Sunday 13 March 2016

استغفراللہ

ایس اے ساگر

کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ایک صاحب ایمان پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے حقوق ہیں؟  حضرت شیخ عرب و عجم مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ علیہ نے 5 حقوق تعلیم فرمائے ہیں،
1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق المصدوق تسلیم کرنا.
2. آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا. بخاری ومسلم میں اس کی وضاحت موجود ہے. روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے لڑکے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوں.
3. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترام کرنا.
4. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا.
5. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا.

کیا ہے ایمان ؟

اہل علم کے نزدیک ایمان وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اوراعمال کی قبولیت کیلئے بھی ایمان کا صحیح ہونا ضروری ہے، جس طرح انسانی جسم میں سر کو اوردرخت میں تنے کواہمیت حاصل ہے کہ اگر سر نہیں تو انسانی جسم کا وجود نہیں اورتنا نہیں تو درخت کا وجود نہیں اسی طرح اگر انسان کے اندر ایمان نہیں تو اسلام کا وجود ہی نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سبھی انبیاء ورسل علیہم الصلوٰة والسلام نے اپنی اپنی قوم کو سب سے پہلے ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی اورغیراللہ کی عبادت سے منع کیا، خوداللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ سال تک لوگوں کومسلسل توحید اوراصلاح عقیدہ کی طرف بلاتے رہے ۔ اسی طرح ہرزمانے میں دعاة اورمصلحین نے لوگوں کو توحید کی طرف بلایا اوراصلاح عقیدہ کی دعوت دی ۔
ایمان ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے جو مسلمان کو شکوک وشبہات اورگمراہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔ انسان کے اندر جو گمراہی پیدا ہوتی ہے، انسان جو الگ الگ گروہوں میں بٹ جاتا ہے صرف اس وجہ سے کہ اس نے شروع میں عقیدہ کو بنیاد نہیں بنایا۔ اگرعقیدہ درست ہوجائے تو انسان کے اندر انحرا ف نہیں آسکتا، کجی نہیں آسکتی، گمراہی نہیں آسکتی ۔
ایمان ایک ایسا نور ہے جو انسان میں داخل ہوتے ہی تاریکیوں کو دور کر دیتا ہے، اس کی زندگی میں ایسا انقلاب پیدا کردیتا ہے جس سے اس کی زندگی میں صحیح سمت میں رواں دواں ہو جاتی ہے ۔ اب وہ  آزاد نہیں رہتا ، اس کا کوئی قدم غلط نہیں اٹھتا، اس کی آنکھ ، اس کا کان، اس کا ہاتھ ، اس کا پیر، اس کا دماغ سب اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوجاتا ہے ۔
ایمان ایک سدا بہاردرخت ہے جو کبھی مرجھاتا نہیں، ہمیشہ پھل دیتا رہتا ہے، اللہ پاک نے فرمایا:
ضرب اللہ مثلا کلمة طیبة کشجرة طیبة اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء توتی اکلھا کل حین باذن ربھا ۔ یعنی ایمان ایک ایسے پھلدار درخت کی مانند ہے جس کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں،
صحیح مسلم کی روایت میں ہے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ایمان کی ستر سے اوپر شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لاالہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے اورحیا وشرم بھی ایمان کی شاخ ہے ۔
یہ ایمان ہے جس کی بنیاد پر اللہ رب العالمین بلندی عطا فرماتا ہے اللہ پاک نے فرمایا:
وانتم إلاعلون ان کنتم مومنین (آل عمران 139)
یعنی تم ہی سربلند رہوگے اگر تم صحیح معنوں میں مومن رہے ۔اگر تمہارے اندر صحیح ایمان رہا تو اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ زمین کی خلافت کے حقدار تم ہی ہوگے ،حکومت کے مالک تم ہی ہوگے ،دنیا کی قسمتوں کا فیصلہ تم ہی کرو گے ، دنیا تمہارے نام سے لزر اٹھے گی ،تم کسی سے خائف اورمرعوب نہ ہوگے ۔
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ آج معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوچکا ہے، آج ہم دنیا سے ڈرتے ہیں، دنیا ہم سے نہیں ڈرتی، جنہیں ہم سے کل آنکھیں ملانے کی ہمت نہ تھی آج وہ ہمارے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں، وجہ کیا ہے ؟
کیا ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، کام کے نہیں …. جب ہم کام کے مسلمان تھے تو انسان تو انسان درندے بھی ہم سے ڈرتے تھے ۔
جبکہ ایمان کے ذریعے ہی امت کو نہ صرف دنیا میں پرسکون زندگی مل سکتی ہے بلکہ آخرت کی کامیابی نصیب ہوسکتی ہے. اللہ پاک نے سورہ نحل میں فرمایا:
من عمل صالحا من ذکر أوأنثی وھو مومن فلنحیینہ حیاة طیبة ولنجزینھم أجرھم بأحسن ما کانوا یعملون (النحل 97)
”جوشخص نیک عمل کرے، مرد ہویاعورت یشرطیکہ ایمان والا ہوتواسے ہم بہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے، اوران کے نیک اعمال کا بہترین بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے وعدہ کیا ہے کہ جو مرد وعورت نیک عمل کرے اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی عطاکریں گے اورآخرت میں ان کے اعمال کا بہتر بدلہ دیں گے لیکن شرط یہ رکھی کہ عمل کرنے والا ایمان والا ہو ۔ اس سے پتہ یہ چلا کہ دنیا اورآخرت دونوں جگہ کی کامیابی کے لیے ایمان بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔
اگر ایک انسان ایمان والا ہو، اس کیساتھ  ساتھ  کبیرہ گناہوں کا بھی ارتکاب کرتا ہو، اوراسی حالت میں اس کی موت ہوگئی، توبہ نہ کرسکا، تو اگر اللہ نے چاہا تو اس کے گناہوں کی اسے سزادے گا اور پھر اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردے گا یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابربھی ایمان ہوگا تو اسے بھی جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔ سبحان اللہ !یہ ایمان کی اہمیت ہے کہ رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان رکھنے والا شخص ایک دن جہنم سے ضرور نکلے گا ۔

ایمان اورعمل :

ایمان تین چیزوں کا نام ہے قول باللسان واعتقاد بالجنان وعمل بالارکان زبان کا اقرار، دل کی تصدیق اور اعضاء کا عمل ۔ یعنی زبان سے ایمان کے تمام ارکان کا اقرارکرنا، دل سے ان کی تصدیق کرنا مثال کے طورپر زبان سے اقرار کرنا کہ اللہ تعالی ہی اکیلا رب ہے، اس کے اسماء وصفات میں اس کا کوئی شریک نہیں اور ہم صرف اسی کی عبادت کریں گے اسی طرح دل میں بھی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی ہی خالق ومالک اورعبادت کے لائق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اوروہ اپنے اسماء وصفات میں بھی یکتا ہے ۔
اورچوں کہ ایمان کے ضمن میں عمل بھی داخل ہے، نیک عمل کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نافرمانی کرنے سے ایمان میں کمی آتی ہے ۔ إنماالمومنون الذین إذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم وإذا تلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایماناً
(سورہ انفال2)
سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیاجاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اورجب انہیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اوروہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
ایمان صرف دل کے اقراراور زبان کی تصدیق کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے ، بغیرعمل کے ایمان ایسی کنجی ہوگی جس میں دندانے نہ ہوں، جس طرح بغیر دندانے والی کنجی سے تالا نہیں کھلتا ہے، اسی طرح ایسا ایمان جو عمل سے خالی ہو اس سے جنت کا دروازہ نہیں کھلے گا ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
زبان سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
بلکہ اللہ تعالی نے سورہ العصر میں قسم کھاکر کہاہے کہ سارے انسان گھاٹے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جوایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے،
والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر
قسم ہے زمانے کی، بیشک انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اورنیک عمل کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی اورصبر کی تاکید کرتے رہے “۔
قرآن نے ایمان اورعمل کے درمیان جو ربط قائم کیا ہے اس کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے، دیکھئے قرآن کریم میں کم وبیش 38 جگہوں پر یہ الفاظ آئے ہیں آمنوا وعملوا لصالحات ایمان لائے اوراعمال صالحہ کيے، ایک صحابی رضى اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ، مجھے کوئی ایسی نصیحت فرما دیجئے جس پرعمل کرکے میں جنت پالوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قل آمنت باللہ ثم استقم یوں کہو، میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیار کرو، استقامت کہاں ہوتی ہے ؟ دعوے میں نہیں ہوتی، عمل میں ہوتی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الذین المعاملة معاملات کے درست ہوجانے کا نام دین ہے ۔ ایمان صرف دعوے کا نام نہیں ایمان رویے Attitude کا نام ہے، ایک سلوک اورایک مسلسل عمل کا نام ہے ۔ ایمان سنی سنائی چیز کا نام نہیں، ایمان وراثت میں ملی ہوئی چیز کانام نہیں، وراثت میں مکان، دکان، پلاٹ، زمین پیسے مل جائیں گے مگر وراثت میں ایمان نہیں ملے گا ۔ ہم اتفاقیہ مسلمان ہیں، لیکن اصل مسلم وہ ہوتا ہے جو اپنی مرضی سے مسلمان ہوا ہو ۔Muslim by choise not by chance۔
اس لئے اگر ایمان سلامت ہے تو اس میں عمل بھی آجائے گا ۔

ایمان کی خصلتیں:

ایمان جب ٹھیک ہوتا ہے تواس کا اثر زندگی کے سارے معاملات پر پڑتا ہے، اورعمل کے طورپر ایمان کی خصلتیں ظاہرہوتی ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ ایمان کی خصلتیں کیا ہیں ؟ ایمان کی خصلتوں میں شامل ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت : بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے لڑکے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوں۔
مومنوں سے محبت : صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آواورتم ایمان اس وقت تک نہیں لاسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو، کیا میں تم کوایسی چیز نہ بتاوں جسے اگرتم کروگے توآپس میں محبت بڑھے گی تم آپس میں خوب سلام کیا کرو۔
اوردوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لایومن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔
ہمسایہ کی عزت کی جائے، مہمان کا احترام کیا جائے اورصرف اچھی بات کہی جائے : بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات کرے یا خاموش رہے، اورجوشخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کی عزت کرے، اورجوشخص اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے “۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا:
واللہ لایومن واللہ لایومن واللہ لایومن 
اللہ کی قسم کھا کرکہتاہوں کہ وہ شخص مومن نہیں، وہ شخص مومن نہیں، وہ شخص مومن نہیں، صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ !کون مومن نہیں ؟ فرمایا: الذی لایامن جارہ بوائقہ ۔وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: مومن وہ نہیں ہے جو پیٹ بھر کرکھائے اوراس کے برابرمیں اس کا پڑوسی بھوکاہو ۔
ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ آدمی اچھے کردار کا حامل ہو، چوری نہ کرے، شراب نہ پئے، زنا نہ کرے ، خیانت نہ کرے، کسی کو دھوکہ نہ دے، رشوت نہ لے، تب ہی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق فرمایا: کہ زانی جب زنا کرتا ہے تو اس وقت مومن نہیں ہوتا، شرابی جب شراب پیتا ہے تواس وقت مومن نہیں ہوتا، چور جب چوری کرتا ہے تو اس وقت مومن نہیں ہوتا ۔
ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ آدمی اچھائی کاحکم دے اوربُرائی سے روکے: صحیح مسلم کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جوشخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگراس کی بھی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگراس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں براجانے اوریہ ایمان کا ادنی درجہ ہے ۔

ایمان کی حلاوت :

0جب ایمان کی خصلتیں انسان کے اندرپیدا ہونے لگتی ہیں تو اسے ایمان کا مزہ ملنے لگتا ہے، ایمان کی چاشنی نصیب ہونے لگتی ہے، جانتے ہیں ایمان کی چاشنی کیا ہے ؟ صحیح مسلم کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ذا ق طعم الایمان من رضی باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد صلی اللہ علیہ وسلم رسولا
اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو اپنا رب بنانے پر راضی ہوا اوراسلام کو اپنا دین بنانے پر راضی ہوا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول ماننے پر راضی ہوا ۔
اورجب ایک بندہ مومن اللہ کو اپنا رب مان لیتا ہے، اسلام کو اپنا دین تسلیم کرلیتا ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی مان لیتا ہے تو وہ ایمان کی لذت پانے کیساتھ  ساتھ ایمان کی حلاوت اوراس کی مٹھاس بھی پاتا ہے ۔ جانتے ہیں ایمان کی مٹھاس کیا ہے ؟ بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاث من کن فیہ وجد بھن حلاوة الایمان جس کے اندرتین چیزیں ہوں وہ ایمان کی حلاوت پاتا ہے، ایک یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اوراس کے رسول ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں،
2. دوسرے یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کی خاطر محبت رکھے،
3. تیسرے یہ کہ کفر کی طرف لوٹنا اسے ایسے ہی ناپسند ہو جیسے آگ میں ڈالا جانا ناپسند کرتا ہے ۔

No comments:

Post a Comment