Wednesday 2 March 2016

ڈپازٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

اس بارے میں محمود الفتاوی میں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
مالک مکان کا کرایہ دار سے ڈپازٹ کے نام پر رقم لینا کیا حکم رکھتا ہے؟
اس کا مدار اس رقم کی حیثیت کی تعیین پر ہے اس کی شروعات تو ضمانت اور رہن کے نام پر ہوئ تھی بسا اوقات کرایہ دار کرایہ باقی چھوڑ کر غائب ہوجاتا تھا اور مالک مکاں کو نقصان اٹھانا پڑتا تھا اس مصیبت سے بچنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ عقد اجارہ کرتے وقت کرایہ دار سے متعینہ رقم ایڈوانس لی جانے لگی کہ خدا نخواستہ کرایہ دار غائب ہوگیا تو اس رقم سے وہ کرایہ وصول کیا جا سکے اس صورت میں اس کی حیثیت رہن کی ہوجائےگی
اور شرعا اس طرح رہن لینا درست ہے ہندیہ میں ہے
و لو استاجر دارا او شيئا و اعطي بالاجر رهنا جاز
از محمود الفتاوی
3,88
بفرق یسیر

نیز اس کے متعلق کتاب المسائل میں ہے
ڈپازٹ کی رقم کو رہن ماننے کی صورت میں اصل شرعی حکم یہ ہوگا کہ یہ ڈپازٹ کی رقم مالک اپنے تصرف میں نہ لائے بلکہ بطور امانت محفوظ رکھے لیکن عمل اس کے برخلاف ہے کیونکہ کوئی بھی مالک کرایہ دار سے رقم لیکر اس کو محفوظ نھیں رکھتا بلکہ بلا تکلف اپنے ذاتی استعمال میں لاتا ہے الا ماشالله
لہذاٰ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیئ مرہون میں تصرف کرلینے کی بنا پر اسے رہن کی بجائے دین مضمون کے درجے میں رکھا جائے یعنی یہ رقم گویا کہ مالک پر کرایہ دار کی طرف سے دین ہے
کتاب المسائل
2,143
نیز دار العلوم دیوبند کے آن لائن فتوے میں ہے

میں ممبئی میں رہتا ہوں۔ ممبئی میں میری پانچ دکانیں ہیں، جو میں نے کرایہ پر دیا ہے۔ کرایہ پر دینے کے لیے یہاں پر جو قانون چلتاہے مثلاً میری ایک دکان ہے، سائز ہے 15*30=450اسکوائر فٹ۔ اس کا کرایہ میں نے نو ہزار روپیہ لیا۔ اور ڈپوزٹ پچاس ہزار روپیہ لیا۔ ڈپوزٹ کو میں استعمال کرتا ہوں اور جب کرایہ پر لینے والا خالی کرتا ہے تواس کو ڈپوزٹ واپس کرتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ ڈپوزٹ کو استعمال کرسکتے ہیں کہ نہیں؟ اور کرایہ پر دینے کے لیے اور ڈپوزٹ استعمال کرنے کے بارے میں شرع کا قانون کیا ہے؟ اور کرایہ پر زکوة کس طرح نکالی جاتی ہے؟ برائے کرم مجھ کو بتائیں تاکہ میں اپنی غلطی کو صحیح کرسکوں۔
  Mar 06,2010  Answer: 19811
فتوی(ل): 298=220-3/1431
 
ڈپازٹ رقم کی حیثیت امانت کی ہے اگر بطور ڈپازٹ رقم دینے والا اس کے استعمال کی اجازت دیدے تو اس کا استعمال کرنا جائز ہوگا، لیکن اس وقت اس کی حیثیت قرض کی ہوجائے گی اور ضائع ہونے کی صورت میں ضمان لازم آئے گا۔
(۲) اگر آپ پہلے سے صاحب نصاب ہیں تو سال پورا ہونے پر جتنی رقم آپ کے پاس ہو اتنی کی زکاة ادا کردیں۔ کرایہ کی بچی رقم کو بھی اسی میں شامل کردیں۔ الگ سے اس کی زکاة ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

مالک مکان کا کرایہ دار سے ڈپازٹ کے نام پر رقم وصول کرنا درست ہے یا نہیں ؟

اوپر آگیا کہ درست ہے
جو رقم ڈپازٹ کے نام پر لی گئی ہے اس سے مالک مکان کا فائدہ اٹھانا درست ہے یا نہیں ؟؟
اس بارے میں دیوبند کے مذکورہ بالا فتوے میں ہے کہ رقم دینے والے کی اجازت سے اس کا استعمال جائز ہوگا

یہی فتاوٰی دینیہ میں بھی ہے
فتاوٰی دینیہ
4,254

نیز اس ڈپازٹ کی رقم پر زکوۃ کا کیا مسئلہ ہے ؟ زکوۃ کس پر واجب ہوگی ؟

اس بارے میں کراب المسائل میں اوپر دی ہوئی تفصیل کے بعد ہے.

لہذاٰ اس کی زکاة مالک مکان یا دوکان پر نہیں بلکہ کرایہ دار واجب ہوگی جو اس رقم کا اصل مالک ہے 
تاہم اس بارے میں تفصیل یہ ہیکہ اگر معاہدہ میں قریبی وقت مقرر ہے تو یہ رقم دین قوی کے درجے میں ہوگی.
اور اگر وقت مقرر نھیں تو دین وسط یا ضعیف کے حکم میں ہوگی
کتاب المسائل
2,143

نیز روضۂ الفتاوی میں اسی سوال کے جواب میں ہے

مکان دوکان کرایہ پر لیتے وقت مالک ڈپازٹ لیتا ہے جو واپس دینے کی شرط ہوتی ہے تو اس رقم کا جو مالک ہے اس پر زکات لازم ہے اور ڈپازٹ کی رقم امانت کے طور پر ہوتی ہے اور کرایہ پر دینے والا! اس کو واپس ہی کرے گا
لہذاٰ زکاة کرایہ پر لینے والے پر ہی ضروری ہے

روضۂ الفتاوی بحوالہ کفایت المفتی 
3,389
بحوالہ اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں......

ابراهیم علیانی
میں اپنی ساس کا روم بھاڑے پر لیا تھا میں نے بیس ہزار 20000 ڈیپوزٹ دیا تھا ہمارے بیچ طے ہوا تھا 800 روپیہ بھاڑا، لیکن میری ساس نے مجھ سے کہا تھا کہ میرا یک روم ہے اسکو خالی کرانا ہے آپ مجھَ کچھ اور روپیہ دے دو ، میں نے کچھ مہینہ کے بعد اپنی ساس کو 40000 ہزار روپیہ اور دے دیا لیکن میں نے اپنی ساس سے بول دیا میں اب بھاڑا انہیں دو ں گا میری ساس نے کہا کچھ دے دو. میں نے کہا بالکل نہیں پھر اسکے بعد تھوڈا تھوڈا کرکے میری ساس نے مجھ سے 90000 ہزار روپے لے لیا میر ے بیوی بچے تکریبن اس روم میں 2011 سے ہیں لیکن تکریبن ایک سال سے مینے اپنا پیسا تھوڑا تھوڑا کرکے لے لیا ہے تکریبن 78000 ہزار 12000 ابھی باقی ہے اس طرح دروست ہے میں اپنی ساس کا روم ایک یا دو مہینے میں چھوڑنے والا ہوں۔ جواب کا انتظار ہے ۔
Published on: Feb 22, 2016 جواب # 63613
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 400-400/M=5/1437

مسئولہ صورت میں جو پیسہ آپ نے ساس کو بطورِ قرض دیا تھا، اس کو لے سکتے ہیں، اور جو کمرہ آپ نے ساس سے کرایہ پر لیا تھا اُس کا جتنا کرایہ طے ہوا تھا اُتنا ساس کو دینا آپ پر لازم ہے؛ البتہ جس وقت آپ نے کرایہ دینے سے منع کیا تو ساس نے قبول نہیں کیا اور کہا ”کچھ دے دو“ یہ واضح نہیں کہ اس کے بعد آپ دونوں کا آپس میں کیا معاملہ طے ہوا؟ البتہ آپ کے قرض دینے کی وجہ سے روم کا کرایہ نہ دینا یا معروف کرایہ سے کچھ کم کرکے دینا یا اس قرض کی وجہ سے کوئی اور نفع اٹھانا سب ناجائز ہے۔ وفي الأشباہ: کل قرضٍ جرَّ نفعًا حرامٌ․
(الدر المختار: ج۵ ص۱۶۶، ط: سعید)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ ھیوی ڈیپوسٹ دے کر مکان کرائے پر لینا عند الشرع جائز ھے یا نھیں ۔
یعنی ایک بڑی رقم دے کر بغیر کرائے کہ مکان رہنے میں استعمال کرنا اور مدت پوری ہوجانے پر دی ہوء ڈیپوسٹ کی مکمل رقم واپس لے کر مکان خالی کردینا ۔ یہ طریقہ جائز ھے یا نھیں ۔
جبکہ بکر کہتا ھے کہ ۔ یہ سود کی ایک قسم ھے اور کسی مولوی صاحب کا حوالہ دیتا ہے ۔
اگر واقعی یہ سود ہے تو اسطرح سے مکان کا کرائے پر لین دین کرنے والے اور انکی مدد کرنے والوں کا شریعت میں کیا حکم ہے ۔
اور اگر ایسا نہیں ہے تو بکر اور مولوی صاحب پر غلط مسئلہ بیان کرنے کی صورت میں کیا حکم نافذ ھوگا ۔
برائے مھربانی مدلل جواب دے کر مسئلے کی وضاحت فرمائیں ۔ اور اجر کے مستحق ھوں۔
Published on: Nov 26, 2015 جواب # 62372
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 54-54/M=2/1437-U

مالک مکان کو ایک بڑی رقم ڈپازٹ دے کر اس کے مکان میں بغیر کرایہ کے رہنا یہ قرض کے بدلے نفع کھینچنا ہوا،اور حدیث میں اس کو سود قرار دیا گیا ہے، کل قرضٍ جر نفعًا فہو ربٰو۔ صورت مسئولہ میں بکر کی بات درست ہے، پس مکان کا معروف کرایہ طے کرکے رہنا چاہیے اور بڑی رقم کی وجہ سے کرایہ میں تخفیف بھی نہیں ہونی چاہیے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment