے اس کے جواز وعدم جواز کی بابت دریافت کیا، حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم نے درج ذیل تحریر ارقام فرمائی۔
بسم الله الرحمن الرحیم
مکرم ومحترم زید مجدکم!………
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
آپ نے فوٹو کے تعلق سے دریافت کیا ہے کہ جائز ہے یا ناجائز؟ اور ناجائز ہے تو اکابر کا عمل اس سے مختلف کیوں ہے ؟ عام طو رپر بڑے بڑے لوگ جلسوں میں اورکانفرنسوں میں بے دھڑک فوٹو کھنچواتے ہیں، بلکہ اب تو بعض بڑے ٹی وی پر بھی آنے لگے ہیں۔
تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ برصغیر ( انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش) کے تمام مفتیان کرام بالاتفاق فتوی دیتے ہیں:
کیمرے کا فوٹو بھی حرام ہے ،
حدیث صحیح میں جس تصویر کی ممانعت آئی ہے، وہ اس تصویر کو بھی شامل ہے ، مصر او ر
عرب کے بعض علماء اس میں اختلاف رکھتے ہیں ، مگر برصغیر کے علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔
مگر امت کے اکابر علمی طور پر اپنے مفتیوں کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے ذہنوں میں کیمرے کے فوٹو کی کوئی خاص قباحت نہیں رہی ، یہ ایک بڑا المیہ ہے ، میں ہمیشہ اکابرین سے عرض کرتا ہوں کہ اگر مسئلہ بد ل گیا ہے اور کیمرے کا فوٹو جائز ہوگیا ہے تو پہلے دارالافتاؤں سے کہو کہ وہ جواز کا فتویٰ دیں، پھر فوٹو کھنچواؤ، موجودہ صورت دین کی تضحیک کا سبب ہے، عوام کہتے ہیں کہ لوجی ! مفتی صاحبان یہ فتوی دیتے ہیں
اور”حضرت جیوں“ ( جو جلسوں میں فوٹو نکالتے ہیں) کا یہ عمل ہے اور جب ایک مسئلہ میں عوام کے ذہنوں سے دین کی قدر ومنزلت ختم ہو جائے گی تو دین کے دوسرے شعبوں کا بھی یہی حال ہو گا۔
بلکہ بعض تجارت پیشہ ناعاقبت اندیشوں نے اکابرین کے فوٹوؤں کی تجارت شروع کر دی ہے، یہاں حضرت تھانوی ، حضرت مدنی ، حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی  اور دیگر بہت سے بزرگوں کے فوٹو دھڑلے سے بک رہے ہیں، اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے، اس لیے اکابرین سے میری گزارش ہے کہ خدا را دین پر رحم کریں، اگر ان کے دل میں دین کی کوئی قدر نہیں ہے تو عوام کو تباہ نہ کریں ، والله یھدی السبیل․
املاہ سعید احمد عفا الله عنہ پالن پوری، خادم دارالعلوم دیوبند1428/5/25ھ
اصاب من اجاب: محمد امین پالن پوری، خادم دارالعلوم دیوبند، یکم جمادی الاخریٰ1428

ڈیجیٹل تصویر کا کیا حکم ہے وضاحت مطلوب
ہے؟؟؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدًا ومصلّياً
ڈیجیٹل کیمروں یا موبائل سےتصاویریاویڈیو بنانے سے متعلق مسئلہ میں کچھ تفصیل ہے وہ یہ کہ ڈیجیٹل کیمروں یا موبائل کے ذریعے جو شکلیں نظر آتی ہیں،جب ان شکلوں کاپرنٹ لے لیا جائے،یا انہیں پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش کر لیا جائے تو ان پر شرعاً تصویر کے احکام جاری ہوں گے۔
البتہ جب تک ان کا پرنٹ نہ لیا گیا ہو،یا انہیں پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش نہ کیا گیا ہوتو ان کے بارے میں علماءِ عصر کی آراء مختلف ہیں:
۱۔بعض علماء انہیں بھی تصویر قرار دیتے ہیں ، لہذا تصویر ہونے کی حیثیت سے ان علماءکے نزدیک ان کو دیکھنا جائز نہ ہوگا ۔
۲۔بعض علماء اس پر تصویر کے احکام کااطلاق نہیں کرتے۔
۳۔بعض علماء کہتے ہیں کہ وہ ان کی رائے میں تصاویر تو ہیں ،لیکن چونکہ ان کے بحکم تصویر ہونے یا نہ ہونے میں ایک سے زائد فقہی آراء موجود ہیں،لہٰذا مجتہد فیہ ہونے کی بنا پربوقتِ حاجتِ شرعیہ،مثلاً جہاد وغیرہ کے موقع پر ان کے استعمال کی گنجائش ہے۔
جامعہ دارالعلوم کراچی کے حضراتِ اکابر کی تحقیق کے مطابق دوسری رائے راجح ہےبشرطیکہ وہ پائیدار طور سے کسی چیز پر نقش نہ ہوں،لیکن ایک اعتبار سے احتیاط پہلی رائے میں ہے جیسا کہ ظاہر ہے،اور دوسرے اعتبار سے ہمیں احتیاط دوسری اور تیسری رائے میں معلوم ہوتی ہے،کیونکہ دینِ اسلام پر دشمنانِ اسلام کی جو یلغار الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ منظّم طریقہ سے ہورہی ہےاس سے دفاع کرنا بھی امت کی ذمہ داری ہے، جس سے حتیٰ الامکان عہدہ برا ہونے کیلئے الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جو فواحش و منکرات سے پاک ہو۔
لہٰذا جو علماءِ کرام مذکورہ بالا تین آراء میں سے کسی سے متفق ہوں اور اس پر عمل کریں وہ سب قابلِ احترام ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہمارے نزدیک مستحقِ ملامت نہیں۔(مأخذہ التبویب:10/1039,43/878)

واللہ تعالی اعلم بالصواب

دارالعلوم دیوبند کا مفصل فتوی ملاحظہ فرمائیں
ڈیجیٹل تصویر دارالعلوم دیوبند کا موقف اور فتاویٰ
مفتی زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی
زیر نظر فتاوی ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں ہیں جوازہر الہند دارالعلوم دیوبند او رمظاہر علوم سہان پور سے جاری کیے گئے ہیں، مذکورہ بالا دونوں اداروں کے حضرات ِ مفتیان کرام نے ڈیجیٹل تصویر کو بھی ممنوع تصویر کے حکم میں داخل کرکے اس کے ناجائز وحرام ہونے کا فتوی دیا ہے، عام مسلمانوں کے فائدے کے پیش نظر مندرجہ ذیل فتاویٰ شائع کیے جارہے ہیں۔ (ادارہ)

سوال :بعض اہل علم کا رحجان ڈیجیٹل تصویر کے جواز کی طرف ہے جس کی بنیاد دو باتوں پر ہے :
1...یہ اشبہ بالعکس ہے جو پائید ار نہیں ہے، اس لیے تصویر کے حکم میں داخل نہیں ہے۔
2...اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط قسم کے پروپیگنڈے میڈیا کے ذریعے کیے جارہے ہیں، جن کے دفاع کے لیے ٹی وی پر آنے کی شدید ضرورت پیدا ہو گئی ہے ، اس رحجان پر مبنی ایک بڑے ادارے کا مفصل فتوی مفتی عبدالرحمن صاحب نے بنگلہ دیش سے حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں ارسال کرکے اس مسئلے میں دارالعلوم دیوبند کا موقف معلوم کیا تھا، مفتی عبدالرحمن صاحب کی تحریر درج ذیل ہے:

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ!
گرامی قدر محترم المقام حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم

بعد سلام مسنون:
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوں گے، ہم بھی بحمدالله خیریت سے ہیں، خدمتِ اقدس میں ضروری عرض یہ ہے کہ دارالعلوم کراچی پاکستان سے ایک فتوی بندے کے پاس ایک خط کے ساتھ آیا ہے، جس میں اس فتوی کے سلسلے میں رائے طلب کی گئی ہے ، اس فتوی کو اچھی طرح پڑھا، تحریر میں تیزی تو بہت ہے مگر قلب منشرح نہیں، اس قسم کا فتوی لکھنے والا عموماً نوجوانوں کا طبقہ ہے، او ربندہ اکابردیوبند کے افکار ونظریات کو ماننے اور چلنے کا پابند ہے، اسی بنا پر حضرت والا کے پاس فتوی کے سارے کاغذات ارسال ہیں اور یہ دریافت طلب ہے کہ اس مسئلے میں دارالعلوم دیوبند کا موقف کیا ہے ؟ اس کی وضاحت فرمانے کا امیدوار ہوں ، دارالافتاء اس لیے نہیں بھیجا کہ مجھے فتوی حاصل کرنا نہیں، بلکہ دارالعلوم دیوبند کے موقف سے مطلع ہونا چاہتا ہوں۔ والسلام

مفتی عبدالرحمن                
رئیس وموسس مرکز الفکر الاسلامی بنگلہ دیش
بشوندرا، ڈھاکہ، جامعة الابرار ریور ویو، ڈھاکہ

حضرت مہتمم صاحب رحمة الله علیہ نے مفتی عبدالرحمن صاحب کی طرف سے مرسلہ مفصل فتویٰ، دارالافتاء بھیج کر رائے طلب فرمائی تومفتیان دارالعلوم دیوبند نے سب تحریریں پڑھ کر منسلکہ جواب فتویٰ کی شکل میں پیش کیا۔(646/ب1430ھ)

بسم الله الرحمن الرحیم

مخدوم ومکرم گرامی مرتبت حضرت مہتمم صاحب زیدت معالیکم… السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ!

آپ نے فتاوے ارسال کرکے دارالعلوم دیوبند کا موقف معلوم کیا ہے، اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت اسکرین پر جو مناظر، یعنی تصویریں وغیرہ آتی ہیں، وہ سب شرعاً تصویر کے حکم میں ہیں ، یہ سینما کی تصویروں کے مثل ہیں، فرق اتنا ہے کہ سینما میں ریز ( بہانے والا کسی چیز کا ٹکڑا) سامنے سے ڈالی جاتی ہے اور ٹی وی میں پیچھے سے، جو مفاسد سینما کی تصویروں سے پیدا ہوتے ہیں ، وہی سارے مفاسد ٹی وی کی تصویروں سے بھی پیدا ہوتے ہیں، اس لیے ان تصاویر کا دیکھنا شرعاً ناجائز قراردیا جائے گا، دارالعلوم دیوبند کے اربابِ افتاء کا فتویٰ اور موقف یہی ہے، البتہ شرعی ضرورت اور اضطرار کی حالت کے احکام اور ہوں گے ۔ فقط والسلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ

حبیب الرحمن عفا الله عنہ، مفتی دارالعلوم دیوبند1430/4/28
الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، وقار علی غفرلہ، فخر الاسلام عفی عنہ
زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، نائب مفتی دارالعلوم دیوبند
تصویر سے متعلق ایک اور فتویٰ
از حضرت مفتی محمو دحسن بلند شہری ( نائب مفتی دارالعلوم دیوبند)

محترم المقام حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم……… السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
سوال: دیگر عرض خدمت عالیہ اینکہ تصویر کشی اور تصویر سازی کی حرمت اظہرمن الشمس ہے او رکسی مفتی نے اس کی حلت کا فتویٰ آج تک نہیں دیا، مگر ضرورت شدیدہ کی بناء پر، اس کے باوجود بغیر کسی ضرورت کے اس کا ابتلائے عام ہوتا جارہا ہے، ان نازک حالات میں ہم اس کے خلاف آواز او رایک تحریک اٹھانا چاہتے ہیں، شریعت کی رو سے اس کا کیا حکم ہے ؟
برائے مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
اس سے قبل بھی 1990ء میں تحریک حجاب کے جواز پر یہیں سے فتوی لیا گیا، جس سے بڑی کامیابی ہوئی، دعا فرمائیں الله تعالیٰ اس تحریک میں بھی کامیابی عطا فرمائے۔

العارض حکیم فضل الکریم حسینی
مفتی اعظم مدنی دارالافتاء، عالمی خواتین مدنی مشن، آسام

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب وبالله العصمة والتوفیق: حامدا ومصلیا: تصویر کشی وتصویر سازی کا حرام ہونا تو آپ کو معلوم ہی ہے، نصوص بھی آپ کے سامنے ہیں ، جواہر الفقہ میں مستقلاً ایک رسالہ اس سلسلہ میں لگا ہوا ہے ، اس میں دلائل مذکور ہیں ، ابتلائے عام کی وجہ سے یہ جائز نہیں ہو گا، بلکہ حرام ہی ہے ، آپ اس سلسلہ میں اصلاحی تحریک چلانا چاہتے ہیں ، ماشاء الله بہت مبارک جذبہ ہے، الله پاک پوری کامیابی عطا فرمائے۔ فقط والله سبحانہ وتعالی اعلم

الاحقر محمود حسن بلند شہری غفرلہ دارالعلوم دیوبند1428/4/24ھ
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا الله عنہ، زین الاسلام قاسمی الہٰ آبادی
نائب مفتی دارالعلوم دیوبند
محمد ظفیر الدین غفرلہ

تصویر سے متعلق ایک اور فتویٰ
از حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری
(صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند)

حضرت مولانا شیخ حکیم فضل الکریم صاحب الحسینی مفتی اعظم مدنی دارالافتاء، آسام نے حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ سے تصویر کشی کے ابتلائے عام ہو جانے کی وجہ سے اس کے جواز وعدم جواز کی بابت دریافت کیا، حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم نے درج ذیل تحریر ارقام فرمائی۔

بسم الله الرحمن الرحیم

مکرم ومحترم زید مجدکم!……… السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
آپ نے فوٹو کے تعلق سے دریافت کیا ہے کہ جائز ہے یا ناجائز؟ اور ناجائز ہے تو اکابر کا عمل اس سے مختلف کیوں ہے ؟ عام طو رپر بڑے بڑے لوگ جلسوں میں او رکانفرنسوں میں بے دھڑک فوٹو کھنچواتے ہیں، بلکہ اب تو بعض بڑے ٹی وی پر بھی آنے لگے ہیں۔

تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ برصغیر ( انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش) کے تمام مفتیان کرام بالاتفاق فتوی دیتے ہیں: کیمرے کا فوٹو بھی حرام ہے ، حدیث صحیح میں جس تصویر کی ممانعت آئی ہے، وہ اس تصویر کو بھی شامل ہے ، مصر او رعرب کے بعض علماء اس میں اختلاف رکھتے ہیں ، مگر برصغیر کے علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔

مگر امت کے اکابر علمی طو رپر اپنے مفتیوں کی مخالفت کرتے ہیں،ان کے ذہنوں میں کیمرے کے فوٹو کی کوئی خاص قباحت نہیں رہی ، یہ ایک بڑا المیہ ہے ، میں ہمیشہ اکابرین سے عرض کرتا ہوں کہ اگر مسئلہ بد ل گیا ہے او رکیمرے کا فوٹو جائز ہوگیا ہے تو پہلے دارالافتاؤں سے کہو کہ وہ جواز کا فتویٰ دیں، پھر فوٹو کھنچواؤ، موجودہ صورت دین کی تضحیک کا سبب ہے، عوام کہتے ہیں کہ لوجی ! مفتی صاحبان یہ فتوی دیتے ہیں او ر”حضرت جیوں“ کا یہ عمل ہے اور جب ایک مسئلہ میں عوام کے ذہنوں سے دین کی قدر ومنزلت ختم ہو جائے گی تو دین کے دوسرے شعبوں کا بھی یہی حال ہو گا۔

بلکہ بعض تجارت پیشہ ناعاقبت اندیشوں نے اکابرین کے فوٹوؤں کی تجارت شروع کر دی ہے، یہاں حضرت تھانوی ، حضرت مدنی ، حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی  اور دیگر بہت سے بزرگوں کے فوٹو دھڑلے سے بک رہے ہیں، اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس کااندازہ ہر شخص کرسکتا ہے، اس لیے اکابرین سے میری گزارش ہے کہ خدا را دین پر رحم کریں، اگر ان کے دل میں دین کی کوئی قدر نہیں ہے تو عوام کو تباہ نہ کریں ، والله یھدی السبیل․

املاہ سعید احمد عفا الله عنہ پالن پوری، خادم دارالعلوم دیوبند1428/5/25ھ
اصاب من اجاب: محمد امین پالن پوری، خادم دارالعلوم دیوبند، یکم جمادی الاخریٰ1428ھ

ڈیجیٹل تصویر کی حرمت: اکابر کی عبارات کی روشنی میں

ڈیجیٹل تصویر سے متعلق مظاہر العلوم سہان پور کا ایک فتویٰ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند تصدیق کے لیے بھیجا گیا تھا، جس کی تصدیق کر دی گئی تھی اس وقت اسے بھی شاملِ اشاعت کیا جارہا ہے۔

مخدومی حضرت مفتی صاحب مدظلہ………………………………… دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
                                    السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
سوال: عرض خدمت اینکہ ” مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کا ایک فتوی ”ڈیجیٹل تصویر“ سے متعلق بھیج رہے ہیں ، اگر یہ فتویٰ آپ حضرات کی تحقیق کے مطابق درست ہے ، تو اس کی تصدیق فرما دی جائے ۔ فقط والسلام۔

محمد معاویہ سعدی
شعبہٴ تخصص فی الحدیث مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور1106/د1432ھ

”الجواب وبالله التوفیق: ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ کمپیوٹر یا ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والے مناظر کی شرعی حیثیت کے بارے میں جامعہ دارالعلوم کراچی کا موقف اور فتوی نظر نواز ہوا، جس میں ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ محفوظ کیے گئے عکس کو آئینہ کے عکس پر قیاس کرکے، بلکہ اس سے بھی کم درجہ تسلیم کرکے تصویر سازی سے خارج قرار دیا گیا ہے او راس کے جواز کا حکم لکھا ہے ، اس سلسلہ میں چند باتیں غور طلب ہیں:

1...ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ محفوظ کردہ عکس کو آئینہ کے عکس کی طرح ناپائیدار قرار دے کر تصویر میں داخل نہ ماننا ، درست معلوم نہیں ہوتا، دونوں میں واضح فرق موجود ہے، آئینہ کا عکس مستقل نہیں ہوتا، وہ صاحب عکس کے تابع ہوتا ہے، آئینہ کے سامنے سے جیسے ہی ذی عکس ہٹے گا، عکس بھی فوراً ختم ہو جائے گا، ایک لمحہ کے لیے بھی عکس بغیر ذی عکس کے قائم او رباقی نہیں رہتا او راگر ذی عکس دوبارہ آئینہ میں اپنا عکس دیکھنا چاہے تو اس کو دوبارہ آئینہ کے سامنے آنا پڑے گا، بغیر اس کے اس کو اپنا عکس نظر نہیں آئے گا، جبکہ اس کے بالکل متضاد ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ برقی ذرات کی شکل میں جو عکس محفوظ ہوا ہے، وہ مستقل ہوتا ہے، صاحبِ عکس کے تابع نہیں ہوتا، جب چاہیں اس کو بلا ذی عکس کے اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔

2... حضراتِ اکابر کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ عکس کے جواز کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ کسی سطح پر رنگ ومسالہ سے قائم وپائیدار نہیں ہوتا، بلکہ اس کے جواز کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ غیر مستقل اور ذی عکس کے تابع ہوتا ہے، بغیر ذی عکس کے ایک لمحہ بھی قائم اور باقی نہیں رہتا، اگر کسی طرح سے اس کی تبعیت اور ذی عکس پر اس کا یہ انحصار ختم ہوجائے او راس میں ایسا استقلال پیدا ہو جائے کہ جب چاہیں بلا ذی عکس کے اس کو دیکھنا ممکن ہو، خواہ رنگ ومسالہ کے ذریعہ قائم کیے بغیر محض انعکاسی صورت ہی میں کیوں نہ ہو، تو یہ بھی تصویر سازی کے حکم میں داخل ہو گا۔

عکس کے بقاء اور قیام وپائیداری کا مفہوم فقط اتنا ہے کہ عکس مستقل بن جائے، ذی عکس پر اس کا انحصار ختم ہو جائے اور بلا ذی عکس کے اس کو دیکھ لیا جانا ممکن ہو، خواہ اس میں یہ بقاء وپائیداری او راستقلال کسی سطح پر بعینہ منعکس او رمحفوظ ہو کر ہو، جیسا کہ غیر ڈیجیٹل کیمرہ میں ہوتاہے، یا بلا کسی سطح کے برقی ذرات کی شکل میں محفوظ اور مقید ہو کر ہو، جیسا کہ ڈیجیٹل کیمرہ میں ہوتا ہے او رجہاں تک کسی سطح پر مسالہ وغیرہ کے ذریعہ عکس کے بقاء کا مسئلہ ہے تو چونکہ اس وقت بغیر سطح اور مسالہ کے عکس کو محفوظ کرنے اور باقی رکھنے کی شکل پیدا نہیں ہوئی تھی، اس لیے سطح اور مسالہ کے ذریعہ بقاء کی قید تھی، یہ قید قید واقعی ہے قیدا احترازی نہیں، لہٰذا اگر بغیر سطح اور مسالہ کے بھی عکس محفوظ اور باقی رہ جائے تو وہ بھی تصویر محرم میں داخل ہو گا، احادیث، شراحِ حدیث اور حضرات فقہاء کے کلام کے عموم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے او رحضراتِ اکابر کی تصریحات سے بھی، ذیل میں اس مسئلہ سے متعلق حضراتِ اکابر کی مکمل تصریحات درج ہیں ، مرسلہ مقالہ میں بعض اکابر کی تصریحات ناقص نقل کی گئی ہیں، جس سے ان اکابر کے موقف او رمنشاء کی صحیح ترجمانی نہیں ہو سکی اور اس کا رخ دوسرا ہو گیا:

مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی  عکس اور فوٹو کے درمیان فرق کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ” سب سے بڑا فرق دونوں میں یہی ہے کہ آئینہ وغیرہ کا عکس پائیدار نہیں ہوتا اور فوٹو کا عکس مسالہ لگا کر قائم کر لیا جاتا ہے، پس وہ اسی وقت عکس ہے، جب تک مسالہ سے اسے قائم نہ کیا جائے او رجب اس کو کسی طریقہ سے قائم اور پائیدار کر لیا جائے، وہی تصویر بن جاتا ہے۔“ (امداد الاحکام:384/4)

مفتی محمد شفیع صاحب  بانی دارالعلوم کراچی اپنے رسالہ”آلات جدیدہ کے احکام“ میں عکس اور فوٹو کے درمیان فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
”عکس صاحب عکس کا ایک عرض ہے، جو اس سے علاحدہ نہیں ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ آئینہ ،پانی وغیرہ میں جب تک ذی عکس ان کے مقابل رہتا ہے تو عکس باقی رہتا ہے او رجب وہ ان کے محاذات سے ہٹ جائے تو عکس بھی اس کے ساتھ چل دیتا ہے ، دھوپ میں آدمی کھڑا ہوتا ہے او راس کا عکس زمین پر پڑتا ہے، مگر اس کا وجود آدمی کے تابع ہوتا ہے ، جس طرح یہ چلتا ہے عکس بھی اس کے ساتھ چل دیتا ہے ، زمین کے کسی حصہ پر اس کا قائم وپائیدار ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ کسی مسالہ اور رنگ کے ذریعہ سے اس کی تصویر نہ کھینچ لی جائے۔

حاصل یہ ہے کہ عکس جب تک کہ مسالہ وغیرہ کے ذریعہ سے پائیدار نہ کر لیا جائے، اس وقت تک عکس ہے او رجب اس کو کسی طریقہ سے قائم وپائیدار کر لیا جائے تو وہ تصویر بن جاتا ہے او رعکس جب تک عکس ہے ، نہ شرعاً اس میں کوئی حرمت ہے اور نہ کسی قسم کی کراہت، خواہ آئینہ ، پانی یا کسی اور شفاف چیز پر ہو یا فوٹو کے شیشہ پر او رجب وہ اپنی حد سے گزر کر تصویر کی صورت اختیار کرے گا، خواہ وہ مسالہ کے ذریعہ سے ہو یا خطوط ونقوش کے ذریعہ سے اور خواہ یہ فوٹو کے شیشہ پر ہو یا آئینہ وغیرہ شفاف چیزوں پر، اس کے سارے احکام وہی ہوں گے جوتصویر کے متعلق ہیں ۔“ ( ص:141)

مفتی رشید احمد صاحب  بانی جامعة الرشید کراچی اسی مسئلہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: ” اس کو عکس کہنا بھی صحیح نہیں ، اس لیے کہ عکس اصل کے تابع ہوتا ہے او ریہاں اصل کی موت کے بعد بھی اس کی تصویر باقی رہتی ہے ۔“ ( احسن الفتاوی :89/9)

ایک دوسرے مقام پر اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” تصویر او رعکس دو بالکل متضاد چیزیں ہیں: تصویر کسی چیز کا پائیدار او رمحفوظ نقش ہوتا ہے، عکس ناپائیدار اور قتی نقش ہوتا ہے ، اصل کے غائب ہوتے ہی اس کا عکس بھی غائب ہو جاتا ہے، ویڈیو کے فیتہ میں تصویر ہوتی ہے ، جب چاہیں جتنی بار چاہیں ٹی وی اسکرین پر اس کا نظارہ کر لیں اور یہ تصویر تابعِ اصل نہیں ، بلکہ اس سے لاتعلق اور بے نیاز ہے ، کتنے لوگ ہیں جومرکھپ گئے، دنیا میں ان کا نام ونشان نہیں، مگر ان کی متحرک تصاویر ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہیں، ایسی تصویر کو کوئی بھی پاگل عکس نہیں کہتا، صرف اتنی سی بات کو لے کر کہ ویڈیو کے فیتہ میں ہمیں تصویر نظر نہیں آتی، تصویر کے وجود کا انکار کر دینا کھلا مغالطہ ہے۔“ (احسن الفتاوی:302/8)

مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زید مجدہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند شرح ترمذی میں تحریر کرتے ہیں:
”اسی طرح یہ دلیل کہ کیمرہ کا فوٹو ایک ظل( سایہ) ہے او رخو داس کا سایہ نہیں ہے، جیسا پانی میں سایہ پڑتا ہے، بس اس کو کیمرہ سے برقرار کر لیا جاتا ہے ، پس اس میں کیا حرج ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ظل برقرار کرنے ہی سے تو صورت بنتی ہے اور صورت کا سایہ ہونا ضروری نہیں اور مطلق صورت سے فساد پھیلتا ہے، پس جب تک وہ ظل ہے اس کے احکام اور ہیں او رجب اس کو بر قرار کر لیا جائے تو وہ تصویر بن جاتا ہے اور حرام ہو جاتا ہے۔“
( تحفة الالمعی:80/5)

ان اقتباسات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی جاندار کا مطلق عکس محفوظ کرنا خواہ کسی سطح(نگیٹو) پر ہو یا بلاکسی سطح کے برقی ذرات کی شکل میں ہو، اگر اس میں ایسا استقلال و استقرار پیدا ہو جائے کہ جب چاہیں بلا ذی عکس کے اس کو دیکھا جانا ممکن ہو تو یہ بھی تصویر سازی میں داخل ہے۔

3... اہل فتویٰ حضرات اکابر میں سے جن کی حیات میں حفظِ عکس کی یہ جدید صورت سامنے آئی، انہوں نے بھی عکس کی مذکورہ حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو تصویر کہا اور ویڈیو کے فیتے میں محفوظ ہونے والے غیر مرئی عکس کو بھی تصویر قرار دیا، حالانکہ ویڈیو کے فیتے میں اس کا نہ کوئی نام ونشان ہوتا ہے او رنہ کسی آلہ کی مدد سے اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے، ڈیجیٹل کیمرہ اسی ویڈیو گرافی کا جدید ایڈیشن ہے، فرق صرف اس قدر ہے کہ ویڈیو کیسٹ میں موجود فیتہ کا مادہ دوسرا ہے اور حجم بھی بڑا ہے اور ڈیجیٹل کیمرے میں موجود چپ کا مادہ دوسرا ہے او رحجم بھی بہت کم۔

مولانا مفتی رشید احمد صاحب  اسی غیر مرئی شکل میں محفوظ عکس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ”ویڈیو کیمرہ سے کسی بھی تقریب کی منظر کشی کا عمل تصویر سازی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے ، جیسے قدیم زمانہ میں تصویر ہاتھ سے بنائی جاتی تھی، پھر کیمرہ کی ایجاد نے اس قدیم طریقہ میں ترقی کی اور تصویر ہاتھ کے بجائے مشین سے بننے لگی، جو زیادہ سہل اور دیر پا ہوتی ہے، اب اس عمل میں نئی نئی سائنسی ایجادات نے مزید ترقی کی او رجدت پیدا کی اور جامد وساکن تصویر کی طرح اب چلتی پھرتی دوڑتی بھاگتی صورت کو بھی محفوظ کیاجانے لگا، یہ کہنا صحیح نہیں کہ اس کو قرار وبقا

نہیں، اگر اس کو بقا نہیں تو وہ ٹی وی اسکرین پر چمکتی دمکتی اوراچھلتی کودتی نظر آنے والی چیز کیا ہوتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ وہی تصویر ہے، جو کسی وقت لے کر محفوظ کی گئی تھی، صرف اتنی سی بات ہے کہ کیسٹ کی پٹی میں ایسی فنی جدت سے کام لیا گیا ہے کہ دیکھنے میں پٹی خالی نظر آتی ہے،لیکن ظاہر ہے کہ وہ تصویر معدوم نہیں ہوتی، ورنہ وی سی آر پر دوبارہ کیسے ظاہر ہو سکتی ہے؟۔“ (احسن الفتاوی:88/9)

”تصویر اور سی ڈی کے شرعی احکام“ نامی رسالہ( مؤلفہ مفتی احسان الله شائق صاحب، مفتی جامعة الرشید کراچی) میں حضرت مولانا محمدیوسف شہید لدھیانوی کا ایک فتویٰ نقل کیا ہے، جس میں حضرت نے لکھا ہے کہ:
” ٹی وی اور ویڈیو فلم کا کیمرہ جو تصویریں لیتا ہے وہ اگرچہ غیر مرئی ہیں، لیکن تصویر بہرحال محفوظ ہے او راس کو ٹی وی پر دیکھا جاسکتا ہے ، اس کو تصویر کے حکم سے خارج نہیں کیا جاسکتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے تصویر بنانے کے فرسودہ نظام کے بجائے سائنسی ترقی نے تصویر سازی کا ایک دقیق طریقہ ایجاد کیا ہے، لیکن جب شارع نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے تو تصویر سازی کا خواہ کیسا ہی طریقہ ایجاد کر لیا جائے، تصویر تو حرام ہی رہے گی۔“ (ص:94)

اسی نو پید صورت کے بارے میں مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زید مجدہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند شرحِ ترمذی میں لکھتے ہیں:
اسی طرح ایک دلیل لوگ یہ بھی دیتے ہیں کہ ڈیجیٹل میں او رفلم میں غیر واضح ذرات کی شکل میں تصویر آتی ہے، پس اس پر تصویر کا اطلاق درست نہیں، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ غیر واضح نکتے کیا کام آئیں گے؟ ان کو بہر حال صفحہٴ قرطاس (اسکرین) پر واضح کرکے منتقل کیا جائے گا، پس مآلاًوہ تصویربنیں گے، اس لیے ابتداء ہی سے وہ حرام ہوں گے۔“ ( تحفة الالمعی:80/5)

ویڈیو گرافی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مولانا محمد خالد سیف الله رحمانی تحریر فرماتے ہیں کہ:
”ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کو عکس قرار دینا صحیح نہیں، عکس وہ صورت ہے جس میں ٹھہراؤ اور جماؤ نہ ہو، جیسا کہ پانی یا آئینہ میں ہوتا ہے، ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی میں یہ صورت نہیں ہوتی، بلکہ صاحبِ تصویر کی صورت ریل میں محفوظ ہو جاتی ہے اور جماؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔“ ( کتاب الفتاوی:170/6)

علاوہ ازیں مرسلہ مقالہ اور فتوی میں جن عرب علماء کے اقوال کو بطور استدلال وتائید پیش کیا گیا ہے، یہ درست نہیں، ان کا تو موقف ہی علاوہ ہے، انہوں نے تو عام کیمرے کے فوٹو کو بھی پہلے ہی سے تصویر سے خارج کر رکھا ہے، لہٰذا فتویٰ میں ان کے اقوال سے استدلال نہ ہونا چاہیے، اسی طرح بنگلور اجتماع کے حوالہ سے حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب نو رالله مرقدہ وغیرہ کی جو رائے نقل کی گئی ہے ، وہ دورانِ بحث ان کی طرف سے پیش کردہ محض ایک بات تھی، نہ وہ ان کی کوئی حتمی رائے تھی اور نہ ہی سیمینار کا فیصلہ، سیمینار کا فیصلہ ٹی وی کے عدم جواز کا ہی تھا، پس ایسی کچی بات بھی فتویٰ کی بنیاد نہیں ہونی چاہیے۔

4... شریعتِ اسلامیہ میں تصویر سازی مطلقاً حرام ہے، خواہ تصویر چھوٹی ہو یا بڑی اور خواہ کسی ذی جسم مادہ سے بنائی جائے یا غیر ذی مادہ جسم سے اور خواہ بن جانے اور وجود میں آجانے کے بعد وہ باقی رہے یا نہ رہے، امام نووی کی صراحت ہے:”تصویر صورة الحیوان حرام شدید التحریم، وھو من الکبائر؛ لأنہ متوعد بھذا الوعید الشدید المذکور فی ھذا الحدیث، وسواء صنعہ بما یمتھن أو بغیرہ، فصنعتہ حرام بکل حال؛ لأنہ فیہ مضاھاة لخلق الله تعالیٰ، وسواء ما کان فی ثوب أو بساط أو درھم أو دینار أو فلس أو إناء أو حائط أو غیرھا․“
( شرح مسلم:199/2)

تصویر کے تحقق کے لیے قرار وبقاء ضروری نہیں، فقط اتنا ضروری ہے کہ وہ صاحب تصویر اور اصل کے تابع نہ ہو اور قرار وبقاء کا مفہوم بھی صرف اتنا ہی ہے ، لہٰذا اگر کسی شخص نے کوئی تصویر بنائی او رپھر فوراً اگلے ہی لمحہ اس کو مٹا بھی دیا تو اس کو تصویر سازی کا گناہ ہو گا، یا اگر کوئی مشین ایسی ہو جس کی ایک زد سے تصویر بنتی ہو اور دوسری زد سے فوراً محو ہو جاتی ہو تو یہ بھی تصویر سازی میں د اخل ہو کر حرام ہو گا؛ اسی طرح ڈیجیٹل کیمرہ اسکرین پر جو شعاعیں پھینکتا ہے تو اسکرین پر تصویر بن جاتی ہے اوراگلے ہی لمحہ فنا بھی ہو جاتی ہے، ایک سیکنڈ میں ساٹھ فریم بنتے اور ٹوٹتے ہیں اور ظاہر ہے کہ فریم کا ٹوٹنا اور فنا ہونا وجود کے بعد ہی ہوتا ہے اور وجود ہی پر متفرع ہوتا ہے، لہٰذا یہ بھی تصویر سازی میں داخل ہو گا۔

قرار وبقاء کے مذکورہ مفہوم کو پیش نظر رکھتے ہوئے، حضرات اکابر نے سینما کے پردہ پر ظاہر ہونے والے نقوش کو بھی تصادیر قرار دیا، سینما کے پردہ پر نمودار ہونے والے نقوش بھی بنتے او رختم ہوتے رہتے ہیں، ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والے نقوش ،پردہ ٴ سینما پر ظاہر ہونے والے نقوش سے مشابہت ومطابقت رکھتے ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ پردہ سینما پر شعاعیں سامنے سے ڈالی جاتی ہیں اور ٹی وی اسکرین پر پیچھے سے، لہٰذا ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والے نقوش بھی تصویر میں داخل ہوں گے۔

مفتی رشید احمد صاحب بانی جامعة الرشید ، کراچی فرماتے ہیں:
” اگر یہی تسلیم کر لیا جائے کہ وہ ( ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والی تصویر) مٹ جاتی ہے او رپھر بنتی ہے ، یہی عمل ہرلحظہ جاری رہتا ہے تو اس میں اور زیادہ قباحت ہے کہ بار بار تصویر بنانے کا گناہ ہوتا ہے۔“ ( احسن الفتاوی:89/9)
ن ما بعد میں بکثرت موجود ومروج تھے۔

اس اصول کی بنا پر مسئلہ زیر بحث میں دو نتیجے نکلتے ہیں: اول یہ کہ عباداتِ خالصہ میں اس قسم کے آلات کا استعمال اصولاً پسندیدہ نہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل اسی رسالہ کے شروع میں آچکی ہے۔

دوسرے یہ کہ اگر کسی نے ان آلات کو مسائل مذکورہ میں استعمال کر لیا تو اصل عمل صحت وعدم صحت کا مدار پھر بھی ان فنی تدقیقات پر نہیں، بلکہ ظاہرِ حال ہی پر رہے گا، مثلاً اگر کسی شخص نے اصطرلاب وغیرہ کے ذریعہ سمت قبلہ قائم کر لی، تو شرعاً اس کی صحت وعدم صحت کا معیار فنِ اصطرلاب کی باریکیاں نہ ہوں گی، بلکہ وہی عام مساجد بلدہ کی موافقت وعدم موافقت پر مدار ہو گا۔

مذکور الصدر اصول کے مطابق آلہٴ مکبر الصوت کے ذریعہ سنائی دینے والی آواز کو ظاہر ومتعارف عوام کے موافق متکلم کی اصل آواز ہی کہا جائے گا، گوفنی تدقیقات بالفرض یہی ثابت کریں کہ وہ اصل آواز نہیں ،بلکہ اس کا عکس ہے، کیونکہ اس صورت میں اصل آواز اور اس آلہ کی آواز کا فرق اس قدر دقیق ہو گا کہ اس کو عوام تو کیا خود ماہرین سائنس کو بھی واضح نہ ہوا، اس لیے ان میں اختلاف رہا ،تو ایسی تدقیقات فلسفیہ، جن کا ادراک ماہرین فن بھی مشکل سے کر سکیں، احکام شرعی کا مدار نہیں ہو سکتیں، بلکہ ان احکام میں حسبِ ظاہر اس کو اصل متکلم ہی کی آواز قرار دیا جائے گا۔ والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔“ (آلات جدیدہ کے احکام:60)

مفتی رشید احمد صاحب کسی شئے کے تصویر ہونے یانہ ہونے کے معیار ومدار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”تصویر ہونے یا نہ ہونے کا مدار عرف پر ہونا چاہیے، نہ کہ سائنسی وفنی تدقیقات پر اور عرفِ عام میں اسے تصویر ہی سمجھا جاتا ہے، جیسے شریعت نے صبح صادق اور طلوع وغروب کا علم کسی دقیق علم وفن پر موقوف نہیں رکھا، ظاہری وسہل علامات پر رکھا ہے۔“ (احسن الفتاوی: 89/9)

6... تصویر کی حرمت کی علت، خود شارع علیہ الصلوٰة والسلام کی صراحت کے مطابق: مضاھاة لخلق الله ہے، یعنی تخلیقِ خداوندی کی نقالی اور ہمسری اس احوالہ سے یہ بات قابلِ غور ہے، کہ مجسَّم اور غیر متحرک تصاویر ایک ہی وضع اور حالت پر رہتی ہیں اور محض ظاہری اعتبار سے خلق الله کے مشابہ ہوتی ہیں، ورنہ درحقیقت دونوں میں بون بعید اور تباین ہے کہ خلق الله زندہ او رمتحرک بالارادہ ہے اور خلق العبد سراپا جامد وساکن اور محض ایک نقش اور چھاپہ، مگر دونوں کی حقیقت او رماہیت میں اس قدر فرق کے باوجود محض ظاہری تشابہ کی بنیاد پر اس ظاہری نقش کو بھی الله تعالیٰ کی ہمسری اور نقالی میں داخل مانا گیا، تو کیا خلق العبد کے وہ نقوش جو دیکھنے میں زندہ او رمتحرک بالارادہ نظر آئیں اور روح وجان رکھنے والی اشیاء کی طرح جملہ افعال وحرکات کرتے دکھائی دیں، خلق الله کے ساتھ اتنی زیادہ قربت ومشابہت کے باوجود خلق الله کی نقالی اور ہمسری میں داخل نہیں ہوں گے؟ واقعہ یہ ہے کہ زیر بحث صورت ، تصویر سے کمتر نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر ہے اور تصویر کے حرام ہونے کی جو اصل وجہ اور علت ہے، یعنی مضاہاة ومشابہت، اس کا واضح مصداق ہے، نیز تصویریں ٹی وی اسکرین سے لے کر روز اخباروں میں چھپتی ہیں، پس ان صورتوں کو اشبہ بالعکس کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ ان کو اشبہ بالصور قرار دینا ہی مناسب ہے۔

جس وقت فوٹو گرافی کا مسئلہ نیا نیا پیدا ہوا، اور علماء میں اس کے جواز وعدم جواز کی بحث چھڑی، تو اس کے جواز کی ایک دلیل یہ بھی پیش کی گئی تھی کہ اس صورت میں اعضا کی تخلیق وتکوین نہیں ہوتی، فقط ایک نقش اور چھاپہ ہوتا ہے، لہٰذا یہ تصویر سے خارج ہونا چاہیے، حضراتِ اکابر نے اس کو یہ کہہ کر رد فرما دیا کہ تصویر کے تحقق کے لیے باقاعدہ اعضا وجوارح کی تخلیق وتکوین ضروری نہیں ، محض ایک نقش بنا دینا بھی تصویر میں داخل ہے۔

مولانا مفتی محمد شفیع صاحب بانی دارالعلوم کراچی کی اسی سلسلہ کی ایک تحریر ملاحظہ ہو:
”ذرا بھی غور سے کام لیں تو اعضاء کی تخلیق وتکوین تو کوئی مصور بھی نہیں کرتا، اعضاء کی ظاہری سطح نقش کے ذریعہ بنا دیتا ہے، نہ اس میں رگیں پٹھے بنتے ہیں، نہ ہڈی او رگوشت بنتا ہے، شریعت نے اس ظاہری سطح کا نقش بنا دینے ہی کا نام تصویر رکھا ہے، جس کو حرام قرار دیا ہے ، تو فوٹو میں اعضا کی سطح کو رنگ وروغن کے ذریعہ قائم کر دینے اور قلم سے رنگ بھردینے میں کیا فرق ہے؟ حدیث کے الفاظ میں بھی اس کو تخلیق نہیں، بلکہ مضاہاة لخلق الله کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، یعنی تخلیقِ خداوندی کی مشابہت پیدا کرنا اور نقالی اتارنا، اس میں ظاہر ہے کہ وہ قلم کے ذریعہ کی جائے یا کسی مشین کے ذریعہ، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔“ ( تصویر کے شرعی احکام:214)

... اگر کوئی چیز منافع ومفاسد دونوں کو جلو میں لیے ہوئے ہو تو فتویٰ میں بہت غور کرنا چاہیے، کہ کون سا پہلو غالب ہے، حرمتِ خمر کے سابقہ مرحلہ کی جو آیت سورہٴ بقرہ میں ہے، اس سے یہ اصول ثابت ہے او رحضرات فقہاء کی بھی صراحت ہے: درء المفاسد أولیٰ من جلب المصالح، فإذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدم دفع المفسدة غالباً؛لأن اعتناء الشّرع بالمنھیات أشدّ من اعتنائہ بالمأمورات․( الأشباہ والنظائر لابن نجیم:290/1)

ٹی وی میں بے شک کچھ منافع ہیں، جو اظہر ہیں؛ مگر اس کے مفاسد کا پہلو غالب ہے ، جیسا کہ تجربہ ہے ، جب ٹی وی کی صورتوں کو حرام صورتوں سے خارج کر دیا جائے گا اور ٹی وی کو جائز کہہ دیا جائے گا تو یہ سانپوں کی پٹاری ہر دین دارمسلمان کے گھر میں داخل ہو جائے گی اور ٹی وی چینلوں پر کسی کازور نہیں، پس گھر والے ہر طرح کے چینل دیکھیں گے اور اشاعتِ اسلام اور دفاع عن المسلمین کا مقصد تو ایک طرف رہ جائے گا اور صالح اسلامی معاشرہ تباہ ہو کر رہ جائے گا، فتوے میں اس کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔

علاوہ ازیں اس وقت ٹی وی مفاسد اور محرمات کا مبدأ اور سر چشمہ بنا ہوا ہے، پوری دنیا میں جو فحاشی وعریانیت اور بے حیائی وبرہنگی مفت تقسیم ہو رہی ہے، وہ ڈیجیٹل نظام کی دَین اور پیداوار ہے، اس لحاظ سے بھی یہ ”کل ما أدی إلی مالا یجوز لا یجوز “کے تحت ناجائز اور حرام ہونا چاہیے۔

مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ العالی اپنی شرح ترمذی میں رقم طراز ہیں:
”تصویر سازی اس لیے بھی حرام ہے کہ تجربہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس وقت ساری دنیا فحاشی اور عریانیت سے جو بھر گئی ہے ، یہ اسی کیمرے کی نحوست ہے، پہلے گندے فوٹو کوک شاستروں میں چھپتے تھے اور لوگ چپکے چپکے ان کو دیکھتے تھے، مگر اب ٹی وی، ویڈیو ، وی سی آر وغیرہ خرافات کے ذریعہ ہر جگہ یہ ننگے فوٹو پھیل گئے ہیں، اور نوجوان نسل تیزی کیساتھ ان کا اثر قبول کررہی ہے، اور” ظھر الفساد فی البر والبحر“ کا منظر عیاں ہے، مکہ اور مدینہ بھی اس سے نہیں بچے، بلکہ اب تو ڈیجیٹل کیمرے، موبائل میں آگئے ہیں اور ہر جیب میں موجود ہیں۔ فإلی الله المشتکی!“ (تحفة الالمعی:79/5)

الغرض! مذکورہ معروضات کی روشنی میں ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ محفوظ کر دہ عکس اور ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والی صورتیں بھی تصویر محرم میں داخل ہیں، اور مجسَّم تصویر سازی اور فوٹو گرافی کی طرح ناجائز اور حرام ہیں۔ فقط والله أعلم بالصواب

العبد محمد طاہر عفا الله عنہ مفتی مظاہر علوم سہارن پور (یوپی)
یکم ربیع الثانی1430ھ
الجواب صحیح: سعید احمد عفا الله عنہ پالن پوری خادم دارالعلوم دیوبند
الجواب صحیح: مقصود عالم مفتی الجامعہ مظاہر علوم

باسمہ تعالیٰ: تصدیق کی جاتی ہے کہ حضرت مولانا مفتی محمد طاہر صاحب مفتی مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کا تحریر کردہ فتوی ہذا، جس میں ڈیجیٹل تصویر کا حِکم شرعی مفصلا بیان کیا گیا ہے ، صحیح اور درست ہے۔ الجواب صحیح والمجیب مصیب ولله درہ۔ فقط والله اعلم

المصدق: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی نائب مفتی دارالعلوم دیوبند
الجواب صحیح: وقار علی غفرلہ، حبیب الرحمن عفا الله عنہ مفتی دارالعلوم دیوبند

بسم الله الرحمن الرحیم، حامدا ومصلیا ومسلما: مفتی محمد طاہر صاحب مدظلہ کا جواب درست اور حق ہے، والحق أحق أن یتبع․ فقط

محمود حسن غفرلہ بلند شہری
دارالعلوم دیوبند1432/7/4 ھ
یوم الثلثاء الموافق2011/6/7ء
الجواب صحیح: فخر الاسلام

No comments:

Post a Comment