Saturday, 12 March 2016

اتنی مزے مزے کی باتیں

ایس اے ساگر

ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر حضرت
مولانا تقی عثمانی صاحب مدظلہ عالی کی اہلیہ کا ایک انٹرویو 'اتنی مزے مزے کی باتیں' کے عنوان سے گردش کررہا ہے جس کیساتھ تاکید کی گئی ہے کہ سبھی لڑکیاں ضرور ضرور پڑهیں. کراچی میں مقیم مفتی محمد تقی عثمانی کا شمار وطن عزیز کے ممتاز علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ آپ مفتی محمد شفیع مرحوم کے صاحب زادے ہیں۔ ۱۹۴۳ء میں دیوبند میں پیدا ہوئے۔ تقسیم وطن کے بعد والدین کی معیت میں کراچی چلے آئے۔ وہیں مفتی شفیع نے ۱۹۵۱ء میں ’’دارالعلوم‘‘ کی بنیاد رکھی۔ مفتی تقی عثمانی اور آپ کے بڑے بھائی ، مفتی رفیع عثمانی اب دارالعلوم میں تشنگان علم کی پیاس بجھارہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کراچی کے انگریزی رسالے دی انٹلیکٹ The Intellect میں مفتی تقی عثمانی کی زوجہ محترمہ کا انٹرویو شائع ہوا۔ یہ ہمارے مشہور عالم دین کی خانگی زندگی، گھریلو معاملات اور اسلامی رہن سہن پر کماحقہ روشنی ڈالتا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔

سوال: مفتی صاحب نے تمام عمر اسلام کی خدمت کرتے ہوئے گزاری ہے۔ انھیں عظیم کامیابیاں اس لیے بھی حاصل ہوئیں کہ ان کو گھر میں آپ کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ ان کی کیونکر ممدو معاون رہیں؟
جواب: شادی کے پہلے دن ہی میں نے طے کر لیا کہ میں اس طریقے سے گھر کی ذمے داریاں سنبھالوں گی کہ میرے شوہر اپنا سارا وقت دین کی ترقی و ترویج پر صرف کر سکیں۔ یہی امر میرے لیے بہت ثواب کا کام تھا۔
چناںچہ ہماری شادی ہوئے کئی برس ہو چکے، آج بھی گھر کے تمام چھوٹے بڑے امور میں ہی دیکھتی ہوں۔ انھیں کسی گھریلو معاملے مثلاً سودا سلف لانے یا ملبوسات وغیرہ کی خریداری کے سلسلے میں پریشان نہیں کیا جاتا۔ اگر ٹیلی فون کی تار ٹوٹ گئی ،تو یہ مسئلہ بھی میں ہی حل کرتی ہوں۔مقصد یہی ہوتا ہے کہ مفتی صاحب دین کی اشاعت پر بھرپور توجہ دے سکیں۔ اس موقع پر میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اللہ پاک نے مجھے بہترین اور مثالی شریک حیات سے نوازا۔ انھوں نے گھر میں اہل خانہ کو بہترین دینی و دنیاوی ماحول عطا کیا۔ اس پر میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں۔

سوال: شیخ الاسلام اکثر بیرون ملک دورے کرتے ہیں۔ آپ کو کبھی ان کے ساتھ جانے کا موقع ملا؟ اگر ہاں، توآپ ان کے ساتھ کیسے وقت گزارتی ہیں؟
جواب: کئی بارمیں ان کے ساتھ بیرون ممالک جاچکی۔ عموماً جب بھی ہم جہاز پر سوار ہوں، مفتی صاحب لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگتے ہیں۔جہاز کے اترنے تک اس پر کام جاری رہتا ہے۔ اس دوران میں تلاوت کلام پاک کرتی ہوں۔
ہوٹل پہنچتے ہی مفتی صاحب اپنی طے شدہ مصروفیات میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔میں قرآن پاک پڑھتی یا اسلامی کتب کا مطالعہ کرتی ہوں۔ دراصل مطالعہ میرا مرغوب مشغلہ ہے۔ گھر میںچونکہ وقت نہیں ملتا، لہٰذا بیرون ملک دورے کے دوران میں خوب کتابیں پڑھتی ہوں۔ آج کل عربی سیکھ رہی ہوں تاکہ عربی کتب کا بھی مطالعہ کرسکوں۔
مجھے خریداری (شاپنگ) یا سیر و تفریح کا کوئی شوق نہیں۔ مجھے خواتین گھومنے پھرنے کی دعوت دیتی ہیں، لیکن مجھے ہوٹل کے کمرے میں رہنا پسندہے۔البتہ ہم کراچی میں ہوں یا لندن میں،میں نماز فجر کے بعد آدھ گھنٹا مفتی صاحب کے ساتھ ضرور صبح کی سیر کرتی ہوں۔ شام کو مشین پر آدھ گھنٹا پیدل چلتی ہوں۔ اسی دوران میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے پارے کا ایک جُز ختم کر لیتی ہوں۔
بیرون ملک دورے پر جب مفتی صاحب کی مصروفیات ختم ہو جائیں، تو عموماً ایک دن وہ زائد رکتے ہیں۔مدعا یہ ہوتا ہے کہ وہ مجھے شہر کے قابل دید اور مشہور مقامات کی سیر کروا سکیں۔

سوال: جب بچے بڑے ہو جائیں، تو خواتین خانہ کوسستانے کا وقت مل جاتا ہے۔اب آپ اپنا عام دن کس طرح گزارتی ہیں؟
جواب: میں ہر جمعرات کو حرا فائونڈیشن اسکول کی اساتذہ اور عملے کو لیکچر دیتی ہوں۔کیمرج ایجوکیشن سسٹم کی تعلیم دینے والایہ اسکول دارالعلوم کراچی کی عمارت ہی میں واقع ہے. دور انِ لیکچر میں عموماً مفتی صاحب کی کتاب، اصلاحی خطبات سے اقتباسات پڑھتی ہوں تاکہ کام کا معیار پرکھ سکوں۔
دن کا میرا معمول مفتی صاحب کے اوقات کار سے ہم آہنگ ہے تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ سہولت پہنچ سکے۔
معمول کچھ یوں ہے:
نماز فجر کے بعد ہم ہوا خوری کرتے ہیں۔صبح ساڑھے سات بجے ناشتا کیا جاتا ہے۔ مفتی صاحب پھر ۸ تا۱۰بجے جماعت میں صیح بخاری کی تعلیم دیتے ہیں جبکہ میں گھریلو امور میں مصروف ہو جاتی ہوں۔ مفتی صاحب ۱۰ بجے گھر آتے اوربارہ بجے تک اپنے لیپ ٹاپ پہ کام کرتے ہیں۔ جیسے کتابیں اور مضامین لکھنا وغیرہ.
۱۲ سے ۲ بجے تک مفتی صاحب دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ نماز ظہر کے بعد تقریباً سوا دو بجے ہم اکھٹے کھانا کھاتے ہیں۔ بعدازاں تقریباً ساڑھے تین بجے تک قیلولہ ہوتا ہے۔اس کے بعد مفتی صاحب پھر دفتر جاتے ہیں۔ وہاں اساتذہ، طالب علم اور مہمان ان سے مختلف موضوعات پر گفت و شنید کرتے ہیں۔
نماز عصر کے بعد مفتی صاحب گھر پر وقت گزارتے ہیں۔ نماز مغرب تک کا وقت اہل خانہ کے لیے مخصوص ہے۔ مفتی صاحب زور دیتے ہیںکہ اس وقت سب لوگ مل جل کر بیٹھیں۔ اس دوران متفرق موضوعات پر باتیں ہوتی ہیں۔
نماز مغرب کے بعد مفتی صاحب عموماً تحقیق و تصنیف کے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ یہ کام نماز عشا تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران مفتی صاحب کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ نماز عشا کے بعد سب اہل خانہ کھانا تناول کرتے ہیں۔ بعداز طعام مفتی صاحب دس پندرہ منٹ کے لیے کسی کتاب سے اسلامی واقعات پڑھ کر سناتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ اس وقت تمام پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں موجود ہوں۔ اس مرحلے کے بعد مفتی صاحب پھر تصنیف وتالیف کا کام کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ رات ۱۲ بجے تک چلتا ہے۔

سوال: اس وقت مغربی تہذیب و تمدن نے ہمارے معاشرے پر یلغار کر رکھی ہے۔ آپ کے خیال میں مسلم خواتین کی اصلاح کے حوالے سے کیسے اقدامات ہونے چاہیں؟
جواب: سب سے پہلے، تو خواتین کی زیادہ سے زیادہ ایسی محافل منعقد ہوں جن میں انھیں ہر قسم کی دینی باتیں بتائی جائیں،خاص طور پر سلف صالحین کا طرز زندگی! یوں انھیں بھی تحریک ملے گی کہ وہ اپنے طرز حیات کو اسلامی اقدار و روایات کے مطابق ڈھال لیں۔
میںسمجھتی ہوں کہ اصلاح کا فریضہ نرمی و محبت سے انجام دینا چاہیے۔ یہ نہیں کہ انسان لٹھ لے کر دوسرے پر چڑھ دوڑے۔ یوں دوسرا زیادہ بغاوت پر اُتر آتا ہے۔ جبکہ نرمی سے کی گئی بات ہمیشہ اثر کرتی ہے۔ لہٰذا کوئی خاتون دینی تعلیمات سے آگاہی رکھتی ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے حلقہ احباب یا محلے میں ایسی محفلیں باقاعدگی سے منعقد کر ے جن میں خواتین کو اسلامی باتیں بتائی جائیں۔
ایک عورت بچوں کی پرورش کرتی ہے، لہٰذا اسے خاص طور پر دینی تعلیم سے آراستہ پیراستہ ہونا چاہیے۔ یوں وہ اسلامی طرز حیات کے مطابق اولاد کو پالتی پوستی اور انھیںمغربی تہذیب کی برائیوں سے بچا کر ر کھتی ہے۔

سوال: آج کل معاشرے میں طلاق کا رحجان بہت بڑھ چکا ۔آپ کے نزدیک کامیاب اور خوشگوار شادی کا راز کیا ہے؟
جواب: خوشگوار زندگی کا ایک اہم گُر یہ ہے کہ بیوی شوہر کی پسند نا پسند کو سمجھتی ہو۔ یوں میاں بیوی کے تعلقات میں مضبوطی اور اعتماد آتا ہے۔ آج کل یہ رواج ہوچکا کہ بیوی جب باہر جائے، تو نئے کپڑے پہن اور میک اپ کر کے نکلتی ہے۔
دوسری طرف جب گھر میں رہے ،تو سادہ کپڑے زیب تن کرتی اور عموماً بنائو سنگار سے بے توجہی برتتی ہے۔ اس کے بدن سے پیاز و لہسن کی بُو آتی ہے ۔ حالانکہ بیوی کا چلن الٹا ہونا چاہیے۔ وہ گھر سے نکلے، تو باحجاب ہو اور سادہ لباس پہنے۔ جبکہ گھر میں اسے شوہر کی خاطر بن سنور کر رہنا چاہیے۔اس طرح گھر میں صحت مند اور خوشگوار ماحول جنم لیتا ہے۔

سوال: آپ کو شیخ الاسلام کی کون سی عادات پسند ہیں؟
جواب: مسکراتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کی تمام عادتیں پسند ہیں، ماشااللہ ! در حقیقت میرے رشتے دار اکثر مذاقاً مجھے کہتے ہیں، ہم نے آج تک ایسی بیوی نہیں دیکھی جو اپنے شوہر کی باتیں اتنی توجہ و غور سے سنتی ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ انھوں نے ہمیں بہترین جوڑا بنایا۔ شاید وجہ یہ کہ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کا بھلا چاہتے اور ثواب کمانے کی خاطر کام کرتے ہیں۔
سوال: کھانے میں شیخ الاسلام کو کیا پسند ہے؟
جواب: بکرے کے گوشت کا سادہ سالن اور دال ماش شوق سے کھاتے ہیں۔

سوال: ہمارے معاشرے میں بہت سی غیر اسلامی رسومات رواج پا چکی۔ کرپشن کا بھی دور دورہ ہے اور اشیا اکٹھی کرنے کی ہوس بڑھ رہی ہے۔ ایسے ماحول میں ایک مسلمان اپنے آپ اور گھر والوں کو کیسے محفوظ و مامون رکھے؟
جواب: اگر ایک خاندان دینی تعلیمات سے آگہی اورنیک و بد میں تمیز رکھتا ہے، تو وہ با آسانی دور حاضر کی تمام برائیوں سے بچ سکتا ہے۔ اخلاقی برائیاں ہر دور میں ہوتی ہیںاور ان سے بچ کر تقویٰ پر چلنا ہی ایک مسلمان کا اصل کام ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک گھر میں سب سے اہم کردار ماں کا ہوتا ہے۔ وہ چاہے، تو پورے گھر کا ماحول اسلامی یا غیر اسلامی بناسکتی ہے۔
ایک بار دورہ انگلستان کے دوران ایک مسلم گھرانے میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں مقیم بچے بچیوں کو پاکستانی بچوں سے زیادہ مسنون دعائیں یاد تھیں۔ خواتین اور لڑکیاں باحجاب رہتیں۔ تمام مرد باقاعدگی سے اسلامی فرائض ادا کرتے۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ لوگ انگلستان کے آزاد ماحول میں رہائش پذیر ہیں۔ اس کے باوجود آپ کا طرز زندگی سو فیصد اسلامی ہے۔ یہ کرشمہ کیونکر ظہور پذیر ہوا؟
انھوں نے بتایا کہ ہمارے گھر کا ماحول ہمیشہ سے مذہبی رہا ہے۔
دراصل دینی گھریلو فضا میں پلتے بڑھتے بچے بیرونی منفی اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر والدین اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوں، توان کی اولاد بھی انہی کے نقش قدم پر چلتی ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی اسلامی تعلیمات پر چلنا بہت آسان ہے۔ بس
مسلمان میں خود اعتمادی اور ارادہ ہونا چاہے۔
آپ کا بہت شکریہ کہ ہمارے لیے وقت نکالا اور اپنے عمدہ خیالات سے ہمیں مستفید کیا۔

No comments:

Post a Comment