ایس اے ساگر
این آئی اے تفتیشی ایجنسی میں تعینات ڈی ایس پی تنزیل احمد کی شہادت سے فضا سوگوار ہے. پٹھان کوٹ حملہ کی گتھی تو کیا سلجھتی، سماجی روابط کی ویب سائٹس پر تبصرے جاری ہیں جن سے کم از کم یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ تنزیل کسی ایسے راز پر سے پردہ اٹھاسکتے تھے جو شرپسندوں کو رسوا کرکے رکھ دیتا. اندازہ لگائیے کہ ایک منصف مزاج، دیانتدار اور مخلص انسان کی زندگی کو اس ملک میں کتنے خطرات لاحق ہیں . وہ صرف ایک اچھے سپاہی یا جرنیل نہیں تھے بلکہ ایک سچے ہندوستانی بھی تھے. انہیں وطن کی عصمت پیاری تھی، ملک میں قانون کی بالادستی عزیز تھی اور ہر مجرم کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم رکھتے تھے. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ہر وہ زہر ہلاہل اور مفسد عناصر جن کی آنکھ میں ملک کا امن و امان کھٹکتا ہے، جنھیں مثبت انداز فکر راس نہیں آتا،
قومی یکجہتی کو دھکا :
جو ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور قومی یکجہتی کو پسند نہیں کرتے، جو عصبیت پسندی کے مخصوص فتنہ کو ہوا دیتے ہیں اور ملک کی سرزمین کو بے قصوروں کے خون سے رنگنے میں ذرا بھی تکلف نہیں برتتے ، جنھوں نے ملک کو ھلاکت و تباھی کے دہانے پہ لاکھڑا کرنے کا عزم کررکھا ہے، کرکرے سے لیکر تنزیل تک جانے کتنے دیانتدار افسران تاریخ میں معمہ بن چکے ہیں. ضیاءالحق نے بھی مجرمانہ ذھنیت پہ قد غن لگانے کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کی تھی لیکن خود نشانہ بن گئے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کی تاریخ حقیقی محبان وطن کو بے دردی کیساتھ موت کی نیند سلانے کی تلخ حقیقت کو فراموش کر سکے گی؟ رونا اس بات کا ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار اود منصف مزاج لوگ بھی غیر ضروری مباحات میں الجھے ہوئے ہیں.
کہاں گئی قانون کی بالادستی :
ملک کے آئین اور قانون کی بالادستی سے شروع ہونے والی نوک جھونک عقائد کے خیمہ میں جاگھسی ہے جس سے بات کا موضوع ہی بدل کر رہ گیا ہے. یہ تو محض ایک حالیہ مثال ہے. بغور جائزہ لیا جائے تو نہ جانے کتنے ایسے شوشے پھیلے پڑے ہیں جن کے نیچے سنجیدہ موضوع دفن ہوکے رہ گئے ....یہ ایسا ہی ہی ہے جیسے کہ مداری اور جمہورہ مجمع کو کرتبوں میں الجھائے رکھتے ہیں اور چور، اچکے، جیب تراشی میں ماہر بدمعاش محویت کا فائدہ اٹھا کر مجمع کی خون پسینے کی کمائی کو اپنی ملکیت بناتے چلے جاتے ہیں.
No comments:
Post a Comment