Tuesday, 1 March 2016

عملیات وتعویذات کا شرعی حکم کیا ہے ؟

تعویذ کواگرنافع بالذات نہ سمجھا جائے تو ایسا تعویذ جس میں مباح ومسنون ادعیہ، اسمائے الٰہی، آیاتِ قرآنیہ لغتِ مفہومہ میں لکھی ہوئی ہوں لٹکانا گناہ نہیں؛ بلکہ جائز ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ”سنن ابوداوٴد“ میں مروی ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک دعا کو کسی چیز پر لکھ کر ناسمجھ چھوٹے بچوں کے گلے میں لٹکادیا کرتے تھے عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ أن سول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- کان یعلمہم من الفزع کلمات: ”أعوذ بکلمات اللہ التامّة من غضبہ وشرّ عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضورن، وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعْلقہ علیہ (أبوداوٴد، رقم: ۳۸۹۳، باب کیف الرقی) اگر کوئی شخص تعویذ کو (طریقہٴ علاج کے بہ جائے) نافع وموٴثر بالذات سمجھے یا تعویذ شرکیہ یا کفریہ الفاظ پر مشتمل ہو تو اسے لٹکانا قطعا جائز نہیں ہے، آپ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی جو روایت نقل کی ہے اس میں اس طرح کے تعویذ گنڈے وغیرہ سے منع کیا گیا جس میں شرکیہ یا کفریہ چیزیں ہوتی ہیں یا لوگ اسے موٴثر بالذات سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، چنانچہ مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ صحابہٴ کرام نے اللہ کے رسول کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم لوگ زمانہٴ جاہلیت میں تعویذ گنڈے (رقیہ) کیا کرتے تھے، (اب) آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ تو اللہ کے رسول نے فرمایا: ”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک“ یعنی اپنے رقیوں (تعویذ گنڈوں) کو میرے سامنے پیش کرے، رقیہ میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرکیہ کوئی چیز نہ ہو (مسلم، رقم: ۱۷۲۷، باب لا بأس بالرقی الخ)․ (نیز دیکھیں: مرقاة: ۷/۲۸۸۰، بیروت، رد المحتار، ۹/۵۳۳، زکریا)
تعویذات پر اجرت لینا جائز ہے ؟
جائز تعویذ (جیسے کفریہ شرکیہ کلمات نہ ہوں) پر مناسب اجرت لینے کی اجازت ہے، ترمذی شریف میں ہے: عن أبي سعید قال بعثنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في سریة فنزلنا بقوم، فسألناہم القِری فلم یقرونا فلُدِغ سیّدُھم فأتونا فقالوا: ھل فیکم من یرقي من العقرب قلت نعم أنا ولکن لا أرقیہ حتی تعطونا غنمًا قالوا: فإنا نعطیکم ثلاثین شاةً، فقَبِلنا، فقرأت علیہ الحمد سبع مرات فبرأ وقبضنا الغنم قالگ فعرض في أنفسنا منھا شيء فقلنا لا تعجلوا حتی تأتوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال: فلما قدمنا علیہ، ذکرتُ لہ الذي صنعتُ قال: وما علمت أنہا رقیة، اقبضوا الغنم واضربوا لي معکم بسھم، ہذا حدیث حسن صحیح۔ (ترجمہ: ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک غزوے میں بھیجا، تو ہم ایک قوم کے پاس اترے، اور ان سے مہمان نوازی کا سوال کیا، تو انھوں نے ہماری ضیافت نہیں کی، پس ان کے سردار کو ڈس لیا گیا، تو وہ ہمارے پاس آئے اورکہا: کیا تم میں کوئی بچھو کاٹنے پر جھاڑ پھونک کرتا ہے، میں نے کہا: جی ہاں! میں، لیکن میں رقیہ نہیں کرتا یہاں تک کہ تم ہمیں کچھ بکری دو، انہوں نے کہا: ہم تمھیں تیس بکریاں دیں گے، تو ہم نے اس کو منظور کرلیا، اوران پر سات مرتبہ الحمد شریف (سورہٴ فاتحہ) پڑھی، تو وہ ٹھیک ہوگئے اورہم نے بکریاں اپنے قبضے میں لے لیں، راوی کہتے ہیں کہ ان بکریوں کے سلسلے میں ہمارے دل میں کھٹک سی پیدا ہوئی، تو ہم سبھوں نے کہا کہ تم جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاوٴ، راوی کہتے ہیں: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو میں نے جو کچھ کیا تھا اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تمھیں نہیں معلوم کہ وہ رقیہ (تعویذ) ہے، بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگاوٴ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ ہوں
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں ایک عامل جو شرعی اعتبار سے قرآن و سنت کی پابند ی کرتے ہوئے قرآن سے علاج کرتا ہے، اس کے علاج سے عوام الناس کو فائدہ بھی ہوتا ہے وہ ایک بہت معمولی سی رقم مثلاً پچاس روپیہ ایک ہفتہ کے علاج کے لیے لیتا ہے اور اگر کوئی اپنی مرضی سے اس کو دس ہزار روپئے دے تو وہ لے لیتا ہے کیا یہ پیسہ حلال ہے یا حرام؟ پوری صراحت کے ساتھ جواب دیں گے۔ جو کوئی اپنی خوشی سے پیسہ دے تو کیا وہ ہدیہ نہیں کہلائے گا اس کا لینا جائز ہے کہ نہیں؟
Jan 16,2011  Answer: 28887
فتوی(ب): 172=169-2/1432
قرآن سنت کی پابندی کرتے ہوئے جائز طریقے سے تعویذ دینا اور اس پر مناسب اجرت لینا درست ہے، اگر کوئی شخص عامل کو اپنی مرضی سے کوئی رقم ہدیہ میں دے تو عامل کے لیے اسے لینا حلال ہوگا، ابوداوٴد شریف کی ایک روایت ہے جس میں ہے کہ صحابہٴ کرام کی ایک جماعت سفر میں گئی اور انھوں نے وہاں قیمت متعین کرکے جھاڑ پھونک کیا (ابوداوٴد: ۱/۵۴۴) اس حدیث سے اجرت علی التعویذ کے جواز کا پتہ چلتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
کیا کسی عمل سے جنات کو جلانا جائز ہے ؟؟
فتاوی دارالعلوم اون لائن میں ہے
جنات اگر انسان پر چڑھ جائے اور کسی صورت میں آیات قرآنی سے یا تعویذ کے ذریعہ اس کو نہ چھوڑے اور اس کو تکلیف پہنچائے توکیا ایسی صورت میں جنات کو جلانا جائز ہے؟ جب کہ حدیث میں آتاہے کہ آگ کے ذریعہ اللہ تعالی کی مخلوق کو نہ جلاؤ ، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
  Jul 20,2010  Answer: 22083
فتوی(ل):807=636-6/1431
اگر اس کو بھگانے کی کوئی اور شکل نہ ہو تو ضرورةً اس کو جلاسکتے ہیں، حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں ایک جن تھا جو اُن کو پریشان کرتا تھا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوات وکاغذ منگاکر اس پر کچھ لکھوایا اور ابودجانہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس کو گھر میں لٹکادو، جب انھوں نے لٹکایا تو ایک چیخ سنی کہ اے ابودجانہ! تو نے ہمیں جلادیا۔ امام سیوطی نے اس حدیث کو خصائص کبری میں نقل کیا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ: ۱۷/۱۰۴، ط: ڈابھیل، گجرات)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
کیا کوئی جن عورت سے صحبت کر سکتا ہے ؟؟
جی کر سکتا ہے اور اس سے حمل بھی ٹھر سکتا ہے
کما فی فتاوی محمودیہ ۲۰/۳۰
کیا جنات کے لئے شرعی احکام ہیں یا نہیں ؟؟
جی ہاں.
علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بلاشبہ جنات بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مکلف ہیں۔ ۔تفسیر الکبیر، ج10، ص 625
اسی طرح علمائے کرم تحریر کرتے ہیں کہ جنات ہر چیز میں نبی ﷺ کی شریعت کے مکلف ہیں۔ اخبار وآثار میں وارد ہے کہ مومنین جنات نماز پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں، تلاوت قرآن کرتے ہیں ، علوم دینیہ اور روایات حدیث انسانوں سے حاصل کرتے ہیں اگرچہ انسانوں کو اس کا پتہ نہ چلے۔
لیکن یہ تمام باتیں مسلم جنات میں پائی جاتی ہیں جس طرح انسانوں میں کفار موجود ہی اسی طرح جنات میں بھی کفار ہیں۔
فقط واللہ تعالی اعلم
العبد محمد بن سراج عفی عنہ..

1 comment: