Friday 18 March 2016

الفتنتہ اشد من القتل 'हम अल्लाह की इबादत करते हैं'

ایس اے ساگر
اسلام کو غیروں سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ خود مسلمان سے اسلام کو نقصان پہنچے گا . ہوسکتا کہ یہ بات سننے میں کچھ عجیب لگے تاہم اتنا سمجھ لیجئے کہ گزشتہ روز دواریکا پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی سوروپاند سرسوتی نے اننت پور میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ آر ایس ایس ہندو کا نام لیتا ہے، لیکن 'ہندوتوا' سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے. یہ ہم لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ ہم ہندو مذہب کی حفاظت کرنے آئے ہیں. یہ اور زیادہ مہلک ہے. آر ایس ایس کے لوگوں نے گنویش تبدیل کر دیا. ڈاکٹر ہیڈگیوار نے جو گنویش طے کیا تھا، اس کو تبدیل کرنے کا انہیں کیا حق حاصل ہے. ہوسکتا اس انکشاف سے بعض لوگوں کو زیادہ حیرت نہ ہوئی ہو کیونکہ اس قسم کے متعدد دیگر دھرم گوروں کے بیانات ماضی میں بھی منظر عام پر آتے رہے ہیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ خود اپنوں نے فتنہ پروروں کو نظرانداز کرکے حق کی صدا بلند کرنے والوں کو نشانہ بنا رکھا ہے. وہ سمجھتے ہیں کہ سچ بولنے پر جب فتنہ ہو توشارع نے اس سے اجتناب کا حکم دیاہے اوراسی معنی میں یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ،
الفتنتہ اشد من القتل
اویسی کو براہ راست مخاطب کر کے کہا جارہا ہے کہ 'ان کاہدف ماڈرن اسلام پر عمل کرتے ہوئے سیاست کے بام عروج پر پہنچناہے ورنہ اگر وہ اسلامی تعلیمات کواپناامام بناتے توزبان کی تیزی میں کمی ضرورآتی ۔ بحیثیت امت واحدہ ہزارفکری اختلاف کے باوجود بھی ہم ان کیساتھ ہیں ۔مگر وہ اپنی فکروآراء پرنظرثانی کریں اورامت کو آزمائش میں نہ ڈالبں. بفضلہ تعالی وطن عزیز میں آج بہت سے سچے بہی خوان قوم موجود ہیں، صرف اویسی صاحب تنہانہیں ہیں مگران کے بیانات من حیث القوم مصیبت کے باعث بنتے ہیں.'
کون ہے فتنہ پرور؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کے خیالات کا اظہار کرنے سے پہلے ان حضرات نے اویسی سے رجوع کرنے کی کوشش کی؟ غنیمت ہے کہ بی بی سی ہندی نے اویسی صاحب کی وضاحت پیش کر دی ہے کہ 'ہم ماں کی نہیں بلکہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر ملک میں  سنگھ پریوار (آر ایس ایس) یا کوئی بھی تنظیم یہ کہتی ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی ہندوستانی کی سالمیت اور اس کے ہندوستان سے محبت کا پیمانہ یہ ہوگا کہ اسے کسی خاص طرح کے نعرے لگانے پڑیں گے تو مجھے اس پر سخت اعتراض ہے.
میرا خیال یہ ہے کہ جمہوریت میں ہر کسی کو حق ہے نعرے لگانے کا، اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرنے کا، مگر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ جو نعرہ میں لگا رہا ہوں، وہی نعرہ سچا ہے اور اگر آپ  وہ نہیں لگائیں گے تو آپ کو اس ملک سے محبت نہیں ہے.
بنیادی حقوق پر ڈاکہ :
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے قانون میں اس بات کا ذکر نہیں ہیں نہ ہمارے آئین کے بنیادی حقوق میں اس کا شمار ہوتا ہے جیسا کہ آر ایس ایس کہہ رہا ہے.
مجھے فخر ہے 'جے ہند' کہنے پر، مجھے خوشی ہوتی ہے جب ہندوستان زندہ باد کہتا ہوں. اگر کسی اور کو دوسرا نعرہ لگانے پر خوشی ملتی ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن میں وہ نعرہ نہیں لگاسکتا. اگر کوئی میرے سامنے کھڑے ہوکر یہ کہتا کہ اسے یہ نعرہ لگانے سے خوشی نصیب ہوتی ہے تو میں انہیں کہوں گا کہ آپ کو وہ نعرہ لگائیں، پر میں نہیں لگاسکتا. یہی تو ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے. یہی ہماری قسم ہے، یہی ہماری اکثریتی ثقافت کی خاص پہچان ہے.
آئین کی بالادستی :
اس میں کچھ بھی اسلامی مسئلہ نہیں ہیں اور نہ ہی میں کسی اسلامی قانون کو جانتا ہوں. یہ تو علماء کرام کا مسئلہ ہے. ہندوستان کے قانون میں مذہبی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور اس حق کو کوئی نہیں چھین سکتا. اس کیساتھ اظہار رائے کی آزادی بھی ہے. ہمارے ملک کے قانون کے مطابق مجھ سے یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا ہے. سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ہمارے آئین کا بنیادی جزو ہے. وارث پٹھان کو معطل کر کے آپ کیا پیغام دے رہے ہیں. کل کو کوئی کہے گا کہ وارث تمہارا مذہب  ٹھیک نہیں ہے تو اپنا مذہب تبدیل کرلو،
کہاں جا رہے ہیں ہم ؟
اگر میں کسی قانون کو توڑتا ہوں تو مجھ پر کیس درج کریں، سزا دلائیں، جیل بھیجیں. مگر یہ کہاں سے آ گیا کہ ہمارے گروپ یا تنظیم کو یہ چیز خراب نظر آ رہی ہے اور جو ہم کہیں وہی قانون ہے. یہ تو ٹھیک نہیں ہے. پھر تو قانون کی حکمرانی کہاں رہے گا. ہم اپنی ماں سے یقینا محبت کرتے ہیں. جس ماں نے ہمیں پیدا کیا اس قدموں کے نیچے جنت ہے. لیکن کیا ہم اپنی ماں کی عبادت کرتے ہیں؟ نہیں کرتے. ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں.
کون ہے ملک کا غدار ؟
ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے اور رہے گی . میں اس ملک کا وفادار ہوں اور رہوں گا. مگر یہ کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ میری وفاداری پر شک کرے. محض اس بنیاد پر کہ آپ کو بھارت ماتا کا ہی نعرہ لگاناہے وہ ہم نہیں لگاسکتے. مجھے فخر ہے کہ میں پاک ہند کہتا ہوں. ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوں. مہاراشٹر اسمبلی میں جو ہوا وہ اچھا نہیں ہوا. بی جے پی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے جو رخ اپنایا وہ ان کی پول کھولنے کیلئے کافی ہے.
ایک تھیلی کے چٹے بٹے :
کانگریس نائب صدر راہل گاندھی جے این یو گئے تھے اور انہوں نے جو وہاں تقریر دیا تھا، اس کی بنیاد پر بات کریں تو مہاراشٹر کے کانگریسی اور تمام سیکولر ممبران اسمبلی کا دوہرا کردار سامنے آ جاتا ہے. کانگریس نائب صدر جے این یو میں جا کر کہتے ہیں کہ اپنا موقف رکھنا ایک بنیادی حق ہے لیکن مہاراشٹر کی اسمبلی جو ہوا وہ کیا تھا. کانگریس اعتدال پسند اس وقت تک ہی ہے جب تک کہ انہیں سیاسی فائدہ نصیب ہوتا ہے. اسی طرح بی جے پی بھی اسی وقت  تک سیکولر بنے رہنا چاہتی ہے جب تک کہ سیاسی مفاد نصیب ہوتا ہے. لہذا دونوں ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں۔
سیاسی بازی گری :
کانگریس نے جے این یو میں جا کر جو کیا وہ ایک ڈرامہ کے علاوہ کچھ نہیں تھا. بعض لوگ میرے بیان کے وقت پر سوالیہ نشان قائم کررہے ہیں. ان کا الزام ہے کہ اس سے بی جے پی کو آنے والے پانچ اسمبلی انتخابات میں فائدہ ملے گا. میرا ان سے یہ سوال ہے کہ کیا لوک سبھا انتخابات میں میری تقریروں کی وجہ سے بی جے پی مرکز میں اقتدار میں آئی ہے؟ کیا دہلی میں عام آدمی پارٹی کی فتح اور کانگریس کی ہزیمت میری وجہ سے ہوئی ؟
کیا یہ ہمارے آقا ہیں؟
اپنے گناہوں کا ٹوکرا میرے سر پر کیوں رکھنا چاہتے ہیں. ان پانچ ریاستوں میں کہاں الیکشن لڑ رہا ہوں ؟ کہیں نہیں، اس کے باوجود میرے خلاف الزامات عائد کئے جا رہے ہیں. میں ایک ہندوستانی ہوں اور میں اپنی بات کہوں گا. یہ میرا بنیادی حق ہے اور ہم کب تک اپنی زبان کو بند رکھیں گے. کیا یہ لوگ ہمارے سیاسی آقا ہیں جو ہم ان کی سنیں؟
کس نے کی باطل سے بیعت؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سا طبقہ ہے جس نے اپنے 'سیاسی آقاوں' کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں؟ کیا یہ جاننے کیلئے ممبئی کی مشہور ماہم درگاہ جانا ضروری نہیں ہے جس کے احاطے میں جمعرات کو نہ صرف ترنگا پرچم لہرایا گیا بلکہ بڑی تعداد میں مجتمع امت محمدی کے ہی لوگوں نے قومی ترانہ کیساتھ 'بھارت ماتا کی جے' کے نعرے بھی بلند کئے. اس طرح ماہم واقع پیر مخدوم شاہ بابا کی درگاہ شاہد ہے جس کے 603 ویں عرس کے موقع پر نہ صرف پہلی بار کسی درگاہ کے  اندر ترنگا لہرانے کا ریکارڈ قائم کیا گیا بلکہ 'بھارت ماتا کی جے' کے نعرے بھی لگائے گئے .کیسا عجیب منظر ہوگا جب ماہم درگاہ کے احاطے میں ترنگا لہرایا گیا اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگ رہے تھے تو نہ صرف شیوسینا کے رہنما راہل شوالے، معروف وکیل رضوان مرچینٹ، ڈاکٹر مدثر ، شیو سینا کے نائب رہنما حاجی عرفات شیخ جیسے کئی مسلم  رہنما بھی موجود تھے. کہتے ہیں کہ درگاہ میں ترنگا پہیرائے جانے کے وقت پولیس بینڈ کا بگل بجا کر سلامی دی گئی. کیوں نہ دیں،
جب سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟
کیا کریں جمن شبراتی؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام مسلمان ایسی صورت ميں کیا کرے ؟اس کیلئے  حصن حصین میں وارد ہے ،
.
اللّٰهُمَّ اهْ؟دِنَا فِيْمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنَا فِيْمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنَا فِيْمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِکْ لَنَا فِيْمَا اَعْطَيْتَ وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإنَّکَ تَقْضِیْ وَلاَ يُقْضٰی عَلَيْکَ إنَّه لاَ يَذِلُّ مَنْ وَّالَيْتَ وَلاَ يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ إلَيْکَ وَصَلَّی اللّٰهُ عَلَی النَّبِیِّ
"اے اللہ، جن لوگوں کو تو نے ہدایت دی، ان کے ساتھ ہمیں بھی ہدایت دے اور جن کو تو نے صحت بخشی ہے، ان کیساتھ ہمیں بھی صحت بخش اور جن کو تو نے اپنا دوست بنایا ہے ان کے ساتھ ہمیں بھی اپنا دوست بنا اور جو انعامات تو نے ہمیں عطا کئے ہیں، ان میں برکت دے اور جو فیصلہ تو نے کیا ہے اس کے شر سے ہمیں محفوظ رکھ۔کیونکہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ یقینا ً وہ کبھی ذلیل نہیں ہوسکتا جس کو تو دوست بنائے اور وہ کبھی عزت نہیں پاسکتا جس کو تو دشمن رکھے۔اے ہمارے رب! تو برکت والا اور عالی قدر ہے۔ ہم تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔"
َِْ ََ
'हम अल्लाह की इबादत करते हैं'
एस. ए. सागर
रिका पीठ के शंकराचार्य स्वामी स्वरूपानंद सरस्वती ने कहा कि आरएसएस हिंदू का नाम लेता है, लेकिन हिंदुत्व से इनका कोई लेना-देना नहीं है। ये हमलोगों को धोखा दे रहे हैं कि हम हिंदू धर्म की हिफाज़त करने आए हैं। यह और ज्यादा घातक है। आरएसएस के लोगों ने गणवेश बदल दिया। डॉ. हेडगेवार ने जो गणवेश तय किया था, उसे बदलने का इन्हें क्या हक है। शंकराचार्य जुमेरात को अनंतपुर में सहाफियों से बातचीत कर रहे थे।
अगर देश में राष्ट्रीय स्वयंसेवक संघ (आरएसएस) या कोई भी संगठन यह कहता कि हिंदुस्तान में किसी भी हिंदुस्तानी की वफ़ादारी और उसके हिंदुस्तान से मोहब्बत का पैमाना यह होगा कि उसे किसी ख़ास तरह के नारे लगाने पड़ेंगे तो मुझे इस पर सख़्त एतराज़ है. मेरा मानना यह है कि लोकतंत्र में हर किसी को अधिकार है नारे लगाने का, अपने मुल्क से मोहब्बत का इज़हार करने का, मगर किसी को यह अधिकार नहीं हैं कि वह यह कहे कि जो नारा मैं लगा रहा हूं, वही नारा सच्चा है और अगर आप वह नहीं लगाएंगे तो आप इस मुल्क से प्यार नहीं करते हैं. दूसरी बात यह है कि हमारे कानून में इस बात का ज़िक्र नहीं हैं न हमारे संविधान के मौलिक अधिकारों में इसका शुमार होता है जैसा कि आरएसएस कह रहा है. मुझे गर्व है 'जय हिन्द' कहने पर, मुझे खुशी होती है जब हिंदुस्तान ज़िंदाबाद कहता हूं. अगर किसी और को दूसरा नारा लगाने पर खुशी मिलती है तो मुझे उसपर कोई आपत्ति नहीं है लेकिन मैं वह नारा नहीं लगाउंगा. अगर कोई मेरे सामने खड़े होकर यह कहता कि उसे यह नारा लगाने से खुशी मिलती है तो मैं उन्हें कहूंगा कि आप वह नारा लगाएं, पर मैं नहीं लगाउंगा. यही तो हमारे देश की खूबसूरती है. यही हमारी विविधता है, यही हमारी बहुलतावादी संस्कृति की ख़ास पहचान है. इसमें कुछ भी इस्लामिक मसला नहीं हैं और न ही मैं किसी इस्लामिक कानून को जानता हूं. यह तो आलिमों का मसला है. हिंदुस्तान के कानून में धार्मिक स्वतंत्रता एक बुनियादी हक़ है और इस हक़ को कोई नहीं छीन सकता. इसके साथ अभिव्यक्ति की स्वतंत्रता भी है. हमारे देश के कानून के अनुसार मुझसे यह हक़ कोई नहीं छीन सकता है. सुप्रीम कोर्ट ने कहा कि यह हमारे संविधान का मौलिक हिस्सा है. वारिस पठान को निलंबित करके आप क्या संदेश दे रहे हैं. कल को कोई कहेगा कि वारिस तुम्हारा मज़हब ठीक नहीं है तो अपना मज़हब बदल लो, कहां जा रहे हैं हम. अगर मैं किसी कानून को तोड़ता हूं तो मुझ पर केस दर्ज़ करें, सज़ा दिलाएं, जेल भेजें. मगर यह कहां से आ गया कि हमारे समूह या संगठन को यह चीज़ खराब दिख रही है और जो हम कहें वही कानून है. यह तो ठीक नहीं है. फिर तो कानून का शासन कहां रहेगा. हम अपनी मां से यकीनन प्यार करते हैं. जिस मां ने हमें पैदा किया उसके कदमों के नीचे जन्नत है. लेकिन क्या हम अपनी मां की इबादत करते हैं? नहीं करते. हम अल्लाह की इबादत करते हैं. हमें अपने देश से प्यार है और रहेगा. मैं इस देश का वफ़ादार हूं और रहूंगा. मगर यह किसी को अधिकार नहीं है कि वो मेरी वफ़ादारी पर शक करे. महज इस बुनियाद पर कि आपका जो नारा है वह हम नहीं लगाते. मुझे फ़ख़्र है कि मैं जय हिन्द कहता हूं. हिंदुस्तान ज़िंदाबाद के नारे लगाता हूं. महाराष्ट्र विधानसभा में जो हुआ वह अच्छा नहीं हुआ. भाजपा के अलावा अन्य राजनीतिक दलों ने जो रुख अपनाया वह उनकी पोल खोलने के लिए काफी है. कांग्रेस उपाध्यक्ष राहुल गांधी जेएनयू गए थे और उन्होंने जो वहां भाषण दिया था, उसके आधार पर बात करें तो महाराष्ट्र के कांग्रेसी और तमाम धर्मनिरपेक्ष विधायकों का दोहरा चरित्र सामने आ जाता है.
कांग्रेस उपाध्यक्ष जेएनयू में जाकर कहते हैं कि अपना पक्ष रखना एक बुनियादी हक़ है लेकिन महाराष्ट्र की विधानसभा जो हुआ वह क्या था.
कांग्रेस उदारवादी तब तक ही है जब तक उन्हें राजनीतिक फायदा मिलता है. इसी तरह भाजपा भी तभी तक धर्मनिरपेक्ष बने रहना चाहती है जब तक उसके राजनीतिक हित सधते हैं. यह अव्वल दर्ज़े का दोहरा चरित्र है.
कांग्रेस ने जेएनयू में जाकर जो किया वह एक नाटक के सिवाए कुछ नहीं था. कुछ लोग मेरे बयान के समय पर सवाल उठा रहे हैं. उनका आरोप है कि इससे भाजपा को आने वाले पांच विधानसभा चुनावों में फायदा मिलेगा.
मेरा इनसे सवाल क्या लोकसभा चुनावों में मेरे भाषणों के कारण भाजपा केंद्र में सत्ता में आई. क्या दिल्ली में आम आदमी पार्टी की जीत और कांग्रेस की हार मेरी वज़ह से हुई. अपने गुनाहों का टोकरा मेरे सिर पर क्यों रखना चाहते हैं. इन पांच राज्यों में कहां चुनाव लड़ रहा हूं, कहीं नहीं फिर भी मुझ पर आरोप लगाए जा रहे हैं. मैं एक हिंदुस्तानी हूं और मैं अपनी बात कहूंगा. यह मेरा बुनियादी हक़ है और हम कब तक अपनी ज़बान को बंद रखेंगे.
क्या यह लोग हमारे राजनीतिक आका है जो हम इनकी सुनें.
(असदुद्दीन से ओवैसी बीबीसी संवाददाता सलमान रावी से बातचीत पर आधारित)
18 मार्च 2016

No comments:

Post a Comment