Friday, 18 March 2016

جان لیوا جشن Dangerous weddings


ایس اے ساگر 
اگر آپ افغانستان کے کسی گھر سے بچے کی ولادت پر اے کے 47 کے برسٹ کی آواز سنیں تو سمجھ جائیے گا کہ نومولود کے دل سے گولیوں کی وحشت دور کرنے کیلئے کان کے پاس ہوائی فائرنگ کی جارہی ہے۔یہ کارروائی کوئی دشمن نہیں بلکہ نومود کے اعزا واقربا انجام دیتے ہیں۔دنیا کے دیگر کسی خطہ میں اگرکان کے قریب ایسی ہوائی فائرنگ کی جائے تو عین ممکن ہے کہ بچہ کو زندگی بھر کیلئے قوت سماعت سے محروم کردے۔ لیکن یہاں معاملہ درخیبر کے نونہالوں کا ہے، وہ خطہ جو ہمیشہ دنیا میں انقلاب بپا کرنے کا پیش خیمہ رہا ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ہوائی فائرنگ کے معاملہ میں وطن عزیز کے حالات قطعی مختلف ہیں۔ یہاں تربیت کی بجائے تفاخر کو فوقیت حاصل ہے۔ شاید یہی طاغوتی ذہنیت نہ صرف شادی میں ہوائی فائرنگ پر مجبور کرتی ہے بلکہ بعض اوقات بے قصور لوگوں کی جان بھی لے لیتی ہے۔ اس طرح شادی کا جشن ماتم میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پرمسرت قہقہوں کی بجائے آہیں گونج جاتی ہیں۔ شمالی ہند میں ہوائی فائرنگ کر کے جشن منانے کی حیرت انگیز اور سخت روایت کے باعث کئی تقریبات ماتم میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ذرائع ابلاغ شاہد ہیں کہ گذشتہ ہفتے کے آخر میں اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے گاوں رائے پور بھود میں شادی کی تقریب کو یادگار بنانے پر مامور راجو نامی فوٹوگرافر لڑکے والوں کی گولی کا نشانہ بن گیا۔یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب شادی کی تقریب کے آغاز سے قبل دولھے کے خاندان کے افراد نے اسلحہ نکالا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔راجو کو ان کے علاقہ کے باشندے پنٹو کے نام سے جانتے تھے۔ ان کے پیٹ میں گولی لگی اور وہ شدید زخموں کے باعث اسپتال میں دم توڑ گئے۔ ہوائی فائرنگ کے دوران 17 سالہ میناکشی بھی زخمی ہو گئیں۔جشن کے طور پر فائرنگ کرنے کا مقصد نقصان پہنچانا یا زخمی کرنا نہیں ہوتا تاہم اس کے باوجود راجو اور میناکشی رواں ہفتے فائرنگ سے زخمی ہونے والے تن تنہا متاثرین نہیں تھے۔ملک کے ایک اور شمالی گاوں میں دولھے کے والد کی فائرنگ سے ایک 12 سالہ بچہ زخمی ہو گیا، جبکہ ایک تیسرے گاوں میں شادی کی تقریب کا نظارہ کرنے والی ایک خاتون گولی لگنے سے زخمی ہو گئیں۔
مہمان کی کارستانی:
گذشتہ ہفتہ ہی کے اوائل میں مرکزی ارالحکومت دہلی کے نواح کے علی پور علاقہ میں شادی کی تقریب کے دوران وکاس کمار نام کے ایک مہمان نے شاٹ گن اور پستول نکال کے فائرنگ شروع کر دی۔انھوں نے دو فائر ہوا میں اور تیسرا زمین کے رخ پہ کیا۔ دولھے کے دو دوست اور شادی میں بینڈ بجانے والے گروہ کے تین افراد کی ٹانگوں اور پاوں میں گولیاں لگیں اور پانچوں کو اسپتال میں داخل کروانا پڑا۔صرف فروری کے مہینے میں ا ترپردیش ہی میں شادی کی تقاریب کے دوران ہونے والی فائرنگ سے چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ایک واقعے میں مہمان کی ہوائی فائرنگ سے دولھا خود بھی مارا گیا۔ امیت رستوگی گھوڑے پہ سوار ہوکے دلھن کے گھر بارات لے کر جا رہے تھے کہ ان کے سر میں گولی آ لگی۔ صاف ظاہر ہے کہ حکام جشن کے طور پر کی جانے والی فائرنگ کا خاتمہ کرنے کے خواہاں ہیں۔دوست کی شادی میں رائفل سے فائرنگ کے دوران دولھا کے چچا کو ہلاک کرنے والے شخص کو 25 ماہ جیل کی سزا سنانے والے دہلی کے جج منوج نے کہا:
’بارات کے موقعے پر بندوقوں اور پستول سے فائرنگ کرنا ایک طرح کا فیشن بن گیا ہے۔‘
فائرنگ اور الکوحل :
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت کیلئے مناسب وقت ہے کہ وہ اسلحے کے لائسنس کے اجرا کا طریقہ کار سخت کریں اور ایسا میکنزم ترتیب دیں جس کے تحت لائسنس کے غلط استعمال کا تدارک کیا جا سکے۔‘ادھر اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنو کی ایک عدالت نے حکم دیا ہے کہ تقریبات کے موقعے پر کی جانے والی فائرنگ کے ہر واقعے کی تفتیش کی جائے خواہ پولیس میں شکایت درج کروائی گئی ہو یا نہیں۔جسٹس ایس کے سکسینہ نے متنبہ کیا کہ ’اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا ضروری ہے۔‘چند خاندانوں کی جانب سے شادی کی تقاریب میں اسلحے کا استعمال نہ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ مہراج دھواج سنگھ چندل کی جانب سے تین ہزار مہمانوں کو بھیجے گئے دعوت نامے میں تحریر ہے ’گزارش: برائے مہربانی ہوائی فائرنگ اور الکوحل کے استعمال سے اجتناب برتیں۔‘ روزنامہ دی ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ ’حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ تقریبات کے موقعے پر کی جانے والی فائرنگ کے باعث معصوم جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ خوشی کا موقعے سوگ کی تقریب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔‘
یہ کیسی ہے مردانگی؟
تقریبات کے موقعے پر فائرنگ مردانگی کا اظہار کرنے، اپنی حیثیت جتانے اور آتش بازی کے متبادل کے طور پر کی جاتی ہے۔ یہ روایت محض شمالی بھارت تک محدود نہیں ہے۔ افغانستان، پاکستان، مشرق وسطیٰ کے چند علاقوں، بلقانی ریاستوں اور دیگر علاقوں میں بھی ایسی ہی روایات پائی جاتی ہیں۔عمومی طور پر بندوقوں کا رخ ہوا میں کر کے فائرنگ اس غلط فہمی کی بنا پر کی جاتی ہے کہ اس صورت میں کسی کے زخی ہونے کا احتمال نہیں رہتا۔ امریکہ کے شہر لاس اینجلس کے ایک اسپتال کے ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق درحقیقت فضا سے واپس آ کر گرنے والی گولیاں براہ راست فائرنگ سے زیادہ جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ڈاکٹروں نے پتہ لگایا کہ 1985 سے 1992 کے دوران 118 افراد میں ہوا سے واپس گر کے لگنے والی گولیوں کے باعث ہونے والی شرح اموات ایک تہائی تھی جبکہ براہ راست فائرنگ سے زخمی ہونے والے افراد میں شرح اموات دو فیصد سے چھ فیصد کے درمیان تھی۔براہ راست فائرنگ کے مقابلے میں اگرچہ اوپر سے آنے والی گولیوں کی رفتار سست ہوتی ہے تاہم ہوا سے واپس گرنے والی گولیوں کے کسی کے سر پر لگنے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔
 اسلحے کے بغیر منائیں جشن:
تحقیق کے مطابق ہوائی فائرنگ کی واپس زمین کی سمت آنے والی گولیوں کی رفتار 90 اور 180 میٹر فی سیکنڈ کے درمیان ہوتی ہے جو کھوپڑی میں جان لیوا زخم پیدا کرنے کیلئے کافی ہے۔2013 میں امریکہ کے بیماریوں کے تدارک اور روک تھام کے ادارے یو ایس سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینش نے پورٹوریکو میں 2003-04 کے نئے سال کی تقریبات کے دوران درپیش خطرات کی تفتیش کی تھی۔تحقیق کے نتائج کے مطابق دو روز کے دوران ہوائی فائرنگ کے بعد زمین پر واپس آنے والی گولیوں سے 19 افراد زخمی جبکہ ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔بلقانی ریاست مقدونیہ نے 2005 میں ٹیلی ویڑن اور ریڈیو پر مہم چلائی تھی جس کا نعرہ تھا کہ ’بندوق کی گولیاں تہنیتی کارڈ نہیں ہوتیں۔ جشن اسلحے کے بغیر منائیں۔‘ حکام کی جانب سے بھی ایسی ہی کسی مہم کا آغاز کرنا دانشمندانہ قدم ہو گا۔


Dangerous weddings
By: S. A. Sagar
Wedding celebrations are supposed to be happy events but in northern India, a shocking number end tragically, thanks to a surprisingly tenacious tradition of celebratory gunfire.
According to reports, 17 March 2016, take the wedding party in a small village called Raipur Bhood in the northern state of Uttar Pradesh last weekend. The photographer, employed to immortalise the special day, was shot dead by members of the grooms' family during a celebration ahead of the marriage party when the men pulled out weapons and started firing. Raju, known locally as Pintu, was shot in the stomach and died of his injuries in hospital later. A 17-year-old girl called Meenakshi was also shot and injured. Celebratory gunfire isn't intended to injure or maim but Raju and Meenakshi were not the only victims that weekend. The father of the groom at another north Indian village shot and injured a 12-year-old boy, while in a third village, a woman was injured as she watched a wedding. Then there was the wedding party in the Alipur suburb of the capital, Delhi, earlier in the week. As the wedding celebration was in full swing, one of the guests, a man named Vikas Kumar, pulled out a shotgun and a pistol and started firing. He loosed two shots into the air and a third at the ground. Two of the groom's friends and three members of the wedding band were shot in their legs and feet. All five were admitted to hospital. In February alone, a total of four people were killed in celebratory firing in weddings just in the state of Uttar Pradesh. In one incident, the groom himself was fatally wounded after one of his guests fired in the air. Amit Rastogi was leading the traditional procession to the bride's house on a horse when he was hit in the head. Naturally enough, celebratory gunfire is something the Indian authorities are keen to muzzle. "Firing with guns and pistols during marriage processions has become a sort of fashion," observed a Delhi judge as he handed down a 25-month jail term to a man who fired off a rifle during his friend's wedding last year, killing the groom's uncle. "It is high time that government tightens the procedure for grant of arms-licence and also evolves a robust mechanism to ensure these licenses are not misused," Judge Manoj Jain said. 
Meanwhile, a court in the Uttar Pradesh capital, Lucknow, has ordered that every case of celebratory firing be investigated regardless of whether a case has been lodged with the police. "Escalation of this trend has to be arrested," warned Justice SK Saxena. Some families have responded with a no weapons policy at their weddings. "Kind Request: Please Do Not Indulge In Celebratory Firing & Alcoholism," read the invitation that went out to the 3,000 guests of Mahirajdhwaj Singh Chandel. "In the recent times," he explained to The Times of India, "we have witnessed that innocent lives are lost in celebratory firing, and a joyous occasion then simply transforms itself into that of a mourning." 



No comments:

Post a Comment