ایس اے ساگر
ذی ہوش حلقوں میں رہ رہ کر آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں کہ پولیو ڈراپس کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ سانپ گزر گیا ہو اور لکیر پیٹی جارہی ہو. ظاہر ہے کہ 1978 سے شروع ہونے والی یہ مہم 1995 تک 95 فیصد کامیابی حاصل کرچکی تھی. حتی کہ عالمی صحت ادارہ نے وطن عزیز کو 27 مارچ 2014 کے روز 'پولیو فری' قرار دے دیا تھا. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ پول کھولنے والوں کی کمی نہیں ہے. کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسیف UNICEF کی زیرِ نگرانی ۱۹۸۵ سے ہندوستان کے طول و عرض میں مرض پولیو کے انسداد کیلئے ٹیکے لگانے اور اس کے ڈراپس پلانے کی مہم نہایت زور و شور اور جوش و خروش کیساتھ جاری ہے ۔اس طرح اب تک بلا مبالغہ اربوں ڈالر اس مہم پر خرچ کئے جا چکے ہیں۔ جبکہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور جان لیوا بیماریاں جیسے ٹی بی، کینسر، ایڈس وغیرہ کے سبب نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دیگر متعدد ممالک میں لاکھوں لوگ ہر سال لقمۂ اجل بن جاتے ہیں ،ان کیخلاف انسداد پولیو جیسی زبردست مہم اور ان پر اتنی خطیر رقم کیوں خرچ نہیں کی جاتی ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو عوام الناس کے ذہنوں میں پولیو مہم کے سلسلے میں شکوک و شبہات اور اندیشہ ہائے دور دراز پیدا کرنے کا باعث ہے ۔خصوصاً جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پولیو ڈراپس پلانے کی یہ زبردست مہم یہودی ممالک اسرائیل کے علاوہ پوری دنیا خصوصاً ایشیائی ممالک میں انتہائی زور و شور سے جاری ہے اور ہندوستان و پاکستان ، بنگلہ دیش اور عرب ممالک جیسے کثیر مسلم آبادی والے ممالک میں اس پر پورا زور صرف کیا جارہا ہے۔
خطیر رقم کا صرفہ کیوں؟
ایسی صورت میں ذہن میں یہ سوال پیداہو نا لازمی ہے کہ مال کے حریص یہودی اور عیسائی اس مہم پر اربوں کھر بوں ڈالر آخر کیوں خرچ کر رہے ہیں؟ یہ عالم اسلام اور باقی دنیا کے خلاف کو ئی خطرناک سازش تو نہیں ہے؟ اس کے علاوہغور طلب بات یہ بھی ہے کہ دور ماضی میں ملیریا اور چیچک کے خاتمے کیلئے ٹیکے لگائے گئے تھے ۔کیا ان کے نتیجہ میں یہ بیماریاں اب معدوم ہو چکی ہیں؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ عالمی ادارہ صحت میڈیا میں شائع ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں صرف 600 بچے پولیو کا شکار پائے گئے ہیں جب کہ ٹی وی، ایڈس،ملیریا، چیچک اور سرطان یعنی کینسر وغیرہ میں مبتلا افراد کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہے ۔پھر بھی پولیو کو ختم کرنے کیلئے اربوں کھربوں ڈالر بے تکلف خرچ کئے جارہے ہیں جبکہ مذکورہ بالا سنگین امراض کی دوائیں روز بروز مہنگی اور عوام کی دسترس سے باہر ہو تی جا رہی ہیں۔
کیا کہتے ہیں ذرائع ابلاغ ؟
صورت حال یہ ہے کہ میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق پولیو کی متعدد خوراکیں پلوانے کے باوجود بہت سے بچے پولیو کا شکار ہو گئے۔ انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا 18 مارچ 2005 کے مطابق صوبہ بہار کے 18اضلاع میں 2003میں پولیو کے اٹھارہ معاملے سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد جب وہاں پولیو ڈراپس پلانے کی مہم تیز تر کر دی گئی تو اس کے ایک سال بعد 2004 میں پولیو میں مبتلا ہو نے والے بچوں کی تعداد کم ہو نے کی بجائے بڑھ کر 41 ہو گئی! کیا یہ انکشاف پولیو ڈراپس پلانے کی اس زبردست مہم کی قلعی کھول دینے کیلئے کافی نہیں ہے ۔ ؟ جہاں تک پولیو ڈراپس پلانے کی یونیسیف کی تیار کر دہ حکمت عملی اور اس کے نتائج کی بات ہے، تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ جب 1985 میں عالمی سطح پر پانچ سال کے بچوں کو پولیو ڈراپس پلانے کا آغاز کیا گیا تھا تو اس مہم کا نعرہ تھا،
’ایک بوند زندگی میں ایک بار‘
اور اب یہ نعرہ بدل دیا گیا ہے
’دو بوند پولیو ڈراپ کی ہر بار‘
اس طرح اب سال بھر میں تقریباً 40 بار سے بھی زائد یہ خوراک پانچ سال تک کے بچوں کو پلائی جا رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ؟ایک سوال اور ذہن میں پیدا ہو تا ہے وہ یہ کہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے بہبود اطفال یونیسیف جو ہندوستان کے پولیو کا نگراں اور ذمہ دار ہے اور وہ اس پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔اس ادارہ کی انسانی ہمدردی اور بچوں کی فلاح اور بہبود کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ۱۹۹۱ء کی پہلی خلیجی جنگ کے بعد سے اقوام متحدہ نے صدام حسین کے دور اقتدار کے آخر تک عراق میں ضروری اور جان بچانے والے ادویات پہنچنے نہ دینے کی پابندی لگا رکھی تھی، جس کی وجہ سے وہاں اس تمام عرصہ میں پانچ لاکھ سے زائد بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو نے کے بعد مطلوبہ ادویہ نہ ملنے سےفوت ہو گئے۔سوڈان میں دوائیں بنانے کی فیکٹری قائم کی گئی ،تاکہ آئندہ دواؤں سے محروم عراقی بچوں کو موت سے بچایا جا سکے ،تو امریکہ نے اس فیکٹری پر بم برسا کر تباہ و برباد کر دیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر بچوں کے قاتلوں کو دنیا کے چند بچوں کے معذور ہو نے سے بچا نے کی فکر کہاں سے لاحق ہو گئی ؟ اس بات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ! عالمی ادارہ صحت W.H.O جو خالصتاً ایک صیہونی ادارہ ہے اور صیہونیت کی عالمی تنظیم زنجری ZENGERY کا ایک اہم ترین شعبہ ہے۔ اس کے طبی بلیٹن جلد ۴۷: صفحہ ۲۵۹ ،۱۹۷۲ء کا حوالہ دیتے ہوئے یوروپ کے ایک ڈاکٹر الین کیمپ بیل ALLEN CAMP BELL رقمطراز ہیں۔
’ایک بوند زندگی میں ایک بار‘
اور اب یہ نعرہ بدل دیا گیا ہے
’دو بوند پولیو ڈراپ کی ہر بار‘
اس طرح اب سال بھر میں تقریباً 40 بار سے بھی زائد یہ خوراک پانچ سال تک کے بچوں کو پلائی جا رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ؟ایک سوال اور ذہن میں پیدا ہو تا ہے وہ یہ کہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے بہبود اطفال یونیسیف جو ہندوستان کے پولیو کا نگراں اور ذمہ دار ہے اور وہ اس پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔اس ادارہ کی انسانی ہمدردی اور بچوں کی فلاح اور بہبود کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ۱۹۹۱ء کی پہلی خلیجی جنگ کے بعد سے اقوام متحدہ نے صدام حسین کے دور اقتدار کے آخر تک عراق میں ضروری اور جان بچانے والے ادویات پہنچنے نہ دینے کی پابندی لگا رکھی تھی، جس کی وجہ سے وہاں اس تمام عرصہ میں پانچ لاکھ سے زائد بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو نے کے بعد مطلوبہ ادویہ نہ ملنے سےفوت ہو گئے۔سوڈان میں دوائیں بنانے کی فیکٹری قائم کی گئی ،تاکہ آئندہ دواؤں سے محروم عراقی بچوں کو موت سے بچایا جا سکے ،تو امریکہ نے اس فیکٹری پر بم برسا کر تباہ و برباد کر دیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر بچوں کے قاتلوں کو دنیا کے چند بچوں کے معذور ہو نے سے بچا نے کی فکر کہاں سے لاحق ہو گئی ؟ اس بات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ! عالمی ادارہ صحت W.H.O جو خالصتاً ایک صیہونی ادارہ ہے اور صیہونیت کی عالمی تنظیم زنجری ZENGERY کا ایک اہم ترین شعبہ ہے۔ اس کے طبی بلیٹن جلد ۴۷: صفحہ ۲۵۹ ،۱۹۷۲ء کا حوالہ دیتے ہوئے یوروپ کے ایک ڈاکٹر الین کیمپ بیل ALLEN CAMP BELL رقمطراز ہیں۔
بربادی پر کمر بستہ :
’’ٹیکوںVACCINESS کے ذریعہ بیماریوں کا مقابلہ کر نے کے نام پر عالمی ادارہ صحت ہمارے قدرتی دفاعی نظام NATURAL IMMUNE SYSTEN برباد کر نے پر تلا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ زمین سے انسانوں کے وجود ہی کو ختم کر دینا چاہتاہے۔ ڈاکٹر الین کیمپ بیل، جو کہ میڈیسین میں ایم ڈی ہیں، انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ
’’ایڈز وائرس H.I.V انسانوں کیلئے لیبارٹری میں ہی بنا یا گیا ہے، یعنی وہ GENITICALLY ENGINEERED وائرس ہے، قدرتی پیداوار جرثومہ نہیں ہے۔ اس موضوع پر انہوں نے دو کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ایک کتاب کا نام AIDS AND THE DOCTOR OF DEATH ہے اور دوسری کتاب QUEER BLOOD کے نام سے مارکیٹ میں آئی ہے!۔ڈاکٹر کیمپ بیل نے لکھا ہے کہ ماضی قریب میں ایک مشہور یہودی سائنس داں جس کا نام جوناس ایڈوارڈ سیلک JONAS EDWARD SALK تھا، وہ محض ایک اعلیٰ پائے کا بیکٹریا لوجیسٹ 1914-1995 ہی نہیں تھا ،بلکہ ایک بہت بڑا یہودی روحانی پیشوا ربی بھی تھا اور جس کا نام آج بھی یہودی حاخات ،علماء یہود، اور ربی بڑی عقیدت و احترام سے لیتے ہیں۔ اس نے ۱۹۶۳ میں امریکہ کے شہر کیلی فورنیا کے لازولہ علاقہ میں سیلک انسٹی ٹیوٹ فاربایولوجیکل اسٹڈیز کے نام سے قائم کی تھی، جس کا شمار دنیاکے عظیم الشان بایو لوجیکل اداروں میں ہو تا ہے۔ اس ادارہ کا سالانہ بجٹ ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر یعنی ساڑھے پانچ ارب روپے ہے۔
’’ایڈز وائرس H.I.V انسانوں کیلئے لیبارٹری میں ہی بنا یا گیا ہے، یعنی وہ GENITICALLY ENGINEERED وائرس ہے، قدرتی پیداوار جرثومہ نہیں ہے۔ اس موضوع پر انہوں نے دو کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ایک کتاب کا نام AIDS AND THE DOCTOR OF DEATH ہے اور دوسری کتاب QUEER BLOOD کے نام سے مارکیٹ میں آئی ہے!۔ڈاکٹر کیمپ بیل نے لکھا ہے کہ ماضی قریب میں ایک مشہور یہودی سائنس داں جس کا نام جوناس ایڈوارڈ سیلک JONAS EDWARD SALK تھا، وہ محض ایک اعلیٰ پائے کا بیکٹریا لوجیسٹ 1914-1995 ہی نہیں تھا ،بلکہ ایک بہت بڑا یہودی روحانی پیشوا ربی بھی تھا اور جس کا نام آج بھی یہودی حاخات ،علماء یہود، اور ربی بڑی عقیدت و احترام سے لیتے ہیں۔ اس نے ۱۹۶۳ میں امریکہ کے شہر کیلی فورنیا کے لازولہ علاقہ میں سیلک انسٹی ٹیوٹ فاربایولوجیکل اسٹڈیز کے نام سے قائم کی تھی، جس کا شمار دنیاکے عظیم الشان بایو لوجیکل اداروں میں ہو تا ہے۔ اس ادارہ کا سالانہ بجٹ ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر یعنی ساڑھے پانچ ارب روپے ہے۔
بندروں کا استعمال :
اس انسٹی ٹیوٹ میں چار سو سے زیادہ بایو ٹیکنا لوجیسٹ جنٹک انجینئر GENETIC ENGINEERS اور حیاتی علوم کے سائنس داں شب و روز کا م کر تے رہتے ہیں ۔ڈاکٹر کیمپ بیل کے بیان کے مطابق اس یہودی سائنس داں جوناس سیلک نے ہی اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے چار سال قبل ۱۹۵۵ء میں ہندوستان اور فلنیائن سے چار ہزار بندر منگوا کر کیلی فورنیا کے بلفٹن علاقہ میں ندی کے کنارے ایک سنسان مگر پر فضا مقام پر واقع اپنی تجربہ گاہ میں ان بندروں پر کئی سطحوں STAGES پر متعدد مرحلوں پر مشتمل تجربات کئے تھے، اور اس کے بعد ان بندروں کے گردوں KIDNEY سے حاصل کر دہ خلیات CELLS سے پولیو POLIO کے پولیو کے مشہور عالم ٹیکے VACCINE تیار کر نا اسی یہودی سائنس داں کا کار نامہ ہے۔ اس کے بعد امریکہ نے ’’ جو ناس سیلک‘‘ کے بتائے ہو ئے پولیو ویکسین کو ہی عالمی امداد پولیو مہموں WORLD SWEEPING DRIVES کیلئے لمبے عرصہ تک استعمال کر نے کا فیصلہ کیا تھا! موجودہ دور میں پولیو ویکسین بنا نے والی سب سے بڑی بین الاقوامی دوا ساز کمپنی لیڈر لے LEDERLE، جو یہودیوں کی ہی ملکیت میں ہے وہ ریسیس بندروں RHESIS MONKEYS کے گردوں سے ہی یہ ویکسین تیار کر رہی ہے ۔اس کمپنی نے ۱۹۶۹ء سے ۱۹۹۹ء تک تیس برسوں میں ساٹھ کروڑ پولیو ڈراپس کی فروخت کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔! پولیو ویکسین کے سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے ،جو کہ سب یہودیوں کے قبضہ میں اور انہیں کی ملکیت ہیں، اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی بھر پور کوشش کی ہے کہ ’امریکی تحفظ ادارہ برائے تدارک امراض‘ یعنیCDC نے سات سال قبل یکم جنوری ۲۰۰۰ء سے پولیو کے خاتمے کیلئے پلائی جانے والی اورلی پولیو ویکسین OPV پر امریکہ میں مکمل طور پر پابندی عائد کر رکھی ہے،اور اس کی وجہ امریکی تحفظ صحت ادارے CDC نے یہ بتائی ہے کہ پولیو ویکسین کی ان بوندوں میں مردہ پولیو وائرس ATTENUATED VIRUS کیساتھ پولیو کچھ زندہ وائرس بھی پائے گئے ہیں جو کہ قصداً اس میں شامل کئے گئے ہیں ۔
اپاہج بنانے کی سازش :
اس کی وجہ سے دوسرے صحت مند بچوں کو بھی یہ مرض لگ سکتا ہے۔ اس کی بجائے اس ادارہ نے امریکہ میں پولیو ڈراپسOPD پلانے کی بجائے پولیو کی انجکشن لگانے کی سفارش کی ہے۔ تاکہ پولیو کے پچھلے خطرات کو کم کیا جاسکے۔ لیکن اس نئے انجکشن کا خرچ اٹھا نا عوام الناس میں ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، کیونکہ ایک انجکشن کی قیمت تقریباً پانچ ہزار روپے ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اتنے مہنگے انجکشن تیسری دنیا یعنی ایشیائی ممالک کے بچوں کوتو دئے جانے سے تو رہے، اس لئے عالمی ادارۂ صحت اور یونی سیف جیسے یہودی بین الاقوامی اداروں کے ذریعہ امریکی گوداموں میں کروڑوں کی تعداد میں بیکار ٹیری ’لیڈر لے کمپنی‘ مسترد شدہ پولیو ڈراپس کی خوراکیں OPD پیکنگ اور لیبل بدل کر دوسری کمپنیوں کے نام سے زبردست پروپیگنڈے کے ذریعہ ایشیائی ممالک میں مفت اور زبردستی پلائی جا رہی ہیں تاکہ غیر یہودی قوموں خصوصاً مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو آپاہچ بنا کر عالمی داؤدی سلطنت کے ذریعہ یہودی خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کیا جا سکے!ڈاکٹر الین کیمپ بیل لکھتے ہیں کہ پولیو کی ان بوندوں OPV کے پینے سے مستقبل میں نئی نسلوںکے پولیو زدہ ہو نے اور ایک خطرناک قسم کے زہریلی جسم کے فالج PARALITIC POLIO ہو جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔بہر صورت ہندوستان ،پاکستان، سعودی عرب،مصر، یمن، افغانستان، انڈونیشیا، نائجریا وغیرہ کثیر مسلم آبادی والے ملکوں میں ان پولیو ڈراپس کو پلا نے کے بعد بھی اچھے خاصے صحت مند بچوں میں اچانک پولیو ہو جانے کے واقعات کے پیچھے یہی حقیقت کار فرما ہے کہ پلائی جانے والی پولیو ڈراپس OPV میں موجود زندہ وائرس ہی پولیو کے اسباب بن جاتے ہیں !! ایک امریکی صحافی مائیکل ڈورمن نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ امریکہ ۱۹۶۲ء سے ۲۰۰۰ء تک ڈاکٹر جوناس سیلک کے ذریعہ بنائے گئے پولیو ویکسین تیس سال کے عرصے میں صرف عیسائی بچوں کو ہی پلائے گئےتھے ،جبکہ امریکہ کے ڈیڑھ فیصد سے بھی کم یہودیوں نے ’مذہبی اسباب‘ کا بہانہ لے کر اپنے بچوں کو پولیو ڈراپس سے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔!! پولیو ڈراپس کے سلسلے میں سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ :
یوروپ میں میسو تھیلی یو ما کینسر MESOTHELIOMAS CANCER کے ماہرین میں سے ڈاکٹر ٹیڈ گرنی DR.TEDGERNEY جو ایک خطرناک وائرس SV-40 پر ریسرچ کر رہے ہیں.
یوروپ میں میسو تھیلی یو ما کینسر MESOTHELIOMAS CANCER کے ماہرین میں سے ڈاکٹر ٹیڈ گرنی DR.TEDGERNEY جو ایک خطرناک وائرس SV-40 پر ریسرچ کر رہے ہیں.
کینسر کا خطرناک جرثومہ :
ان کا دعویٰ ہے کہ یہ وائرس SV-40 انسانوں میں کینسر CANCER پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس وائرس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اتنا خطرناک ہے کہ اگلی نسل انسانی میں بغیر کوئی ٹیکہ یا انجکشن لگائے پیدائشی طور پر مستقل ہو سکتا ہے۔ یہ مہلک اور خطرناک ترین وائرس، پولیو ویکسین میں پائے جانے کے شوہد انہی تجربات کے بعد ملے ہیں اور ان شہادتوں کے بعد کہ پولیو ویکسین میں کینسر کا خطرناک جر ثومہ SV-40 موجود ہے۔ کینسر کے ان ماہرین کی رپورٹ پر ہی امریکہ کے محکمہ تحفظ صحت CDC نے امریکہ میں پولیو ڈراپس پلانے پر مکمل طور پر پابندی عائد کی تھی،مگر یہودی ربی کے دباؤ پر اس حکم امتناعی کی وجہ صرف یہ ظاہر کیگئی اس میں کچھ زندہ پولیو کے جراثیم پائے گئے ہیں۔!! بہرنوع، اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عالمی محکمہ صحت اور یونی سیف جیسے صیہونی ادارے ایشیائی ملکوں، خصوصاً ہند، پاک میں زبردستی اور مسلسل پولیو ڈراپس پلا کر ایشیائی قوموں بالخصوص مسلمانوں کے معصوم بچوں کے خون میں SV-40 نامی کینسر کا وائرس اور پولیو کے زندہ جراثیم دانستہ طور پر پہونچا کر ان کی آئندہ نسلوں کو آپاہیج اور تباہ و برباد کر نے پر تلے ہو ئے ہیں۔جہاں تک ایڈز کے پھیلنے کے ممکنہ خطرات اور امکانات کی بات ہے تو یہ جان لیوا مرض بھی ان صیہونی درندوں کی اپنے دشمنوں، خصوصاً مسلمانوں کیخلاف حیاتیاتی اسلحوں کی جنگ BIOLOGICAL WARFARE کا ایک مہلک ہتھیار ہے، جس کا جر ثومہ VIRUSES اصلیت میں لیبار ٹری میں مصنوعی طور پر تیار کیا گیا وائرس GENETICALLY ENGINEERED VIRUSES ہے، جس کو HIV کا نام دیا گیا ہے۔ یہ جر ثومہ جس کو پہلے چیچک کے ٹیکوں SMALL POX VACCINE کےذریعہ، اور اب ہیپاٹائٹس بی HEPATITIS-B کے ٹیکوں کے ذریعہ WHO کی مدد سے دنیا میں پھیلا یا گیا ہے۔ ۱۱؍مئی ۱۹۷۸ء کے لنڈن ٹائمز میں شائع رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں ایڈز کی بیماری پھیلنے کی وجہ ۱۹۷۲ء میں عالمی محکمہ صحت یعنی WHOاور یونیسیف کے ذریعہ لگائے گئے چیچک کے ٹیکوں SMALL POX VACCINE کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا یا گیا ہے۔
کیسے پھیلا تھا ایڈس :
افریقی بندروں کی ایک مخصوص قسم GREEN MONKEYپر ایڈز کے جراثیم پھیلا نے کی ذمہ داری ڈالنا WHO کا سفید جھوٹ اور قطعی پروپیگنڈہ ہے ،کیو نکہ بقول ڈاکٹر ڈگلس ایم ڈی بندروں کی جین GENE کی بناوٹ STRUCTURE کا تجزیہ ANALYSIS بتا تا ہے کہ بندروں کے ذریعہ قدرتی طور پر ایڈز کے وائرس کا انسانوں کے جسم میں داخل ہو نا ممکن ہی نہیں ہے ۔اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غورہے کہ ۱۹۷۹ء میں امریکہ کے مختلف شہروں میں آخر ایڈز وبا کیسے پھیلی؟ کیا وہاں بھی افریقی بندر ایڈز پھیلا نے پہنچ گئے تھے؟ حقیقت یہ ہے اس وقت مختلف امریکی شہروں میں ہم جنسی کی لعنت میں گرفتار مردوں کو دئے گئے ہیپا ٹائٹس HEPATITIS-B VACCINE کے ٹیکوں کے ذریعہ ہی ایڈز وہاں پھیلا تھا۔ اس سلسلے میں قابل غور بات یہ ہے کہ W.H.O. اور UNICEF کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہیپا ٹائٹس بی HEPATITIS-B جو اب تک دنیا بھر میں پچاس کروڑ سے زائد لوگوں کو لگایا جا چکا ہے،وہ بھی پولیو ڈراپس کی طرحصیہونی مملکت اسرائیل میں8 ہی نہیں لگایا جا تا ہے اور اس پر وہاں مکمل پابندی عائد ہے۔پولیوڈراپس کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ بندروں کے گردوں کے خلیات CELLS سے تیار کیا جاتا ہے،جس میں STRUCTURE ڈی این اے DNA اور آر این اے RNA پوری طرح موجود ہو تا ہے۔مسلمان ہو نے کی حیثیت سے ہم پر بندر و خنزیر جیسے حرام جانوروں کا نہ صرف گوشت کھانا حرام ہے بلکہ ان کے جسم کے کسی بھی جزء کا اکلاً و شرباً استعمال کرنا بھی شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔اس بات کو ہمیں نظر انداز نہ کر نا چاہئے کہ اس کے علاوہ مذکورہ بالا حقائق کے پیشِ نظر جب ہمارے دیرینہ دشمن یہودؔ ، ہماری آئندہ نسلوں کو ناکارہ اور تباہ و برباد کر نے پر تلے ہوئے ہیں تو ہم دانستہ طور پر ان کی اسی مہم میں معاون اور آلہ کار کیوں بنیں؟
نسل کشی کی مذموم سعی :
اگر ہمیں آئندہ نسلوں کا تحفظ اورمستقبل میں مسلمانوں کی بقاء اور ایمان عزیز ہے تو ہمیں ذاتی مفاد اورچند سکوں کے لالچ سے دست بردار ہو کر مسلمانوں کی نسل کشی کی اس خطرناک مہم سے دامن کش ہو جانا چاہئے ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج ہمارے بہت سے بے روز گار مسلمان نوجوان اور پردہ نشین خواتین ذاتی مفاد اور چند روپیوں کے لالچ میں پولیو کی اس زہریلی مہم کے ورکر بنے ہو ئے ہیں اور گھرگھر جاکر یہ میٹھا زہر SLOW POISON مسلمانوں کے معصون بچوں کے حلق میں اتار تے ہو ئے جھجھک تک محسوس نہیں کرتے۔ اور غضب بالائے غضب یہ ہے کہ اب علماء کرام کو بھی اس اسلام دشمن اور انسانیت سوز مہم میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور بعض علماء اپنی سادہ لوحی اور حقیقت سے لا علمی کی بنا پر اپنے دشمن یہودیوں کی اس جنگی مہم میں ان کے معاون اور آلہ کار بنے ہو ئے ہیں ۔حالانکہ قرآن مجید میں وہ حق تعالیٰ کا یہ فرمان برابر پڑھتے اور طلباء عزیز کو پڑھاتے رہتے ہیں:
’’لتجدن اشد الناس عداوۃللذین آمنوا الیھود و الذین اشرکوا ولتجدن أقربھم مودۃ للذین آمنوا الذین قالواانا نصاریٰ ذالک بان منھم قسیین ورھباناً و انھم لا یستکبرون‘‘۔
المائدہ:۸۲
’’لوگوں میں مومنوں کا سب سے سخت دشمن تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو جو شرک کر تے ہیں اور مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ ان لوگوں کے دلوں میں ہے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہلاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں درویش اور عبادت گذار لوگ پائے جاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے علماء کرام اور درد مندان ملت اس سلسلہ میں اپنی خصوصی توجہ مبذول فرما کر کوئی عملی قدم اٹھا نے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے؟ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل لنک قابل غور ہیں :
’’لتجدن اشد الناس عداوۃللذین آمنوا الیھود و الذین اشرکوا ولتجدن أقربھم مودۃ للذین آمنوا الذین قالواانا نصاریٰ ذالک بان منھم قسیین ورھباناً و انھم لا یستکبرون‘‘۔
المائدہ:۸۲
’’لوگوں میں مومنوں کا سب سے سخت دشمن تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو جو شرک کر تے ہیں اور مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ ان لوگوں کے دلوں میں ہے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہلاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں درویش اور عبادت گذار لوگ پائے جاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے علماء کرام اور درد مندان ملت اس سلسلہ میں اپنی خصوصی توجہ مبذول فرما کر کوئی عملی قدم اٹھا نے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے؟ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل لنک قابل غور ہیں :
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=247892598742936&id=100005665933639
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=247892598742936&id=100005665933639&_rdr
کیا کہتے ہیں آپ؟ کیا ہر صاحب عقل و فہم کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ حقیقت تک پہنچنے کیلئے تحقیق کرے؟
کیا کہتے ہیں آپ؟ کیا ہر صاحب عقل و فہم کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ حقیقت تک پہنچنے کیلئے تحقیق کرے؟
No comments:
Post a Comment