Thursday, 3 March 2016

جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی

ایس اے ساگر

آج جمعہ کا دن ہے. لہذا دعا کی قبولیت کے خاص احوال و اوقات کا جائزہ لینا ضروری ہوجاتا ہے. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ نماز کے بعد یا دیگر مبارک مواقع پر جب  دعا کی باری آتی ہے تو عجلت سوار ہوجاتی ہے ۔بعض لوگوں ایک پاؤں میں جوتا ہوتا ہے، دوسرا پہن چکے ہوتے ہیں، اٹھتے اٹھتے، کھڑے کھڑے جلدی سے دعا مانگتے چلے جاتے ہیں ،یعنی وہ رشتہ اور وہ تعلق جو انسان کا خدا کی ذات سے ہے، وہ اس طرح جلد بازی کی کیفیت میں پورا نہیں ہو پاتا۔ علماء کرام نے اس موضوع پر متعدد حوالے پیش کرتے ہوئے ترغیب دی ہے کہ دعا کے معنی اﷲ تعالی سے مانگنے اور اس کی بارگاہ میں اپنی احتیاج کا دامن پھیلانے کے ہیں۔ دعا کی اہمیت اسی سے واضح ہے کہ ہم سراپا احتیاج ہیں اور ہر لمحہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کے محتاج ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:دعا مومن کا ہتھیار ہے، دین کا ستون ہے اور آسمان و زمین کا نور ہے۔
(مسندِ ابویعلی، مستدرک حاکم)
ایک اور حدیث میں ہے:
دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی)
ایک اور حدیث میں ہے:دعا عین عبادت ہے۔ (مسندِ احمد، نسائی، ابوداود، ترمذی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ:دعا رحمت کی کنجی ہے، وضو نماز کی کنجی ہے، نماز جنت کی کنجی ہے۔ (دیلمی بسند ضعیف)

عبادت کا مغز :

ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالی کو دعا کتنی محبوب ہے، اور کیوں نہ ہو؟ وہ غنی مطلق ہے اور بندوں کا عجز و فقر ہی اس کی بارگاہِ عالی میں سب سے بڑی سوغات ہے۔ ساری عبادتیں اسی فقر و احتیاج اور بندگی و بے چارگی کے اظہار کی مختلف شکلیں ہیں۔ دعا میں آدمی بارگاہِ الہی میں اپنی بے بسی و بے کسی اور عجز و قصور کا اعتراف کرتا ہے، اسی لئے دعا کو عین عبادت بلکہ عبادت کا مغز فرمایا گیا، عبادت سے جس شخص کے دِل میں بندگی کی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی وہ عبادت کی حلاوت و شیرینی اور لذت آفرینی سے محروم ہے۔

مخصوص مواقع :

یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آدمی کی ہر دعا اللہ  تعالی قبول فرماتے ہیں، مگر قبولیت کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں، کبھی بعینہ وہی چیز عطا کردی جاتی ہے جو اس نے مانگی تھی، کبھی اس سے بہتر چیز عطا کردیتے ہیں، کبھی اس کی برکت سے کسی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں، اور کبھی بندے کے لئے اس کی دعا کو آخرت کا ذخیرہ بنادیتے ہیں، اس لئے اگر کسی وقت آدمی کی منہ مانگی مراد پوری نہ ہو تو دِل توڑ کر نہ بیٹھ جائے، بلکہ یہ یقین رکھے کہ اس کی دعا تو ضرور قبول ہوئی ہے، مگر جو چیز وہ مانگ رہا ہے، وہ شاید علمِ الہی میں اس کیلئے موزوں نہیں، یا اﷲ تعالی نے اس سے بہتر چیز عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ:
ﷲ تعالی مومن کو قیامت کے دن بلائیں گے، اور اسے اپنی بارگاہ میں باریابی کا اِذن دیں گے، پھر ارشاد ہوگا کہ: میں نے تجھے مانگنے کا حکم دیا تھا اور قبول کرنے کا وعدہ کیا تھا، کیا تم مجھ سے دعا کیا کرتے تھے؟ بندہ عرض کرے گا: یا اﷲ! میں دعا تو کیا کرتا تھا۔ ارشاد ہوگا کہ: تم نے جتنی دعائیں کی تھیں میں نے سب قبول کیں۔ دیکھو، تم نے فلاں وقت فلاں مصیبت میں دعا کی تھی، اور میں نے وہ مصیبت تم سے ٹال دی تھی، بندہ اقرار کرے گا کہ واقعی یہی ہوا تھا۔ ارشاد ہوگا: وہ تو میں نے تم کو دنیا ہی میں دے دی تھی، اور دیکھو! تم نے فلاں وقت، فلاں مصیبت میں مجھے پکارا تھا، لیکن بظاہر وہ مصیبت نہیں ٹلی تھی، بندہ عرض کرے گا کہ:
جی ہاں! اے رب! یہی ہوا تھا، ارشاد ہوگا: وہ میں نے تیرے لئے جنت میں ذخیرہ بنا رکھی ہے۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا ہے:
مومن بندہ اللہ تعالی سے جتنی دعائیں کرتا ہے، اللہ  تعالی ایک ایک کی وضاحت فرمائیں گے کہ یا تو اس کا بدلہ دنیا ہی میں جلدی عطا کردیا گیا، یا اسے آخرت میں ذخیرہ بنادیا گیا، دعاوں کے بدلے میں جو کچھ مومن کو آخرت میں دیا جائے گا، اسے دیکھ کر وہ تمنا کرے گا کہ کاشدنیا میں اس کی کوئی بھی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔
(مستدرک)

ایک اور حدیث میں ہے کہ:
اللہ تعالی رحیم و کریم ہے، جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹادے۔
(ترمذی، ابنِ ماجہ)

قبولیت دعا کے اوقات:

بہرحال دعا تو ہر شخص کی قبول ہوتی ہے، اور ہر وقت قبول ہوتی ہے (خواہ قبولیت کی نوعیت کچھ ہی ہو، تاہم بعض اوقات ایسے ہیں جن میں دعا کی قبولیت کی زیادہ امید کی جاسکتی ہے، ان میں سے چند اوقات ذکر کرتا ہوں:
سجدے کی حالت میں، حدیث میں ہے کہ: آدمی کو حق تعالی شانہ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے خوب کثرت اور دِل جمعی سے دعا کیا کرو۔ (صحیح مسلم)

مگر حنفیہ کے نزدیک فرض نمازوں کے سجدے میں وہی تسبیحات پڑھنی چاہئیں جو حدیث میں آتی ہیں، یعنی سبحان ربی الاعلی کریم آقا کی تعریف و ثنا بھی دعا اور درخواست ہی کی مد میں شمار ہوتی ہے، اور نفل نمازوں کے سجدے میں جتنی دیر چاہے دعائیں کرتا رہے۔
: فرض نماز کے بعد، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ: کس وقت کی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ فرمایا: رات کے آخری حصے کی اور فرض نمازوں کے بعد کی۔ (ترمذی)

سحر کے وقت، حدیث میں ہے کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی ہے تو زمین والوں کی طرف حق تعالی کی نظرِ عنایت متوجہ ہوتی ہے اور اعلان ہوتا ہے کہ: کیا ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کریں؟ ہے کوئی بخشش کا طلب گار کہ میں اس کی بخشش کروں؟ یہ سلسلہ صبحِ صادق تک جاری رہتا ہے۔ (صحیح مسلم)
: موذن کی اذان کے وقت۔
: بارانِ رحمت کے نزول کے وقت۔
: اذان اور اقامت کے درمیان۔
: سفر کی حالت میں۔
: بیماری کی حالت میں۔
: زوال کے وقت۔
: دن رات میں ایک غیرمعین گھڑی۔
یہ اوقات احادیث میں مروی ہیں۔

حدیث میں ارشاد ہے کہ:
اپنی ذات، اپنی اولاد، اپنے متعلقین اور اپنے مال کے حق میں بددعا نہ کیا کرو، دن رات میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں جو دعا کی جائے، قبول ہوجاتی ہے، ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعا بھی اسی گھڑی میں ہو اور وہ قبول ہوجائے (تو پھر پچھتاتے پھروگے)صحیح مسلم )

کیفیت دعا :

رحمتِ خداوندی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے، اور ہر شخص جب چاہے اس کریم آقا کی بارگاہ میں بغیر کسی روک ٹوک کے اِلتجا کرسکتا ہے، اس لئے دعا تو ہر وقت ہی موثر ہوتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ کوئی مانگنے والا ہو اور ڈھنگ سے مانگے۔ دعا کی قبولیت میں سب سے زیادہ موثر چیز آدمی کی عاجزی اور لجاجت کی کیفیت ہے، کم از کم ایسی لجاجت سے تو مانگو جیسے ایک بھیک منگا سوال کیا کرتا ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ:
اللہ تعالی غافل دِل کی دعا قبول نہیں فرماتے۔ اور قرآن مجید میں ہے: کون ہے جو قبول کرتا ہے بے قرار کی دعا، جبکہ اس کو پکارے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کی قبولیت کے لئے اصل چیز پکارنے والے کی بے قراری کی کیفیت ہے۔ قبولیتِ دعا کے لئے ایک اہم شرط لقمہ حلال ہے حدیث میں ارشاد ہے کہ: ایک شخص گرد و غبار سے اٹا ہوا، پراگندہ بال، دور دراز سے سفر کرکے حج کے لئے آتا ہے، اور وہ بڑی لجاجت سے یا رب یا رب پکارتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا، اس کی دعا کیسے قبول ہو؟
(صحیح مسلم)

قبولیتِ دعا کیلئے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی جلدبازی سے کام نہ لے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی کسی حاجت کے لئے دعائیں مانگتا ہے، مگر جب بظاہر وہ مراد بر نہیں آتی تو مایوس ہوکر نہ صرف دعا کو چھوڑ دیتا ہے بلکہ نعوذ باﷲ خدا تعالی سے بدظن ہوجاتا ہے، حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ جلدبازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا: جلدبازی سے کیا مطلب؟ فرمایا: یوں کہنے لگے کہ میں نے بہت دعائیں کیں مگر قبول ہی نہیں ہوتی.

جمعہ کے دن قبولیت :

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج قبولیت کی گھڑی کو کس وقت میں اسے تلاش کیا جائے. صحیح احادیث میں ہے کہ جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی ہے.. اس لمحے میں کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی سے اچھی چیز مانگے تو اللہ تعالی اسے عنائت فرماتا ہے:
جیسے کہ بخاری: (5295)، اور مسلم: (852) میں وارد ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جس میں کوئی بھی مسلمان کھڑے ہوکر نماز کی حالت میں اللہ تعالی سے خیر مانگے تو اللہ تعالی اسے عنائت فرماتا ہے)
اس گھڑی کی تعیین کے بارے میں متعدد اقوال ہیں، جن میں سے دو صحیح ہیں۔ چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"ان تمام اقوال میں سے صحیح دو اقوال ہیں، جو کہ ثابت شدہ احادیث کے ضمن میں آئے ہیں، ان دونوں میں سے بھی ایک صحیح ترین قول ہے:
پہلا قول:
یہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے، اس قول کی دلیل صحیح مسلم (853) کی روایت ہے، جسے ابو بردہ بن ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، آپ [ابو بردہ]کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:
کیا تم نے اپنے والد [حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے بارے میں روایت کرتے ہوئے سنا ہے؟
میں [ابو بردہ] نے کہا:
جی ہاں؛ میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا تھا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے کہتے ہوئے سنا:
(یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز کے مکمل ہونے تک ہے)
ترمذی: (490) اور ابن ماجہ : (1138) میں حضرت  کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی کی روایت ہے کہ وہ اپنے والد سے، اور وہ اسکے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں کوئی بھی بندہ اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے ، تو اللہ تعالی اسے وہی عنائت فرماتا ہے) حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا:
اللہ کے رسول، (صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ کونسی گھڑی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(نماز کھڑی ہونے سے لیکر نماز ختم ہونے تک) [اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی کہتے ہیں: "ضعیف جدا"یعنی یہ روایت سخت ضعیف ہے]
دوسرا قول یہ ہے کہ :
یہ گھڑی عصر کے بعد ہے، اور یہ قول پہلے سے زیادہ راجح ہے، اسی کے عبد اللہ بن سلام ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم امام احمد، اور بہت سے لوگ قائل ہیں۔
اس قول کی دلیل امام احمد کی مسند میں روایت کردہ حدیث (7631) ہے، جسے ابو سعید خدری، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ہے، جس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان بندہ اللہ تعالی سے کوئی بھی اچھی چیز مانگے تو اللہ اسے وہی عنائت فرماتا ہے، اور یہ گھڑی عصر کے بعد ہے) [مسند احمد کی تحقیق میں ہے کہ: یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے، لیکن یہ سند ضعیف ہے]
اسی طرح ابو داود: (1048) اور نسائی: (1389) میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جمعہ کا دن بارہ پہر[گھڑیوں ]پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک لمحہ ایسا ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے تو اللہ تعالی اُسے وہی عطا فرما دیتا ہے، تم اسے جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری لمحہ میں تلاش کرو )[اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے]
اور اسی طرح حضرت سعید بن منصور رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ :
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) ایک جگہ جمع ہوئے، اور جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو مجلس ختم ہونے سے پہلے سب اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ یہ جمعہ کے دن کے آخری وقت میں ہے"
[حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری 2/489 میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے]
اور سنن ابن ماجہ (1139)میں حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کہا:
"ہم کتاب اللہ [یعنی تورات ] میں جمعہ کے دن ایک گھڑی [کا ذکر ]پاتے ہیں، جس گھڑی میں جو کوئی مؤمن بندہ نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالی سے کچھ مانگے تو اللہ تعالی اسکی وہی ضرورت پوری فرما دیتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [میری تصحیح کرتے ہوئے]اشارہ کیا: (یا گھڑی کا کچھ حصہ!؟)
میں نے کہا:
آپ نے درست فرمایا: گھڑی کا کچھ حصہ۔
میں نے [آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے]عرض کیا:
یہ گھڑی کونسی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے)
میں نے کہا:
جمعہ کے دن آخری لمحہ نماز کا وقت تو نہیں ہوتا؟!
آپ نے فرمایا: صحیح کہتے ہو، لیکن جب کوئی مؤمن بندہ نماز پڑھ کر بیٹھ جائے، اور اسے نماز کا انتظار کہیں جانے سے روکے تو وہ شخص بھی نماز ہی میں ہے"
[اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے]
اسی طرح سنن ابو داود: (1046)، ترمذی: (491) اور نسائی: (1430) میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جن دنوں میں سورج طلوع ہوتا ہے، ان میں افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن میں آدم [علیہ السلام] کو پیدا کیا گیا، اسی دن دنیا میں انہیں اتارا گیا، اور اسی دن میں انکی توبہ قبول ہوئی، اور اسی دن انکی وفات ہوئی، جمعہ کے دن ہی قیامت قائم ہوگی، اور جنوں و انسانوں کے علاوہ ہر ذی روح چیز قیامت کے خوف سے جمعہ کے دن صبح کے وقت کان لگا کر خاموش رہتی ہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا ہے، اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے، جس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنی کوئی بھی ضرورت مانگے تو اللہ تعالی اسکی ضرورت پوری فرما دیتا ہے)
تو کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک جمعہ میں ہوتا ہے؟
میں [ابو ہریرہ]نے کہا:
بلکہ ہر جمعہ کو ایسے ہوتا ہے۔
تو کعب نے تورات اٹھائی اور پڑھنے لگا، پھر کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسکے بعد میں عبد اللہ بن سلام کو ملا، اور انہیں اپنی کعب کے ساتھ مجلس کا تذکرہ بھی کیا، تو عبد اللہ بن سلام نے [آگے سے یہ بھی کہہ دیا] :
مجھے معلوم ہے یہ کونسی گھڑی ہے!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،
میں نے ان سے التجا کی کہ مجھے بھی بتلاؤ یہ کونسی گھڑی ہے؟

تو عبد اللہ بن سلام نے رضی اللہ عنہ کہا:
یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے۔

پھر میں نے [اعتراض کرتے ہوئے] کہا: یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی کیسے ہوسکتی ہے؟! حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: (کوئی بھی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اسے پا لے) اور یہ وقت نماز پڑھنے کا وقت نہیں ہے[کیونکہ اس وقت نفل نماز پڑھنا منع ہے]؟!

تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: (جو شخص کسی جگہ بیٹھ کر نماز کا انتظار کرے تو وہ اس وقت تک نماز میں ہے جب تک نماز ادا نہ کر لے)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
یہاں [نماز سے ] یہی مراد ہے۔"
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے، جبکہ صحیح بخاری اور مسلم میں بھی اس حدیث کا کچھ حصہ روایت ہوا ہے، [اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے]" انتہی
ماخوذ از: "زاد المعاد": (1/376)

دوم:
اگر یہ کہا جائے کہ یہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے، تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ مقتدی دعا میں اتنا مشغول ہوجائے کہ خطبہ سننے سے بالکل توجہ ہٹ جائے، بلکہ خطبہ بھی سنے، اور امام کی دعا پر آمین بھی کہے،اپنی نماز میں سجدے ، اور تشہد میں سلام سے قبل بھی دعا کرے۔
چنانچہ یہ عمل کرنے سے اس عظیم گھڑی میں دعا کرنے کا موقع پا سکتا ہے، اور اسکے ساتھ اگر عصر کے بعد غروب آفتاب سے قبل بھی دعا مانگ لے تو یہ اور بھی اچھا اور بہتر ہے۔ واللہ اعلم .
از شیخ محمد صالح...

No comments:

Post a Comment