اسلام میں مدینہ منورہ کو بہت اہم مقام حاصل ہے. یہی وہ شہر ہے جہاں پر وجہ کائنات سرور کائنات آقائے نامداررحمتہ للعالمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں۔ یہ شہر کوئی عام شہر نہیں ہے یہی وہ بلد حبیب ہے کہ جس کا اونچا نصیب ہے، یہاں دن رات فرشتوں کی جماعتیں اترتی ہیں اور اﷲ کے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم پر درودسلام کے تحائف نچاور کرتی ہیں۔یہ شہر عاشقوں کی مرکز نگاہ ہے، یہاں جانے،جینے کا، مرنے کا، رونے کا، ہنسے کا اپنا مزہ ہے ........ تبھی تو حضرت امام مالک بن انس رحمہ اﷲ کو یہاں دفن ہونے اتنی شدید خواہش تھی کہ اس شہر سے کسی صورت نکلنا گوارہ نہیں کرتے تھے۔مدینہ منورہ میں ایمان کے ساتھ مرنے کے بعد جنت البقیع میں دفن ہونا بہت بڑی نعمت ہیں،جہاں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت مدفون ہیں،یعنی حضرت عباس رضی اﷲ عنہ، حضرت حسن رضی اﷲعنہ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزدایاں حضرت زنیب، حضرت ام کلثوم، حضرت رقیہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہن اور حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی تین پھوپھیاں اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم آرام فرما ہیں، اور تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفا ن رضی اﷲ عنہ، دس ہزار صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم، بے شمار تابعین، تبع تابعین اور لاتعداد علما، صلحا، شہدا اور اولیاءکرام رحمہم اﷲ مدفون ہیں۔الغرض جنت البقیع میں مدفون ہونا بہت بڑی سعادت میں علماء دیوبند کو بھی اﷲ تعالیٰ نے پورا پوار حصہ دیا ہے اور ان کے مخالفین کو اس سعادت سے محروم رکھاہے۔ دار العلوم دیوبند کے پہلے مہتمم شاہ رفیع الدین جنت البقیع میں حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے سرہانے دفن ہوگئے جو دیوبندی عاشقان رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کے سرخیل تھے۔شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اﷲ بھی جنت البقیع میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے قدموں میں مدفون ہیں۔استاذ المحدثین حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی ازواج مطہرات کے قدموں کی طرف مدفون ہیں گویا بیٹا اپنی ماؤں کے قدموں میں لیٹا ہوا ہے۔ حضرت مولانا مظفر حسین کاندھلوی ؒ حضری عثمان غنی رضی اﷲ عنہکے قریب مدفون ہیں۔مدینہ منورہ اور جنت البقیع کے فضائلحضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
”مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے جوتمام بستیوں پر غالب رہی ہے اور اس بستی کو لوگ یثرب کہتے تھے اب وہ مدینہ ہے جو برے آدمیوں کو اس طرح نکال دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو نکال دیتی ہے۔
بخاری ومسلم
حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص مدینہ میں مر سکتاہوا اسے مدینہ میں مرنا چاہئے کیونکہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ احمد وترمذیحضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی۔ میں اس سے نکلوں گا۔ پھر ابوبکر رضی اﷲ عنہ اپنی قبر سے نکلیں گے پھر عمررضی اﷲ عنہ، پھر جنت البقیع میں جاؤں گا ،وہاں جتنے مدفون ہیں ان کو اپنے ساتھ لوں گا،پھر مکہ مکرمہ کے قبرستان والوں کا انتظار کروں گا وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان آکر مجھ سے ملیں گے۔ ترمذیاب علمائے دیوبند کے ان حضرات کے نام ذکر کیے جاتے ہیں جو نبی کے قبرستان میں تا قیامت کےلئے دفن ہوگئے اور حدیث شریف کی رو سے آقائے نامدار کی شفاعت کے مستحق بن گئے۔
مدفونین جنت البقیع
1۔حضرت شاہ عبد الغنی محد ث دہلوی رحمہ اﷲ علیہ
2۔حضرت مولانا مظفر حسین صاحب رحمہ اﷲ علیہ
3۔شیخ محمد مظہر دہلوی رحمہ اﷲ علیہ
4۔حضرت مولانا شاہ رفیع الدین رحمہ اﷲ علیہ
5۔مولانا محمد اعظم حسین صدیقی خیر آبادی رحمہ اﷲ علیہ
6۔مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ اﷲ علیہ
7۔مولانا محمد صدیق صاحب مہاجر مدنی رحمہ اﷲ علیہ
8۔مولانا سید احمد مہاجر مدنی رحمہ اﷲ علیہ
9۔مولانا جمیل احمد مدنی رحمہ اﷲ علیہ
10۔حضرت مولانا شیر محمد مہاجرمدنی رحمہ اﷲ علیہ
11۔حضرت مولانا عبدالشکور دیوبندی رحمہ اﷲ علیہ
12۔حضرت مولانا شیخ عبدالحق نقشبندی مدنی رحمہ اﷲ علیہ
13۔حضرت مولانا محمد موسی مہاجر مدنی رحمہ اﷲ علیہ
14۔حضرت مولانا بدر عالم میر ٹھی مہاجر مدنی رحمہ اﷲ علیہ
15۔حضرت مولانا عبد الغفور عباسی،ہزاروی مہاجر مدنی رحمہ اﷲ علیہ
16۔حضرت مولانا قاری فتح محمدپانی پتی رحمہ اﷲ علیہ
17۔حضرت مولانا انعام کریم رحمہ اﷲ علیہ
18۔حضرت مولانا عبدالحنان صاحب رحمہ اﷲ علیہ
19۔حضرت مولانا زکریا صاحب مدنی رحمہ اﷲ علیہ
20۔حضرت مولاناقاری سید حسن شاہ بخاری ہزاروی رحمہ اﷲ علیہ
21۔حضرت مولاناسید عبد العزیز رحمہ اﷲ علیہ
22۔حضرت مولانا حافظ غلام محمد رحمہ اﷲ علیہ (المعروف بڑے حافظ جی)
23۔حضرت مولانا سعید احمد خاں صاحب رحمہ اﷲ علیہ
24۔حضرت الحاج ڈاکٹر شاہ حفیظ اﷲ سکھروی رحمہ اﷲ علیہ
25۔حضرت صوفی محمد اقبال صاحب مہاجرمدنی رحمہ اﷲ علیہ
26۔حضرت مولانا عاشق الٰہی بلندی شہری رحمہ اﷲ علیہ
27۔حضرت سید حبیب محمودمدنی رحمہ اﷲ علیہ
28۔حضرت مولانا منظور احمد الحسینی رحمہ اﷲ علیہ
29۔حضرت موانا معین الدین ہزاروی رحمہ اﷲ علیہ
30۔حضرت مولانا رشید الدین حمیدی رحمہ اﷲ علیہ
31۔حضرت مولانا محمو د احمدمدنی رحمہ اﷲ علیہ
32۔عبدالقدوس صاحب دیوبندی رحمہ اﷲ علیہ
33۔حضرت مولانا عبد الحق عباسی رحمہ اﷲ علیہ
34۔حضرت مولانا محمد عبدالرحمان عباسی رحمہ اﷲ علیہ
35۔حکیم بنیادعلی مرحوم رحمہ اﷲ علیہ والد ماجد مولانا مرتضی حسن چاندپوری
36۔حضرت مولانا عبدالحق بنوری رحمہ اﷲ علیہ
37۔حضرت مولانا حامد مرزا فرغانی رحمہ اﷲ علیہ فاضل دار العلوم دیوبند
38۔حضرت مولانا عبدالکریم رحمہ اﷲ علیہ ابن بنت شاہ عبدالغنی
39۔حضرت امتہ اﷲ صاحب رحمہ اﷲ علیہ بنت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی
40۔حضرت مولانا ہاشم بخاری صاحب رحمہ اﷲ علیہ فاضل دار العلوم دیوبند
41۔حضرت مولانا عبدا لقدوس بنگالی رحمہ اﷲ علیہ مجاز صحبت حضرت تھانویؒ
42۔حضرت مولانا محمد اسماعیل برماو سی رحمہ اﷲ علیہ
43۔حضر ت مولانامحمد صدیق پٹھان رحمہ اﷲ علیہ مدرس مسجد نبوی شریف
44۔حضرت مولانا حافظ غلام محمد صاحب رحمہ اﷲ علیہ فاضل دارالعلوم ڈابھیل
45۔حضرت مولانا صوفی محمد اسلم صاحب رحمہ اﷲ علیہ
46۔حضرت مولانا قاضی نور محمد ارکانی رحمہ اﷲ علیہ
47۔حضرت مولانا احمدصاحب رحمہ اﷲ علیہ دار العلوم ڈابھیل
48۔حضرت مولانا لعل محمد صاحب رحمہ اﷲ علیہ فاضل دار العلو دیوبند
49۔حضرت مولانا عبد الحمید صاحب مظاہری رحمہ اﷲ علیہ
50۔حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمہ اﷲ علیہ مدیر مدرسہ تحفیظ القرآن مدینہ منورہ
51۔حضرت مولانا شیخ محمد احمد صاحب رحمہ اﷲ علیہ بمبئی والے، متوسل حضرت قاری طیب قاسمی ؒ
52۔شیخ کامل سندھی رحمہ اﷲ علیہ متوسل مولانا احمد علی لاہوریؒ
53۔قاری عبد الرشید لدھیانوی رحمہ اﷲ علیہ نبیر ہ مولف نورانی قاعدہ
54۔قاری عبد الروف صاحب رحمہ اﷲ علیہ مدرس حرم مدنی
55۔قاری عبد الرحمن تونسوی رحمہ اﷲ علیہ مدرس تحفیظ القران حرم مدنی
56۔حافظ غلام رسول صاحب رحمہ اﷲ علیہ مدرس تحفیظ القران حرم مدنی
57۔حضرت قاری عبد الغفور صاحب رحمہ اﷲ علیہ تحفیظ القران حرم مدنی
58۔مولانا عبد المالک رحمہ اﷲ علیہ مرادآبادی مشرف مدرس تحفیظ القران مدینہ منورہ
59۔شیخ محمد خیاط رحمہ اﷲ علیہ تبلیغ مسجد نبوی شریف
60۔مولاناعبد العزیز مشرقی رحمہ اﷲ علیہ بن حکیم فضل محمد صاحب تلمیذ حضرت گنگوہی وخلیفہ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ
61۔مولانا حاجی غلام حسین رحمہ اﷲ علیہ فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور
No comments:
Post a Comment