Friday, 18 March 2016

पत्रकारिता की आड़ में गोरखधंधा صحافت کی آڑ میں گورکھ دھندہ

ایس اے ساگر
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ احتساب کی روایت زندہ معاشروں کی نشانی ہے۔ جن معاشروں میں احتساب دم توڑ دیتا ہے وہاں انصاف ،عدل کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آر این آئی سے رجسٹریشن حاصل کرکے اخبارات کی آڑ میں دیگر دھندے کرنے والوں کی اب الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے. مفاد عامہ کے تحت داخل کی گئی ایک عرضی نے حکومت کو خواب خرگوش سے جگادیا ہے. ملک بھر میں اخبارات کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی آڑ میں چلایا جانے والا گورکھ دھندہ اب حکومت کیلئے سر درد ثابت ہوگا. تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس معمہ کو حل کرنے کیلئے حکومت اخبارات کی رجسٹریشن پر لگام کسنے کی تیاری کر چکی ہے. اس سلسلہ میں رجسٹریشن کے عمل کو پیچیدہ بنانے کا کام شروع ہو رہا ہے. نئے ضوابط کے تحت اب اخبار کی رجسٹریشن کے دوران باسہولت چھپنے والا متن مالک کا کسی بھی یونیورسٹی یا ادارے سے جاری  کردہ ذرائع ابلاغ میں ڈگری یا ڈپلومہ کا حامل ہونا ضروری ہو گا. ساتھ ہی رجسٹریشن کیلئے سرکاری فیس بھی نافذ کی جائے گی . جبکہ اس سے قبل حکومت اخبار کا رجسٹریشن مفت میں جاری کرتی تھی.
دھماکہ خیز صورتحال :
عام قاری کے ذہن میں بھلے ہی چند ایک اخبارات کے نام محفوظ ہوں لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ دہلی میں ہی اب تک 15 ہزار 696 اخبار رجسٹرڈ کئے جا چکے ہیں. دراصل، اخبارات کی آڑ میں ہر کوئی خود کو صحافی کہلانے کیلئے ایسا کر رہا ہے. اطلاعات و نشریات کی وزارت سے موصولہ معلومات کے مطابق آر این آئی میں رجسٹرڈ تمام اخبارات کا آڈٹ کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر رجسٹریشن متعینہ معیار کے خلاف پائے گئے ہیں.
پیچیدگیوں کا ہجوم :
نئے قوانین کے مطابق  حکومت اب منظور شدہ صحافیوں کو ہی اخبار جاری کرنے کی منظوری دے گی. جن کے پاس اس سے متعلق ڈگری یا ڈپلومہ ہوگا، انہی کے نام اخبار کا رجسٹریشن کیا جائے گا. تشویشناک صورتحال تو یہ ہے کہ اب تک ناخواندہ حضرات بھی اخبار کی رجسٹریشن کرواکے بزعم خود  خود صحافی بن چکے ہیں . اس سے معاشرے میں پیچیدگیاں پنپ رہی ہیں . لوگ یہ طے نہیں کر پاتے کہ سامنے والا صحافی ہے یا نہیں! صحافی بن کر ایسے لوگ سرکاری دفاتر میں رعب جماتے ہیں.
ناشائستگی پر شکنجہ :
اس بابت مرکزی اطلاعات و نشریات کے وزیر مملکت کرنل (ریٹائرڈ) وردھن سنگھ راٹھور نے کہا کہ اخبارات کی رجسٹریشن کے سلسلہ میں نئے سرے سے جائزہ لیا جا رہا ہے. لوکل اخبارات کی آڑ میں لوگ غیر شائستہ کام کرتے ہیں اس لئے اب مناسب لوگوں کو ہی اخبار کا رجسٹریشن دیا جائے گا. دوسری طرف ایس ایم خان رجسٹرار، آر این آئی، حکومت ہند کے مطابق، آر این آئی کو حکومت نے معیار قائم کرنے اور تمام اخبارات کی جانچ کا مسودہ بھیجا ہے جس پر کام کیا جا رہا ہے.
90 فیصد نااہل ناشر :
غور طلب ہے کہ آر این آئی میں رجسٹرڈ لاکھوں اخبارات کے سلسلہ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کی گئی ہے. پٹیشن کے ذریعے سے پوچھا گیا ہے کہ آر این آئی میں رجسٹرڈ تمام مالکان و ناشروں کی قابلیت بتائی جائے. درخواست گزار نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ ایک اخبار کو چلانے کیلئے قابل شخص کے پاس ذرائع ابلاغ سے متعلقہ ڈگری یا ڈپلومہ ہونا چاہئے لیکن اس وقت آر این آئی میں رجسٹرڈ 90 فیصد ناشروں کے پاس صحافت کی قابلیت نہیں ہے.
مفاد پرستوں کا غلبہ :
شاید یہی وجہ ہے کہ  اخبارات کی دنیا میں ایسے افراد کا جنم ہوا جو اس کے تقدس سے تو ناآشنا تھے۔ اس مافیا نے ایک مقدس پیشہ کی آڑ میں اپنے کالے دھن میں اضافہ کرنے کی خاطر ذہانت کا سودا کیا۔قابلیت پس منظر میں چلی گئی۔ اداروں نے اپنے صحافتی اداروں کو پیسہ کمانے کی مشین بنا لیا. ایک دور وہ بھی تھا جب مولانا شوکت علی کاجوہر قلم کی عصمت کو تھامے ہوئے تھا، مولانا ابو الکلام آزاد کی شرر بار تحریر فرنگی کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر کے آزادی کے صفحہ قرطاس پر بکھر رہی تھی، وہ صحافت کی آبرو کو اُس دور میں دیکھ رہے تھے مگر اُس طبقہ کے خواب چکنا چور ہو گئے جب مفاد پرست افراد کے ہاتھ میں اخبارات شائع کرنے کا لائسنس آگیا!

पत्रकारिता की आड़ में गोरखधंधा!
एस. ए. सागर
देशभर में समाचार पत्रों की बढ़ती संख्या और इनकी आड़ में चलाए जा रहे गोरखधंधे को ध्यान में रखते हुए सरकार अखबारों के पंजीकरण पर लगाम कसने की तैयारी कर चुकी है। इस क्रम में पंजीकरण प्रक्रिया को और जटिल बनाने का काम शुरू हो रहा है। नए नियम में मुताबिक अखबार पंजीकरण के दौरान मुद्रक-स्वामी का किसी भी विश्वविद्यालय या संस्था से मास मीडिया में डिग्री या डिप्लोमा होना जरूरी होगा। साथ ही पंजीकरण के लिए सरकारी शुल्क भी लागू किया जाएगा। जबकि अब तक सरकार अखबार का पंजीकरण मुफ्त में देती थी। दिल्ली में ही अब तक 15 हजार 696 अखबार रजिस्टर्ड किए जा चुके हैं। दरअसल, अखबारों की आड़ में हर कोई खुद को पत्रकार कहलाने के लिए ऐसा कर रहा है। सूचना एवं प्रसारण मंत्रालय से मिली जानकारी के मुताबिक आरएनआई में रजिस्टर्ड सभी अखबारों का आॅडिट कराया गया है जिसमें अधिकांश पंजीकरण तय मानकों के विरूद्ध पाए गए है। नए नियमों के मुताबिक सरकार उपयुक्त पत्रकारों को ही अखबार संचालन करने की स्वीकृति देगी। जिनके पास इससे संबंधित डिग्री या डिप्लोमा होगा उन्हीं के नाम अखबार का पंजीकरण किया जाएगा। बता दें कि अब तक अशिक्षित भी अखबार का पंजीकरण कराकर खुद को पत्रकार घोषित कर देते थे। इससे समाज में भ्रम फैल रहा है। लोग यह तय नहीं कर पाते कि सामने वाला पत्रकार है या नहीं! पत्रकार बनकर ऐसे लोग सरकारी कार्यालयों में रौब दिखाते हैं। इस बाबत केंद्रीय सूचना एवं प्रसारण राज्य मंत्री कर्नल (रि.) राज्यवर्धन सिंह राठौर ने कहा कि अखबारों के पंजीकरण को लेकर नए सिरे से समीक्षा की जा रही है। लोकल अखबारों की आड़ में लोग अशोभनीय काम करते हैं इसलिए अब उपयुक्त लोगों को ही अखबार का रजिस्ट्रेशन दिया जाएगा। दूसरी ओर एसएम खान रजिस्ट्रार, आरएनआई, भारत सरकार के मुताबिक, आरएनआई को सरकार ने मानक तय करने व सभी अखबारों की जांच का मसौदा भेजा है जिस पर काम किया जा रहा है। जबकि आरएनआई में रजिस्टर्ड लाखों अखबारों को लेकर एक जनहित याचिका दायर की गई है। याचिका के माध्यम से पूछा गया है कि आरएनआई में पंजीकृत सभी स्वामी व मुद्रक की योग्यता बताई जाए। याचिकाकर्ता ने सरकार से सवाल किया है कि एक अखबार चलाने के लिए योग्य व्यक्ति के पास मास मीडिया संबंधित डिग्री या डिप्लोमा होना चाहिए लेकिन इस समय आरएनआई में पंजीकृत 90 प्रतिशत मुद्रकों के पास पत्रकारिता की योग्यता नहीं है।

No comments:

Post a Comment