اخبارات اردوکے ہوں، یا عربی کے، ان کی ایک اہمیت ہے- ان کےلکھےہوئے جملے، تعبیرات اور ان میں چھپےخیالات قارئین کو دعوتِ فکردیتےہیں- کبھی کبھی ان کی خبریں "تحریک "کی بنیاد بھی بن جاتی ہیں- اس لئےان کی ذمہ داریاں بڑھی ہوئی ہیں- کبھی یہی اخبارات مولانا محمد علی جوہر اور مولانا آزاد جیسےعباقرہ کےہاتھوں میں تھے، جن کی قلمی جولانیاں کسی کیلئے "حشرآسا "تو کسی کیلئے "میدان ساز "ثابت ہوتیں- زمانےکے انحطاط اور صلاحیتوں کے روز افزوں زوال کے باوجود ان کی اہمیت آج بھی مسلم الثبوت ہے، مگر خوگرِ حمد سے تھوڑا ساگلہ بھی سن ہی لیا جائے، تحریر سےنہ طنز مقصود ہے، نہ دل شکنی- محض "آئینہ نمائی "پیشِ نظرہے- بےتکلف عرض ہے کہ اخبارات میں جہاں دیگر خرابیاں درآئی ہیں، وہیں ایک خرابی یہ ہےکہ الفاظ کا ناجائز استعمال بے تحاشا ہورہا ہے- بعض مواقع پر ایسی غلط تعبیر اختیارکی جاتی ہے کہ شرعی حدود پامالی سے بچ نہیں پاتیں- مثلاً: کسی"راہئ عقبیٰ " غیرمسلم کی خصوصیات بیان کرنی ہوں، تو کہتے ہیں "فلاں مرحوم مسلمان تو نہیں، مگر اچھے انسان تھے"- یہاں "مرحوم " بالکل غلط ہے، بلکہ حرامِ صریح- "مرحوم" ایک دعا ہے، جس کےمعنیٰ ہیں "اللہ ان پررحم فرمائے، " جبکہ غیرمسلموں کیلئے رحمت کی دعاجائز نہیں- کہنا ہی ہو تو "آں جہانی "کہئے! اسی طرح کوئی شہرت یافتہ شخص کسی مہلک مرض سےنجات پاجائے اور اللہ اسےشفادے دے، توکہتےہیں "فلاں صاحب نے موت کوشکستِ فاش دےدی- وہ موت سے جیت گئے " گویاان صاحب کی موت سے خطرناک "جنگ "چھڑی " تھی اور انہوں نےاسے "چت " کردیا- لاحول ولاقوۃ الاباللہ- کیا موت سے بھی کوئی بچ پایا ہے؟ بعض صحافی "جوشِ قلم "میں کسی مسلم ادیب یامعروف ہستی کےبارے میں لکھتےہیں "وہ اچھے مسلمان ہی نہیں، بلکہ اچھےانسان بھی تھے. " گویا اسلام اورانسانیت میں کوئی "دوئی " ہے- حالانکہ جوشخص اچھامسلمان ہوگا، وہ اچھاانسان ضرورہوگا- انسانیت اوراسلام میں "لازم وملزوم " کارشتہ ہے- ایساممکن ہی نہیں ہے کہ اسلام کےبغیر کامل انسانیت پائی جائے- ہمارے بعض ادبا برادرانِ وطن کےاہم " تہواروں " کے موقع پر لکھ مارتےہیں "دیوالی مبارک، ہولی مبارک "وغیرہ-شاید انہیں خبر نہیں کہ "مبارک " کامعنیٰ کیا ہے؟ "مبارک "دعائے برکت ہے- اوربرکت اسلامی کاموں میں ہے، غیراسلامی میں نہیں- مبارک کالفظ "شب قدر "جیسی عظیم تحائف خداوندی کیلئے استعمال ہوتاہے- تفصیلات کاموقع نہیں-قرآن و حدیث میں اس کی بے شمارمثالیں ہیں- دل جوئی مقصود ہو تو "شبھ کامنائیں " کہہ لیجئے! یاکوئی اورمتبادل- آج کل بعض احباب یہ لکھتےہوئے ذرابھی نہیں ہچکچاتے "مجھ پرقسمت کی دیوی مہربان ہوگئی "جبکہ جانتے ہیں کہ دیوی کاتصور اسلام میں ہے ہی نہیں- بعض "دریادل " اصحاب قلم نے "سراقبال " کے اس مصرعےکو نوجذ سے پکڑرکھا ہے
"خاکِ وطن کامجھ کوہرذرہ دیوتاہے. "
وطن سے پیار بے شک ضروری اور فطری ہے- اس کے تحفظ کیلئےجان وارنابھی مشکل نہیں، مگراس کے "ذرے " کو "دیوتا " کہنا کھلاہوا "شرک "ہے- خواہ کوئی کتنی ہی تاویل کرےاورکوئی بھی معنیٰ اسےپہنائے- اس کاتلفظ اس کے استعمال کوجائز سمجھتے ہوئے حرام ہے- اگرچہ اقبال جیسےعظیم شاعر کا کلام ہے ، مگروہ ایک انسان تھے، کوئی معصوم عن الخطا نہ تھے- اگرانہوں نے کہہ دیا توکوئی شرعی مسئلہ نہ ہوگیا- اقبال اپنی تمام تراسلام پسندی کے باوجود "مغربی طرززندگی " کے دلدادہ تھے- یادہوگا کہ وہ اپنی وفات سے چھ برس قبل تک مرزا قادیانی کو مسلمان ہی نہیں ،بڑی خوبیوں کاحامل بھی سمجھتے تھے ،جبکہ قادیانی کا کفر "عالم آشکار "تھا- کہنےکامطلب یہ کہ ان کی ہرتعبیر آنکھ بند کرکے اختیار نہیں کی جاسکتی- اللہ کےیہاں الفاظ کا بھی حساب ہوگا- ترمذی شریف میں ہے کہ ایک بندہ غفلت میں ایک "خراب " لفظ بول جاتا ہے اوراسی پراس کی خطرناک گرفت ہوجاتی ہے-بےشک آپ کواچھے سےاچھا لکھنے اور تعبیرات ایجادکرنے کااختیار ہے ، مگرخیال رہےکہ ہم مسلمان ہیں، ہم کسی بھی وقت آزادنہیں- خواہ لکھنےکا وقت ہویابولنےکاوقت- جملےکا انتخاب کافی تراش خراش کے بعد ہونا چاہئے.
ناصری بن مولانا جمیل احمد ناصری
No comments:
Post a Comment