Thursday 21 April 2016

علامہ اقبال اور منفی انکشافات

  ایس اے ساگر

عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے حوالے سے گزشتہ دنوں علامہ فضیل احمد الناصری القاسمی کے تاثرات بعض لوگوں کو پسند نہ آئے ہوں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ 'اپنا گریباں چاک' نے اسی سلسلہ کو دراز کردیا ہے. حالانکہ اسلام میں پس مرگ کسی کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو موضوع سخن بنانا خوشگوار عمل تسلیم نہیں کیا جاتا تاہم ایسی صورت میں جبکہ امت کے بعض دانشور نہ صرف  مغالطہ کے شکار ہوں بلکہ عوام الناس کے عقائد پر بھی جھاڑو پھر رہی ہو تو 'علامہ اقبال سے متعلق منفی انکشافات' کیساتھ ساتھ شریعت کی روشنی میں شعرا کے کلام کا جائزہ لینا ناگزیر ہوجاتا ہے.
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

غنیمت ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب 'اپنا گریباں چاک' میں اسی موضوع پر روشنی ڈالی. پوری کتاب میں کیا کچھ ہوگا،  اس دیگ کا اندازہ چند چاولوں سے لگایا جاسکتا ہے جنھیں ڈاکٹررؤف خیر نے بڑے سلیقہ سے پیش کیا ہے.

 بیٹے کی زبانی :

ماہ نامہ ’الحمرا ‘ لاہور کے سالنامہ جنوری 2013 تا اپریل 2014  کے شماروں میں ڈاکٹر جاوید اقبال کی خود نوشت سوانح حیات ’اپنا گریباں چاک‘ کے اقتباس قابل غور ہیں. جاوید اقبال کی پیدائش 1924ء کی ہے اور علامہ اقبال نے 1938 میں وفات پائی ۔گویا جس وقت باپ کا انتقال ہوا بیٹا صرف چودہ برس کا تھا۔ ڈاکٹر جاوید نے بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے بعض انکشافات بھی کئے۔ کہتے ہیں :

روزہ نماز سے غفلت :

’’ماہ رمضان میں گھر میں والدہ اور دیگر خواتین روزے رکھتیں اور قرآن ِ شریف کی تلاوت کرتیں ۔گھر کے ملازم بھی روزے رکھتے ۔البتہ میرے والد علامہ اقبال شاذو نادر ہی روزہ رکھتے تھے اور جب رکھتے تھے تو ہر چند گھنٹوں کے بعد علی بخش کو بلواکر پوچھتے کہ افطاری میں کتنا وقت باقی ہے ۔
گھر کی خواتین کو نماز پڑھتے دیکھنا مجھے یاد نہیں ۔ والد کو کبھی کبھار فجر کی نماز پڑھتے ضرور دیکھا ہے ۔
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے ماں باپ نے کبھی نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے کے لیے مجبور نہیں کیا ۔
مجھے نہانے سے سخت نفرت تھی لیکن عید کی شب گر م پانی سے والدہ نہلاتیں اور میں بڑے شوق سے نہاتا ۔صبح اٹھ کر نئے کپڑے پہنے جاتے ۔
کلائی پر باندھنے کے لیے مجھے ایک سونے کی گھڑی دی جاتی جو افغانستان کے بادشاہ نادرشاہ نے مجھے تحفے کے طور پر بھیجی تھی ۔

عقائد کے احوال :

ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی خودنوشت سوانح کے تیرھویں باب میں علامہ اقبال کے نام ایک بہت ہی معلوماتی ’دوسرا خط‘ لکھا ہے جس میں انھوں نے اپنے والد کے عقائد پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ مثلاً
۱۔ آپ (علامہ اقبال ) کی رائے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق قانون سازی کے حق میں ہے ۔( صفحہ 282)

۲۔ آپ (اقبال) ایک سے زائد ازدواج (ازواج) کے امتناع کو شرعاً جائز قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معاشرتی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی ریاست کا سربراہ کسی بھی قرآنی حکم یا اجازت کی تعویق، تحدید یا توسیع کرسکتا ہے ۔( صفحہ 282)

۳۔ مولانا شبلی( نعمانی ) کی طرح آپ (علامہ اقبال) مسلمانوں میں فری مارکیٹ اکانومی FREE MARKET ECONOMY کے فروغ کی خاطر بینکوں کے منافع کو ربوا (سود) کے زمرہ میں نہیں لاتے ۔( صفحہ 282). عجیب بات یہ ہے کہ سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایسی پوسٹ گردش کرتی رہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر اقبال کی والدہ نے بینک کی کمائی سے خریدے ہوئے دودھ سے اپنے فرزند کو بچانے کیلئے  بکری پالی ہوئی تھی. ڈاکٹر اقبال کی والدہ اسی بکری کا دودھ بچپن میں اپنے بیٹے کو پلاتی تھیں. یہ اس وقت ہوا جبکہ ان کے شوہر نے بینک میں ملازمت اختیار کرلی تھی.

۴۔ علامہ اقبال کے نزدیک جنت اور دوزخ مقامات نہیں بلکہ احوال یا کیفیات ہیں․․․( صفحہ 282)

۵۔ اقبال کے خیال میں توجنت بھی مستقل عشرت کدہ یا مسلسل عیش و آرام کا کوئی مقام نہیں بلکہ انسان موت کے بعد اگر چاہے تو حیات کا تسلسل ختم کرکے ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوسکتا ہے ۔ایسی روحانی خودکشی کا اسے اختیار ہے (صفحہ 318)۔

۶۔ علامہ اقبال کا قول ہے ’’بدی کی اپنی ایک تعلیمی حیثیت ہے ،نیک لوگ عموماً بے وقوف ہوتے ہیں ‘‘(اپنی سادہ لوحی کے سبب)(صفحہ 254)

مخفی مباد نظا م دکن آصف جاہ سابع میر عثمان علی خاں کے دورِ حکومت میں ایک تحصیلدار کی ماہانہ تنخواہ د س بارہ روپے (حالی )سے زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ خوش حالی کے اس دور میں اتنے مشاہرے میں وہ عیش کیا کرتا تھا۔علا مہ اقبال کا اپنے بچوں کی آیا(گورنس )کو ماہانہ پچاس روپے تنخواہ دینا گویا حاتم کی قبر پر لات مار نا ہے ۔اپنی بیوی کے انتقال کے بعد علامہ اقبال نے اپنے بچوں کی نگہداشت کے لیے ایک جرمن خاتون ڈورسِ کو ماہانہ پچاس روپے پراپنے گھر رکھا جن کی بہن علی گڑھ یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر کی اہلیہ تھیں۔ان سے ملنے ڈورس آئی تھیں۔مگر پروفیسر رشید احمد صدیقی کی ترغیب پر وہ علامہ اقبال کے بچوں کی گورنس بن کر لاہور آگئیں۔اس طرح اقبال کے گھر کا ماحول ،رہن سہن مغربی انداز کا ہوگیا ۔بچے بہت خوش ہوئے۔اقبال چونکہ جرمن زبان جانتے تھے وہ ڈورس سے جرمن ہی میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔اپنی بیٹی منیرہ سے بھی کہتے تھے کہ جرمن زبان سیکھے۔
اقبال کے بھائی نے منیرہ کے لیے ایک چھوٹا سا برقع (غالباً مقنع) تحفتاً بھیجا تو ڈورس ِ سخت غصے میں آئیں۔ اقبال ہنس دیئے اور فرمایا،
’’میرے بڑے بھائی نے یوں منیرہ کے لیے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے ۔آپ ان کا تحفہ رکھ لیں۔ضروری نہیں کہ منیرہ یہ برقع (مقنع) اوڑھے اور میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جب منیرہ بڑی ہوگی تو خواتین میں پردہ رہے گا بھی یا نہیں ‘‘۔
یہ غالباً مقنع تھا جو چھوٹی بچیوں کو بطورِ تربیت شرعی گھرانوں میں پہنا یا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید نے لکھا:
’’منیرہ کے لیے وہ ننھا سا برقع اچھا خاصہ تماشا تھا۔   وہ برقع پہنے گھر میں ادھر ادھر بھاگتی پھرتی۔ جتٰی کہ اس بھاگ دوڑ میں برقع پھٹ کرنا کارہ ہوگیا ۔‘‘
ڈورس کے بحیثیت گورنس تقرر سے پہلے کوئی مسلم خاتون بھی رجوع ہوئی تھیں مگر اُس برقع پوش خاتون کی شرط تھی کہ اقبال اس سے نکاح پڑھوالیں مگر اقبال نے اسے ہنس کر ٹال دیا ۔جاوید اقبال لکھتے ہیں:
’’وہ نہایت رجعت پسند قسم کی مسلمان لگتی تھیں۔برقع پوش تھیں۔ منیرہ نے انھیں دیکھتے ہی مسترد کردیا تھا.‘‘
غالباً وہ دیندار خاتون ایک غیر محرم کے ساتھ ایک ہی چھٹ کے تلے رہنے کا کوئی شرعی جواز چاہتی تھیں۔ لیکن اقبال آخری عمر میں کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے ۔ مغربی تعلیم کے مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں نے خود بھی اس خاتون کو ردکردیا ۔

خطا سے پاک نہیں :

اب ذرا علامہ فضیل احمد الناصری القاسمی کی سن لیجئے جو رقمطراز ہیں کہ "ادب کی اردو دنیا میں ڈاکٹر اقبال "بہت بڑا نام " ہے- ان کا ستارۂ اقبال اس قدر بلند ہے کہ انجم اس خوف سے سہمے جاتے رہے کہ ؎
'یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے'
اتنی چست شاعری کہ 'آبِ نشاط انگیز' کا اس پر گمان ہو- تعبیرات پر شاہانہ گرفت، استعارات وتمثیلات پر کامل دستگاہ وقدرت، ایہامات و کنایات پر ملوکانہ دسترس، تسلسل وروانی پر حیرت ناک عبور، ترسیل افکار و پرورشِ سوز وساز میں سب پر فائق- 'فیاضِ ازل' نے انہیں 'رومی' اور 'غزالی' جیسے صوفی وفلسفی کا آہنگ بھی عطا کیا- آسمانِ شہرت پر ان کا کوئی ہم عصر شاعر ان کی ہمسری نہ کرسکا-وہ عالمِ شعر و سخن کے تن تنہا 'شاعرِ مشرق' ہیں،
لیکن بایں ہمہ وہ انسان ہی تھے 'معصوم عن الخطا' نہ تھے، اس لئے اگر ان سے کوئی فکری لغزش صادر ہوئی تو اسے 'لغزش' ہی سمجھنا چاہئے، وحی و الہام نہیں!"

کسے کہتے ہیں علامہ؟

فضیل الناصری صاحب مزید فرماتے ہیں کہ "میں ان کے مداحوں میں ہوں، بلکہ مستفیدین میں; مگر ان کے کلام میں جابجا فکری 'ٹھوکریں' دیکھ کر اپنے آپ کو نہ روک سکا- چوں کہ بعض ادب دوست ان کا ہر شعر 'استناداً' پیش کرتےہیں، اس لئےضروری ہے کہ ان کی غلط فہمی دور کی جائے، اس سلسلہ میں سب سے پہلےتو یہ عرض ہے کہ ڈاکٹر اقبال 'علامہ' نہیں تھے- اس خطاب کے جملہ حقوق بحق 'ماہرشریعت' محفوظ ہیں- میری نظر میں ان کی جو علمی غلطی سب سے پہلے سامنےآئی، وہ یہ ہے کہ انہوں نے 'اقنطوا' کی جگہ 'تقنطوا' کہہ دیا- دیکھئے یہ شعر؎
جس کی نومیدی سے روشن ہو درونِ کائنات
اس کےحق میں 'تقنطوا' اچھا ہے یا لاتقنطوا
اسی طرح ان کا ایک شعر آج کل بری طرح گردش کررہاہے اور لوگ بے محابا 'بطورسند' اسے نقل بھی کررہے ہیں، حالاں کہ یہ صریح غلط شعر ہے ؎
پتھر کے ان بتوں میں سمجھا ہے تو، خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہرذرہ 'دیوتا' ہے،

محبوب اور معبود میں تفاوت :

ایک مولانا نے 'بھارت ماتا کی جے' کے جواز کی تغلیط میں قرآن وحدیث کی متعدد دلیلیں پیش کیں اور اپنے مضمون کی تان اس مصرع پر توڑی ؎
'خاکِ وطن کا مجھ کو ہرذرہ دیوتا ہے'
گویا دلائل سے جس کی نفی کرر رہے تھے، اس مصرع سے اپنے سارے فراہم کردہ مواد پر جھاڑو پھیر بیٹھے- لفظ 'دیوتا' کو اقبال نے اگرچہ 'محبوب' کے معنیٰ میں لیا ہے، مگر یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے- محبوب کے مفہوم کی ادائیگی کیلئے 'صنم' موجود ہے اور یہ کثیر الاستعمال بھی ہے، لیکن 'دیوتا' ؟؟؟ کبھی نہیں !!! اقبال کی ایک نظم تو اور بھیانک ہے، اس کی شدت کا اندازہ آپ بھی لگائیے! فرماتےہیں؎
لبریز ہے شراب حقیقت سے جامِ ہند
سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے 'رامِ ہند'
یہ ہندیوں کے 'فکرِ فلک رس' کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند
اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں 'ملک سرشت'
مشہورجن کے دم سے ہے دنیا میں نامِ ہند
ہے 'رام' کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو 'امامِ ہند'
اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں، جوش محبت میں فرد تھا۔۔
اس نظم کا ہر شعر اسلامی نظریات و عقائد کے خلاف ہے-

'مشتےنمونہ از خروارے'

علامہ فضیل احمد الناصری مزید فرماتے ہیں کہ "یہ میں نے 'مشتےنمونہ از خروارے' پیش کیا ہے، ورنہ ان کی فکری ٹھوکروں سے کم وبیش نصف کلیات متاثر ہے- میرے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اقبال کا ہرشعر یاد کئے جانے کے ہرگز قابل نہیں، بلکہ چن چن کر کلیات سے ایسے اشعار نکال دینے چاہئیں جو "روح محمد "سے تصادم رکھتےہوں، خواہ کلیات کی ضخامت آدھی کیوں نہ ہوجائے-" غنیمت ہے کہ امت کو نہ صرف ڈاکٹر جاوید اقبال کے انکشافات بلکہ علامہ فضیل احمد ناصری القاسمی ابن مولانا جمیل احمد ناصری کے پرمغز تاثرات بھی نصیب ہوئے. اس سے نہ صرف غلو سے بچا جاسکے گا بلکہ بدعقیدگی سے بھی تحفظ ملے گا. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1938 کے دوران اخبار 'انقلاب' نے 'حضرت علامہ اقبال کا انتقال' کی سرخی کیسے جمادی؟ 

1 comment: