Thursday, 28 April 2016

شام / رات کا کھانا کب کھانا چاہئے ؟

ایس اے ساگر
وقت کی پابندی پرندے کرتے ہیں، شہد کی مکھیاں کرتی ہیں ، حد یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے بھی کرتے ہیں۔ اس پابندی کے کے لئے گھڑی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جسم کی قدرتی گھڑی رہنمائی کرتی رہتی ہے کہ انہیں کب نقل وحرکت کرنا ہے۔ آپ کی کلائی پر گھڑی بندھی ہوئی نہ ہو، تب بھی اندر کی گھڑی آپ کو یاد دہانی کرواتی رہتی ہے۔



شام / رات کا کھانا کب کھانا چاہئے ؟ 

عصر بعد یا مغرب بعد یا عشاء بعد؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا معمول تھا؟؟
بحوالہ مدلل سیر حاصل بحث فرمائیں۔۔۔۔
الجواب وباللہ التو
فيق و بوسیلۃ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔

✨رات کے کھانے کے بارے میں کوئی خاص معمول آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا منقول نہیں،
محققین نے لکھا ہے کہ
✨آج کل کی طرح اس زمانے میں ۳ وقت کھانے کا معمول نہیں تھا بلکہ ۲ وقت کھاتے تھے،
ایک صبح اس کو اکلۃ النہار یعنی دن کا کھانا کہتے،
دوسرا شام میں اور اس کو اکلۃ العشاء یعنی رات کا کھانا کہتے
۔۔۔۔۔۔۔
✨ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں،
۳ چاند گذر جاتے اور ہم انتظار کرتے رہتے ہمارے گھروں میں چولہا نہیں جلتا، حضرت عروہ ؒ نے پوچھا آپ لوگوں کا گذر کس طرح ہوتا تھا،
فرماتی ہیں کہ ۲ کالی چیزوں پر ۔۔کھجور، پانی
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : " إِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى الْهِلاَلِ ثُمَّ الْهِلاَلِ ، ثَلاَثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ ، وَمَا أُوقِدَتْ فِي أَبْيَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَارٌ ، فَقُلْتُ – أي عروة بن الزبير - : يَا خَالَةُ ! مَا كَانَ يُعِيشُكُمْ ؟ قَالَتِ : الأَسْوَدَانِ : التَّمْرُ ، وَالْمَاءُ ، إِلاَّ أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جِيرَانٌ مِنَ الأَنْصَارِ كَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ ، وَكَانُوا يَمْنَحُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَلْبَانِهِمْ ، فَيَسْقِينَا " . رواه البخاري (2567) ، ومسلم (2972) .
وليس في السنة تفصيل وجبات الطعام التي كان النبي صلى الله عليه وسلم يتناولها انظر إجابة السؤال رقم : (115801) .ولم تكن من عادة المسلمين في الزمان الأول أن يأكلوا ثلاث مرات ، كل يوم ، كما هي حال الناس اليوم ، وإنما غاية ذلك عندهم أكلتان : أكلة أول النهار ، وتُسمى الغداء ، لأنها تكون في الغدوة ، أي : أول النهار ، وأكلة بالمساء ، وتسمى العشاء.
➖➖➖➖➖
✨ایک تفصیلی سوال و جواب سے بھی کچھ اس طرح کی بات کا پتہ چلتاہے کہ آقاﷺ کا کھانے کا وقت معین منقول نہیں ہے، بلکہ اصول منقول ہے کہ
جب کھانا حاضر ہو اور اشتہا بھی ہو اور اسی وقت جماعت کا وقت ہوچکا ہو تب بھی کھانا پہلے کھا لینا چاہئے کیونکہ نہ کھانے کی وجہ سے نماز میں عدم توجہی رہےگی،
یہاں تک کہ حضرت ابن عمرؓ کا معمول لکھا ہے کہ اگر کھانا حاضر ہوتا اور نماز شروع ہوچکی ہوتی تب بھی کھانے سے فارغ ہوئے بغیر نماز میں شامل نہ ہوتے یہاں تک کہ قرات کی آواز سنتے،
نیز آقاﷺ سے مختلف مواقع پر نمازوں سے پہلے کھانے کا ثبوت ملتاہے،
فجر سے پہلے،
ظہر سے پہلے،
عصر سے پہلے،
مغرب سے پہلے،
_هل أكل الرسول صلى الله عليه وسلم أوقات الصلاة ؟؟؟
تعليقا على بوست "فوائد تناول الطعام في أوقات الصلاة "
قالت السيدة غادة :
Ghada Abdelhameed
دكتور حسب معلوماتي لم يتقيد الرسول الكريم بهذه الأوقات في الطعام أي أوقات الصلاة (ما عدى السحور والافطار ) فما هي وجهة نظرك في هذا الأمر
الجواب
هذه ليست وجهة نظري , هذه آية قرآنية , وهناك أدلة على أن الرسول صلى الله عليه وسلم أكل في كل وقت من أوقات الصلاة وهذه هي فقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في الأكل عند الفجر " عن عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَصَبَّحَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعَ تَمَرَاتٍ عَجْوَةً لَمْ يَضُرَّهُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ سُمٌّ وَلَا سِحْرٌ" وراه البخاري .
أما أكله عند موعد صلاة الظهر والعصر فقد ورد في الحديث الذي رواه الإمام أحمد بن حنبل رضي الله عنه " عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَشَيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى امْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَذَبَحَتْ لَنَا شَاةً فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَدْخُلَنَّ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ لَيَدْخُلَنَّ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ عُمَرُ فَقَالَ لَيَدْخُلَنَّ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَاجْعَلْهُ عَلِيًّا فَدَخَلَ عَلِيٌّ ثُمَّ أُتِينَا بِطَعَامٍ فَأَكَلْنَا فَقُمْنَا إِلَى صَلَاةِ الظُّهْرِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ أَحَدٌ مِنَّا ثُمَّ أُتِينَا بِبَقِيَّةِ الطَّعَامِ ثُمَّ قُمْنَا إِلَى الْعَصْرِ وَمَا مَسَّ أَحَدٌ مِنَّا مَاءً " رواه الأمام ابن حنبل
أما تناوله الطعام قبل المغرب فقد ورد في الحديث الذي رواه الإمام البخاري " عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى بَنِي حَارِثَةَ أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ النُّعْمَانِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالصَّهْبَاءِ وَهِيَ أَدْنَى خَيْبَرَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ دَعَا بِالْأَزْوَادِ فَلَمْ يُؤْتَ إِلَّا بِالسَّوِيقِ فَأَمَرَ بِهِ فَثُرِّيَ فَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْه
ِ وَسَلَّمَ وَأَكَلْنَا ثُمَّ قَامَ إِلَى الْمَغْرِبِ فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضأ " رواه البخاري في صحيحه .
✨ ہاں! ایک روایت میں یہ ملتاہے کہ رات کے کھانے کی ابتدا مغرب سے پہلے کرلو۔۔
وقد ورد أمر الأكل مع صلاة المغرب صراحة في حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي رواه الإمام البخاري عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُدِّمَ الْعَشَاءُ فَابْدَءُوا بِهِ قَبْلَ أَنْ تُصَلُّوا صَلَاةَ الْمَغْرِبِ وَلَا تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِكُمْ " رواه البخاري .
اما بالنسبة لأمررسول الله صلى الله عليه وسلم بتناول الطعام مع صلاة العشاء " عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وُضِعَ عَشَاءُ أَحَدِكُمْ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ وَلَا يَعْجَلْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُوضَعُ لَهُ الطَّعَامُ وَتُقَامُ الصَّلَاةُ فَلَا يَأْتِيهَا حَتَّى يَفْرُغَ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ " رواه البخاري والله ولي التوفيق أخوكم د جميل القدسي
--------------------
✨ اس آخری روایت سے یہ پتہ چلتاہے کہ رات کے کھانے کا عام معمول قبل مغرب اور قبل عشاء ہے،
عموما عشاء کے بعد کا معمول نہیں تھا بلکہ بعد عشاء تو آقاﷺ سے فورا سوجانا منقول ہے تاکہ  تہجد میں اٹھنے کی آسانی ہو ۔۔
✨ اس سے ایک چیز اور سمجھ میں آئ کہ عموما مدارس میں جہاں ایک ساتھ بیٹھ کر کھلایا جاتا ہے وہ قبل از مغرب ہی ہوتاہے،
ممکن ہے اقرب الی السنہ ہو،
اللہ والے ہر کام میں سنت کا لحاظ کرتےہیں
⛑ کچھ لوگ کہتےہیں کہ عصر بعد کھانا برا ہے، اسکی تردید فرمائی ہے حضرت تھانویؒ کے حوالے سے کتاب الفتاویٰ جلد ۶ میں ۔۔۔
✨خلاصہ یہ کہ
✨ رات کے کھانے کا وقت روایات پر غور کرنے سے جو سمجھ میں آتا ہے وہ ہے قبل مغرب یا قبل عشاء ۔۔
.....
ہذا ان کان صحیحا فمن رب المشفق وان کا خطا فمنی المذنب
اللہم تقبلنی لخدمۃ دینکل المتین
و صلی اللہ علی النبی الکریم
طالبعلم ⚔
۔۔۔۔۔۔
مترجم من رومن الی اردو۔
احقر ابراہیم علیانی
فقہی سمینار  
آج کا سوال نمبر 178
16 رجب 1437 ھ مطابق 24اپریل
2016  بروز یک شنبہ۔

No comments:

Post a Comment