Wednesday 2 March 2016

کیا جہیز وراثت کے حصے کے قائم مقام ہوسکتا ہے ؟

ہمارے والد مرحوم ترکہ میں ایک بڑا مکان، مین بازار میں پانچ دُکانیں اور ایک تقریباً چار سو گز کا پلاٹ جو کمرشل استعمال میں ہے چھوڑ کر فوت ہوئے۔ اس تمام پراپرٹی کی مارکیٹ ویلیو تقریباً چالیس لاکھ ہے، ہمارے تمام بھائی ماشاء اللہ اچھی اچھی جگہوں پر برسرِ روزگار ہیں، گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں، مگر ہم شادی شدہ بہنوں کے گھریلو حالات صحیح نہیں، مشکل سے گزارا ہوتا ہے، مگر ہماری والدہ ہم بہنوں کا حصہ دینے کو تیار نہیں، وہ کہتی ہیں: ”بہنوں کو جہیز دے دیا گیا، باقی تمام ترکہ لڑکوں کا ہے“ جبکہ شادی میں ہم لوگوں کو بمشکل چالیس پچاس ہزار کا جہیز دیا گیا، وہ بھی زیادہ تر خاندان والوں کے تحفے تحائف تھے۔ براہِ مہربانی فرمائیے کہ آیا ہماری والدہ کا فرمانا صحیح ہے یا ہم اپنا حصہ لینے میں حق بجانب ہوں گے، اور اس سلسلے میں والدہ پر دباوٴ ڈالنا گستاخی تو نہ ہوگی؟ یا یہ کہ ہماری والدہ کو بحیثیت سرپرست اس وقت کیا دِینی ذمہ داری ادا کرنا چاہئے؟

ج… آپ کے مرحوم والد کے ترکہ میں لڑکیوں اور لڑکوں کا یکساں حق ہے، دو لڑکیوں کا حصہ ایک لڑکے کے برابر ہوگا، آپ کی والدہ محترمہ کا یہ کہنا کہ: ”لڑکیوں کو جہیز مل چکا ہے، لہٰذا اب ان کو جائیداد میں حصہ نہیں ملے گا“ چند وجوہ سے غلط ہے۔

          اوّل:… اگر لڑکیوں کو جہیز مل چکا ہے تو لڑکوں کی شادی پر اس سے دُگنا خرچ ہوچکا ہے، اب از رُوئے انصاف یا تو لڑکوں کو بھی جائیداد سے محروم رکھا جائے یا لڑکیوں کو بھی شرعی حصہ دیا جائے۔

          دوم:… لڑکیوں کو جہیز تو والد کی زندگی میں دیا گیا اور وراثت کے حصے کا تعلق والد مرحوم کی وفات سے ہے، تو جو چیز والد کی وفات سے حاصل ہوئی اس کی کٹوتی والد کی زندگی میں کیسے ہوسکتی ہے․․․؟

          سوم:… ترکہ کا حصہ تو متعین ہوتا ہے کہ کل جائیداد اتنی مالیت کی ہے اور اس میں فلاں وارث کا اتنا حصہ ہے، لیکن جہیز کی مالیت تو متعین نہیں ہوتی بلکہ والدین حسبِ توفیق دیا کرتے ہیں۔ پس جہیز ترکہ کے قائم مقام کیسے ہوسکتا ہے؟

          چہارم:… پھر ایک چیز کے بدلے دُوسری چیز دینا ایک معاملہ، ایک سودا اور ایک لین دین ہے، اور کوئی معاملہ اور سودا دو فریقوں کے بغیر نہیں ہوا کرتا، تو کیا والدین اور لڑکیوں کے درمیان یہ سودا طے ہوا تھا کہ یہ جہیز تمہیں تمہارے حصہٴ وراثت کے بدلے میں دیا جاتا ہے․․․؟

          الغرض آپ کی والدہ کا موقف قطعاً غلط اور مبنی بر ظلم ہے، وہ لڑکیوں کو حصہ نہ دے کر اپنے لئے دوزخ خرید رہی ہیں، انہیں اس سے توبہ کرنی چاہئے۔

          رہا سوال یہ کہ والدہ پر دباوٴ ڈالنے سے ان کی گستاخی تو نہیں ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صرف مانگنا گستاخی نہیں۔ دیکھئے! بندے اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں، بچے اپنے والدین سے مانگتے ہیں اس کو کوئی گستاخی نہیں کہتا، ہاں! لہجہ گستاخانہ ہو تو یقینا گستاخی ہوگی۔ پس اگر آپ ملتجیانہ لہجے میں والدہ پر دباوٴ ڈالیں تو یہ گستاخی نہیں، اور اگر تحکمانہ لہجے میں بات کریں تو گستاخی ہے۔

وراثت کی جگہ لڑکی کو جہیز دینا

س… جہیز کی لعنت اور وبا سے کوئی محفوظ نہیں ہے، بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ: ”ہم جہیز کی شکل میں اپنی بیٹی کو ”ورثہ“ کی رقم دے دیتے ہیں“ کیا یہ ممکن ہے کہ باپ اپنی زندگی میں ہی ورثہ بیٹی کو دے دے جہیز کے نام پر، اور اس کے بعد اس سے سبکدوش ہوجائے؟

ج… ورثہ تو والدین کے مرنے کے بعد ہوتا ہے، زندگی میں نہیں۔ البتہ اگر لڑکی اس جہیز کے بدلے اپنا حصہ چھوڑ دے تو ایسا کرسکتی ہے۔

آپکے مسائل اور انکا حل
شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ

No comments:

Post a Comment