ایس اے ساگر
اسے کام کے تئیں دیانتداری یا ضرورت سمجھئے یا ٹھرکی مردوں کی بوالعجمی کہ دن بدن عورتیں برسرروزگار جبکہ مرد بے روزگاری سے نبرد آزما ہیں.
نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ اب 'گھریلو خواتین' HOUSEWIVES کی بجائے 'گھریلومرد' HOUSEHUSBANDS متعارف ہوچکے ہیں. اس تبدیلی کا منفی نفسیاتی پہلو اپنی جگہ ہے اور شریعت کی پابندی الگ حیثیت رکھتی ہے. ایسے نازک حالات میں بھی لندن سے شائع ہونے والے معروف جریدہ 'دی ڈیلی ٹیلی گراف' شاہد ہے کہ مرد حضرات خود کو گھریلو کاموں سے بچاتے ہیں. وہ جان بوجھ کر اتنا خراب کام کرتے ہیں کہ بیویاں انہیں دور بھگا دینا ہی بہتر سمجھتی ہیں۔
نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ اب 'گھریلو خواتین' HOUSEWIVES کی بجائے 'گھریلومرد' HOUSEHUSBANDS متعارف ہوچکے ہیں. اس تبدیلی کا منفی نفسیاتی پہلو اپنی جگہ ہے اور شریعت کی پابندی الگ حیثیت رکھتی ہے. ایسے نازک حالات میں بھی لندن سے شائع ہونے والے معروف جریدہ 'دی ڈیلی ٹیلی گراف' شاہد ہے کہ مرد حضرات خود کو گھریلو کاموں سے بچاتے ہیں. وہ جان بوجھ کر اتنا خراب کام کرتے ہیں کہ بیویاں انہیں دور بھگا دینا ہی بہتر سمجھتی ہیں۔
کیا ہے فطری تقاضا ؟
یہ دلچسپ انکشاف گزشتہ دنوں ایک نئے سروے میں سامنے آیا ہے۔ پتہ چلا کہ ایک تہائی مرد جان بوجھ کر گھریلو کام اتنے برے انداز میں کرتے ہیں کہ ان کی شریک حیات انہیں مستقبل میں کسی بھی کام کے لئے نہ کہے۔ برطانیہ میں ہونے والے اس سروے نے پول کھولی ہے کہ مرد حضرات ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ برتن دھونے، صفائی یا بیت الخلا دھونے کو اتنی بری طرح کریں کہ ان کی بیویاں مستقبل میں کام کروانے کے خیال سے ہی خوفزدہ ہوجائیں. مردوں کی اکثریت نے تسلیم کیا کہ انہیں گھریلو کام جیسے صفائی اور باتھ روم دھونے کے کام سے سب سے زیادہ نفرت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیویاں ان سے اتنا تنگ آجائیں کہ انہیں دوبارہ کرنے کا نہ کہیں۔ عجیب بات یہ تو یہ ہے کہ جو مرد جان بوجھ کر خراب کام کرتے ہیں عام طور پر وہ اس کے لئے مکمل منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔
بچوں میں پھنس گئے :
’ہائے! کتنا اچھا ہے کہ آپ بچوں کو سنبھالیں اور ان کی ماؤں کو کچھ آرام کرنے دیں۔‘
’میرا خیال ہے کہ آج بچوں میں پھنس گئے تھے۔‘
’آپ کو ایک اچھا مددگار مل گیا ہے۔‘
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ریڈ اٹ پر موجود یہ وہ چند جملے ہیں جو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے والد سے کہے گئے ہیں۔
یہ موضوع انٹرنیٹ پر ایک زوردار بحث کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
اس بحث کا آغاز تب ہوا جب ایک صارف نے انٹرنیٹ پر ایسی ٹی شرٹ پہنے تصویر اپ لوڈ کی۔ جس پر لکھا تھا کہ ’باپ بے بی سِٹنگ نہیں کرتے، بلکہ اسے بچوں کی پرورش کہتے ہیں۔‘
اس تصویر میں جو شخص یہ ٹی شرٹ پہنے ہوئے ہیں ان کا نام ال فرگوسن ہے اوراوہ دی ڈیڈ نیٹ ورک نامی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔
انھوں نے کچھ عرصہ قبل اس ٹی شرٹ میں ملبوس اپنی تصویر آن لائن پوسٹ کی تھی لیکن یہ تصویر ریڈ اٹ پر آنے کے بعد مشہور ہوگئی اور لوگ بچوں کی پرورش کے بارے میں دقیانوسی تصورات پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے۔ ال فرگوسن نے بتایا کہ ’لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ آج کل بچوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں؟ یا پھر یقیناً آج اپنے بے بی کا لباس تبدیل کروا کر آئے ہیں؟ یہ سب پرانی باتیں ہیں۔ آج کے دور کا باپ اپنی گھریلو زندگی میں پہلے زمانے سے زیادہ حصہ لیتا ہے۔ یہ ایک فرسودہ خیال ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال کی بنیادی ذمہ داری ماں پر ہی عائد ہوتی ہے۔‘
تعداد میں روز بہ روز اضافہ :
حالانکہ ایسے مردوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے جو گھر پر رہ کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتے ہیں لیکن 2014 میں کی گئی تحقیق کے مطابق صرف 16 فیصد باپ ایسے ہیں جو اپنے بچوں کی پرورش کی بنیادی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ تین ہزار سے زیادہ افراد نےاس بات سے اتفاق کیا کہ باپ کا پچوں کی پرورش کرنا بی بے سِٹنگ ہی کہلائے گا۔ کئی والدوں نے ریڈ اٹ پر اپنے تجربات بھی شیئر کررہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا ہے کہ ’میں نے جب گھر پر رہ کر اپنے بچوں کی پرورش شروع کی تو لوگوں کی باتوں نے مجھے بہت دکھ دیا۔ اور کبھی کبھی تو مجھے واقعی رونا آتا تھا کیونکہ ایسا لگتا تھا کہ وہ مجھے بچوں کی پرورش کرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔‘ دیگر افراد نے اس بحث کو پھیلاتے ہوئے کہا ہے کہ عام طو پر جب باپ اپنے بچوں کی پرورش کا ذمہ لیتا ہے تو اسے جنسی تفریق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ریڈ اٹ پر موجود ایک اور صارف نے کہا ہے کہ ’اس طرح کے خیالات سے مجھے وہ اشتہارات یاد آتے ہیں جن میں یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماں کی غیر موجودگی میں باپ بچوں کو سنبھال نہیں پاتا۔ وہ چیزوں کو بے ترتیب کردیتا ہے۔ بچے الگ بوکھلائے ہوئے ہیں۔ باپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کھانا کیسے پکانا ہے، صفائی کیسے کرنی ہے اوربچوں کی ڈائپر کیسے تبدیل کرنی ہے وغیرہ وغیرہ۔‘ ایک اور صارف لکھتے ہیں کہ ’میں اکیلے ہی اپنے بچوں کی پرروش کر رہا ہوں۔ اُس وقت بہت مشکل ہوتی، جب میری سات سالہ بیٹی سلیپ اوور (دیگر بچوں کو گھر پر بلا کر رات گزارنا) کی خواہش کرتی ہے۔ اور جب میں ان بچوں کے والدین کو فون کر کے کہتا ہوں کہ کہ میری بیٹی سلیپ اوور کے لیے آپ کے بچوں بلانا چاہتی ہے تو فورا سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اُس کی ماں بھی موجود ہوگی؟ نہیں میں جواب سننے کے بعد دوسری طرف ایک طویل خاموشی چھا جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میری بیٹی نے آج تک اپنے دوستوں کو رات گھر پر بلا کر پارٹی نہیں کی۔ دیگر لوگوں اسے جنسی امتیاز ماننے سے انکار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا ہے کہ ’میرے شوہراکثر مجھ سے کہتے ہیں کہ میں انھیں گذشتہ ہفتوں میں بچوں کی بے بی سٹنگ کرنے کا معاوضہ دوں۔ میں کہتی ہوں کہ آپ ان بچوں کے باپ ہیں۔ آپ ان کی پرورش کررہے تھے۔‘
ال فرگوسن کہتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کے بارے میں عورت اور مرد کی جنسی تفریق کے بارے میں دقیانوسی خیالات کو دور کرنے کے علاوہ وہ کئی اور رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں جن میں بچوں کے ڈائپر تبدیل کرنے کی جگہ کو خواتین کے باتھ روم تک مخصوص ہونا ہے۔ آج کل کام کرنے والی ماؤں اور گھر پر رہ کر بچوں کی پرورش کرنے والے مردوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ روایت کی تبدیلی ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ لوگ وقت کے ساتھ ان چیزوں سے سمجھوتہ کرلیں گے۔‘ شکر کا مقام ہے کہ مغربی طرز زندگی کتنا ہی فروغ حاصل کررہا ہو لیکن برصغیر ہند، پاک آج بھی کمانے والے مرد کو عزت کی اور کمانے والی عورت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھ رپا ہے.
حلال حرام کا مسئلہ :
باوجود کمانے کی طاقت کے بیوی کی کمائی پر گزارا کرنا موضوع بحث بنا ہوا ہے. غنیمت ہے کہ امت کی رہنمائی کے لئے اہل علم حضرات میسر ہیں
'آپ کے مسائل اور ان کا حل' کے ضمن میں یہاں تک دریافت کیا گیا ہے کہ 'کیا مردوں کو عورتوں کی کمائی کھانے کی اجازت ہے؟ مثلاً: کسی کی بیوی کماکر لاتی ہے اور مرد باوجود تندرستی کے نکما ہے، کماتا نہیں، تو ایسے شخص کو بیوی کی کمائی حلال ہے؟ یا کسی نوجوان کی بہن کماتی ہے اور وہ بیٹھ کھاتا ہے، تو کیا ایسے جوان کو بہن کی لائی ہوئی تنخواہ میں سے خرچ کرنے کا حق ہے؟
'آپ کے مسائل اور ان کا حل' کے ضمن میں یہاں تک دریافت کیا گیا ہے کہ 'کیا مردوں کو عورتوں کی کمائی کھانے کی اجازت ہے؟ مثلاً: کسی کی بیوی کماکر لاتی ہے اور مرد باوجود تندرستی کے نکما ہے، کماتا نہیں، تو ایسے شخص کو بیوی کی کمائی حلال ہے؟ یا کسی نوجوان کی بہن کماتی ہے اور وہ بیٹھ کھاتا ہے، تو کیا ایسے جوان کو بہن کی لائی ہوئی تنخواہ میں سے خرچ کرنے کا حق ہے؟
مرد ہیں ذمہ دار :
اس کے جواب میں شہید اسلام مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 'عورتوں کے معاش کا ذمہ دار مردوں کو بنایا گیا ہے، مگر عورتوں نے یہ بوجھ خود اُٹھانا شروع کردیا، اور تساہل پسند مردوں کو ایک اچھا خاصا ذریعہٴ روزگار مل گیا، جب عورت اپنی خوشی سے کماکر لاتی ہے اور مردوں پر خرچ کرتی ہے، ان کے لئے کیوں حلال کیوں نہیں؟
صنف نازک کی حیثیت :
اس سلسلہ میں مولانا نجیب قاسمی رقمطراز ہیں کہ ' شریعت کی تعلیمات کے مطابق مردوعورت کو اس طرح زندگی گزارنی چاہئے کہ گھر کے باہر کی دوڑ دھوپ مرد کے ذمہ رہے، اسی لئے بیوی اور بچوں کے تمام جائز اخراجات مرد کے اوپر فرض کئے گئے ہیں، شریعت اسلامیہ نے صنف نازک پر کوئی خرچہ لازم نہیں قرار دیا، شادی سے قبل اس کے تمام اخراجات باپ کے ذمہ اور شادی کے بعد رہائش، کپڑے، کھانے اور ضروریات وغیرہ کے تمام مصارف شوہر کے ذمہ رکھے ہیں۔ عورتوں سے کہا گیا کہ وہ گھر کی ملکہ ہیں۔
(صحیح بخاری )
لہٰذا ان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز گھر کو بنانا چاہئے جیسا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلَیَۃِ الْاُوْلٰی (سورۃ الاحزاب ۳۳)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان کام کو اس طرح تقسیم کردیا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے اندر کے کام کیا کرتی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر کے باہر کے کام انجام دیا کرتے تھے۔ لوگوں کے تحفظ کی ذمہ داری مردوں پر رکھی گئی ہے، نہ کہ عورتوں پر، مردوں پر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کو واجب یا سنت مؤکدہ اشد التاکید قرار دیا گیا، جبکہ عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی بار بار ترغیب دی گئی۔ مرد وعورت کی ذمہ داری کی یہ تقسیم نہ صرف اسلام کا مزاج ہے بلکہ یہ ایک فطری اور متوازن نظام ہے جو مردو عورت دونوں کے لئے سکون وراحت کا باعث ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت کا ملازمت یا کاروبار کرنا حرام ہے، بلکہ قرآن وحدیث چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔ جو کام مردوں کے لئے جائز ہیں، اگر قرآن وحدیث میں عورتوں کو ان سے منع نہیں کیا گیا ہے تو عورتوں کے لئے شرعی حدود وقیود کے ساتھ انہیں انجام دینا جائز ہے۔ بعض اوقات خواتین کی ملازمت کرنا معاشرہ کی اجتماعی ضرورت بھی ہوتی ہے مثلاً امراض نساء وولادت کی ڈاکٹر، معلمات جو لڑکیوں کے لئے بہترین تعلیم کا نظم کرسکیں۔ غرضیکہ عورت شرعی حدود وقیود کے ساتھ ملازمت یا کاروبار کرسکتی ہے۔ ان شرعی حدود کے لئے چار امور اہم ہیں:
۱) پردہ کے احکام کی رعایت ہو۔
۲) اجنبی مردوں کے اختلاط سے دور رہا جائے۔
۳) گھر سے کام کی جگہ تک آنے جانے کا معقول بند وبست ہو.
۴) ولی وسرپرست کی اجازت ہو۔
(صحیح بخاری )
لہٰذا ان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز گھر کو بنانا چاہئے جیسا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلَیَۃِ الْاُوْلٰی (سورۃ الاحزاب ۳۳)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان کام کو اس طرح تقسیم کردیا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے اندر کے کام کیا کرتی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر کے باہر کے کام انجام دیا کرتے تھے۔ لوگوں کے تحفظ کی ذمہ داری مردوں پر رکھی گئی ہے، نہ کہ عورتوں پر، مردوں پر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کو واجب یا سنت مؤکدہ اشد التاکید قرار دیا گیا، جبکہ عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی بار بار ترغیب دی گئی۔ مرد وعورت کی ذمہ داری کی یہ تقسیم نہ صرف اسلام کا مزاج ہے بلکہ یہ ایک فطری اور متوازن نظام ہے جو مردو عورت دونوں کے لئے سکون وراحت کا باعث ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت کا ملازمت یا کاروبار کرنا حرام ہے، بلکہ قرآن وحدیث چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔ جو کام مردوں کے لئے جائز ہیں، اگر قرآن وحدیث میں عورتوں کو ان سے منع نہیں کیا گیا ہے تو عورتوں کے لئے شرعی حدود وقیود کے ساتھ انہیں انجام دینا جائز ہے۔ بعض اوقات خواتین کی ملازمت کرنا معاشرہ کی اجتماعی ضرورت بھی ہوتی ہے مثلاً امراض نساء وولادت کی ڈاکٹر، معلمات جو لڑکیوں کے لئے بہترین تعلیم کا نظم کرسکیں۔ غرضیکہ عورت شرعی حدود وقیود کے ساتھ ملازمت یا کاروبار کرسکتی ہے۔ ان شرعی حدود کے لئے چار امور اہم ہیں:
۱) پردہ کے احکام کی رعایت ہو۔
۲) اجنبی مردوں کے اختلاط سے دور رہا جائے۔
۳) گھر سے کام کی جگہ تک آنے جانے کا معقول بند وبست ہو.
۴) ولی وسرپرست کی اجازت ہو۔
قابل غور نکات :
بظاہر خواتین کے ملازمت یا کاروبار کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے گھر کے معاشی حالات بہتر ہوجاتے ہیں۔ نیز سماج کے بگڑے ہوئے لوگ جو عورتوں کو مجبور و بے بس سمجھ کر ان پر ظلم وزیادتی کرتے ہیں اور عورتیں خاموش رہنے پر مجبور رہتی ہیں، اس کے ذریعہ خواتین کو کچھ آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن ہماری سوسائٹی اور خود عورتوں کو جو اس سے نقصانات ہوئے ہیں وہ ان محدود فوائد سے کہیں زیادہ ہیں، چند نقصانات پیش خدمت ہیں:
۱) عورت جب خود ملازمت کرتی ہے تو وہ اپنی ضروریات کے لئے شوہر کی محتاج نہیں ہوتی ، اس لئے شوہر کی جانب سے خلاف مزاج بات پیش آنے پر برداشت کرنے کا جذبہ کم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے رشتۂ نکاح میں دراڑ آنے لگتی ہے اور طلاق تک نوبت آجاتی ہے، چنانچہ ملازمت کرنے والی خواتین کے لئے طلاق کے واقعے ملازمت نہ کرنے والی عورتوں کے مقابلہ میں زیادہ سامنے آتے ہیں۔
۲) جب عورت ملازمت کے لئے نکلتی ہے تو بسا اوقات شوہر عورت کے بارے میں شک وشبہات میں مبتلا ہوجاتاہے، یہ چیز اس کے سکون میں رکاوٹ بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے نکاح کا اہم مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
۳) بچے ماں کی ممتا اور صحیح تربیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
۴) خواتین کی ملازمت سے عورتوں کے جنسی استحصال کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں۔
۱) عورت جب خود ملازمت کرتی ہے تو وہ اپنی ضروریات کے لئے شوہر کی محتاج نہیں ہوتی ، اس لئے شوہر کی جانب سے خلاف مزاج بات پیش آنے پر برداشت کرنے کا جذبہ کم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے رشتۂ نکاح میں دراڑ آنے لگتی ہے اور طلاق تک نوبت آجاتی ہے، چنانچہ ملازمت کرنے والی خواتین کے لئے طلاق کے واقعے ملازمت نہ کرنے والی عورتوں کے مقابلہ میں زیادہ سامنے آتے ہیں۔
۲) جب عورت ملازمت کے لئے نکلتی ہے تو بسا اوقات شوہر عورت کے بارے میں شک وشبہات میں مبتلا ہوجاتاہے، یہ چیز اس کے سکون میں رکاوٹ بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے نکاح کا اہم مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
۳) بچے ماں کی ممتا اور صحیح تربیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
۴) خواتین کی ملازمت سے عورتوں کے جنسی استحصال کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں۔
۵) عورت کی ملازمت کی وجہ سے گھر خاص کر مطبخ یا کچن کا نظم صحیح نہیں چلتا ہے جس کی وجہ سے شوہر اور بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں۔ بہر صورت مذکورہ بالا شرائط کی موجودگی میں عورت ملازمت کرسکتی ہے مگر عورت کی ملازمت کی وجہ سے جو عموماً نقصانات سامنے آتے ہیں، جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے، ان کا سد باب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
'Dads don't babysit'
"You've got a good helper here!"
These are just some of the things that have been said to dads who have been looking after their children, according to testimonies on Reddit, where the topic has sparked a flurry of conversation.
It began when a user shared an image of a t-shirt bearing the slogan: "Dads don't babysit, it's called parenting." According to reports, 27 April 2016, the man in the picture modelling the t-shirt is Al Ferguson
"I've had people ask me 'Are you looking after the kids today?' Or 'I can tell you've dressed the baby today,'" he told BBC Trending.
"It's just out of date. The modern dad is more active in their family life than they were historically. It's out of date to assume the mum is the primary caregiver."
Although the number of dads who choose to stay at home and care for their children is on the rise, a 2014 study by the Pew Research Centre showed that only 16% of primary caregivers are men. Some dads shared their own experiences on Reddit.
"It hurt really bad when I was a new stay-at-home dad and people would ask about me babysitting… It really made me almost cry sometimes because it was like they couldn't see me as a caretaker," one user wrote.
Others broadened the conversation to talk more generally about the sexism that dads experience.
"Reminds me of all those ridiculous commercials where they make it seem like dads don't know how to take care of their kids while mom is away," said another Redditor. "They make a mess, kids go crazy, they don't know how to cook, clean, change a diaper...where's all the outrage?"
Another user wrote "Single dad here. It's even worse when my seven year old wants to have a sleepover… I call the parents. I explain she wants to have a sleepover and your kid is invited. Then the awkward question, will mom be there? And when you explain, no mom here - sorry, there's that long pause. Sad to say to this day she still hasn't had a sleepover."
Others disagreed that it was sexist. "It goes the other way too. My husband will occasionally say that 'You owe me for babysitting last Saturday'… You are their father, you were parenting!" one user posted.
Al Ferguson says it's not just the language that contributes to the gendered stereotypes, there are other barriers to equality that they're fighting, such as baby changing facilities typically being in the ladies toilets.
"Now there are more working mums and more stay at home dads. There's been a cultural shift. I think that people need to move with the times."
No comments:
Post a Comment