Friday, 15 April 2016

بودھ مذہب کی طرف رجحان کیوں؟

ایس اے ساگر

ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس اور اخبارات میں ڈاکٹر امیڈکر، بدہ ازم اور دلتوں سے متعلق کئی مضامین منظر عام پر آئے ہیں. روہت کے قبول بودھ مذہب نے مزید سوچنے پر مجبور کیا ہے. مولانا محمود دریابادی نے احساس کمتری میں مبتلا مسلمانوں پر واضح کیا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے امبیڈکر پر محنت نہیں کی یا ان کے سامنے اسلام نہیں پیش کیا. حضرت مولانا علی میآں نے اپنی سوانح میں تفصیل لکھی ہے کہ کس طرح انھوں نے اپنے برادر اکبر کی ایما پر کئی علما کے ہمراہ امبڈکر سے تفصیلی ملاقات کی تھی. اسلام کی دعوت پیش کی گئی. ڈاکٹر امیڈکر نے سنجیدگی سے سنا متاثر بھی ہوئے. غور کرنے کا وعدہ بھی کیا.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کی اس کے باوجود مبیڈکر نے اسلام کیوں نہیں اپنایا؟  اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں. اس کی سب سے بڑی وجہ سرکاری ملازمت میں ریزرویشن کی سہولت ہے. یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر امبیڈکر تعلیم یافتہ اور حساس طبیعت رکھنے کے باوجود مذھبی آدمی قطعی نہیں تھے. پچھلے ہزار برسوں سے ان کی قوم کیساتھ برھمنوں نے مذہب کے نام پرجو غیر انسانی برتاو روا رکھا تھا، اس کے خلاف ان کے دل میں غصہ تھا.اس لئے وہ احتجاجا یا انتقاما برہمنوں کا مذہب ان کے منہ پر مارنا چاہتے تھے. اس لئے وہ بہت عرصہ اس پر غور کرتے رہے کہ ہندوستانی ماحول میں کون سا مذہب اختیار کیا جائے جس سے برہمنیت سے چھٹکارا بھی مل جائے اور دلتوں کو ملنے والی مراعات بھی حاصل رہیں.

ہندوستان میں اگر کوئی دلت بدھ یا سکھ مذہب اختیار کر لے تو بھی وہ دلت ہی رہتا ہے لیکن اگر وہ عیسائیت یا اسلام کو اختیار کرتا ہے تو فورا اس کی تمام مراعات ختم ہو جاتی ہیں. اس لئے انھوں نے اسلام یا عیسائیت نہی  اختیار کی....سکھوں کی تعداد انتہائی کم اور صرف ہندوستان تک محدود ہے اس لئے اسے بھی مناسب نہیں سمجھا. اب رہ گیا بودھ مذہب...یہ اس معنی میں کہ ہندوستانی مذہب بھی تھا کہ گوتم بدھ کی پیدائش یہاں پوئی تھی، ساتھ ہی چین جاپان جیسے ممالک میں بھی اس کے لاکھوں ماننے والے موجود ہیں، جو اس مذہب کو بین الاقوامی حیثیت عطا کرتے تھے. اس لئے کافی غور فکر کے بعد صرف سیاسی اور دنیاوی مفادات کیلئے بدھ مذہب اختیار کیا.

یوں بھی ذاتی یا سیاسی مفاد کی خاطر کئے جانے والے فیصلے اخلاص کی بنیاد پر نہیں ہوتے...مادی  فائدے کیلئے مذہب تبدیل کرنے واے کو  مزید مذہب تبدیل کرنے یا اپنے پرانے مزہب پر لوٹنے میں قطعی دیر نہی لگتی، اگر اس سے بڑا فائدہ ان کے سامنے پیش کر دیا جائے. ظاہر ہے ایسے موقع پرست اگر اسلام کے دائرے میں نہیں آئے تو اس پر افسوس کیوں؟؟

ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی اور بدحالی کے باوجود الحمد للہ برادران وطن کی بڑی تعداد صرف اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر رہی ہے. ماضی قریب میں میناکشی پورم اور پچھلے ہفتے ہریا نہ میں دلتوں کا قبول اسلام  اس کی مثالیں ہیں. لیکن اس کا یہ مطلب بھی اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ امت اپنے اعمال کی اصلاح اور غیروں تک اسلام کی دعوت پہنچا نے سے بے پروا ہو جائے ...

No comments:

Post a Comment