ایس اے ساگر
ہر مسلمان کے ذہن میں مسجد نبوی کے تذکرہ کیساتھ ہی گنبد خضرا کا تصور ابھرتا ہے. بیشمار نعتوں کی بدولت نہ صرف سعودی عرب میں بلکہ پورے عالم اسلام میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مقابر کی چھت پر سبز رنگ کے اس گنبد کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
لکڑی سے سیسہ تک کا سفر :
قبر اطہر پر گنبد کی تاریخ مملوک سلطان سیف الدین قلاوون کے دور تک پہنچتی ہے جنہوں نے اسے 678 ہجری بمطابق 1279ء کے دوران اسے تعمیر کروایا۔ اصل ساخت میں لکڑی استعمال کی گئی تھی اور یہ بیرنگ تھا. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ہر نئے حکمران کی طرف سے بحالی کے کاموں کے وقت اسے سفید اور نیلا رنگ کیا جاتا ریا۔ 1481ء کے دوران مسجد میں شدید آگ لگی جس کے نتیجہ میں گنبد بھی جل گیا۔ گنبد کی دوباہ تعمیر کا کام مملوک سلطان قايتبای نے شروع کیا۔ اس مرتبہ ایسے حادثات سے بچاو کیلئے لکڑی کی بجائے اینٹوں کا ڈھانچہ بنایا گیا اور لکڑی کے گنبد کی حفاظت کیلئے سیسہ کا استعمال کیا گیا۔ حتی کہ 16 صدی میں عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے گنبد کو سیسہ کی چادروں کیساتھ مڑھوایا اور اسے سبز رنگ کروایا اس کے بعد سے یہ ایسا ہی ہے۔
قابل غور فقہی پہلو :
ویکی پیڈیا سے موصولہ مذکورہ بالا معلومات سے قطع نظر مولانا فضیل احمد ناصری القاسمی وفاءالوفا للسمہودی اور فتاوى شامی کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ مسلم شریف میں حدیث صحیح ہے کہ تم اونچی قبروں کو زمین کےبرابر کردو- یہ حدیث حضرت ابوالہیاج اسدی سےمروی ہے- اسی حدیث کےپیش نظر کبھی بھی کسی نے قبہ وغیرہ بنانےکی ہمت نہیں کی- یہ کام پہلی مرتبہ 678/ہجری میں منصوربن قلاوون شاہ مصر نے انجام دیا- لوگوں نےبڑی ناراضی ظاہر کی- اللہ نےکمال احمدبن برہان عبدالقوی کو جب اس کےعہدہ سے معزول کیا تو لوگوں نےتعمیرِ گنبد کے گناہ کی مکافات سمجھا- کیوں کہ اسی کےمشورے سے یہ کام انجام پایا تھا- اس زمانے میں اس کانام قبۂ رزاق تھا- بعدمیں حسن بن محمد قلاوون اوراس کےبعد شعبان بن حسین بن محمد قلاوون نے گنبد کی وہ شکل بنائی، جوآج گنبد خضرا کی شکل میں موجودہے- یہ تعمیر 765/ہجری میں ہوئی- یہ کام کسی فقیہ مجتہد یاعالم کانہیں تھا کہ اس کےعمل کودلیل بنالیاجائے- علامہ شامی ردالمحتارمیں لکھتے ہیں کہ میں نےکسی ایسے شخص کو نہیں پایا جو اس قبر پر گنبد کے جواز کا قائل ہو- امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کایہی مذہب ہے- لہذا بریلویوں کا گنبد خضراسےقبروں پر قبوں کی تعمیر پر استدلال درست نہیں ہے- گنبد بناناحرام ہے، لیکن امت میں انتشار کےخوف سے گنبد خضرا کو باقی رکھاگیا ہے- اس لئےنہیں کہ یہ عمل جائز ہے-
توڑ دیا عالمی ریکارڈ :
تاہم گنبد خضرا کی حامل اسی مسجد نبوی کے دسترخوان نے دنیا کے تمام ممالک کو کنارہ لگادیا ہے۔ عالمی سطح پر روزہ افطار کرنے کے اتنے بڑے اجتماعات نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں جبکہ سعودی شہر مدینہ منورہ میں واقع مسجد نبوی دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ یہاں ہر سال پچاس لاکھ سے زائد افراد زیارت اور عبادات کی غرض سے پہنچتے ہیں۔ سب سے زیادہ افراد دوران حج یہاں کا سفر کرتے ہیں جبکہ دوسری بار رمضان کے مہینے میں یہاں سب سے زیادہ افراد آتے ہیں۔ اسی سبب رمضان میں یہاں صفائی ستھرائی سے لیکر لاکھوں افراد کے سحری اور افطار کے وسیع پیمانے پر انتظامات کئے جاتے ہیں۔ مکہ اور مدینہ کے علاوہ غالباً دنیا کے کسی اور ملک میں روزہ افطار کرنے کے اتنے بڑے اجتماعات نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں۔ مسجد نبوی میں روزہ افطار کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ افطار اجتماع کے انتظامات سنبھالنے والے خدام کی تعدداد پانچ ہزار سے زائد ہوتی ہے۔ ملازمین کی تعیناتی کیلئے باقاعدہ ایک ایجنسی کام کرتی ہے جس کی خدمات میں مسجد نبوی کے امور کی دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ ادارہ سعودی حکمراں شاہ عبداللہ کو جوابدہ ہے۔ شاہ عبداللہ خادم الحرمین شریفین کہلاتے ہیں یعنی مسجد نبوی اور مسجد الحرام مکہ کا’خادم ‘ یا خدمت گزار۔ مسجد نبوی میں 10ہزار سے زائد قالین بچھے ہوئے ہیں جن پر دوران رمضان ہر شام نہایت وسیع وعریض دسترخوان بچھائے جاتے ہیں جن پر بیٹھ کر لاکھو ں عمرہ زائرئن اور دیگر افراد بیک وقت زوہ افطار کرتے ہیں۔ یہ انتہائی پرلطف اور دلکش منظر ہوتا ہے۔ پوری مسجد اس کا صحن اور اردگرد کا تمام علاقہ زورافطار کرنے والوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ پانچ ہزار ملازمین کے علاوہ صاحب حیثیت سعودی شہری روزے کے انتظامات اپنی جیب سے بھی کرتے ہیں۔ایسے افراد کی تعداد میں سینکڑوں میں ہے۔ ان افراد کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ روزہ دار ان کے دسترخوان پر روزہ افطار کریں چنانچہ روزہ داروں کو مسجد کے گیٹ سے ہی باقاعدہ ہاتھ پکڑ پکڑ کر اپنے اپنے دسترخوان پر بیٹھایا جاتا ہے۔ اس کام کیلئے انہوں نے ملازمین بھی رکھے ہوئے ہیں جن کا کام صرف روزہ داروں کو دسترخوان تک لانا ہوتاہے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق مسجد نبوی میں یومیہ ایک لاکھ سے زائد افراد بیک وقت افطار کرتے ہیں۔ یہاں قدیم سعودی روایات کے مطابق افطار میں روٹی ، دہی، کھجوریں، پانی ، قہوہ اور قماش قماش کے جوسز اور پھل موجود ہوتے ہیں۔ کچھ افراد سموسوں ، سینڈ وچ اور دیگر اسی قسم کے دیگر لوازمات بھی رکھتے ہیں جبکہ بسکٹ، بریڈ اور چاکلیٹ تو عام بات ہے۔ روزہ کھلنے کے دس منٹ بعد ہی دسترخوان جس تیزی سے ہٹائے اور قالین صاف کئے جائے ہیں وہ منظر بھی قابل دید ہوتا ہے۔کئی کئی میٹر طویل پلاسکٹ کے دسترخوان اس تیزی اور نفاست سے سمیٹے جاتے ہیں کہ قالین یا فرش پر ایک چیز نہیں گرتی۔ ساری صاف ستھرائی منٹوں میں ہوتی ہے چونکہ چند لمحوں بعد ہی نماز مغرب اداکی جاتی ہے۔ پوری مسجد میں آب زم زم سپلائی کیا جاتا ہے۔ مسجد کے امور کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے کے نائب چیئرمین عبدالعزیز الفالح کے مطابق مسجد میں ہر روز 300سے زائد آب زم زم سپلائی ہوتا ہے۔ زم زم براہ راست مکہ سے مدینہ لایاجاتا ہے۔ مسجد کے صحن میں نمازیوں کو دھوپ اور بارش سے بچانے کیلئے نہایت بڑی بڑی اور خودکار الیکٹرک چھتریاں لگائی گئی ہیں۔ ان چھتریوں کی تعداد 250سے زیادہ ہے۔ سن 2010میں پہلی مرتبہ ان کی تنصیب شروع ہوئی تھی۔ صحن میں چھتریوں کے علاوہ پنکھے بھی نصب ہیں جن کی تعداد تقریبا ً450 ہے۔ نمازیوں کے جوتے رکھنے کیلئے مسجد میں جگہ جگہ لکڑی کے باکس اور الماریاں موجود ہیں تاہم جوتے رکھنے کیلئے المونیم کے بنے ہوئے تین ہزار سے زائد نئے باکسز رکھے گئے ہیں۔ اس سے قبل دنیا کا سب سے بڑا دسترخوان 1888کے دوران شکاگو میں لگایا گیا تھاجبکہ اس دسترخوان کی لمبائی 2 کلو میٹر تھی اور بیک وقت 70ہزار افراد کھانا کھا سکتے تھے۔
No comments:
Post a Comment