Sunday, 24 April 2016

ناول نویسی اور فکشن نگاری کی شرعی حیثیت

زبان وادب کی اصناف میں جہاں اور چیزیں شامل ہیں، ان میں "ناول" اور "فکشن" بھی ہے- آگے بڑھنے سے پہلے ان دونوں کی تعریفات بھی پڑھتے چلیے
ناول کی تعریف:
"ناول" اطالوی زبان کے لفظ "ناویلا" سے نکلا ہے، جس کے معنیٰ ہیں "نیا، نادر" یہی "ناویلا " انگریزی میں آیا تو "ناول "ہوگیا- اس کی تعریف یہ ہے:
ناول ایک نثری قصہ ہے، جو کہ ایک پوری زندگی پر لکھا جاتا ہے، جس میں مختلف کردار ہوتےہیں- اس کے عناصر ترکیبی میں ایک اچھی کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے، اسلوب اور موضوع وغیرہ شامل ہوتے ہیں.
افسانے کی تعریف:
افسانہ فارسی زبان سے ماخوذ ہے، لغت کےاعتبار سےافسانہ ایسی کہانی کو کہتےہیں جوصرف قصہ یا جھوٹی کہانی ہو، جو اپنے پاس سے بنائی گئی ہو، لیکن ادبی اصطلاح میں ایک سچی اور حقیقی کہانی کو افسانہ کہاجاتاہے، جس میں کسی ایک واقعہ کو بنیاد بناکر کہانی کی تشکیل کی گئی اور جس میں حقیقی زندگی کےکسی ایک جز کو لےکر کہانی بنی ہو -ناول زندگی کا کل اور افسانہ زندگی کا ایک جز پیش کرتاہے.
(بحوالہ ویکی پیڈیا)                                            
ناول اور افسانہ کی جو تعریفات کی گئی ہیں، ان کے حساب سے ان میں سچے واقعات کی عکاسی ہوتی ہے، مگر درحقیقت ایسا ہے نہیں-ناول بالعموم کذب وافترا، فحش وبے حیائی، اخلاقی دیوالیہ پن اور دماغی خلل کا ترجمان ہوتا ہے، جب کہ افسانہ کومفروضات کا ایک مختصر سا ڈھانچہ کہہ سکتےہیں-افسانہ میں بھی "معاشقوں، رنگین مزاجیوں اور آوارگیوں" کی بڑی آمیزش ہوتی ہے- آپ منٹو، عصمت چغتائی، جوش ملیح آبادی اور ان جیسے سیکڑوں ادبا کی تحریریں پڑھیے! معلوم ہوگا کہ ابلیس "کوہِ قاف" کی حسین وادیوں میں لے گیا ہے- الحمد للہ میں نے ناول اور افسانہ کبھی نہیں پڑھا، اپنے بعض احباب کو دیکھتا تھا کہ ان تحریروں کے سحر میں گرفتاراور "دانہ پانی" سے بےپروا ہوچکے ہیں، موٹی موٹی جلدیں دو سے تین دنوں میں چاٹ ڈالتے- انہماک اس درجہ کہ ان کےسامنے سے کوئی سامان اٹھالے تو انہیں خبر نہ ہو- شب وروز کا بس ایک مشغلہ؛ ناول پڑھو اور پڑجاؤ- عبادات تک میں رخنے- ایک دن مجھے بھی شوق پیدا ہوا، ایک صاحب سے عاریۃً کتاب لی، مگر دوتین ورق سے آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوسکی- یہ اللہ کی طرف سے خصوصی انعام تھا کہ میں ان واہیات میں کبھی پڑھ ہی نہ سکا- دیکھا یہ گیا ہے کہ اس طرح کی تحریریں دین بیزار اور الحاد زدہ قسم کے افراد کے قلم سے آتی ہیں- ایسے لکھاڑ نفسِ امارہ کے اسیر ،اتباعِ ہوا کے شکار اور شیاطین کے "بندۂ بےدام" ہوتےہیں -ً یہ قوم "مزاجِ شریعت" سے آشنا نہیں ہوتی- انہیں کو ادب اور "معیاری" زبان سے تعبیر کیا جاتا ہے- یہ حضرات اپنی قلمی توانائی کل کا کل ناول نگاریوں اور افسانہ نویسیوں میں جھونک دیں گے ،لیکن اشاعتِ اسلام اور دفاعِ مذہب میں ان کا راہوارِ قلم ایک دو قدم بھی نہ چل سکےگا- شریعت کی رو سے دیکھئے تو ان کی جگہ  "محرّمات" کے زمرے میں ہے- مفتئ اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع دیوبندی لکھتےہیں:
اس زمانے میں بیشتر نوجوان فحش ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں- یہ سب چیزیں اسی قسم لہوِ حرام میں داخل ہیں-اسی طرح گمراہ اہلِ باطل کے خیالات کا مطالعہ بھی عوام کےلیے گمراہی کا سبب ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے ،راسخ العلم علما ان کےجواب کے لیے دیکھیں تو کوئی مضائقہ نہیں-اورجن کھیلوں میں نہ کفر ہے نہ کھلی ہوئی معصیت، وہ مکروہ ہیں کہ ایک بےفائدہ کام میں اپنی توانائی اور وقت کوضائع کرناہے-
(معارف القرآن جلد ہفتم /ص/۲۳)                                
ناول اور افسانے میں اگر کوئی خرابی نہ بھی ہو تو بھی "جھوٹ پر مبنی" ہونے کی بنا پر ان کا پڑھنا اور گھڑنا دونوں ناجائز ہے-بعض احباب کا خیال ہے کہ افسانے اور ناول وغیرہ چوں کہ تعمیر ِ انسانیت اور ذہن کی صفائی وتیزی کےلیے لکھے جاتےہیں ،اس لیے ان کے پڑھنے اور لکھنے میں کوئی حرج نہیں ،جائز ہے، حالاں کہ یہ بھی درست نہیں-علامہ شامی جھوٹ کی اباحت وحرمت پر روشنی ڈالتے ہوے فرماتےہیں :
والضابط فیہ کما فی تبیین المحارم وغیرہ عن الاحیاء أن کل مقصود محمود یمکن التوصل الیہ بالصدق والکذب جمیعاً فالکذب حرام (الحظر والاباحۃ /ص ۵۲۵) 
جس کا مطلب یہ ہے کہ جس اچھے مقصد کو سچ اور جھوٹ دونوں طرح حاصل کیا جاسکتاہو ، ایسے موقع پر جھوٹ بولنا حرام ہے- سوال یہ ہے کہ انسانی ذہن سازی کے لیے کیا اسلامی تعلیمات کافی نہیں ؟ پھر سچ چھوڑ کر جھوٹ کا سہارا کیوں لیاجائے ؟ قرآن و حدیث سچے واقعات سے بھرے پڑے ہیں- یہ بنو آدم کی فلاح کے لیے ہی ہیں، نہ کہ تضییعِ اوقات کےلیے- بعض احباب ان کے جواز کےلیے فرمانِ رسول
"حدثواعن بنی اسرائیل ولاحرج"
سے استدلال کرتےہیں اور کہتےہیں کہ بنواسرائیل کے واقعات افسانوں پر مشتمل ہونے کےباوجود انہیں بیان کرنے کی اجازت دی گئی ہے، لہذا افسانے اور ناول بھی جائزہیں ،مگر یہ خیال اس حدیث کے محمل سے نا آشنائی کا نتیجہ ہے- استاذنا المحترم مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم لکھتےہیں:
یہود و نصاریٰ سے دین کی کوئی بات روایت کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،البتہ انبیائے بنواسرائیل کے واقعات احادیث میں کم آئےہیں، اس لیے ان کی تفصیلات اگر اصولِ اسلام کے خلاف نہ ہوں تو بنو اسرائیل سے روایت کی جاسکتی ہیں، مگر مفسرینِ کرام جو لمبے چوڑے واقعات آیات کے ذیل میں نقل کرتے ہیں وہ اکثر بے سروپا ہوتےہیں، اس قسم کے واقعات اگر نصِ قرآنی کے خلاف نہ ہوں تو ان کی نہ تصدیق کرنی چاہئے اور نہ تکذیب- اور نہ ان کو تفسیروں اور تقریروں میں بیان کرنا چاہئے-
(تحفۃ الالمعی جلد ششم /ص /445)....
علامہ فضیل احمد ناصری ابن مولانا جمیل احمد ناصری

4 comments:

  1. ہمارے ہندستان کے مشاہیر کا عمل بھی افسانے کی حمایت میں ہے. بہت چھوٹی سی مثال یہ لے لیں کہ عالمی رابطہ ادب اسلامی، افسانے کے ایک سے زائد سمی نار منعقد کرچکا ہے. جن کے داعی حضرت مولانا علی میاں ندوی ہوتے تھے اور ان میں علماء عرب سمیت متعدد علماء کرام شریک ہوتے رہے ہیں. مولانا علی میاں نے تو بچوں کی تربیت کے لیے نہ جانے کتنے خیالی اسباق ترتیب دیے، جو ندوۃ العلماء کے نصاب میں رائج ہیں. خود درس نظامی میں بھی گلزار دبستاں، گلستاں، بوستاں میں خیالی واقعات بھرے پڑے ہیں. کچھ سال پہلے امارت شریعہ، پٹنہ میں بھی رابطے کی دعوت پر اردو افسانے کے متعلق سمی نار ہوا تھا، جس میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، امیر شریعت مولانا سید نظام الدین اور امارت شریعہ و ندوۃ العلماء کے دسیوں علماء شریک تھے. اگر خیالی قصوں کو جھوٹ کے زمرے میں لا کر ناجائز قرار دیا جانے لگے تو ہمیں مثنوی مولانا روم اور گلستاں و بوستاں جیسی حکیمانہ کتابوں کو بھی "جھوٹ کا پوٹلا" قرار دینا ہوگا.

    شاہ اجمل فاروق ندوی

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کی بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن فضیل صاحب کا مقصدِ تحریر جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں ترتیب دئیے ہوئے واقعات ، افسانے اور ناولز ترتیب دئیے جائیں تو ان کا مضائقہ نہیں اور قرآن و سنت کی تعلیم کے مخالف افسانے رد کرنے کے زمرے میں آتے ہییں بلکہ انہیں رد ہی کردینا چاہیے۔
      جیسا کہ انہوں نے مولانا سعیداحمد پالنپوری کی تحریر نقل کی ہے۔ اس سے یہی ،ستفاد ہے۔

      Delete
    2. This comment has been removed by the author.

      Delete
  2. آپ نے اچھے پیرسائے میں بات سمجکھائی ہے م،اشاء اللہ، لیکن اس میں ناولز کی دو قسمیں بنانی چاہییں تھیں ایک قسم ناجائز اور حرام کے زمرے میں آتی ہے جب کہ دوسری قسم جواز کے درجے میں ہے۔ اس کی وضاحت ضروری ہے۔ دوسری تحریرچھوٹے حروف میں لکھی ہے جنہیں پڑہنا دشوار ہے اس تحریر کو جمیل نوری نستعلیق میں ڈھال کرکے فانٹ کا سائز بڑا کریں تاکہ پڑہنے میں آانی ہو۔۔ جزاک اللہ خٰرا


    ReplyDelete