Wednesday 23 March 2016

کسی ہندو کو عید الاضحٰی میں گائے ذبح کرتے دیکھا؟

ایس اے ساگر

وطن عزیز میں کرسمس ہو یا دیوالی یا غیر مسلموں کا کوئی دیگر تہوار ہو، امت مسلمہ کا نام نہاد روشن خیال طبقہ تمام شرعی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر مبارکباد دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگتا ہے جبکہ دیگر افراد نکو بن کر رہ جاتے ہیں. اہل علم کے نزدیک کوئی بھی مذہبی عید یا تہوار ہو مسلمانوں کیلئے اس میں حاضر ہونا، ان کے جلسوں محفلوں میں شرکت کرنا یا انکی عبادت گاہوں میں جانا  اور ان کیساتھ شرکت کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، اسی طرح اس موقع پر ان کو اس تہوار کی تعظیم کی خاطر  مبارکباد دینا  یا انکو ہدایا دینا  جائز نہیں بلکہ اگر اس سے ان کی دین کی تعظیم مقصود ہو  تو اس میں کفر کا قوی اندیشہ ہے ، تاہم اگر ان جلسوں اور محفلوں میں شریک نہ ہو اور نہ ہی ان کی عبادت گاہ میں حاضری ہو  اور نہ دل میں ان کے مذہب کی تعظیم مقصود ہو اورمبارکباد نہ دینے سے اسلام یا مسلمانوں سے تنفر کا اندیشہ ہو یا اپنے آپ کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صرف مبارکباد کے طور پر خوشی کے ایسے کلمات کہہ دئے جائیں جو اس دن کی تعظیم پر مشتمل نہ ہو ں تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔(ماخذہ التبویب  74/1422 و   87/1520 بتصرف)

السنن الكبرى للبيهقي (9 / 392):
عن عطاء بن دينار، قال: قال عمر رضي الله عنه: " لا تعلموا رطانة الأعاجم ولا تدخلوا على المشركين في كنائسهم يوم عيدهم , فإن السخطة تنزل عليهم
==========
الفتاوى الهندية (6 / 446):
والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوز، وقال صاحب الجامع الأصغر: إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر ولم يرد به تعظيم ذلك اليوم ولكن جرى على ما اعتاده بعض الناس لا يكفر ولكن ينبغي له أن لا يفعل ذلك اليوم خاصة ويفعله قبله أو بعده كي لا يكون تشبها بأولئك القوم.
==========
الفتاوى الهندية (2 / 276):
يكفر بوضع قلنسوة المجوس على رأسه على الصحيح إلا لضرورة دفع الحر والبرد وبشد الزنار في وسطه إلا إذا فعل ذلك خديعة في الحرب وطليعة للمسلمين وبقوله: المجوس خير مما أنا فيه يعني فعله وبقوله النصرانية خير من المجوسية لا بقوله المجوسية شر من النصرانية وبقوله النصرانية خير من اليهودية وبقوله لمعامله الكفر خير مما أنت تفعل عند بعضهم مطلقا، وقيده الفقيه أبو الليث بأن قصد تحسين الكفر لا تقبيح معاملته وبخروجه إلى نيروز المجوس لموافقته معهم فيما يفعلون في ذلك اليوم وبشرائه يوم النيروز شيئا لم يكن يشتريه قبل ذلك تعظيما للنيروز لا للأكل والشرب وبإهدائه ذلك اليوم للمشركين ولو بيضة تعظيما لذلك لا بإجابة دعوة مجوسي حلق رأس ولده وبتحسين أمر الكفار اتفاقا حتى قالوا: لو قال: ترك الكلام عند أكل الطعام حسن من المجوس، أو ترك المضاجعة حالة الحيض منهم حسن، فهو كافر كذا في البحر الرائق
==========
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 754):
(والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام (وإن قصد تعظيمه) كما يعظمه المشركون (يكفر) قال أبو حفص الكبير: لو أن رجلا عبد الله خمسين سنة ثم أهدى لمشرك يوم النيروز بيضة يريد تعظيم اليوم فقد كفر وحبط عمله اهـ ولو أهدى لمسلم ولم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لا يكفر وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفيا للشبهة ولو شرى فيه ما لم يشتره قبل إن أراد تعظيمه كفر وإن أراد الأكل كالشرب والتنعيم لا يكفر زيلعي
==========
(رد المحتار) (6 / 755):
والأولى للمسلمين أن لا يوافقوهم على مثل هذه الأحوال لإظهار الفرح والسرور
=============
واللہ تعالی اعلم بالصواب

سوال: کفار کو ان کے تہواروں میں مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟
Published Date: 2014-04-01
الحمد للہ:

سب علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کرسمس یا کفار کے دیگر مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب
" أحكام أهل الذمة "
میں نقل کیا ہے، آپ کہتے ہیں:

"کفریہ شعائر پر تہنیت دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر انکے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا:
"آپ کو عید مبارک ہو"
یا کہنا
"اس عید پر آپ خوش رہیں."
وغیرہ، اس طرح کی مبارکباددینے سے کہنے والا کفر سے تو بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اُسے مبارکباد دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی ، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقینا اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے" ابن قیم رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔

چنانچہ کفار کو ان کے مذہبی تہواروں میں مبارکبا د دینا حرام ہے، اور حرمت کی شدت ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کردی ہے، -حرام اس لئے ہے کہ- اس میں انکے کفریہ اعمال کا اقرار شامل ہے، اور کفار کیلئے اس عمل پر اظہار رضا مندی بھی ، اگرچہ مبارکباد دینے والا اس کفریہ کام کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا ، لیکن پھر بھی ایک مسلمان کیلئے حرام ہے کہ وہ کفریہ شعائر پر اظہار رضا مندی کرے یا کسی کو ان کاموں پر مبارکباد دے، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے اس عمل کو قطعی طور پر پسند نہیں کیا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

{ إن تكفروا فإن الله غني عنكم ولا يرضى لعباده الكفر وإن تشكروا يرضه لكم }

ترجمہ:اگر تم کفر کرو تو بیشک اللہ تعالی تمہارا محتاج نہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ)وہ اپنے بندوں کیلئے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اسکا شکر ادا کرو تو یہ تمہارے لئے اس کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔
اسی طرح فرمایا:

{ اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً }

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا ، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کردیں، اور تمہارئے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔

لہذا کفار کو مبارکباد دینا حرام ہے، چاہے کوئی آپکا ملازمت کا ساتھی ہو یا کوئی اور ۔

اور اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو ہم اسکا جواب نہیں دینگے، کیونکہ یہ ہمارے تہوار نہیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان تہواروں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، کیونکہ یا تو یہ تہوار ان کے مذہب میں خود ساختہ ہیں یا پھر انکے دین میں تو شامل ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ساری مخلوق کیلئے نازل ہونے والے اسلام نے انکی حیثیت کو منسوخ کردیا ہے، اور اسی بارے میں فرمایا:

{ ومن يبتغ غير الإسلام ديناً فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الخاسرين }

ترجمہ:اور جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کریگا ؛ اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔

چنانچہ ایک مسلمان کیلئے اس قسم کی تقاریب پر انکی دعوت قبول کرنا حرام ہے، کیونکہ انکی تقریب میں شامل ہونا اُنہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے۔

اسی طرح مسلمانوں کیلئے یہ بھی حرام ہے کہ وہ ان تہواروں پر کفار سے مشابہت کرتے ہوئے تقاریب کا اہتمام کریں، یا تحائف کا تبادلہ کریں، یا مٹھائیاں تقسیم کریں، یا کھانے کی ڈشیں بنائیں، یا عام تعطیل کا اہتمام کریں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کریگا وہ اُنہی میں سے ہے)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب( اقتضاء الصراط المستقيم، مخالفة أصحاب الجحيم ) میں کہتے ہیں:

"کفار کے چند ایک تہواروں میں ہی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اُنکے باطل پر ہوتے ہوئے بھی دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے،اور بسا اوقات ہوسکتا ہے کہ اسکی وجہ سے انکے دل میں فرصت سے فائدہ اٹھانے اور کمزور ایمان لوگوں کو پھسلانے کا موقع مل جائے" انتہی

مذکورہ بالا کاموں میں سے جس نے بھی کوئی کام کیاوہ گناہ گار ہے، چاہے اس نے مجاملت کرتے ہوئے، یا دلی محبت کی وجہ سے ، یا حیاء کرتے ہوئے یا کسی بھی سبب سے کیا ہو، اسکے گناہ گار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دین الہی کے بارے میں بلاوجہ نرمی سے کام لیا ہے، جو کہ کفار کیلئے نفسیاتی قوت اور دینی فخر کا باعث بنا ہے۔

اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مسلمانوں کی اپنے دین کی وجہ سے عزت افزائی فرمائے، اور انہیں اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے، اور انہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے، بیشک وہ طاقتور اور غالب ہے۔
( مجموع فتاوى ورسائل شيخ ابن عثيمين 3/369 ) .

فتنہ و فساد کے موقع پر اپنی جان بچانے کی خاطر غیر مسلم کو بدھائی دینے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتی ہے.
و اللہ اعلم

No comments:

Post a Comment