Wednesday 2 March 2016

فاسق کی نماز جنازہ کی حکمت

وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ اِنَّہُمْ کَفَرُوۡا بِاللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَمَاتُوۡا وَہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۸۴﴾
اور ان میں سے کسی کی میّت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بیشک  اللّٰہ اور  رسول سے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے(ف۱۹۵)
وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوٰلُہُمْ وَ اَوْلٰدُہُمْ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ اَنۡ یُّعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْہَقَ اَنۡفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوۡنَ ﴿۸۵﴾
اور ان کے مال یا اولاد پر تعجب نہ کرنا اللّٰہ یہی چاہتا ہے کہ اسے دنیا میں ان پر وبال کرے اور کفر ہی پر ان کا دم نکل جائے.
(ف 195)
اس آیت میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منافقین کے جنازے کی نماز اور ان کے دفن میں شرکت کرنے سے منع فرمایا گیا ۔
مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ کافِر کے جنازے کی نماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافِر کی قبر پر دفن و زیارت کیلئے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے اور یہ جو فرمایا (اور فِسق ہی میں مرگئے) یہاں فِسق سے کُفر مراد ہے ۔ قرآنِ کریم میں اور جگہ بھی فِسق بمعنی کُفر وارِد ہوا ہے جیسے کہ آیت
'' اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً ''
میں ۔
مسئلہ : فاسق کے جنازے کی نماز جائز  ہے اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ کا اجماع ہے اور اس پر عُلَماءِ صالحین کا عمل اور یہی اہلِ سنّت و جما عت کا مذہب ہے ۔
مسئلہ : اس آیت سے مسلمانوں کے جنازے کی نماز کا جواز  بھی ثابت ہوتا ہے اور اس کا فرضِ کفایہ ہونا حدیثِ مشہور سے ثابت ہے ۔
مسئلہ : جس شخص کے مؤمن یا کافِر ہونے میں شبہ ہو اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھی جائے ۔
مسئلہ : جب کوئی کافِر مر جائے اور اس کا ولی مسلمان ہو تو اس کو چاہئے کہ بطریقِ مسنون غسل نہ دے بلکہ نجاست کی طرح اس پر پانی بہا دے اور نہ کفنِ مسنون دے بلکہ اتنے کپڑے میں لپیٹ دے جس سے  سِتر چھپ جائے اور نہ سنّت طریقہ پر دفن کرے اور نہ بطریقِ سنّت قبر بنائے صرف گڑھا کھود کر دبادے ۔
شانِ نُزول : عبداللہ بن اُبَی بن سلول منافقوں کا سردار تھا جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹے عبداللہ نے جو مسلمان ، صالح ، مخلِص صحابی اور کثیر العبادت تھے ۔ انہوں نے یہ خواہش کی کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے باپ عبداللہ بن اُبَی بن سلول کو کفن کیلئے اپنا قمیص مبارک عنایت فرمادیں اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن چونکہ اس وقت تک ممانعت نہیں ہوئی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ حضور کا یہ عمل ایک ہزار آدمیوں کے ایمان لانے کا باعث ہوگا اس لئے حضور نے اپنی قمیص بھی عنایت فرمائی اور جنازہ کی شرکت بھی کی ۔ قمیص دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس جو بدر میں اسیر ہو کر آئے تھے تو عبداللہ بن اُبَی نے اپنا کُرتہ انہیں پہنایا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا بدلہ کردینا بھی منظور تھا ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور اس کے بعد پھر کبھی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی منافق کے جنازہ کی شرکت نہ فرمائی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ مصلحت بھی پوری ہوئی چنانچہ جب کُفّار نے دیکھا کہ ایسا شدید العداوت شخص جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کُرتے سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے عقیدے میں بھی آپ اللہ کے حبیب اور اس کے سچّے رسول ہیں ۔ یہ سوچ کر ہزار کافِر مسلمان ہوگئے ۔

No comments:

Post a Comment