آج کل میاں بیوی، عزیز واقارب، خاندانوں اور معاشرہ میں یہ خطرناک بیماری عام ہے جسکے بے انتہا نقصانات ہیں مثلاً روزی میں بے برکتی، آخرت کا عذاب، مال و جان کا نقصان، طلاق، قتل و غارت گری، آپس میں نفرت، بغض، ذ ہنی انتشار ، بلڈپریشراور امراض دل و دماغ ۔ فرمان الٰہی ہے :۔
(ترجمہ) ’’ آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ زبان سے ایسی بات کہا کریں جو بہترین ہو۔دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل 17: آیت 53)
یہ بات یاد رکھیئے کہ لڑائی کرانے والا شیطان ہے اسلئے اصل لڑائی آپ کی شیطان سے ہے نہ کہ مخالف انسان سے۔ شکست شیطان کو دیجئے یہی آپکی اصل جیت ہے۔ شیطان کا پہلا حملہ غصہ دلانا ہے۔ {تفصیل کیلئے پڑھیئے تفسیر ( القصص 28: آیت 15) }
اس لئے جب آپ کو غصہّ آئے تو مند ر جہ ذیل کام کیجئے جس کی تعلیم قرآن و سنت میں ہے :
1۔ اَ عُوْ ذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بار بار پڑھیئے۔
2۔ حالت بدل دیں۔ کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں۔
3۔ وضو کر کے2 رکعات نماز حاجت ( برائے دفع غصہّ) شروع کر دیں۔ (مشکوٰۃ)
4۔ سر پرٹھنڈا پانی ڈال لیں اور (کم از کم 2 گلاس پانی) پئیں بھی ۔
5۔ سب سے پہلے دونوں فریق اپنے دل میں اﷲ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر پیدا کریں۔
فرمان الٰہی ہے :۔ (ترجمہ)
’’جو شخص اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اسکے لئے ( مشکل سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دیتا ہے‘‘ (طلاق 65 : آیت 2) اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ کریم کے سامنے کھڑے ہو کر حساب دینے سے ڈرے۔{تفصیل کیلئے پڑھیئے تفسیر عبس80 : آیت 40 }
اس لئے دونوں فریق علیٰحدگی میں (اختلافات دہرائے بغیر)اپنا اپنا حق اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے معاف کر کے اجر عظیم حاصل کریں یہ آپ کی طرف سے صدقہ بھی ہے {مزیدتفصیل کیلئے پڑھیئے تفسیرآل عمران 3 :آیات 134 تا 136}
6۔ اگر دو مسلمان (یا مسلمانوں کی دو جماعتیں) آپس میں لڑ پڑیں تو تیسرے آدمی یا تیسری جماعت پر اﷲ تعالیٰ نے یہ فرض کیا ہے کہ وہ ان میں انصاف سے صلح کرادیں۔
فرمان الٰہی ہے : (ترجمہ)
’’اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں باہم لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ بےشک مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو۔‘‘ (الحجرات 49 : آیات 9 تا 10) {مزید پڑھئیے تفسیر حجرات 49 : آیات 11 تا 12}
’’جو شخص خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرانے کی تلقین کرے اور صرف اﷲ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے تو (اللہ) یقینا اسے بہت بڑا اجر دینگے۔ ‘‘ (النساء 4 : آیت 114)
7۔ آپس میں محبت سے ملیں،مصافحہ کریں، تحائف دیں، احسان کریں،ضرور ت مند ہو تو مالی تعاون بھی کریں۔ فرمان الٰہی ہے : (ترجمہ)
’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔ پھر (تم دیکھو گے) تمہارا دشمن تمہارا بہترین دوست ہو جائیگا اور یہ چیز صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں اور یہ توفیق اسی کو ملتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہو۔ ‘‘ (حٰمٓ السجدہ 41 : آیات 34 تا 35)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’ قطع تعلق کرنے والوں سے ملو جو نہ دیتے ہوں ان کو دو۔ ظالم کے قصور کو معاف کر دو‘‘(طبرانی)
8۔ لڑائی کے دوران اور لڑائی کے بعد کسی بھی حالت میں جھوٹ نہ بولیں،جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی گواہی دینے کو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے بعدسب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے (ترمذی) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تین مرتبہ ا رشاد فرمایا پھر یہ آیت تلاوت فرما ئی :
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ
(ترجمہ)’’پس بتوںکی گندگی اور جھوٹ(جھوٹی باتوں اور جھوٹی قسم)سے بچو ۔‘‘(الحج 22: آیت 30) یہ بہت بڑا گناہ ہے جسکی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے (بیماری اور نقصانات کی شکل میں) اور آخرت میں الگ۔ {پڑھئیے تفسیر( الحج 22 :آیت30) اور(الفرقان 25: آیت 72)}
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے کوگناہِ کبیرہ قرار دیا۔ (بخاری)
9۔ کبھی بھی لڑائی کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں ۔ نہ یہ سوچیں کہ میں بڑا ہوں چھوٹے سے معافی کیوں مانگوں، اگر آپکی غلطی یا زیادتی ہو تو معافی مانگ لیں۔ اس عمل میں ہی آپکی بڑائی ہے۔ بد گمانی سے بچئے،والدین بیوی اور بچوں کے تمام جائز حقوق ادا کریں۔اسی طرح بیوی بھی شوہر کے تمام حقوق پورے کرے۔ سنی ہوئی باتوں پر یقین نہ کریں کیونکہ سُنی سنائی باتیں بھی لڑائی کا سبب بنتی ہیں۔
فرمان الٰہی ہے:۔ (ترجمہ) ’’اے ایمان والو ، اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (گنہگار، بدکار جھوٹا) کسی قسم کی خبر لائے تو تم اسکی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔‘‘ (الحجرات 49 :آیت 6)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو(بلا تصدیق) بیان کر دے‘‘(مسلم) شبہ کا فائدہ بھی دوسروں کو دیں۔
مصیبت آنے پر صبر اور نماز سے مدد لیجئے۔فرمان الٰہی ہے :۔ (ترجمہ)’’اے ایمان والو، صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘ (البقرہ 2 : آیوت 153)
بار بار نمازحاجت پڑھئیے۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی جلد ہی بہتری آجائیگی۔صبر کرنے سے انسان اﷲ تعالیٰ کی مغفرت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ تمام گھر والوں کو بھی نمازکا پابند بنائیں۔ زکوٰۃ پوری پوری ادا کریں اور تمام احکام الٰہی پر پورا پورا عمل کریں۔
«اس موضوع پر چند مزید احادیث : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
1۔ ’’جو رزق کی فراخی اور عمر کی درازی چاہے وہ اقرباسے صلہ رحمی (رشتہ داروں سے حسن سلوک) کرے۔‘‘(بخاری)
2۔ ’’قطع رحمی کرنے (رشتہ داروں سے تعلق توڑنے) والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ‘‘(بخاری)
3۔ ’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو صلہ رحمی کا بدلہ (صلہ رحمی سے) دیتا ہے۔ البتہ وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا ہے جس سے صلہ رحمی نہیں کی جاتی مگر وہ صلہ رحمی کرتا ہے۔‘‘ (بخاری)
4 ۔ ’’کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے 3 دن سے زیادہ تعلقات اس طرح منقطع کرے کہ جب وہ دونوں ملیں تو ایک دوسرے سے منہ اِدھر اُدھر پھیر لیں بلکہ دونوں میں سے بہتر وہ شخص ہے جو پہلے سلام کرے۔‘‘ (بخاری)
5۔ عام حالات میں بھی پہل آپ ہی کریں۔ … ’’جو شخص 3 دن سے زیادہ صلح کئے بغیر فوت ہو گیا تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا‘‘ (ابوداؤد، احمد)
6۔ ’’اس شخص کی نماز سر سے بالشت بھر بھی بلند نہیں ہوتی جو (عام مسلمانوں سے لڑنے والا) قطع تعلق کرنے والا ہے ‘‘ (ابن ماجہ)
7۔ ’’لوگوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کو طے کرادینے کا ثواب(نفلی) روزہ و نماز اور صدقہ سے بھی زیادہ ہے‘‘ (ابوداؤد)
8۔ ’’دو آد میوں کے درمیان صلح کرا دینا بھی صدقہ ہے ‘‘(بخاری)
9۔ ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اسلئے کہ اسکے (اور اﷲتعالیٰ کے) درمیان پردہ نہیں ہے‘‘(بخاری)
10۔ حدیث قدسی ہے :’’میرے بندو ، آپس میں ظلم نہ کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)
(ترجمہ) ’’ آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ زبان سے ایسی بات کہا کریں جو بہترین ہو۔دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل 17: آیت 53)
یہ بات یاد رکھیئے کہ لڑائی کرانے والا شیطان ہے اسلئے اصل لڑائی آپ کی شیطان سے ہے نہ کہ مخالف انسان سے۔ شکست شیطان کو دیجئے یہی آپکی اصل جیت ہے۔ شیطان کا پہلا حملہ غصہ دلانا ہے۔ {تفصیل کیلئے پڑھیئے تفسیر ( القصص 28: آیت 15) }
اس لئے جب آپ کو غصہّ آئے تو مند ر جہ ذیل کام کیجئے جس کی تعلیم قرآن و سنت میں ہے :
1۔ اَ عُوْ ذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بار بار پڑھیئے۔
2۔ حالت بدل دیں۔ کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں۔
3۔ وضو کر کے2 رکعات نماز حاجت ( برائے دفع غصہّ) شروع کر دیں۔ (مشکوٰۃ)
4۔ سر پرٹھنڈا پانی ڈال لیں اور (کم از کم 2 گلاس پانی) پئیں بھی ۔
5۔ سب سے پہلے دونوں فریق اپنے دل میں اﷲ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر پیدا کریں۔
فرمان الٰہی ہے :۔ (ترجمہ)
’’جو شخص اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اسکے لئے ( مشکل سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دیتا ہے‘‘ (طلاق 65 : آیت 2) اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ کریم کے سامنے کھڑے ہو کر حساب دینے سے ڈرے۔{تفصیل کیلئے پڑھیئے تفسیر عبس80 : آیت 40 }
اس لئے دونوں فریق علیٰحدگی میں (اختلافات دہرائے بغیر)اپنا اپنا حق اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے معاف کر کے اجر عظیم حاصل کریں یہ آپ کی طرف سے صدقہ بھی ہے {مزیدتفصیل کیلئے پڑھیئے تفسیرآل عمران 3 :آیات 134 تا 136}
6۔ اگر دو مسلمان (یا مسلمانوں کی دو جماعتیں) آپس میں لڑ پڑیں تو تیسرے آدمی یا تیسری جماعت پر اﷲ تعالیٰ نے یہ فرض کیا ہے کہ وہ ان میں انصاف سے صلح کرادیں۔
فرمان الٰہی ہے : (ترجمہ)
’’اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں باہم لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ بےشک مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو۔‘‘ (الحجرات 49 : آیات 9 تا 10) {مزید پڑھئیے تفسیر حجرات 49 : آیات 11 تا 12}
’’جو شخص خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرانے کی تلقین کرے اور صرف اﷲ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے تو (اللہ) یقینا اسے بہت بڑا اجر دینگے۔ ‘‘ (النساء 4 : آیت 114)
7۔ آپس میں محبت سے ملیں،مصافحہ کریں، تحائف دیں، احسان کریں،ضرور ت مند ہو تو مالی تعاون بھی کریں۔ فرمان الٰہی ہے : (ترجمہ)
’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔ پھر (تم دیکھو گے) تمہارا دشمن تمہارا بہترین دوست ہو جائیگا اور یہ چیز صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں اور یہ توفیق اسی کو ملتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہو۔ ‘‘ (حٰمٓ السجدہ 41 : آیات 34 تا 35)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’ قطع تعلق کرنے والوں سے ملو جو نہ دیتے ہوں ان کو دو۔ ظالم کے قصور کو معاف کر دو‘‘(طبرانی)
8۔ لڑائی کے دوران اور لڑائی کے بعد کسی بھی حالت میں جھوٹ نہ بولیں،جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی گواہی دینے کو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے بعدسب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے (ترمذی) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تین مرتبہ ا رشاد فرمایا پھر یہ آیت تلاوت فرما ئی :
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ
(ترجمہ)’’پس بتوںکی گندگی اور جھوٹ(جھوٹی باتوں اور جھوٹی قسم)سے بچو ۔‘‘(الحج 22: آیت 30) یہ بہت بڑا گناہ ہے جسکی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے (بیماری اور نقصانات کی شکل میں) اور آخرت میں الگ۔ {پڑھئیے تفسیر( الحج 22 :آیت30) اور(الفرقان 25: آیت 72)}
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے کوگناہِ کبیرہ قرار دیا۔ (بخاری)
9۔ کبھی بھی لڑائی کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں ۔ نہ یہ سوچیں کہ میں بڑا ہوں چھوٹے سے معافی کیوں مانگوں، اگر آپکی غلطی یا زیادتی ہو تو معافی مانگ لیں۔ اس عمل میں ہی آپکی بڑائی ہے۔ بد گمانی سے بچئے،والدین بیوی اور بچوں کے تمام جائز حقوق ادا کریں۔اسی طرح بیوی بھی شوہر کے تمام حقوق پورے کرے۔ سنی ہوئی باتوں پر یقین نہ کریں کیونکہ سُنی سنائی باتیں بھی لڑائی کا سبب بنتی ہیں۔
فرمان الٰہی ہے:۔ (ترجمہ) ’’اے ایمان والو ، اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (گنہگار، بدکار جھوٹا) کسی قسم کی خبر لائے تو تم اسکی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔‘‘ (الحجرات 49 :آیت 6)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو(بلا تصدیق) بیان کر دے‘‘(مسلم) شبہ کا فائدہ بھی دوسروں کو دیں۔
مصیبت آنے پر صبر اور نماز سے مدد لیجئے۔فرمان الٰہی ہے :۔ (ترجمہ)’’اے ایمان والو، صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘ (البقرہ 2 : آیوت 153)
بار بار نمازحاجت پڑھئیے۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی جلد ہی بہتری آجائیگی۔صبر کرنے سے انسان اﷲ تعالیٰ کی مغفرت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ تمام گھر والوں کو بھی نمازکا پابند بنائیں۔ زکوٰۃ پوری پوری ادا کریں اور تمام احکام الٰہی پر پورا پورا عمل کریں۔
«اس موضوع پر چند مزید احادیث : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
1۔ ’’جو رزق کی فراخی اور عمر کی درازی چاہے وہ اقرباسے صلہ رحمی (رشتہ داروں سے حسن سلوک) کرے۔‘‘(بخاری)
2۔ ’’قطع رحمی کرنے (رشتہ داروں سے تعلق توڑنے) والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ‘‘(بخاری)
3۔ ’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو صلہ رحمی کا بدلہ (صلہ رحمی سے) دیتا ہے۔ البتہ وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا ہے جس سے صلہ رحمی نہیں کی جاتی مگر وہ صلہ رحمی کرتا ہے۔‘‘ (بخاری)
4 ۔ ’’کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے 3 دن سے زیادہ تعلقات اس طرح منقطع کرے کہ جب وہ دونوں ملیں تو ایک دوسرے سے منہ اِدھر اُدھر پھیر لیں بلکہ دونوں میں سے بہتر وہ شخص ہے جو پہلے سلام کرے۔‘‘ (بخاری)
5۔ عام حالات میں بھی پہل آپ ہی کریں۔ … ’’جو شخص 3 دن سے زیادہ صلح کئے بغیر فوت ہو گیا تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا‘‘ (ابوداؤد، احمد)
6۔ ’’اس شخص کی نماز سر سے بالشت بھر بھی بلند نہیں ہوتی جو (عام مسلمانوں سے لڑنے والا) قطع تعلق کرنے والا ہے ‘‘ (ابن ماجہ)
7۔ ’’لوگوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کو طے کرادینے کا ثواب(نفلی) روزہ و نماز اور صدقہ سے بھی زیادہ ہے‘‘ (ابوداؤد)
8۔ ’’دو آد میوں کے درمیان صلح کرا دینا بھی صدقہ ہے ‘‘(بخاری)
9۔ ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اسلئے کہ اسکے (اور اﷲتعالیٰ کے) درمیان پردہ نہیں ہے‘‘(بخاری)
10۔ حدیث قدسی ہے :’’میرے بندو ، آپس میں ظلم نہ کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)
No comments:
Post a Comment