ایس اے ساگر
تقسیم وطن کے بعد بھارت میں شاید ہی کوئی
دن ایسا گزرا ہو جب امت کو کسی نئی آزمائش اور فتنہ کا سامنا نہ کرنا پڑا
ہو۔ رہی سہی کسر پولرائزیشن یا ووٹوں کے ارتکاز کی گندی سیاست کے عروج نے
پوری کردی ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ رخصت پذیر نامزد رکن پارلیمان جاوید
اختر نے پارلیمان کے ایوان بالا میں اپنے الوداعی خطاب میں ایک طرف تو
مسلمان کیلئے دو استھان
قبرستان یا پاکستان!
جیسے سنگین نعروں کے درمیان زندگی گزارنے والوں کیساتھ اظہار یگانگت کرڈالا تو دوسری جانب شر پسندوں کو ایک نیا شوشہ فراہم کروا دیا ۔انھوں نے ایوان میں نہ صرف تین مرتبہ ’بھارت ماتا کی جے‘کا نعرہ بلند کرکے بی جے پی کے سامنے گویا خود کو تھالی میں سجا کر پیش کردیا۔ بلکہ بی جے پی کی اویسی مخالف مہم کا حصہ بنتے ہوئے تمام حدود پار کرڈالیں۔ انھوں نے اویسی کا نام لئے بغیر کہا کہ ’وہ کسی بھی قیمت پر بھارت ماتا کی جے نہیں کہیں گے کیونکہ یہ آئین میں نہیں لکھا ہے.... لیکن وہ بتائیں کہ آئین میں شیروانی اور ٹوپی پہننے کی بات کہاں لکھی ہے۔‘ٹوپی اور شیروانی کو نشانہ بناتے وقت وہ یہ تک بھول گئے کہ نہ صرف ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا یہی شعار رہا ہے بلکہ دیگر سیاسی شخصیات بھی لباس کی عصبیت سے بالاتر رہی ہیں۔جاوید اختر نے کس طرح ایک نئی بحث چھیڑی ہے،اس کے نتیجہ میںبی جی پی کے جنرل سیکریٹری کیلاش وجے وارگیا کا کہنا ہے کہ جو بھی ’بھارت ماتا کی جے‘ نہیں کہہ سکتا اسے بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔جاوید اختر کے خطاب پر کسی کو شک ہوتو وہ یوٹیوب
https://youtu.be/L_CJW4hew6o
پر موجودمذکورہ خطاب ملاحظہ کرسکتا ہے۔ ایسے میں جمن ،شبراتی کا چونکنا ضروری تھا۔ ایسا لگا کہ جاوید اختر کوئی صاحب علم شخصیت ہوں جن کی ذات عالی سے کوئی فتوی صادر ہوگیا ہو۔ انھیں کیا پتہ کہ بیچارے نیتا ہوں یا ابھی نیتا، ان کی تو حیات ہی سرخیوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ جبھی تو گزشتہ دنوں دارالعلوم کی جانب سے خواتین کے کام کرنے، انشورنس اور دیگر معاملات پر’فتوے‘کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ حالانکہ دارالعلوم دیوبند کی جانب سے اس کی تردید کی گئی تھی ۔ دارالعلوم دیوبند نے واضح کردیا تھا کہ انھوں نے ایسا کوئی فتوی سرے سے جاری ہی نہیں کیا جس کا بتنگڑ بنایا گیا ۔ لیکن اس دوران اپنی دہریت کیلئے بدنام زمانہ جاوید اختر نے ضرور’شہرت‘ اور’مقبولیت‘کی نئی بلندیوں کو چھولیا تھا۔
گمنامی سے شہرت تک :
زعفرانی ذہنیت کی پیٹھ تھپتھانے والے جاوید اختر کی زندگی سے ان کی ولدیت نکال دی جائے تو شاید انھیں فلمی صنعت کی ہوا بھی نہیں لگتی۔ معروف شاعر جانثار اختر کے بڑے فرزند ہونے کے ناطے انھیں فلم انڈسٹری تک رسائی نصیب پوئی۔ لیکن بالی ووڈ کے صف اول کے گیت کاروں اور مکالمہ نگاروں میں شمار ہونے والے جاوید اختر کی کہانی بام عروج تک پہنچانے میں متعدد نامور شخصیات کی محنت شامل حال رہی ہے۔ ان کی شخصیت سلیم خان کے بغیر ادھوری ہے، جن کیساتھ امیاب جوڑی نے بالی ووڈ کو نہ صرف انتہائی کامیاب فلمیں دیں بلکہ اب تک وہ 13 فلم فیئر ایوارڈس پر ہاتھ صاف کرچکے ہیں۔ جاوید اختر کا اصل نام جادو تھا جو ان کے والد کے شعر ’لمبا لمبا کسی جادو کا فسانہ ہوگا‘ سے ماخوذ تھا۔ ان کا نام جاوید تجویز کیاگیا جو کہ جادو سے ملتا جلتا ہے۔
مجوسی کنبہ کے داماد:
ماضی کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ لکھنو کے کولون تعلق دار کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے جاوید اختر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا تھا۔ جاوید اختر کے والد جانثار اختر بھی قسمت آزمائی کیلئے فلم نگری میں پہلے ہی آگئے تھے۔ 4 اکتوبر 1964 کو جاوید بھی آگئے۔ 1964 سے 1970 تک وہ ممبئی میں جدوجہد کرتے رہے لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی تاہم 21 مارچ 1972 کو ان کی زرتشت یا مجوسی کنبہ کی ہنی ایرنی سے’شادی‘ ہوگئی۔ ہنی ایرانی نہ صرف اسکرپٹ رائیٹر بلکہ ایکٹریس بھی رہی ہیں۔ بچپن سے چائلڈ ایکٹریس کے طور پر کام کرنے والی ڈیزی ایرانی اب ان کی سالی تھیں۔یہ الگ بات ہے کہ غربت اور مفلسی میں جس ہنی ایرانی نے آپ کو سہارا دیا اور اپنی بہن مینکا ایرانی کے شوہر فرحان خان یعنی فرح اورساجد خان کے والدین کے جوہو میں واقع گھر پر کمرہ دلوا کر ممبئی میں آپ کو چھت میسر کروائی، اسی بیوی کو آپ نے دھوکہ دیا۔پھر اسے طلاق دے کر شبانہ اعظمی کے ساتھ بیاہ رچا لیا۔
رکن اسمبلی کی معطلی:
ہوسکتا ہے کہ جاوید اختر خوش ہوں کہ ان کی بدولت حب الوطنی پرنہ صرف گرما گرم بحث جاری ہے بلکہ ہر کس و ناکس وطن پرستی کی تعریف و تشریح میں لگا ہے اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کہنا وطن پرستی کی علامت بن گیا ہے۔نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ مہاراشٹر میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی وارث پٹھان کو اسمبلی سے معطل کر دیا گیا ہے۔ وارث پٹھان کا قصور یہ ہے کہ جب ان پر ’بھارت ماتا کی جے‘ کہنے کیلئے دباوڈالا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری آئینی ذمہ داری نہیں ہے اور ہم جے ہند کہہ سکتے ہیںجبکہ تمام رکن اسمبلی اپنی اپنی پارٹی کے نظریات سے قطع نظر وارث پٹھان کی معطلی پر ایک رائے رکھتے تھے۔
کیا ہے قانونی حیثیت؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیااس کا کریڈٹ کیا آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو نہیں جاتانے صلاح دی تھی کہ ملک میں حب الوطنی کو بڑھانے کیلئے اس نعرے کی ضرورت ہے جسے مسترد کرتے ہوئے اسدالدین اویسی نے گذشتہ روز کہا تھا کہ وہ ’بھارت ماتا کی جے‘ نہیں کہیں گے چاہے ان کی گردن پر چاقو بھی رکھ دیا جائے۔جبکہ ہندوستان کے آئین میں ایسا کہیں نہیں لکھا ہے کہ ’بھارت ماتا کی جے‘ بولنا ضروری ہے۔
جلتی میں تیل :
اس آگ میں اداکار انوپم کھیر نے بھی تیل ڈالتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’بھارتیوں کیلئے وطن پرستی کی واحد تعریف بھارت ماتا کی جے ہے، اس کے علاوہ باقی تمام چیزیں راہِ فرار اختیار کرنا ہے۔‘ اس سے قبل انوپم کھیر نے بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کے سوال پر عامر خان اور شاہ رخ خان کی مخالفت کی تھی۔ وہ ان دنوں حکومت کے حامی کے طور پر بہت سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ان کے علاوہ بی جی پی کے جنرل سیکریٹری کیلاش وجے وارگیا کا کہنا ہے کہ ’جو بھی بھارت ماتا کی جے نہیں کہہ سکتا اسے بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘سوشل میڈیا میں بہت سے افراد اگر اویسی کے حق میں نظر آئے تو بہت سے ان کے خلاف۔
گندی سیاست :
آج فرحان اداکار اور زویا ہدایت کار و فلمساز ہے۔ کہتے ہیں کہ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کے عشق کے چرچوں کی وجہ سے ہی ہنی ایرانی سے ان کی طلاق ہوئی اور دونوں نے 2013 میں شادی کرلی تھی۔ بھارت ماتا کی جے، اور جے ہند پرگندی سیاست کرنے والوں کو کیا معلوم کہ دارالعلوم دیوبند وقف کے حوالہ نمبر 894 کیساتھ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا ہے کہ’جے ہند‘ یا’بھارت ماتا کی جے‘ بول کر ہندوستان کی خوشحالی کی دعا کرنا ہے، اور پیار کا اظہار کرنے کیلئے بھارت ماتا کہنے سے نہ تو عقیدہ میں کوئی خرابی آتی ہے اور نہ ہی ایمان میں، اس لئے اس کے کہنے کی گنجائش ہے۔ اب جاوید اختر کو یہ کون سمجھائے کہ برادران وطن، ہندوستان کو’ بھارت ماتا‘کہتے ہیں اور ’بھارت ماتا کی جئے ہو ‘ کا نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ ان کے نظریہ کے اعتبار سے ہندوستان ان کی ماں ہے اور وہ اس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ اور ہم مسلمان بھی ہندوستان کو ’ مادر وطن‘ کہتے ہیں جو بھارت ماتا کا ہی اردو ترجمہ ہے۔ مولانا فضیل احمد ناصری القاسمی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ واللہ اعلم یہ دارالعلوم وقف کافتویٰ ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہو بھی، تومیری نظرمیں اس کےجوازکی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ یہ جملہ شرک سے بھرپورہے۔یہ جملہ غیر اسلامیوں کا شعاربن چکاہے۔ اگراس کااستعمال جائزقراردیاجائے تو مسلم بچوں کے نام سندر، سورج، شبھ، چندرما وغیرہ رکھناجائز ہونے چاہئیں، اس لئے کہ ان کے معانی میں کوئی خرابی نہیں ہے،حالاں کہ کوئی بھی ان کے جوازکاقائل نہیں۔
مسلمان کیلئے دو استھان
قبرستان یا پاکستان!
جیسے سنگین نعروں کے درمیان زندگی گزارنے والوں کیساتھ اظہار یگانگت کرڈالا تو دوسری جانب شر پسندوں کو ایک نیا شوشہ فراہم کروا دیا ۔انھوں نے ایوان میں نہ صرف تین مرتبہ ’بھارت ماتا کی جے‘کا نعرہ بلند کرکے بی جے پی کے سامنے گویا خود کو تھالی میں سجا کر پیش کردیا۔ بلکہ بی جے پی کی اویسی مخالف مہم کا حصہ بنتے ہوئے تمام حدود پار کرڈالیں۔ انھوں نے اویسی کا نام لئے بغیر کہا کہ ’وہ کسی بھی قیمت پر بھارت ماتا کی جے نہیں کہیں گے کیونکہ یہ آئین میں نہیں لکھا ہے.... لیکن وہ بتائیں کہ آئین میں شیروانی اور ٹوپی پہننے کی بات کہاں لکھی ہے۔‘ٹوپی اور شیروانی کو نشانہ بناتے وقت وہ یہ تک بھول گئے کہ نہ صرف ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا یہی شعار رہا ہے بلکہ دیگر سیاسی شخصیات بھی لباس کی عصبیت سے بالاتر رہی ہیں۔جاوید اختر نے کس طرح ایک نئی بحث چھیڑی ہے،اس کے نتیجہ میںبی جی پی کے جنرل سیکریٹری کیلاش وجے وارگیا کا کہنا ہے کہ جو بھی ’بھارت ماتا کی جے‘ نہیں کہہ سکتا اسے بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔جاوید اختر کے خطاب پر کسی کو شک ہوتو وہ یوٹیوب
https://youtu.be/L_CJW4hew6o
پر موجودمذکورہ خطاب ملاحظہ کرسکتا ہے۔ ایسے میں جمن ،شبراتی کا چونکنا ضروری تھا۔ ایسا لگا کہ جاوید اختر کوئی صاحب علم شخصیت ہوں جن کی ذات عالی سے کوئی فتوی صادر ہوگیا ہو۔ انھیں کیا پتہ کہ بیچارے نیتا ہوں یا ابھی نیتا، ان کی تو حیات ہی سرخیوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ جبھی تو گزشتہ دنوں دارالعلوم کی جانب سے خواتین کے کام کرنے، انشورنس اور دیگر معاملات پر’فتوے‘کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ حالانکہ دارالعلوم دیوبند کی جانب سے اس کی تردید کی گئی تھی ۔ دارالعلوم دیوبند نے واضح کردیا تھا کہ انھوں نے ایسا کوئی فتوی سرے سے جاری ہی نہیں کیا جس کا بتنگڑ بنایا گیا ۔ لیکن اس دوران اپنی دہریت کیلئے بدنام زمانہ جاوید اختر نے ضرور’شہرت‘ اور’مقبولیت‘کی نئی بلندیوں کو چھولیا تھا۔
گمنامی سے شہرت تک :
زعفرانی ذہنیت کی پیٹھ تھپتھانے والے جاوید اختر کی زندگی سے ان کی ولدیت نکال دی جائے تو شاید انھیں فلمی صنعت کی ہوا بھی نہیں لگتی۔ معروف شاعر جانثار اختر کے بڑے فرزند ہونے کے ناطے انھیں فلم انڈسٹری تک رسائی نصیب پوئی۔ لیکن بالی ووڈ کے صف اول کے گیت کاروں اور مکالمہ نگاروں میں شمار ہونے والے جاوید اختر کی کہانی بام عروج تک پہنچانے میں متعدد نامور شخصیات کی محنت شامل حال رہی ہے۔ ان کی شخصیت سلیم خان کے بغیر ادھوری ہے، جن کیساتھ امیاب جوڑی نے بالی ووڈ کو نہ صرف انتہائی کامیاب فلمیں دیں بلکہ اب تک وہ 13 فلم فیئر ایوارڈس پر ہاتھ صاف کرچکے ہیں۔ جاوید اختر کا اصل نام جادو تھا جو ان کے والد کے شعر ’لمبا لمبا کسی جادو کا فسانہ ہوگا‘ سے ماخوذ تھا۔ ان کا نام جاوید تجویز کیاگیا جو کہ جادو سے ملتا جلتا ہے۔
مجوسی کنبہ کے داماد:
ماضی کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ لکھنو کے کولون تعلق دار کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے جاوید اختر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا تھا۔ جاوید اختر کے والد جانثار اختر بھی قسمت آزمائی کیلئے فلم نگری میں پہلے ہی آگئے تھے۔ 4 اکتوبر 1964 کو جاوید بھی آگئے۔ 1964 سے 1970 تک وہ ممبئی میں جدوجہد کرتے رہے لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی تاہم 21 مارچ 1972 کو ان کی زرتشت یا مجوسی کنبہ کی ہنی ایرنی سے’شادی‘ ہوگئی۔ ہنی ایرانی نہ صرف اسکرپٹ رائیٹر بلکہ ایکٹریس بھی رہی ہیں۔ بچپن سے چائلڈ ایکٹریس کے طور پر کام کرنے والی ڈیزی ایرانی اب ان کی سالی تھیں۔یہ الگ بات ہے کہ غربت اور مفلسی میں جس ہنی ایرانی نے آپ کو سہارا دیا اور اپنی بہن مینکا ایرانی کے شوہر فرحان خان یعنی فرح اورساجد خان کے والدین کے جوہو میں واقع گھر پر کمرہ دلوا کر ممبئی میں آپ کو چھت میسر کروائی، اسی بیوی کو آپ نے دھوکہ دیا۔پھر اسے طلاق دے کر شبانہ اعظمی کے ساتھ بیاہ رچا لیا۔
رکن اسمبلی کی معطلی:
ہوسکتا ہے کہ جاوید اختر خوش ہوں کہ ان کی بدولت حب الوطنی پرنہ صرف گرما گرم بحث جاری ہے بلکہ ہر کس و ناکس وطن پرستی کی تعریف و تشریح میں لگا ہے اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کہنا وطن پرستی کی علامت بن گیا ہے۔نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ مہاراشٹر میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی وارث پٹھان کو اسمبلی سے معطل کر دیا گیا ہے۔ وارث پٹھان کا قصور یہ ہے کہ جب ان پر ’بھارت ماتا کی جے‘ کہنے کیلئے دباوڈالا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری آئینی ذمہ داری نہیں ہے اور ہم جے ہند کہہ سکتے ہیںجبکہ تمام رکن اسمبلی اپنی اپنی پارٹی کے نظریات سے قطع نظر وارث پٹھان کی معطلی پر ایک رائے رکھتے تھے۔
کیا ہے قانونی حیثیت؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیااس کا کریڈٹ کیا آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو نہیں جاتانے صلاح دی تھی کہ ملک میں حب الوطنی کو بڑھانے کیلئے اس نعرے کی ضرورت ہے جسے مسترد کرتے ہوئے اسدالدین اویسی نے گذشتہ روز کہا تھا کہ وہ ’بھارت ماتا کی جے‘ نہیں کہیں گے چاہے ان کی گردن پر چاقو بھی رکھ دیا جائے۔جبکہ ہندوستان کے آئین میں ایسا کہیں نہیں لکھا ہے کہ ’بھارت ماتا کی جے‘ بولنا ضروری ہے۔
جلتی میں تیل :
اس آگ میں اداکار انوپم کھیر نے بھی تیل ڈالتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’بھارتیوں کیلئے وطن پرستی کی واحد تعریف بھارت ماتا کی جے ہے، اس کے علاوہ باقی تمام چیزیں راہِ فرار اختیار کرنا ہے۔‘ اس سے قبل انوپم کھیر نے بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کے سوال پر عامر خان اور شاہ رخ خان کی مخالفت کی تھی۔ وہ ان دنوں حکومت کے حامی کے طور پر بہت سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ان کے علاوہ بی جی پی کے جنرل سیکریٹری کیلاش وجے وارگیا کا کہنا ہے کہ ’جو بھی بھارت ماتا کی جے نہیں کہہ سکتا اسے بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘سوشل میڈیا میں بہت سے افراد اگر اویسی کے حق میں نظر آئے تو بہت سے ان کے خلاف۔
گندی سیاست :
آج فرحان اداکار اور زویا ہدایت کار و فلمساز ہے۔ کہتے ہیں کہ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کے عشق کے چرچوں کی وجہ سے ہی ہنی ایرانی سے ان کی طلاق ہوئی اور دونوں نے 2013 میں شادی کرلی تھی۔ بھارت ماتا کی جے، اور جے ہند پرگندی سیاست کرنے والوں کو کیا معلوم کہ دارالعلوم دیوبند وقف کے حوالہ نمبر 894 کیساتھ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا ہے کہ’جے ہند‘ یا’بھارت ماتا کی جے‘ بول کر ہندوستان کی خوشحالی کی دعا کرنا ہے، اور پیار کا اظہار کرنے کیلئے بھارت ماتا کہنے سے نہ تو عقیدہ میں کوئی خرابی آتی ہے اور نہ ہی ایمان میں، اس لئے اس کے کہنے کی گنجائش ہے۔ اب جاوید اختر کو یہ کون سمجھائے کہ برادران وطن، ہندوستان کو’ بھارت ماتا‘کہتے ہیں اور ’بھارت ماتا کی جئے ہو ‘ کا نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ ان کے نظریہ کے اعتبار سے ہندوستان ان کی ماں ہے اور وہ اس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ اور ہم مسلمان بھی ہندوستان کو ’ مادر وطن‘ کہتے ہیں جو بھارت ماتا کا ہی اردو ترجمہ ہے۔ مولانا فضیل احمد ناصری القاسمی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ واللہ اعلم یہ دارالعلوم وقف کافتویٰ ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہو بھی، تومیری نظرمیں اس کےجوازکی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ یہ جملہ شرک سے بھرپورہے۔یہ جملہ غیر اسلامیوں کا شعاربن چکاہے۔ اگراس کااستعمال جائزقراردیاجائے تو مسلم بچوں کے نام سندر، سورج، شبھ، چندرما وغیرہ رکھناجائز ہونے چاہئیں، اس لئے کہ ان کے معانی میں کوئی خرابی نہیں ہے،حالاں کہ کوئی بھی ان کے جوازکاقائل نہیں۔
Those Not Saying 'Bharat Mata Ki Jai' Should Leave India!
By: S. A. Sagar
In the backdrop of All India Majlis-e-Ittehad-ul Muslimeen (AIMIM) leader Asaduddin Owaisi's statement that he would not chant 'Bharat Mata ki Jai', BJP General Secretary Kailash Vijayvargiya today said those who did not want to say the slogan had no right to stay in India. Retiring as Rajya Sabha member, noted film personality Javed Akhtar said on Tuesday that "adjournaments" and "polarisation" will not take the country forward. He pleaded with the Opposition and the government to work together without thinking about the next elections. Taking a break from the usual uproar, the different political parties in the Upper House, were seen cheering Akhtar, unanimously. According to Wikipedia, Akhtar was a Muslim but later became atheist. He has brought up his children Farhan and Zoya Akhtar also as atheists. Akhtar was married to Honey Irani, with whom he had two children, Farhan Akhtar and Zoya Akhtar, both film directors and actors. The father-and-son duo have worked together in films such as Dil Chahta Hai, Lakshya, Rock On!! and Zindagi Na Milegi Dobara with Zoya. Farhan was married to Adhuna Akhtar, a hair stylist. Javed divorced Irani and later married Shabana Azmi, the daughter of another Urdu poet, Kaifi Azmi. Akhtar, who was nominated to the Upper House by the UPA government, said there are capable leaders in the Modi government who can do good work but those making extremist comments, need to be reined in. "I hope both Opposition and the government will work together. Adjournments will not take us forward. Even polarisation will not take us forward. Please forget next election and think about the country," he said in his impassioned speech. The house listened to him in rapt silence and occasionally burst into applause after a particularly good statement. Akhtar, who was nominated to the Upper House by the UPA government, said there are capable leaders in the Modi government who can do good work but those making extremist comments, need to be reined in. "I hope both Opposition and the government will work together. Adjournments will not take us forward. Even polarisation will not take us forward. Please forget next election and think about the country," he said in his impassioned speech. The house listened to him in rapt silence and occasionally burst into applause after a particularly good statement.
By: S. A. Sagar
In the backdrop of All India Majlis-e-Ittehad-ul Muslimeen (AIMIM) leader Asaduddin Owaisi's statement that he would not chant 'Bharat Mata ki Jai', BJP General Secretary Kailash Vijayvargiya today said those who did not want to say the slogan had no right to stay in India. Retiring as Rajya Sabha member, noted film personality Javed Akhtar said on Tuesday that "adjournaments" and "polarisation" will not take the country forward. He pleaded with the Opposition and the government to work together without thinking about the next elections. Taking a break from the usual uproar, the different political parties in the Upper House, were seen cheering Akhtar, unanimously. According to Wikipedia, Akhtar was a Muslim but later became atheist. He has brought up his children Farhan and Zoya Akhtar also as atheists. Akhtar was married to Honey Irani, with whom he had two children, Farhan Akhtar and Zoya Akhtar, both film directors and actors. The father-and-son duo have worked together in films such as Dil Chahta Hai, Lakshya, Rock On!! and Zindagi Na Milegi Dobara with Zoya. Farhan was married to Adhuna Akhtar, a hair stylist. Javed divorced Irani and later married Shabana Azmi, the daughter of another Urdu poet, Kaifi Azmi. Akhtar, who was nominated to the Upper House by the UPA government, said there are capable leaders in the Modi government who can do good work but those making extremist comments, need to be reined in. "I hope both Opposition and the government will work together. Adjournments will not take us forward. Even polarisation will not take us forward. Please forget next election and think about the country," he said in his impassioned speech. The house listened to him in rapt silence and occasionally burst into applause after a particularly good statement. Akhtar, who was nominated to the Upper House by the UPA government, said there are capable leaders in the Modi government who can do good work but those making extremist comments, need to be reined in. "I hope both Opposition and the government will work together. Adjournments will not take us forward. Even polarisation will not take us forward. Please forget next election and think about the country," he said in his impassioned speech. The house listened to him in rapt silence and occasionally burst into applause after a particularly good statement.
170316 girtey ke do laat by s a sagar
http://sasagarurdutahzeeb.blogspot.in/2016/03/those-not-saying-bharat-mata-ki-jai.html
No comments:
Post a Comment