Monday, 28 March 2016

کیا یہ خبر درست ہے؟

ایس اے ساگر

سماجی روابط کی ویب سائٹس پر اطلاع جاری پوئی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہیں رہیں. اللہ کرے یہ خبرافواہ ہو جبکہ ابھی تک کسی نیوز ایجنسی سے تصدیق بھی نہیں ہوئی ہے.  ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک معمہ ہے۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ کوئي نہیں جانتا۔ نہ ہم جانتے ہیں نہ یوئر آنر آپ جانتے ہیں، نہ عدالت میں موجود سب لوگ، نہ ہی استغاثہ ، اور نہ ہی امریکی اور پاکستانی۔ جس طرح ہم خفیہ امریکی جیلوں اور ٹارچر کے بارے میں نہیں جانتے۔ اگر کوئي جانتا ہے تو حکومت امریکہ جانتی ہے، سی آئي اے جانتی ہے‘۔

یہ تھے وہ الفاظ جو جمعرات کی صبح نیویارک کی وفاقی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی دفاع وکیل ڈان کارلی نے عافیہ صدیقی کو چھیاسی برس کی سخت سزا سنائے جانے سے قبل اپنے دلائل کے دوران کہی۔ جبکہ جج کی طرف سے عدالت میں سزا سنائے جانے کے قبل اور اس کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کہا کہ وہ دنیا میں اپنے تمام حامیوں سے کہتی ہیں کہ وہ غصے اور اشتعال میں نہ آئيں بلکہ امن قائم رکھیں اور تشدد سے اجتناب برتیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ پھر وہ صدر اوبامہ اور طالبان سے امن قائم کرنےکو کہتی ہیں۔

نیویارک میں ستمبر کی اس خوشگوار صبح مین ہیٹن کی وفاقی عدالت یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ سدرن میں غیر معمولی بھیڑ تھی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکی فوجی اور سرکاری اہلکاروں پر قاتلانہ حملے کے جیوری کی طرف سے جوابدار ٹھہرائے جانے کے بعد سزا سنائے جانے کا دن تھا۔

ویسے تو عدالت میں ہر دن اکثر بھیڑ لگي ہوتی ہے لیکن جمعرات کی صبح عدالت کی سکیورٹی چیک ان کی قطار عدالت کے داخلی ریوالونگ دروازوں سے بھی باہر سیڑھیوں سے نیچے تک جاتی تھی۔ حجاب پہنے خواتین، باریش یا مردوں سمیت ڈاکٹر عافیہ کے حامی یا ہمدرد خواتین و مردوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد صحافیوں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمہ کے مشاہدہ کاروں کی بھی تھی۔

عدالت کے اکیسویں منزل پر جج رچرڈ ایم بریمن کا کمرہء عدالت سخت سکیورٹی چیک ان کے بعد مقدمے کی آخری کاروائي دیکھنے کیلیے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

جب جج رچرڈ برمین نے اپنے چیمبرز سے آ کر کرسی سنبھالی ہی تھی کہ عدالت سے ملحق ایک دروازے میں حرکت ہوئی اور مارشلز ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کمرۂ عدالت میں لائے۔

جج رچرڈ برمین نے مقدمے کا پس منظر پڑھتے ہوئے کہا کہ یہ سب سے مشکل مقدمہ تھا جو ان کی عدالت میں پیش ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی افغانستان کے شہر غزنی میں سترہ جولائی دو ہزار آٹھ میں پیش ہوئیں، اس سے قبل وہ کہاں تھی اور اسکے امریکی او ر پاکستانی حکام کی تحویل میں ہونے کی اور ٹارچر ہونے کی گواہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے دفاع کے وکلاء نہیں ثابت کر سکے جبکہ امریکی حکومت انکی (ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ) امریکی فوج اور حکومت کے اہلکاروں پر انکی ایم فور رائفل سے قاتلانہ حملہ ثابت کرچـکی ہے اور جیوری نے ان کو سات الزمات میں مجرم قراردیا ہے۔

جج بریمن نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلاء کی طرف سے ’نفسیاتی مریض‘ ہونے کے استدلال کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ’میلنگرنگ‘ یا مقدمے سے فائدہ اٹھانے کیلئے ذہنی یا جسمانی بیماری کا ڈھونگ رچانے کی کوشش قرار دیا۔

جج رچرڈ ایم برمین نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف سزا کی تعین و توسیع کی گائیڈ لائنز پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج اور حکومتی اہلکاروں کے خلاف جان بوجھ کر انہیں امریکی سمجھ کر نشانہ بناتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ایم فور رائفل سے ان پر گولی چلائي اور ایسے الزمات امریکی حکومت گواہی کے ذریعے ثابت کر چکی ہے۔ جج نے کہا کہ امریکی شہریوں پر قاتلانہ حملے کی ترتیب وار سزا بیس سال، امریکی عملداروں اور اہلکاروں پر حملے کی سزا بیس سال، امریکی حکومت اور فوج کے عملداروں اور اہلکاروں پر ہتھیار سے حملے کی سزا بیس سال، متشدد جرم کرنے کے دوران اسلجہ سے فائر کرنے کی سزا عمر قید ، امریکی فوج اور حکومت کے ہر اہلکار اورعملدار پر حملے کی ہر اک سزا آٹھ سال یعنی چوبیس سال بنتی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو زیادہ سے زیادہ ممکن سزا چھیاسی سال دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وکیلِ صفائی ڈان کارڈی نے جج سے ایک عورت اور انسان ہونے کے ناتے عافیہ کی سزا کی مدت بارہ سال کرنے کا درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ زیاد سے زیادہ او جنم قید دیکر سزائے موت ہوگی کیونکہ یہ مقدمہ سزائے موت کا مقدمہ نہیں۔

ڈاکٹرعافیہ صدیقی عدالت میں سزا سنائے جانے سے قبل اور بعد میں جج اور وکلاء یہانتک کہ استغاثہ سے بھی ہنسی مذاق اور جملوں کا تبادلہ کرتی رہیں ۔ ایک موقع پر جب سزا کے تعین کے دوران استغاثہ کے وکیل نے جج کی توجہ ایک کاؤنٹ یا الزام میں سزا کی معیاد کی طرف نشاندھی کرائي تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے استغاثہ کے وکیل کو نام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا’شکریہ آّپ نے میرے وکلاء سے زیادہ بہتر کام کیا ہے‘۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہر بار اپنے وکلا کے اس استدلال انکی موکلہ کی ذہنی صحت ٹھیک نہیں کو ہاتھ اور بازو کے اشاروں سے انکار کرتی رہی۔

جج رچرڈ برمین نے سزا کے تعین و توسیع کی گائيڈ لائنز میں پہلی بار دہشتگردی سے متعلقہ الزام کا ذکر کیا جو کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تمام مقدمے کے دوران عدالت میں نہیں لائے گئے۔

بعد میں عدالت کی عمارت کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے دفاع کے وکلاء چارلس سوئفٹ اور ایلین شارپ نے میڈیا کے اراکین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جج برمین کی طرف سے دہشتگردی کے متعلقہ الزام کے حوالے سے امریکی حکومت کی طرف سے پیش کی جانیوالی خفیہ گواہی پر انہیں یعنی ذاکٹر عافیہ صدیقی کے دفاع کے وکلا ء کو دسترس نہیں دی گئي اور نہ ہی ان کو اسے مسترد کرنے کا موقع دیا گیا۔

وکیل چارلس سوئفٹ نے کہا کہ
’امریکی نظام انصاف میں شفافیت اولین شرط ہے اور آج کے دن نیویارک کی عدالت میں شفافیت کو نظر انداز کیا گیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہ استغاثہ کو قصور وار ٹھہرارہے ہیں اور نہ ہی جج پر الزام لگا رہے ہیں لیکن وہ مقدمے کے عمل پرتنقید کر رہے ہیں۔ چارلس سوئفٹ جو امریکی بحری فوج کے سابق عملدار اور گوانتانامو بے میں ایک مقدمے میں دہشتگردی کے ملزم سلیم ہمدان کے وکیل رہے تھے نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا کے خلاف اپیل میں وہ یہ مسئلہ اٹھائيں گے اور اس پر پہلے ہی امریکی سپریم کورٹ اپنا فیصلہ واضح کرچکی ہے۔

اس سے قبل عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سزا سنائے جانے کی سنوائی کے دوران ان کی دفاع کی وکیل ڈان کارڈی اپنی تقریر کے دوران کہا کہ انہوں نے امریکی حکومت کے پاس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف موجود خفیہ گواہی پر دسترس حاصل کرنے کیلیے تمام سیکیورٹی کلیئرنس حاصل کی تھی اور تمام سکیورٹی کلئیرنس کےبعد جب وہ حکومت کے پا س پہونچی تو انہیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیخلاف کو‏ئي خفیہ گواہی موجود نہیں۔

دالت میں جج رچـرڈ برمین نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بولنے کا موقع دیا اور کہا کہ وہ جو چاہیں اور جتنا چاہیں بول سکتی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کہا کہ وہ طالبان سے کہیں گی کہ اپنے دلوں میں رحم پیدا کریں اور امریکی فوجیوں کو قتل مت کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام اہم مقدمہ ہے اور تمام دنیا میں انکے حامیوں اور مسلمانوں کی نظریں اس مقدمے پر ہیں میں ان سے کہوں گی کہ وہ تشدد سے اجتناب برتیں۔ جو کچھ بھی میرے ساتھ ہوا ہے میں خدا کی طرف سے سمجھتی ہوں اور میں اس پر خوش اور مطمئن ہوں۔

انہوں نے کہا ’میں امریکہ اور اسرائيل سمیت کسی بھی ملک کے خلاف نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرے حامی میرے ساتھ امریکی سلوک کے بارے میں افواہوں پر کان نہ دھریں مجھے خفیہ جیلوں میں ٹارچر کیا گیا لیکن امریکہ میں مجھے کوئي ٹارچر نہیں کیا گیا۔ بہرحال انہوں نے کہا دوران مقدمہ کئي نا انصافیاں کی گئی ہیں۔ بہرحال انکے حامی نہ جج برمین اور نہ امریکیوں اور امریکہ پرناراض ہوں۔ امریکہ اور پاکستان میں دونوں سے پیار کرتی ہوں‘۔

لیکن اس سے قبل جب جج نے انہیں سزا سنانا مکمل کی تو عافیہ صدیقی نے با آواز بلند کہا شیم آن دس کورٹ” (کہ اس عدالت کو شرم آنی چاہیے)۔ اس پر جج نے انہیں کہا کہ وہ عدالت میں موجود رہنا چاہتی ہیں یا متصل کمرے میں جانا چاہتی ہیں۔

عدالتی کاروائي کے خاتمے پر جج رچرڈ بریمن نے عافیہ صدیقی سے کہا ’وش یو بیسٹ‘ اور جواب میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے جج کو بھی ’وش یو بیسٹ‘ کہا۔

مقدمے کی کارروائی سے قبل، دوران اور بعد میں عدالت کی عمارت کے باہر اور آس پاس نیویارک پولیس کی طرف سے غیر معمولی انتظامات دیکھنے میں آئے۔

No comments:

Post a Comment