Friday 1 April 2016

چند اہم اور متفرق مسائل

عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول ہیں!
خطبۂ مسنونہ کے بعد :
لإِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ۞ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
(آلِ عمران آیت نمبر ٥٩ ۔ ٦٠  )

        بزرگو اور بھائیو، آج جو پارہ پڑھا گیا ہے ، اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ، بہت طویل مضامین آئے ہیں ، ان تمام مضامین کو مختصر وقت میں بیان کرنا مشکل ہے ، اس لئے ان میں سے ایک حصہ آپ حضرات کے گوش گذار کرتا ہوں ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کا ایک مقصد ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خبر دینا ہے :

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم سے بالکل متصل زمانہ میں آئے ہیں ، بیچ میں کسی نبی کا فاصلہ نہیں ، اور ان سے پہلے حضرت یحیٰ علیہ السلام تشریف لائے ہیں ، یہ دونوں خالہ زاد بھائی تھے ، اور دونوں تقریباﹰ ہم عمر تھے ، اور حضرت یحیٰ علیہ السلام چھ سات مہینے بڑے تھے ، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام چھوٹے تھے ، اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کی بعثت کا ایک مقصد ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی اطلاع دینا تھا ، وہ اعلان کرتے تھے کہ کلمة اللہ آرہے ہیں ، روح اللہ آرہے ہیں ، ان پر ایمان لانے کےلئے تیار ہوجاؤ ۔

        اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کا ایک اہم مقصد ، فخرِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ قریب آنے کی اطلاع دینا تھا ، لوگوں کو بتانا تھا ، کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لانے والے ہیں ، ان پر ایمان لانے کےلئے تیار ہوجاؤ ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :
وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ 
( سورة الصف آیت نمبر ٦ )
میں ایک ایسے رسول کی خوشخبری سنارہا ہوں ، جو میرے بعد آئیں گے ، میرے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد آئیں گے ، جن کا نامِ پاک ‌‌"‌‌احمد‌‌"‌‌ ہوگا ۔

احمد وصفی نام ہے ، اور محمد ذاتی :

        أحْمَدُ : أکبر کے وزن پر ہے ، اور اسم تفضیل ہے ، اور اس کے معنیٰ ہیں : سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ، اور یہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا وصفی نام ہے ، جو نام کسی خوبی کو ظاہر کرتا ہے ، اس کو وصفی نام کہتے ہیں ، اور ذاتی نام کو عَلم کہتے ہیں ، جیسے ایک شخص کا نام عبدالرحیم ہے ، تو یہ علم ( ذاتی نام ) ہے ، اور وہ مفتی ، حافظ ، قاری بھی ہے ، تو یہ مفتی ، حافظ اور قاری وصفی نام ہیں ، آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا علم ( خاص نام ) محمد ؑ  ہے ، اور وصفی نام بہت ہیں ، بعض حضرات نے ننانوے نام اکٹھا کئے ہیں ، اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں ، ان وصفی ناموں میں ایک نام احمد بھی ہے ، اس کے معنیٰ ہیں : اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ۔

انجیل میں نبی پاک ﷺ کا وصفی نام احمد ہے :

        انجیل میں ، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے ، اور جو سریانی زبان میں تھی ، اس میں آنحضورﷺ کا وصفی نام : پیروکلی طس  (Peroclitus )  آیا ہے ، جس کی عربی فارقلیط ہے ، یہ سریانی زبان کا لفظ ہے ، اس کا مفہوم وہی ہے ، جو احمد کا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ۔

ویدوں اور پرانوں میں آنحضورﷺ کی بشارت :

        نبی پاک ﷺ کی بشارت ویدوں میں بھی ہے ، اور پرانوں میں بھی ، ویدوں میں آپ ﷺ کا نام : نراشیش آیا ہے ، اور پرانوں میں کلکی اوتار ، اور یہ کتنی پرانی کتابیں ہیں ، اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے ، بعض کہتے ہیں : حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹوں کو ، جو کتابیں دی گئی تھیں ، وہ یہ ہیں ، اللہ جانے حقیقت کیا ہے ؟ ان کی تاریخ مجہول ہے ، اور نراشیش جس کی وید میں بشارت دی گئی ہے ، اس کے معنیٰ ہیں : اللہ تعالیٰ کی بےحد پرسنا ( تعریف ) کرنے والا ، یعنی لفظِ احمد کے جو معنیٰ ہیں ، وہی اس لفظ کے بھی ہیں ، اور پرانوں میں کلکی اوتار ہے ، جس کے معنیٰ ہیں : خاتم النبین ( ﷺ  ) ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ختمِ نبوت کا نمونہ تھی :

        غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی پاک ﷺ کی بشارت لے کر آئے ہیں ، اور اللہ تعالٰی نے ان کی پیدائش میں دنیا والوں کو ایک معجزہ دکھایا ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کے بعد سنتِ الٰہی یہ چلی آرہی تھی ، کہ مرد و زن کے ملنے سے انسان پیدا ہوتا تھا ، مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا ، اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ کیوں دکھایا ؟ کسی اور نبی کو بغیر باپ کے کیوں پیدا نہیں کیا ؟ اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی پاک ﷺ سے بالکل متصل زمانے میں مبعوث ہوئے ہیں ، ان کے اور نبی پاک ﷺ کے درمیان کسی نبی کا فاصلہ نہیں ، اور ان کی بعثت کا اہم ترین مقصد ، آپ ﷺ کی آمد کی بشارت دینا تھا ، اور آج تک نبوت کے جو مختلف سلسلے جاری تھے ، اللہ تعالیٰ ان کو نبیِ آخر الزماں ﷺ کی ذات میں سمیٹنے والے تھے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس نبی کو ، جو آنحضورﷺ سے متصل تھے ، بغیر باپ کے پیدا کرکے دنیا والوں کو دکھایا ، کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں سب کچھ ہے ، وہ نبوت کے تمام سلسلوں کو ایک ہستی میں سمیٹنے پر قادر ہیں ، جو ہستی بغیر باپ کے ، صرف ماں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کرسکتی ہے ، وہ ایک ذات میں نبوت کو کیوں نہیں سمیٹ سکتی ؟ نبوت کے تمام سلسلوں کو ایک ذات میں سمیٹ دینا ، اتنا مستعبد نہیں ، جتنا بغیر باپ کے انسان کو پیدا کرنا مستعبد ہے ، غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عجیب پیدائش آنحضورﷺ کے خاتم النبین ہونے کی دلیل ہے ، بغیر باپ کے ان کو اس لئے پیدا کیا ، کہ وہ خاتم النبین ﷺ کی بشارت لے کر آئے تھے ، اور خاتم النبین ﷺ کے زمانے سے متصل زمانہ میں آئے تھے ۔

عیسائیوں کو لفظِ روح اللہ اور کلمة اللہ سے دھوکہ ہوا :

        حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں چند باتیں جمع ہوگئی تھیں ، ان میں سے چار باتیں ایسی تھیں ، جو دوسرے انبیائے کرام میں نہیں تھیں ، اس لئے ان کے ماننے والوں کو ان کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ❶ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ‌‌"کلمة اللہ ‌‌"  اور ‌‌"‌‌روح اللہ " تھا ، ❷ انجیل میں ان کو ابن اللہ ( اللہ کا بیٹا ) کہا گیا ہے ، ❸ ان کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ہے ، ❹ ان کا آسمان پر اٹھایا جانا ہے ۔

چاروں باتوں کی تفصیل :

        پہلی بات : آج ہی یہ آیت پڑھی گئی ہے ، کہ عیسیٰ علیہ السلام کلمة اللہ ( اللہ کا بول ) ہیں ، جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی طرف ڈالا ، اور وہ روح اللہ ہیں ، انجیل میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یہ القاب آئے ہیں ، اور جب وہ ‌‌"‌‌اللہ کی روح" ہیں ، تو وہ یا تو خود خدا ہیں ، یا خدائی کا حصہ ہیں ، یعنی اس میں شریک ہیں ، چنانچہ اکثر عیسائیوں کا یہی عقیدہ ہے ، کہ وہ تہائی خدا ہیں ۔

ہندؤں کے عقیدۂ اوتار کی حقیقت :

        ہندؤں کے یہاں اوتار کا عقیدہ ہے ، وہ کہتے ہیں : دنیا میں جب فساد بڑھتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ کسی عورت کے پیٹ سے انسانی بھیس میں پیدا ہوتے ہیں ، وہ انسان درحقیقت اللہ ہوتا ہے ، وہ لوگ اس کو اوتار کہتے ہیں ، وہ انسان بڑا ہوکر ، لوگوں کی اصلاح کرتا ہے ، پھر وہ انسان مرجاتا ہے ، اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی جگہ چلے جاتے ہیں ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ خدا ہیں ، نہ خدا کا کوئی حصہ :

        اسی طرح عیسائی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کہتے ہیں ، یا خدائی میں حصہ دار مانتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس نظریہ کو رد کیا ہے : {لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ } ( المائدہ آیت نمبر ١٧ ) بلاشبہ وہ لوگ کافر ہیں ، جو یہ کہتے ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم ہی ہیں ، آپ کہئے : اگر ایسا ہے تو بتلاؤ! اللہ تعالیٰ حضرت مسیح بن مریم کو ، اور ان کی والدہ کو ، اور جتنے زمین میں ہیں ، ان سب کو ہلاک کرنا چاہیں ، تو کون ایسا ہے ، جو اللہ تعالیٰ سے ان کو بچائے ؟ اور اللہ تعالٰی ہی کی آسمانوں پر ، زمین پر ، اور جتنی چیزیں ان میں ہیں ، ان پر حکومت ہے ، وہ جو چاہیں پیدا کرسکتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں ۔

        اس آیت میں صاف فرمادیا ہے ، کہ جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں ، وہ کافر ہیں ، اور یہ بعض عیسائیوں کا عقیدہ تھا ، اور ہوسکتا ہے وہ آج بھی موجود ہوں ، اس لئے کہ عیسائیوں میں اتنے فرقے ہیں ، کہ ہم کہاں تک ان کے احوال جانیں گے ؟ لیکن عیسائیوں کی اکثریت اس کی قائل نہیں ، اکثر عیسائی تین کے مجموعہ کو خدا کہتے ہیں ، وہ ایک خدا کے تین حصے کرتے ہیں ، اس نظریہ کی بھی قرآن کریم نے تردید کی ہے ، فرمایا : {لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ } ( المائدہ آیت نمبر ٧٣ ) وہ لوگ بھی کافر ہیں ، جنہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ تین میں سے ایک ہیں ، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو تین میں سے ایک مانا ، انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کا انکار کردیا ۔

        دونوں عقیدے کفر ہیں ، جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم ہیں ، انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کو مانا ہی نہیں ، اور جنہوں نے کہا ، کہ اللہ تین میں سے ایک ہیں ، انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں مانا ، پھر فرمایا : { وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اِلٰہٌ وَاحِدَةٌ } جبکہ ایک معبود کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ کامل و مکمل ہیں ، ان کا کوئی حصہ دار نہیں ، اور عیسائیوں میں جو یہ عقیدے پیدا ہوئے ہیں ، وہ لفظ کلمة اللہ ، اور روح اللہ سے پیدا ہوئے ہیں ، یہیں سے ان کو دھوکہ ہوا ہے ۔

روح اللہ کی حقیقت :

        آپ لوگ چونکہ عربی نہیں جانتے ، اس لئے ذرا تفصیل سے سمجھاؤنگا ، روح اللہ میں روح کی اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت ہے ، اور عربی میں اضافت مختلف مقاصد سے کی جاتی ہے ، ان مقاصد میں سے ایک مقصد ‌‌"‌‌تشریف" ہے ، جیسے بیت اللہ میں اضافت تشریف کےلئے ہے ، اللہ کے گھر کا یہ مطلب نہیں ہے ، کہ اللہ تعالیٰ وہاں رہتے ہیں ، وہ مکانیت سے پاک ہیں ، بلکہ اس گھر کی عظمت ظاہر کرنے کےلئے یہ اضافت کی گئی ہے ، جیسے ہم مسجدوں کو ‌‌"‌‌اللہ کا گھر" کہتے ہیں ، اس سے ہم ان جگہوں کا بابرکت اور معزز ہونا ظاہر کرتے ہیں ، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو ، جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے ، اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کا معزز و محترم ہونا ، بیان کرنا مقصود ہے ، اس کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں ، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی روح کا کل ، یا بعض عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں ڈالا ۔

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا :

        جیسے حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ، تو تمام مخلوقات کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ، پس سب سجدہ ریز ہوگئے ، یہاں تک کہ ملائکہ بھی سجدہ ریز ہوگئے ، جو سب سے بڑی اور اشرف مخلوق تھے ، مگر ابلیس لعین نے سجدہ نہیں کیا ، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ } ( ص آیت نمبر ٧٥ ) جس مخلوق کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ، اس کے سامنے تو نے سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ کیا تو غرور میں آگیا ، یا تو بڑے درجہ والوں میں سے ہے ؟ ارشادِ پاک ‌‌"جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا‌‌" کا یہ مطلب نہیں ہے ، کہ اللہ تعالیٰ اوزار لے کر حضرت آدم علیہ السلام کو گھڑنے بیٹھے تھے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے ، کہ میں نے اپنی خاص قدرت سے بنایا ، معزز و محترم مخلوق بنایا ، پھر تو نے سجدہ کیوں نہ کیا ؟ یہاں بیدی میں اضافت تشریف کےلئے ہے ، اسی طرح روح اللہ میں بھی اضافت تشریف کےلئے ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا :

        اسی طرح حدیث شریف میں ہے : اِن اللہ خلق آدم علیٰ صورتہ ( مشکوٰۃ شریف حدیث نمبر ٤٦٢٨ ) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اپنی صورت پر پیدا کیا ، بعض لوگ علیٰ صورتہ کی ضمیر آدم علیہ السلام کی طرف لوٹاتے ہیں ، کیونکہ اقرب وہی ہے ، یعنی آدم کو آدم کی صورت پر پیدا کیا ، یہ مہمل بات ہے ، ہر مخلوق اسی کی صورت پر پیدا کی گئی ہے ، بھینس بھینس کی صورت پر پیدا کی گئی ہے ، بیل بیل کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے ، پس اگر آدم آدم کی صورت پر پیدا کئے گئے ، تو یہ کونسی نئی بات ہوئی ؟ بلکہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ، اور اضافت ، تشریف کےلئے ہے ، یعنی نہایت شاندار صورت پر پیدا کیا ، اپنی صورت پر پیدا کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے ، کہ جیسی ہماری صورت ہے ، ویسی ہی اللہ تعالیٰ کی صورت ہے ، بلکہ انسان کی عظمت ، شرافت اور بزرگی ظاہر کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت کو اپنی طرف منسوب کیا ہے ، اور عربی کا مشہور قاعدہ ہے ، کہ کبھی ایک چیز کی دوسری چیز کی طرف نسبت : عظمت ، شرافت اور بزرگی ظاہر کرنے کےلئے کی جاتی ہے ، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کی جو اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت ہے ، وہ عظمت و بزرگی ظاہر کرنے کےلئے ہے ، اور بس ۔

کلمة اللہ کی حقیقت :

        اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات انوکھے انداز پر پیدا کی ہے ، ارشاد فرمایا : {بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ } وہ موجد ہیں آسمانوں اور زمین کے ، اور جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتے ہیں ، تو بس اس کو کہتے ہیں ، کہ ہو جا ! پس وہ ہوجاتا ہے ۔

تفسیر :

        اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات انوکھے انداز پر پیدا فرمائی ہے ، جب کبھی اللہ تعالیٰ کسی چیز کے پیدا کرنے کا فیصلہ فرماتے ہیں ، تو بس یہ کہتے ہیں : ہوجا ، پس وہ ہوجاتی ہے ، کسی مادّے کی ضرورت نہیں ہوتی ، اللہ کا حکم ہی سب کچھ ہوتا ہے ، پس ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے کلمۂ کن سے پیدا ہوئی ہے ، سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام بھی اسی طرح پیدا ہوئے ہیں ، اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کچھ خصوصیت نہیں ہے ، ارشادِ خداوندی ہے : {إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ } ( آل عمران آیت نمبر ٥٩ ) عیسیٰ کی حالتِ عجیبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ، آدم کی حالتِ عجیبہ کی طرح ہے ، ان کو مٹی سے بنایا ، پھر ان سے کہا : ہوجا ، پس وہ ہوگئے ، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وجود کا حکم دیا ، تو وہ موجود ہوگئے ، پس ساری ہی کائنات کلمة اللہ سے پیدا ہوئی ہے ، اور کَلِمَۃٌ اَلْقَاھَا اِلٰی مَرْیَمَ کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی مادّے کے ، محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریم رضی اللہ عنہا کے بطن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود ہوگیا ، آدم علیہ السلام بھی اسی طرح کلمۂ کن سے پیدا ہوئے ہیں ، پس کلمة اللہ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کچھ تخصیص نہیں ، مگر ان دو لفظوں سے عیسائیوں کو دھوکہ ہوا ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کا مطلب :

        اور دوسری بات ، جس کی وجہ سے عیسائیوں کو غلط فہمی ہوئی ، وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل میں ابن اللہ کہا گیا ہے ، اور یہ لفظ اس وقت بھی بائبل میں موجود ہے ، اس لفظ سے ان کو دھوکہ ہوا ، انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا ، حالانکہ یہود و نصاریٰ خود کو بھی اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ، قرآن کریم میں ان کا قول ہے : { نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ } ( مائدہ آیت نمبر ١٨ ) یہود و نصاریٰ کہتے ہیں : ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور چہیتے ہیں ، جب یہود و نصاریٰ خود کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ، اور بیٹا کہنے کی وجہ سے ، وہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بیٹے نہیں بن گئے ، تو عیسیٰ حقیقی بیٹے کیسے ہوگئے ؟ در حقیقت یہ پیار کا لفظ ہے ، جیسے  چھوٹے بچے سے کہتے ہیں : بیٹا ! ذرا پانی لانا ، پس اس کو بیٹا کہنے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں ہوجاتا ، اور یہ استعارہ ہر زبان میں رائج ہے ، مگر عیسائیوں کو اس لفظ سے دھوکہ ہوا ۔

عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا بھی دھوکہ کا سبب بنا :

        تیسری چیز جس سے عیسائیوں کو دھوکہ ہوا ، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ہے ، انہوں نے سوچا : بغیر باپ کے بیٹا کیسے ہوسکتا ہے ؟ لامحالہ حضرت عیسیٰ کے باپ اللہ تعالیٰ ہیں ، اور وہ اللہ کے بیٹے ہیں ۔

        ایک لطیفہ : جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا ، تو انہوں نے سارے ملک کو عیسائی بنانے کا پلان بنایا ، اس کےلئے انہوں نے انگلینڈ سے پادریوں کی ٹیم بلائی ، اور ان کو سارے ہندوستان میں پھیلادیا ، پادری پولیس کے ساتھ شہر کی کسی بڑی مسجد میں ، کسی نماز کے وقت پہنچ جاتے تھے ، جب نماز ختم ہوتی ، تو پولیس لوگوں کو زبردستی بٹھاتی ، کہ پادری صاحب کا بیان سن کر جاؤ ، دہلی کی جامع مسجد کا واقعہ ہے ، ایک پادری پولیس کے ساتھ آیا ، نماز کے بعد پولیس نے سب لوگوں کو روک دیا ، اور پادری نے ڈرامائی انداز میں تقریر شروع کی ، مجمع میں سے دس پندرہ آدمیوں کو کھڑا کیا ، ہر ایک سے اس کا ، اور اس کے باپ کا نام پوچھا ، سب نے اپنا اور اپنے باپ کا نام بتایا ، تب پادری نے کہا : ارے مسلمانو! تمہاری عقل پر پتھر پڑگئے ہیں ، تم میں سے کوئی بھی بغیر باپ کا نہیں ، اور تم حضرت عیسیٰ کو اللہ کا رسول اور پیغمبر مانتے ہو ، پھر کہتے ہو : ان کا کوئی باپ نہیں تھا ، کیسی بھونڈی بات بکتے ہو ، جاؤ ! اگلی نماز میں اپنے مولویوں سے پوچھ کر اس کا جواب لانا ۔

        مجمع میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا ، اس نے کہا : پادری صاحب ! آپ بتائیں : عیسیٰ کا باپ کون ہے ؟ پادری نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کے باپ ہیں ، اس شخص نے پوچھا : اللہ تعالیٰ کے کتنے بیٹے ہیں ؟ پادری نے جواب دیا : صرف عیسیٰ ، اس شخص نے پوچھا : اور کوئی بیٹا نہیں ؟ پادری نے کہا : نہیں ، پس اس شخص نے کہا : تیرے اللہ سے تو میں اچھا ، میرے دس لڑکے ہیں ، جب اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہیں ، تو پھر ان کا ایک ہی بیٹا کیوں ؟ ان کے تو انگنت بیٹے ہونے چاہئیں ، جا اگلی نماز میں اس کا جواب لانا ، پس پادری کی سِٹی گم ہوگئی ، اور وہ اگلی نماز میں آیا ہی نہیں ۔

اگر بغیر باپ کے پیدا ہونا ، خدائی کی دلیل ہے ، تو آدم علیہ السلام اس کے زیادہ مستحق ہیں :

        خیر بات یہ چل رہی تھی ، کہ عیسائیوں کو لفظِ ابن اللہ سے بھی دھوکہ ہوا ہے ، انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا سمجھ لیا ، اور بیٹا باپ کی جائیداد میں حصہ دار ہوتا ہے ، اور اللہ کی جائداد ان کی ‌‌"خدائی‌‌" ہے ، اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدائی میں شریک ہوگئے ۔

        قرآن کریم نے نہایت سادہ انداز میں اس بات کو سمجھایا ہے ، کہ بغیر باپ کے پیدا ہونے سے ، خدا ہونا ، یا خدائی میں حصہ دار ہونا لازم نہیں آتا ، حضرت آدم علیہ السلام ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے ہیں ، مگر تم ان کو خدا نہیں مانتے ، پس جب آدم علیہ السلام ماں باپ کے بغیر پیدا ہونے کے باوجود خدا نہیں ہیں ، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کہاں سے ہوگئے ؟ ارشادِ خداوندی ہے : {إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ } حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آدم علیہ السلام جیسا ہے ، ان کا معاملہ کیا ہے ؟ ان کا پتلا مٹی سے تیار کیا ، اور حکم دیا ، ہوجا ! تو وہ ہوگئے ، اور وہ مخلوق ہیں ، خدا نہیں ، { الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ } اور یہ تیرے پروردگار کی طرف سے بالکل سچی بات ہے ، اس میں ذرا شک نہیں ، پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ، تجھے اس میں ذرا شک نہیں ہونا چاھئے ، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ، اور رسول ہیں ، اور بس ۔

ہر نوع کا پہلا جوڑا براہِ راست مٹی سے پیدا کیا گیا ہے :

        یہاں یہ بات سمجھ لینی چاھئے کہ ہر نوع کا پہلا جوڑا بغیر کسی واسطہ کے مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ، کوئی بھی نوع ہو ، گائے ہو ، بھینس ہو ، بکری ہو ، یا اونٹ ہو ، ہر نوع کے پہلے دو فرد ( نر و مادہ ) براہِ راست مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ، آدم و حواء بھی مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ،

        اس کی تفصیل یہ ہے کہ زمین پر تین قسم کی مخلوقات ہیں ، ایک : کیڑے مکوڑے ، ان کی پیدائش براہِ راست مٹی سے ہوتی ہے ، ان میں توالد و تناسل نہیں ہوتا ، تمام حیوانات مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ، اسی طرح کیڑے مکوڑے آج بھی مٹی سے پیدا ہوتے ہیں ، پھر جب وہ مرجاتے ہیں ، تو دوسرے پیدا ہوجاتے ہیں ، آج کچھ نہیں ہوتا ، کل بارش ہوگئی ، اور پوری زمین کیڑوں سے بھر گئی ، پھر ایک دن آتا ہے ، کہ سب مرجاتے ہیں ، غرض مخلوق کی ایک قسم تو یہ ہے ، کہ جو سیدھے مٹی سے پیدا ہوتے ہیں ، زمین میں اللہ تعالیٰ نے بےپناہ تخلیق کی صلاحیت رکھی ہے ، ہمارا جسم بھی چونکہ مٹی سے بنا ہے ، اس لئے اس میں بھی یہ صلاحیت ہے ، آدمی کے جسم میں زخم لگتا ہے ، تو وہاں کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں ، پیٹ میں کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں ۔

        دوسری قسم کی مخلوق وہ ہے ، جو مٹی سے پیدا ہوتی ہیں ، اور ان میں توالد و تناسل بھی ہوتا ہے ، جیسے مچھلی ، براہِ راست کیچ سے بھی پیدا ہوتی ہے ، اور اس میں توالد و تناسل بھی ہوتا ہے ، ان میں نر و مادہ ہوتے ہیں ، ان کے بچے بھی پیدا ہوتے ہیں ، اور براہِ راست مٹی سے بھی وہ پیدا ہوتی ہے ۔

        تیسری قسم کی مخلوق وہ ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے شروع میں مٹی سے بنایا ، پھر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہوا ، اب دوبارہ سیدھے مٹی سے پیدا نہیں ہوتے ، پہلی گائے اور پہلا بیل براہِ راست مٹی سے پیدا ہوئے ہیں ، پھر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہوا ، اسی طرح انسان کے پہلے دو فرد مٹی سے پیدا کئے گئے ، پھر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہوگیا ، اب انسان سیدھے مٹی سے پیدا نہیں ہوتے ۔

        حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں ، وہ مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ، اور دادی حواء رضی اللہ عنہا کے بارے میں روح المعانی جلد نمبر ٤ صفحہ نمبر ١٨١ کے حاشیہ میں امام باقر رحمہ اللہ تعالیٰ ( جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے خاص شاگرد ہیں ) کی طرف منسوب کرکے یہ قول لکھا ہے ، کہ حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا بنانے کے بعد جو مٹی بچ گئی تھی ، اس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء رضی اللہ عنہا کو بنایا : قیل : اِنھا خُلقت من فضل طینتہ ، و نُسب للباقر ، اور یہ جو مشہور ہے کہ حضرت حواء رضی اللہ عنہا حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں ، یہ اسرائیلی روایات ہے ، اور آنحضورﷺ کا یہ ارشاد کہ عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرو ، کیونکہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں ، اور پسلیوں میں سب سے ٹیڑھی پسلی اوپر کی ہے ، یعنی اس نہایت کج پسلی سے عورتیں پیدا کی گئی ہیں ( مشکوٰۃ شریف حدیث نمبر ٣٢٣٨ ) اس حدیث میں عورت کی تخلیق کا بیان نہیں ہے ، بلکہ نسوانی فطرت میں نہایت کجی کی تمثیل ہے ، اور یہ تصور کہ حضرت حواء رضی اللہ عنہا حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں جانب کی سب سے اوپر کی پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں ، یہ تصور بائبل ( کتاب پیدائش : باب ٢ آیات ٢٢ ‌= ٢٤ ) کا ہے ، پھر وہاں سے اسلامی روایات میں آیا ہے ۔

حضرت عیسیٰ ؑ بغیر باپ کے کیوں پیدا کئے گئے :

        یہاں سے اس اعتراض کا جواب بھی نکل آیا ، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف بغیر باپ کے کیوں پیدا کئے گئے ؟ ان کو بھی بغیر ماں باپ کے مٹی سے کیوں پیدا نہیں کیا گیا ؟ جواب یہ ہے کہ انسان کے صرف پہلے دو فرد مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ، پھر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہوا ہے ، اس کے بعد کوئی انسان براہِ راست مٹی سے پیدا نہیں ہوا ، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق اس طرح کیسے ہوتی ؟

        رہی چوتھی بات : یعنی ان کا آسمان پر اٹھایا جانا ، جس سے عیسائیوں کو غلط فہمی ہوئی ہے ، اس کا جواب میں نے ایک دوسری تقریر میں تفصیل سے بیان کیا ہے ، اس لئے اس کا ذکر چھوڑتا ہوں ، اب آخری بات عرض کرتا ہوں ۔

الوہیت اور احتیاج میں منافات ہے :

        کچھ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بھی خدائی میں شریک گردانتے ہیں ، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : { وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ } ( المائدہ آیت نمبر ٧٥ ) ان کی والدہ ، صدیقہ تھیں ، دونوں کھانا کھاتے تھے ، اور جو کھانا کھاتا ہے ، وہ کھانے کا محتاج ہوتا ہے ، پھر جو کھانا کھاتا ہے ، اس کو بیت الخلاء کی بھی حاجت ہوتی ہے ، اور اللہ تعالٰی کا کلام چونکہ نہایت فصیح و بلیغ ہے ، اس لئے یہ بات صراحةً نہیں کہی گئی ، مگر مراد ہے ، اور احتیاج خدائی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی ، پس ثابت ہوگیا ، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اور ان کی والدہ اللہ تعالیٰ کی نیک بندی ہیں ۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
.........................................

چند اہم اور متفرق مسائل

مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند

ناقل: عادل سعیدی پالن پوری

قسط نمبر: بارہ

No comments:

Post a Comment