بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:
جس جانور کو کسی کے نام سے چھوڑ دیا جائے اس کا کھانا تو ناجائز ہے ، یہ بات تو کنفرم ہے ، البتہ اس جانورکی نسل جو آگے بڑھے گی اس کا کیا حکم ہوگا؟ جواب حوالے کے ساتھ دیجئے گا۔ عنایت بے نہایت ہوگی۔
المستفتی: عبیداللہ پالنپوری
گجرات ،انڈیا
جواب:
اس موضوع پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے مستقل رسالہ ”توضیح کلام اھل اللہ فیما اھل بہ لغیر اللہ“ لکھا ہے جو جواہر الفقہ کی جلد سوم میں موجود ہے۔ اس رسالہ میں مذکورہ قسم کے جانور اور اس کی نسل کے بارے میں محتاط اور راجح موقف بیان کیا گیا ہے۔ خلاصہ پیش خدمت ہے:
1: جس جانور کو کسی کے نام سے چھوڑ دیا جائے (اور مقصد محض کسی کے نام پر چھوڑنا ہو، ذبح کرنا مقصود نہ ہو) تو راجح موقف کے مطابق وہ جانور اس شخص کی ملکیت سے نہیں نکلتا بلکہ بدستور داخلِ ملکیت رہتا ہے۔
2: اس جانور کا کھانا صرف اس وجہ سے ناجائز ہے کہ یہ غیر کی ملکیت ہے۔ اگر مالک اس جانور کے کھانے کی اجازت دے دے یا کسی کو فروخت کر دے تو اس جانور کا کھانا جائز ہو جائے گا۔ (گویا وجہ حرمت ملکیتِ غیر ہونا ہے، فی نفسہ جانور حلال ہے)
3: جب جانور فی نفسہ حلال ہے تو اس کی نسل کا بھی یہی حکم ہوگا کہ اس کی نسل بهی حلال ہو گی. اس لیے اگر مالک اجازت دے دے تو اس کی نسل کا کھانا بھی جائز ہو گا۔
حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے جو مذکورہ رسالہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
(مولانا) محمد الیاس گھمن
22 مارچ 2016ء
No comments:
Post a Comment