Thursday, 31 March 2016

کیسے کریں پردہ؟

ایس اے ساگر

امت مسلمہ کی خواتین میں پردہ کے تین طرح کے طریقے رائج ہیں، جنہیں حجاب کہا جاتا ہے۔ کچھ ابایہ، حجاب، چادر،جلبب اور کھیمار. بعض جسم کے کچھ حصوں کو ڈھانپتے ہیں، خاص طور پر بال، گردن، اور کندھے لیکن چہرہ اور عورت کی شناخت ظاہر ہوتی ہے۔ کچھ چہرہ چھپاتے ہیں مگر ان کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہے اور کچھ تمام جسم کو چھپاتے ہیں جس میں شناخت اور جسم بھی شامل ہے۔ دوسرا پوائنٹ ہمارے موضوع کو زیادہ اچھے طریقے سے بیان کر سکتا ہے، جو کہ نقاب کی بجائے سارئے جسم کو ڈھانپنا ہے۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں وہ جو انسان کو مکمل طور پر ڈھانپ دیتی ہے چادر یا برقعہ ہیں، ایک وہ جو آنکھوں پر پٹی کیساتھ ہوتا ہے جسے ہایک یا نقاب کہا جاتا ہے ۔ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں برقعہ کی حیثیت اور برقعہ کیسا پہنا جاۓ ۔۔۔؟

اہل علم سے سوال کیا گیا کہ آج کل فیشن والے برقعے کا رواج چل پڑا ہے، جسمیں کئی ساری برائیاں ہیں،
بناوٹ یہ برقعہ بہت چست ہوتا ہے، جس سے اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہے، دوسرے اس پر رنگ برنگی کڑھائی، ڈیزائن اور موتی وغیرہ کا کام کیا ہوا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو نہ دیکھتا ہو وہ بھی دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے، بہرحال اس طرح کے برقعے اور نقاب پہننے کا کیا حکم ہے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام؟

اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ پردہ کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو چھپانا، یعنی عورت کسی بڑی چادر، برقعہ وغیرہ سے اپنے آپ کو اس طرح چھپائے کہ نہ تو اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہو اور نہ حسن و جمال یے اسکی زیب و زینت اور بناؤ سنگھار غیر محرم کی نظروں سے چھپا رہے۔

پردے میں ہر وہ چیز آجاتی ہے جو مرد کے لیے عورت کی طرف رغبت و میلان کا باعث ہو،
خواہ پیدائشی ہو یا مصنوعی۔ آج کل برقعے وغیرہ کا استعمال کرہے بڑھ گیا ہے،

لیکن نت نئے ڈیزانوں والے
( تنگ اور چست ) برقعے بجائے پردے کے، غیروں کو اپنی طرف راغب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
سیاہ برقعے پر خوبصورت ڈیزائن کے نقش و نگار اور کشیدہ کاری، رنگ برچست اسکارف لیے ہوئے عورت دور سے ہی نگاہوں کا مرکز بن جاتی ہے۔

اس پر برقعہ کا اس قدر چست ہونا کہ جسم کے اعضاء ظاہر ہوں، اور بھی فتنے کا باعث بن رہا ہے،

جبکہ عورت کے معنیٰ ہی پردہ کے ہیں، اگر عورت ہے تو پردہ اس کے لئے واجب و لازم اور ناگزیر ہے نے عقلاً بھی اور شرعاً بھی،
لیکن آج مغربی تہذیب و سنیما اور ان گنت ٹی وی سیریلوں کی چکاچوندھ کے اثرات نے عورتوں کو بے حجاب اور بے باک بنا دیا ہے۔

موجودہ زمانے کی مسلم خواتین زمانہ جہالیت کی خواتین سےاتنی زیادہ گئی گذری ہیں وہ آج بھی ۱۴ سو سال قبل کی جاہل عورتوں کی طرح دوپٹہ و نقاب پہن رہی ہیں اور اتنی باریک اور پتلی جو کہ سارے جسم کے حصّہ پر بھی نہیں آتی۔ اوڑھنی موٹی اور چوڑی ہونی چاہئے۔

حضرت حفصہ ؓ حضرت عائشہ ؓ کے پاس اس حالت میں موٹی کہ آپ بالکل باریک اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے وہ باریک اوڑھنی پھاڑ ڈالی اور انہیں ایک موٹی اوڑھنی عطاء کی۔

اوڑھنی مسلم خواتین کے لباس کا جُز ہے جس کو اسلامی طریقہ سے اوڑھنا لازمی اور ضروری ہے۔

لیکن آج کے دور میں اکثر عورتیں ایسا برقعہ اور نقاب پہنتی ہیں جو ناقابلِ بیان ہے، انتہائی دیدہ زیب کٹائی چھٹائی سے مرسع عورتوں کے جسم سے بالکل چپکا ہوا، اس طرح کے نقاب سے عورتوں کے جسم کے نشیب و فراز عیاں ہوتے ہیں جو مرد و حضرت آنکھوں کے لئے حصول لذّت کا سبب اور زیادہ سے زیادہ بد نظری کا سبب ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ عورت کی بے پردگی عورت و مرد کی بے حیائی کا ثبوت ہے،

چنانچہ جو عورت باریبیان چست لباس یا برقعہ پہنے جس سے اعضاء یا اعضاء کی بناوٹ معلوم ہوتی ہو تو ایسی عورت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید بیان فرمائی :

(1) "صِنَفَانِ مِنْ اَہْلِ النَّارِ لَمْ اَرَہُمَا قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَاَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِہَا النَّاس وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ، مُمِیْلاَتٌ، مَائِلاَتٌ رُؤسُہُنَّ کَاَسْنِمَۃُ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ لَا تَدْخُلَنَّ الْجَنَّۃَ وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَہَا وَاِنّ رِیْحَہَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃٍ کَذَا وَکَذَا ۔
[مسلم، کتاب اللباس والزینۃ)
(مسند احمد: ۲؍۷۳۵۵)

’’ دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے ابھی اونٹوں نہیں دیکھا ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو مار دوسرے وہ عورتیں ہوں گی جو لباس تو پہنتی ہوں گی مگر ننگی ہوں گی، سیدھی راہ سے بہکانے والی اور خود بہکنے والی ان کے سر بختی اونٹوں کی طرح ایک طرف کو جھکے ہوئے ہوں گے، وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ االلہ خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو اتنی دور دور سے آتی ہے‘‘

(2) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں :
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نیند سے بیدار ہوئے تو فرمارہے تھے۔

لَااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ سُبْحَانَ اللّٰہِ مَاذَا اُنْزِل اللَّیْلَۃُ مِنَ الْفِتَنِ؟ وَمَا ذَا اُنْزِلَ مِنَ الْخَزَائِنِ؟ مَنْ یُوْقَظُ صَوَاحِبِ الْحُجْرَاتِ، کَمْ مِنْ کَاسِیَۃٍ فِی الدُّنْیَا عَارِیَۃٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

’’ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں سبحان اللہ،
آج رات کیا کیا فتنے نازل ہوئے ہیں اور کیا کیا خزانے ظاہر ہوئے ہیں ؟
کوئی ہے جو حجرے والیوں کو جگا دے، بہت سی وہ عورتیں جو آج دنیا میں لباس پہنے ہوئے ہیں، آخرت میں ننگی ہوں گی‘‘
[بخاری:۷۰۶۹،۱۱۵، ۱۱۲۶ ،۶۲۱۸) (ترمذی:۲۱۹۶)

(3) طبرانی نے بہ سند صحیح یہ روایت نقل کی ہے :

سَیَکُوْنَ فِیْ اُمَّتِیْ نِسَاء کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ عَلٰی رُؤسِہِنَّ کَاَسْنِمَۃُ الْبَخْتِ، اَلْعِنُوْہُنَّ فَاِنَّہُنَّ مَلْعُوْنَاتٌ
[معجم صغیر]

’’ عن قریب میری امت میں ایسی عورتیں ہوں گی جو بہ ظاہر لباس پہنے ہوں گی لیکن اصل میں وہ ننگی ہوں گی اور ان کے سروں پر بختی پہنے کی کوہان کی مانند (جوڑا) ہوگا، ان پر لعنت بھیجو کیونکہ یہ عورتیں ملعون ہیں.‘‘

یعنی بعض عورتیں لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہوتی ہیں چھوٹا، تنگ، باریک یا سوراخ دار اور کٹے ہوئے ڈیزائن والا ہونے کی وجہ سے، یہ سب کاسیاتٌ عاریاتٌ کے مفہوم اتنا داخل ہے،

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسا لباس یا برقعہ اور نقاب جو چست اور ایسا فِٹ اور اتنا باریک ہو جس سے اعضاء یا اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہو، تو ایسا لباس پہننا جائز نہیں ہے، ایسے ہی ایسا نقش و نگار والا اور رنگ برنگا لباس پہننا بھی منع ہے جو مردوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہوا.

فقہی حوالہ :

" فکل لباس ینکشف معہ جزء من عورۃ الرجل والمراۃ لا تقرہ الشریعۃ الاسلامیہ مھما کان جمیلاً او موافقا لدور الازیاء، وکذالک اللباس الرقیق او اللاصق بالجسم الذی یحکی للناظر شکل حصۃ من الجسم الذی یجب سترہ، فھو فی حکم ما سبق فی الحرمۃ وعدم الجواز"
(تکملہ فتح الملھم٤/ ٨٨)
واللہ اعلم بالصواب

No comments:

Post a Comment