پچھلے دنوں جب ’پاناما پیپرز‘ لیک ہوئے تو اس میں بھی کئی سو بھارتی
امیروں اور سرکردہ شخصیات کےنام سامنے آئے جنھوں نے غیر ممالک میں اپنی
کمپنیاں رجسٹر کر رکھی ہیں۔ پانامہ لیکس کے بعد آئس لینڈ کے وزیر اعظم کو
مستعفیٰ ہونا پڑا ۔برطانیہ کےوزیر اعظم ڈیود کیمرون پر بھی مستعفیٰ
ہونےکے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان کے مستعفیٰ ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن ان
کی سیاسی ساکھ اور ان کی انفرادی حیثیت ضرور متاثر ہوگی۔لیکن یہاں
انڈیا میں جن لوگوں کےنام آئے ہیں یا تو وہ خاموش ہیں یا پھر وہ کسی کمپنی
کا ڈائریکٹر ہونے یا کسی کمپنی کو جاننے سےانکار کر رہے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی
انٹرنیشنل کے مطابق بھارت کا شمار دنیا کے ان اولین ملکوں میں ہوتا ہے
جہاں بدعنوانی بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ غیر ممالک میں
بے ایمانی کی ایک بڑی دولت خفیہ کھاتوں میں جمع ہے۔
ماہرین کا کہنا
ہےکہ ملک میں ٹیکس کا پیچیدہ نظام ، ٹیکس کی اونچی شرح ، سرکاری نیلامیوں
اور لین دین میں شفافیت کی کمی، بدعنوان اہلکاروں کو سزائیں نہ ملنا اور اس
طرح کے بہت سےدوسرے عوامل بھارت میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئے بدعنوانی کے
ذمے دار ہیں۔ سیاسی جماعتون نے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے نعروں اور
وعدوں کے باوجود بدعنوانی کے خلاف ابھی تک کوئی جامع اور ٹھوس قدم نہیں
اٹھایا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ بدعنواونی کے معاملے میں رفتہ رفتہ سیاسی جماعتوں
اور سیاسی نظام سے عوام کا اعتبار اٹھنے لگا ہے۔ ٹیکس کا نام سنتے ہی عام آدمی کو اکتاہٹ ہونے لگتی تھی، لیکن اب جسے دیکھو ٹیکس کی دنیا کی بات کر رہا ہے۔ یقیناً
اب تک پاناما پیپرز میں لگائے جانے والے الزامات کی تفصیلات سن چکے ہوں گے
اور آپ کو معلوم ہو چکا ہوگا کہ کیسے دنیا کے مختلف ممالک کے امرا اور
سیاستدانوں سے منسلک افراد اور حتیٰ کہ ان کے رشتہ داروں نے اپنے اپنے ملک
سے لاکھوں ڈالر پاناما، ہانگ کانگ اور سنگاپور سمیت کئی دیگر سمندر پار
مقامات پر منتقل کیے۔ سمندر پار کپمنیوں اور کھاتوں کی تفیصلات منظر عام پر آنے کے بعد یہ بحث آج سب سے بڑی بین الاقوامی بحث بن چکی ہے۔ جن
ممالک میں ’آف شور‘ بینکوں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے، ان میں سے کچھ
مراکز ایشیا میں ہیں۔ مثلاً سنگاپور، مکاؤ، دبئی اور ہانگ کانگ۔ اگرچہ
آف شور اکاؤنٹ کھلوانا کوئی غیر قانونی حرکت نہیں ہے، لیکن پاناما پیپرز
کے منظر عام پر آنے کے بعد سے کئی ایشیائی ممالک کے بینکوں اور کمپنیوں پر
دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنے کھاتے داروں کے بارے میں زیادہ
معلومات مہیا کریں اور یہ بھی بتائیں کہ ان کے کھاتے دار اتنی بھاری رقوم
لائے کہاں سے تھے۔ بڑے پیمانے پر خفیہ دستاویزات افشا
ہونے سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد اپنی
دولت کیسے چھپاتے ہیں۔ یہ دستاویزات پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے
افشا ہوئیں اور ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ یعنی اگر آپ کو سمندر پار کاروبار سے منافع مل رہا ہے اور آپ اپنے ملک
کے حکام کو اس آمدن کے بارے میں نہیں بتاتے جبکہ قانونی طور پر آپ کو ایسا
کرنا چاہیے۔ یہ کام غیر قانونی ہے۔‘
’لیکن ٹیکس بچانا ذرا مختلف کام
ہے۔ ٹیکس بچانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ٹیکس کے قانون میں دی گئی قانونی چھوٹ
کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور آپ کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ آپ
ٹیکس دیں ہی نہ۔‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ ٹیکس بچانے کا کوئی
قانونی طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو اس بات کا دارو
مدار اُس ملک کے قانون پر ہوتا ہے کہ آپ نے قانونی کام کیا ہے یا غیر
قانونی۔ بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم
’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق دنیا کے ہر علاقے میں ایسے ممالک اور
مقامات موجود جہاں ایسی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں جن کا مقصد آپ کو اپنے
اثاثے خفیہ رکھنے میں مدد دینا ہے۔
اس قسم کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس قسم کے ممالک
اپنے قوانین تبدیل کریں تا کہ تجارت اور مالیات کی خفیہ دنیا کا خاتمہ ہو
سکے اور اس معاملے میں شفافیت نظر آئے۔
نظرثانی کی ضرورت
اس
میں کوئی شک نہیں کہ یورپی ممالک، سنگاپور، جاپان، ہانگ کانگ اور آسٹریلیا
کی جانب سے ایک معائدہ پر دستخط ہو جانے کےبعد سے کئی ایشیائی ملک اس بات
پر متفق ہو چکے ہیں کہ سنہ 2018 تک وہ اپنے اپنے کھاتے داروں کے کوائف دیگر
ممالک سے خفیہ رکھنا ختم کر دیں گے۔
لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ ایسے
ممالک جن کی معیشت کا انحصار غیرملکی امراء کے کھاتوں سے ہونے والی آمدن پر
ہے، ان کے لیے اس قسم کے معاہدوں پر کھلے دل سے عمل کرنا گھاٹے کا سودا
ہوگا اور یہ ممالک ایسا کرنے سے کترائیں گے۔
ایک تجزیہ کار کے بقول ’ایسے ممالک کا دار و مدار ہی اس بات پر ہے کہ وہ اپنے صارفین کی معلومات راز میں رکھیں۔‘
’اصل
بات یہ ہے کہ وہ کون سا ملک ہوگا جو یہ قدم سب سے پہلے اٹھائےگا۔ سمندر
پار کھاتوں کے مراکز چاہتے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے کیونکہ
انصاف کا تقاضا یہی ہے۔ کیونکہ اگر ایک ملک نے ایسے اقدامات لیے تو کھاتے
دار اپنا کاروبار بند کر کے وہاں چلے جائیں گے جہاں ابھی تک ٹیکس بچانے اور
کوائف صیغہ راز میں رکھنے کی سہولت موجود ہو گی۔‘
ہم سب جانتے ہیں کہ جب طلب ہو گی تو رسد کو نہیں روکا جا سکے گا۔
پاناما پیپرز کیا ہیں؟
فائل سے معلوم چلتا ہے کہ کس طرح موساک فونسیکا کے گاہکوں نے کیسے منی لانڈرنگ کی، پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی۔
ایک کیس میں اس لا کمپنی نے ایک امریکی لکھ پتی کو جعلی مالکی حقوق کے دستاویزات دیے تاکہ حکام سے دولت چھپا سکے۔ یہ بین الاقوامی ریگلولیشن کی خلاف ورزی ہے جو منی لانڈرنگ کو روکنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ہے۔
ایک کیس میں اس لا کمپنی نے ایک امریکی لکھ پتی کو جعلی مالکی حقوق کے دستاویزات دیے تاکہ حکام سے دولت چھپا سکے۔ یہ بین الاقوامی ریگلولیشن کی خلاف ورزی ہے جو منی لانڈرنگ کو روکنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ہے۔
ان پیپرز میں کن کا ذکر ہے؟
ان دستاویزات میں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت کے نام ہیں بشمول ان آمروں کے جن پر ملک کی دولت لوٹنے کے الزامات ہیں۔
ان دستاویزات کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر سیاستدانوں کے 60 کے قریب رشتہ دار اور رفقا کے نام بھی آئے ہیں۔
فائلز میں روسی صدر پوتن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹینا کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد، اور وزیر اعظم پاکستان کے چار میں سے تین بچوں کا ذکر ہے۔
ان دستاویزات کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر سیاستدانوں کے 60 کے قریب رشتہ دار اور رفقا کے نام بھی آئے ہیں۔
فائلز میں روسی صدر پوتن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹینا کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد، اور وزیر اعظم پاکستان کے چار میں سے تین بچوں کا ذکر ہے۔
ٹیکس چوری کیسے ہوتی ہے؟
اگرچہ ٹیکس سے بچنے کے قانونی طریقے ہیں لیکن زیادہ تر جو ہو رہا ہے وہ
یہ ہے کہ دولت کے حقیقی مالک کی شناخت چھپانا، دولت کیسے حاصل کی اور اس
دولت پر ٹیکس نہ دینا۔
اہم الزامات میں سے چند یہ ہیں کہ شیل کمپنیاں بنائی جاتی ہیں جو کہ ظاہری طور پر تو قانونی ہوتی ہیں لیکن یہ ایک کھوکھلی کمپنی ہوتی ہے۔ یہ کمپنیاں دولت کے مالک کی شناخت چھپاتی ہیں۔
اہم الزامات میں سے چند یہ ہیں کہ شیل کمپنیاں بنائی جاتی ہیں جو کہ ظاہری طور پر تو قانونی ہوتی ہیں لیکن یہ ایک کھوکھلی کمپنی ہوتی ہے۔ یہ کمپنیاں دولت کے مالک کی شناخت چھپاتی ہیں۔
ملوث افراد کیا کہتے ہیں؟
موساک فونسیکا کا کہنا ہے کہ وہ 40 برسوں سے بے داغ طریقے سے کام کر رہی
ہے اور اس پر کبھی کسی غلط کام میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگا۔
روسی صدر ویلادیمیر پوتن کے ترجمان دیمیتری پیسکوو نے کہا ہے ’پوتن فوبیا اس حد تک پہنچ چکا ہے جہاں روس یا اس کے کام یا روسی کامیابیوں پر بات کرنے کی ممانعت ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو کچھ گھڑ لیا جائے۔ یہ واضح ہے۔‘
روسی صدر ویلادیمیر پوتن کے ترجمان دیمیتری پیسکوو نے کہا ہے ’پوتن فوبیا اس حد تک پہنچ چکا ہے جہاں روس یا اس کے کام یا روسی کامیابیوں پر بات کرنے کی ممانعت ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو کچھ گھڑ لیا جائے۔ یہ واضح ہے۔‘
پاناما پیپرز کس نے لِیک کیے؟
ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جرمن اخبار سودیوچے زیتنگ نے حاصل کیے، جس
نے انھیں تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم آئی سی آئی جے کے ساتھ
شیئر کیا۔
یہ کنسورشیم76 ملکوں کے 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مبنی ہے۔ اس میں برطانوی اخبار گارجین بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگا۔
بی بی سی کو دستاویزات کو لیک کرنے کے ذرائع کی شناخت کا علم نہیں ہے۔
یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹے ہیں۔ پاناما لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں۔
ان دستاویزات میں 1977 سے لے کر 2015 دسمبر تک کی معلومات موجو ہیں۔ ان دستاویزات کا بڑا حصہ ای میلز پر مشتمل ہے لیکن معاہدوں اور پاسپورٹس کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
یہ کنسورشیم76 ملکوں کے 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مبنی ہے۔ اس میں برطانوی اخبار گارجین بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگا۔
بی بی سی کو دستاویزات کو لیک کرنے کے ذرائع کی شناخت کا علم نہیں ہے۔
یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹے ہیں۔ پاناما لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں۔
ان دستاویزات میں 1977 سے لے کر 2015 دسمبر تک کی معلومات موجو ہیں۔ ان دستاویزات کا بڑا حصہ ای میلز پر مشتمل ہے لیکن معاہدوں اور پاسپورٹس کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
OFFSHORE ASSETS & CORRUPTION
▶️PANAMAPAPERS - LARGEST LEAK In History of DATA JOURNALISM
▶️#PanamaPapers breaks INTERNET with revelations of GLOBAL CORRUPTION
▶️#PanamaPapers breaks INTERNET with revelations of GLOBAL CORRUPTION
What is #PanamaPapers
➖Biggest leak
➖Larger than the U.S. diplomatic cables released by WikiLeaks in 2010, and the secret intelligence documents leaked by NSA whistleblower Edward Snowden in 2013
➖Year-long investigation by global journalists which revealed how a shady network of rich and powerful world leaders use offshore tax havens
➖to hide their vast wealth, launder money, dodge sanctions and evade taxes despite legal requirements in place that should prevent exactly those things from occurring.
➖Biggest leak
➖Larger than the U.S. diplomatic cables released by WikiLeaks in 2010, and the secret intelligence documents leaked by NSA whistleblower Edward Snowden in 2013
➖Year-long investigation by global journalists which revealed how a shady network of rich and powerful world leaders use offshore tax havens
➖to hide their vast wealth, launder money, dodge sanctions and evade taxes despite legal requirements in place that should prevent exactly those things from occurring.
#PanamaPapers is
➖Cache of 11 million LEAKED internal documents from 1977 to December 2015.
➖2.6 TB worth of DATA
➖from law firm Mossack Fonsecaa, a Panama based law firm. Panama is known tax haven.
➖Leaked documents were accessed by Munich-based newspaper Suddeutsche Zeitung which a year ago collaborated with the International Consortium of Investigative Journalists (ICIJ).
➖Papers were investigated by 375 journalists in 76 countries
which shine a light on secret offshore holdings from
➖Many Politicians, public officials, Businessman, individuals across the globe
➖including 12 current and former world leaders.
➖Including about 500+ INDIANS 樂
➖Cache of 11 million LEAKED internal documents from 1977 to December 2015.
➖2.6 TB worth of DATA
➖from law firm Mossack Fonsecaa, a Panama based law firm. Panama is known tax haven.
➖Leaked documents were accessed by Munich-based newspaper Suddeutsche Zeitung which a year ago collaborated with the International Consortium of Investigative Journalists (ICIJ).
➖Papers were investigated by 375 journalists in 76 countries
which shine a light on secret offshore holdings from
➖Many Politicians, public officials, Businessman, individuals across the globe
➖including 12 current and former world leaders.
➖Including about 500+ INDIANS 樂
POPULAR NON INDIANS in Documents
➖Syria’s president Bashar al-Assad.
➖Russian Prime Minister Vladimir Putin
➖Ukrainian President Petro Poroshenko
➖Prime minister of Iceland S. Gunnlaugsson
➖Egypt’s former president Hosni Mubarak
➖Libya’s former leader Muammar Gaddafi
➖British Prime Minister David Cameron's late father.
➖World-famous soccer player Lionel Messi
➖Syria’s president Bashar al-Assad.
➖Russian Prime Minister Vladimir Putin
➖Ukrainian President Petro Poroshenko
➖Prime minister of Iceland S. Gunnlaugsson
➖Egypt’s former president Hosni Mubarak
➖Libya’s former leader Muammar Gaddafi
➖British Prime Minister David Cameron's late father.
➖World-famous soccer player Lionel Messi
POPULAR INDIANS in Documents
➖Amitabh Bachchan (Actor)
➖Aishwarya Rai Bachchan (Actress)
➖K P Singh + 9 other members of his family( DLF )
➖Vinod Adani (BJP fund-raiser Gautam ADANI’s elder brother)
➖Sameer Gehlaut (INDIABULLS)
➖Onkar Kanwar (APOLLO TYRES)
➖HARISH SALVE (Prominent LAWYER)
➖Shishir K Bijora (SK BIJORIA Group)
➖Anurag Kejrival (former chief of delhi Loksatta Party)
➖ IQBAL MIRCHI (Mumbai based Gangster)
➖Amitabh Bachchan (Actor)
➖Aishwarya Rai Bachchan (Actress)
➖K P Singh + 9 other members of his family( DLF )
➖Vinod Adani (BJP fund-raiser Gautam ADANI’s elder brother)
➖Sameer Gehlaut (INDIABULLS)
➖Onkar Kanwar (APOLLO TYRES)
➖HARISH SALVE (Prominent LAWYER)
➖Shishir K Bijora (SK BIJORIA Group)
➖Anurag Kejrival (former chief of delhi Loksatta Party)
➖ IQBAL MIRCHI (Mumbai based Gangster)
INDIAN LAWS
➖As per RBI norms, no Indian citizen could float an overseas entity before 2003
➖In 2004, for the first time individuals were allowed to remit funds of up to $25,000 a year under the Liberalised Remittance Scheme, and this limit stands at $250,000 a year now.
➖But while RBI let individuals buy shares under LRS, it never allowed them to set up companies abroad, having clarified it through an FAQ mid-way in September 2010.
➖In most of the cases in The Panama Papers, companies were set up long before the rules were changed and the purpose, experts said, was to park foreign exchange in a tax haven.
➖As per RBI norms, no Indian citizen could float an overseas entity before 2003
➖In 2004, for the first time individuals were allowed to remit funds of up to $25,000 a year under the Liberalised Remittance Scheme, and this limit stands at $250,000 a year now.
➖But while RBI let individuals buy shares under LRS, it never allowed them to set up companies abroad, having clarified it through an FAQ mid-way in September 2010.
➖In most of the cases in The Panama Papers, companies were set up long before the rules were changed and the purpose, experts said, was to park foreign exchange in a tax haven.
IMPORTANT WEBLINKS
http://indianexpress.com/article/india/india-news-india/panama-papers-explained-list-offshore-accounts/
http://indianexpress.com/article/india/india-news-india/panama-papers-list-amitabh-bachchan-kp-singh-aishwarya-rai-iqbal-mirchi-adani-brother/
http://mashable.com/2016/04/03/panama-papers-global-investigation/?utm_cid=hp-hh-pri#sczeyyDipuqI
http://techcrunch.com/2016/04/03/documents-leaked-from-a-panamanian-law-firm-reveal-a-global-web-of-corruption/
http://indianexpress.com/article/india/india-news-india/panama-papers-explained-list-offshore-accounts/
http://indianexpress.com/article/india/india-news-india/panama-papers-list-amitabh-bachchan-kp-singh-aishwarya-rai-iqbal-mirchi-adani-brother/
http://mashable.com/2016/04/03/panama-papers-global-investigation/?utm_cid=hp-hh-pri#sczeyyDipuqI
http://techcrunch.com/2016/04/03/documents-leaked-from-a-panamanian-law-firm-reveal-a-global-web-of-corruption/
No comments:
Post a Comment