جلیبیب رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی تھے۔ نہ مالدار تھے نہ کسی معروف خاندان سے تعلق تھا۔ صاحب منصب بھی نہ تھے۔ رشتہ داروں کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی۔ رنگ بھی سانولا تھا۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار تھے۔ بھوک کی حالت میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوتے، علم سیکھتے اورصحبت سے فیض یاب ہوتے۔
ایک دن اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت کی نظر سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:
’یَا جُلَیْبِیبُ! أَلَا تَتَزَوَّجُ؟‘
’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘
جُلیبیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
اللہ کے رسول! مجھ جیسے آدمی سے بھلا کون شادی کرے گا؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘
اور وہ جواباً عرض گزار ہوئے کہ اللہ کے رسول! بھلا مجھ سے شادی کون کرے گا؟ نہ مال نہ جاہ و جلال!
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ بھی ارشاد فرمایا:
’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟
جواب میں انھوں نے پھر وہی کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے شادی کون کرے گا؟ کوئی منصب نہیں، میری شکل بھی اچھی نہیں، نہ میرا خاندان بڑا ہے اورنہ مال و دولت رکھتا ہوں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’اِذْھَبْ إِلَی ذَاکَ الْبَیْتِ مِنَ الأَْنْصَارِ وَقُل لَّھُم: رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُبْلِّغُکُمُ السَّلَامَ وَیَقُولُ: زوِّجُونِي ابْنَتَکُمْ۔‘
’’فلاں انصاری کے گھرجاو اوران سے کہو کہ اللہ کے رسول تمھیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اپنی بیٹی سے میری شادی کردو۔‘‘
جُلیبیب خوشی خوشی اس انصاری کے گھر گئے اور اور دروازے پر دستک دی۔ گھر والوں نے پوچھا:
کون؟
کہا: جُلیبیب۔
گھرکا مالک باہر نکلا، جُلییب کھڑے تھے۔
پوچھا: کیا چاہتے ہو، کدھر سے آئے ہو؟
کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں سلام بھجوایا ہے۔
یہ سننے کی دیر تھی کہ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اللہ کے رسول نے ہمیں سلام کا پیغام بھجوایا ہے۔ ارے! یہ تو بہت ہی خوش بختی کا مقام ہے کہ ہمیں اللہ کے رسول نے سلام کہلا بھیجا ہے۔
جُلیبیب کہنے لگے: آگے بھی سنو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔
صاحب خانہ نے کہا:
ذرا انتظار کرو، میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرلوں۔اندرجاکر لڑکی کی ماں کو پیغام پہنچایا اور مشورہ پوچھا؟
وہ کہنے لگی: نا 'نا، نا 'نا… قسم اللہ کی! میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کروں گی، نہ خاندان، نہ شہرت، نہ مال و دولت، ان کی نیک سیرت..
گھر میں ان کی بیٹی بھی اس گفتگو کو سن رہی تھی اور جان گئی تھی کہ حکم کس کا ہے؟ کس نے مشورہ دیا ہے؟ سوچنے لگی اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس رشتہ داری پرراضی ہیں تو اس میں یقینا میرے لئے بھلائی اور فائدہ ہے۔
اس نے والدین کی طرف دیکھا اور مخاطب ہوئی:
’أَتَرُدُّونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمْرَہٗ؟ ادْفَعُونِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَإِنَّہُ لَنْ یُضَیِّعَنِی‘۔
’’کیا آپ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ٹالنے کی کوشش میں ہیں؟ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردیں (وہ اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہیں میری شادی کردیں) کیونکہ وہ ہر گزمجھے ضائع نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
پھر لڑکی نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی:
اور دیکھو! کسی مومن مرد وعورت کو اللہ اوراس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے فیصلے کے بعد اپنے امور میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘
(الأحزاب33: 36)
لڑکی کے والد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا :
اللہ کے رسول، آپ کا حکم سر آنکھوں پر آپ کا مشورہ، آپ کے حکم قبول، میں شادی کے لیے راضی ہوں۔ جب رسول اکرم کو اس لڑکی کے پاکیزہ
جواب کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:
’اللَّھُمَّ صُبَّ الخَیْرَ عَلَیْھَا صُبًّا وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَھَا کَدًّا۔‘
’’اے اللہ! اس بچی پر خیر اور بھلائی کے دروازے کھول دے اوراس کی زندگی کو مشقت و پریشانی سے دور رکھ۔‘‘
(موارد الظمآن: 2269، و مسند أحمد: 425/4، ومجمع الزوائد: 370/9وغیرہ)
پھر جُلیبیب کیساتھ اس کی شادی ہوگئی۔ مدینہ منورہ میں ایک اور گھرانہ آباد ہو گیا جس کی بنیاد تقویٰ اور پرہیز گاری پر تھی، جس کی چھت مسکنت اور محتاجی تھی، جس کی آرائش و زیبائش تکبیر و تہلیل اور تسبیح و تحمید تھی۔ اس مبارک جوڑے کی راحت نماز اور دل کا اطمینان تپتی دوپہروں کے نفلی روزوں میں تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ کی دعا کی برکت سے یہ شادی خانہ آبادی بڑی ہی برکت والی ثابت ہوئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے مالی حالات اس قدر اچھے ہوگئے کہ راوی کا بیان ہے:
’فَکَانَتْ مِنْ أَکْثَرِ الأَْنْصَارِ نَفَقَۃً وَّمَالًا‘
’’انصاری گھرانوں کی عورتوں میں سب سے خر چیلا گھرانہ اسی لڑکی کا تھا۔‘‘
ایک جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دریافت فرمایا:
’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘
’’دیکھو، تمھارا کوئی ساتھی بچھڑ تو نہیں گیا؟‘‘
مطلب یہ تھا کہ کون کون شہید ہو گیا ہے؟
صحابہ نے عرض کیا: ہاں، فلاں فلاں حضرات موجود نہیں ہیں۔
پھر ارشاد ہوا:
’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘
’’کیا تم کسی اور کو گم پاتے ہو؟‘‘
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: نہیں۔
آپ نے فرمایا:
’لٰکِنِّي أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا فَاطْلُبُوہُ‘
’’لیکن مجھے جُلیبیب نظر نہیں آرہا، اس کو تلاش کرو۔‘‘
چنانچہ ان کو میدان جنگ میں تلاش کیا گیا۔
وہ منظر بڑا عجیب تھا۔ میدان جنگ میں ان کے ارد گرد سات کافروں کی لاشیں تھیں۔ گویا وہ ان ساتوں سے لڑتے رہے اور پھر ساتوں کو جہنم رسید کرکے شہید ہوئے۔ اللہ کے رسول کو خبر دی گئی۔ رؤف و رحیم پیغمبر
تشریف لائے۔ اپنے پیارے ساتھی کی نعش کے پاس کھڑے ہوئے۔ منظر کو دیکھا۔ پھر فرمایا
’قَتَلَ سَبْعَۃً ثُمَّ قَتَلُوہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ۔‘
’’اس نے سات کافروں کو قتل کیا، پھر دشمنوں نے اسے قتل کردیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔‘‘
’فَوَضَعَہُ عَلَی سَاعِدَیْہِ لَیْسَ لَہُ إِلَّا سَاعِدَا النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
’’پھر آپ نے اپنے پیارے ساتھی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور شان یہ تھی کہ اکیلے ہی اس کو اٹھایا ہوا تھا۔ صرف آپ کو دونوں بازوئوں کا سہارا ایسے میسر تھا۔‘‘
جُلیبیب رضی اللہ عنہ کیلئے قبر کھودی گئی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے انھیں قبر میں رکھا۔
صحیح مسلم: 2472
Sunday, 27 March 2016
جلیبیب مجھ سے ہیں اور میں جلیبیب سے ہوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment