ہرشبہہ کا جواب دینے سے شبہات رفع نہیں ہوسکتے ، تم منشاء کا علاج کرو۔۔جیسے ایک گھر کے اندر رات کو اندھیرے میں چوہے، چھچھوندر کودتےپھرتے تھے۔ گھر والا ایک ایک کو پکڑ کر نکالتا مگر پھر وہ سب کے سب دوبارہ اندر آجاتے۔
ایک عاقل نے کہا کہ میاں، یہ سب اندھیرے کی وجہ سے کودتے پھرتے ہیں، تم لیمپ روشن کردو، یہ سب خود ہی بھاگ جائیں گے ،
چنانچہ لیمپ روشن کیا گیا تو وہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ اسی طرح یہاں بھی سمجھو کہ یہ وساوس و شبہات جو آپ کو پیش آتے ہیں ، ان کا منشاء ظلمت قلب ہے، جس کا علاج یہ ہے کہ قلب میں نور پیدا کر لو ۔ وہ نور نورمحبت ہے ۔یہ محبت و عشق وہ چیز ہے کہ جب یہ دل میں گھس جاتی ہے تو پھر محبوب کے کسی حکم اور کسی قول و فعل میں کوئی شبہ و سوسہ نہیں پیدا ہوتا۔ اگر ایک فلسفی پروفیسر کسی عورت پر عاشق ہوجائے اور وہ عورت اس سے یوں کہے کہ سربازار کپڑے اتار کرآو تو میں تم سے بات کروں گی ، ورنہ نہیں !ً تو فلسفی صاحب اس کیلئے بھی تیار ہوجائیں اور یہ بھی نہ پوچھیں گے کہ بی بی، اس میں تیری مصلحت کیا ہے ؟
اب کوئی اس سے پوچھے کہ آپ کی وہ عقل اور فلسفیت اس عورت کے سامنے کہاں چلی گئی؟
میں نہایت پختگی سے دعوے کیساتھ کہتا ہوں کہ جن مسلمانوں کو آج کل مذہب میں شکوک و اوہام پیداہوتے ہیں ، ان کے اس مرض کا منشاء قلت محبت مع اللہ ہے، ان کو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کیساتھ محبت نہیں اور محض برائے نام تعلق کو تعلق کہا جاتا ہے ۔
تعلق مع اللہ کے حاصل ہونے کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت حاصل کی جائے ، اہل محبت کی صحبت میں یہ خاصیت ہے کہ ا س سے بہت جلد محبت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل غفلت کی صحبت سے غفلت پیدا ہوتی ہے، پھر جب محبت اور تعلق مع اللہ حاصل ہوجائے گا ، یہ لم و کیف باطل اور وساوس و شبہات سب جاتے رہیں گے۔
(حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃاللہ علیہ )
ایک عاقل نے کہا کہ میاں، یہ سب اندھیرے کی وجہ سے کودتے پھرتے ہیں، تم لیمپ روشن کردو، یہ سب خود ہی بھاگ جائیں گے ،
چنانچہ لیمپ روشن کیا گیا تو وہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ اسی طرح یہاں بھی سمجھو کہ یہ وساوس و شبہات جو آپ کو پیش آتے ہیں ، ان کا منشاء ظلمت قلب ہے، جس کا علاج یہ ہے کہ قلب میں نور پیدا کر لو ۔ وہ نور نورمحبت ہے ۔یہ محبت و عشق وہ چیز ہے کہ جب یہ دل میں گھس جاتی ہے تو پھر محبوب کے کسی حکم اور کسی قول و فعل میں کوئی شبہ و سوسہ نہیں پیدا ہوتا۔ اگر ایک فلسفی پروفیسر کسی عورت پر عاشق ہوجائے اور وہ عورت اس سے یوں کہے کہ سربازار کپڑے اتار کرآو تو میں تم سے بات کروں گی ، ورنہ نہیں !ً تو فلسفی صاحب اس کیلئے بھی تیار ہوجائیں اور یہ بھی نہ پوچھیں گے کہ بی بی، اس میں تیری مصلحت کیا ہے ؟
اب کوئی اس سے پوچھے کہ آپ کی وہ عقل اور فلسفیت اس عورت کے سامنے کہاں چلی گئی؟
میں نہایت پختگی سے دعوے کیساتھ کہتا ہوں کہ جن مسلمانوں کو آج کل مذہب میں شکوک و اوہام پیداہوتے ہیں ، ان کے اس مرض کا منشاء قلت محبت مع اللہ ہے، ان کو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کیساتھ محبت نہیں اور محض برائے نام تعلق کو تعلق کہا جاتا ہے ۔
تعلق مع اللہ کے حاصل ہونے کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت حاصل کی جائے ، اہل محبت کی صحبت میں یہ خاصیت ہے کہ ا س سے بہت جلد محبت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل غفلت کی صحبت سے غفلت پیدا ہوتی ہے، پھر جب محبت اور تعلق مع اللہ حاصل ہوجائے گا ، یہ لم و کیف باطل اور وساوس و شبہات سب جاتے رہیں گے۔
(حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃاللہ علیہ )
No comments:
Post a Comment