عقائد و ایمانیات - دعوت و تبلیغ
سوال # 1899
میرے دو سوالا ت ہیں:
(۱) ہمارے تبلیغی جماعت والے بھی اکثر دو احادیث کو ملا کر یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے راستے میں نکلا کرو۔ اس سے نماز کے ثواب 490000000 (اننچاس کروڑ) ہوجاتے ہیں۔ اس بار ے میں شریعت کیا فرماتی ہے؟
(۲) کیا تبلیغی جماعت میں جانا اللہ کے راستے میں داخل ہے؟
Published on: Nov 7, 2007
سوال # 1899
میرے دو سوالا ت ہیں:
(۱) ہمارے تبلیغی جماعت والے بھی اکثر دو احادیث کو ملا کر یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے راستے میں نکلا کرو۔ اس سے نماز کے ثواب 490000000 (اننچاس کروڑ) ہوجاتے ہیں۔ اس بار ے میں شریعت کیا فرماتی ہے؟
(۲) کیا تبلیغی جماعت میں جانا اللہ کے راستے میں داخل ہے؟
Published on: Nov 7, 2007
جواب # 1899
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1585/ ھ= 1242/ ھ
(۱) یہ محض تبلیغی جماعت والوں کا ہی بیان نہیں، بلکہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں شراحِ حدیث نے یہ مطلب بیان کیا ہے بذل المجھود في حل أبي داوٴد وغیرہ میں بھی ہے۔
(۲) بلاشبہ داخل ہے، اس سلسلہ میں بہت عمدہ مدلل و مفصل کلام الاعتدال في مراتب الرجال المعروف بـ اسلامی سیاست اردو میں ہے، یہ کتاب دیوبند، دہلی وغیرہ کے کتب خانوں میں عامةً قیمتاً دستیاب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/1899
.........
سوال … تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں نکلو، اللہ کے راستے میں ایک نماز کا ثواب انچاس کروڑ نمازوں کے برابر ہے، لیکن میں نے سنا ہے کہ یہ ثواب جہاد فی سبیل اللہ میں ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1585/ ھ= 1242/ ھ
(۱) یہ محض تبلیغی جماعت والوں کا ہی بیان نہیں، بلکہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں شراحِ حدیث نے یہ مطلب بیان کیا ہے بذل المجھود في حل أبي داوٴد وغیرہ میں بھی ہے۔
(۲) بلاشبہ داخل ہے، اس سلسلہ میں بہت عمدہ مدلل و مفصل کلام الاعتدال في مراتب الرجال المعروف بـ اسلامی سیاست اردو میں ہے، یہ کتاب دیوبند، دہلی وغیرہ کے کتب خانوں میں عامةً قیمتاً دستیاب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/1899
.........
سوال … تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں نکلو، اللہ کے راستے میں ایک نماز کا ثواب انچاس کروڑ نمازوں کے برابر ہے، لیکن میں نے سنا ہے کہ یہ ثواب جہاد فی سبیل اللہ میں ہے؟
جواب … تبلیغی کام بھی جہاد فی سبیل اللہ کے حکم میں ہے۔
مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
آپ کے مسائل اور ان کا حل
http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-07-tableeg-e-deen/
.......................
بعض کے مطابق اننچاس کروڑ کی فضیلت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب نور اللہ مرقدہ جیسے کبار محدثین نے بھی لکھی ہے،
............
سوال # 251
تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
والسلام
Published on: Apr 21, 2007
جواب # 251
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 19/د=20/د)
یہ امت امت دعوة ہے یعنی دعوة الی اللہ اس امت کی بنیادی ذمہ داری ہے، ارشاد خداوندی ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ
( آل عمران: آیت:104)
ترجمہ: اورتم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ (اور لوگوں کو بھی) خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اورایسے لوگ (آخرت میں ثواب سے) پورے کامیاب ہوں گے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ
(حٰمٓ سجدة: آیت:33)
پہلی آیت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مسلمان صرف اپنے اعمال و افعال کی اصلاح پر بس نہ کریں بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں کی اصلاح کی فکر بھی ساتھ ساتھ رکھیں۔
دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ انسان کے کلام میں سب سے افضل و احسن وہ کلام ہے جس میں دوسروں کو دعوت حق دی گئی ہو، اس میں دعوت الی اللہ کی سب صورتیں داخل ہیں، زبان سے تحریر سے یا کسی اور عنوان سے۔ (معارف القرآن: ج7، ص652)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک ہردور میں امت مسلمہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اس فریضہ کو انجام دیتی رہی ہے۔ تعلیم و تدریس، وعظ و تبلیغ، تصنیف و تالیف، تزکیہ و احسان یہ سب ہی امر بالمعروف، نہی عن المنکر کے ذریعہ دعوت الی اللہ کے طرق ہیں۔
تبلیغی جماعت جس کو ہمارے بزرگوں نے قائم فرمایا ہے یہ بھی دعوت الی اللہ کا ایک طریقہ ہے جس سے بے نمازی نماز کے پابند اور مسجد سے دور رہنے والے مسجد میں حاضر باش ہونے لگتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ پر یقین اوراس کے فیصلوں پر یقین اور آخرت پر یقین پیدا کرنے کی محنت کی جاتی ہے جو ایمان کی بنیاد ہے۔ اور ہرمومن کے لیے ضروری ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/251
..........................
سوال # 4079
تبلیغ کا کام سب سے پہلے کس نے شروع کیا اور کس سال یہ شروع ہوا؟
Published on: Jun 3, 2008
جواب # 4079
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 751=650/ ب
تبلیغ و دعوت کا کام ہرزمانے میں علمائے کرام کرتے چلے آئے ہیں۔ البتہ باقاعدہ منظم طریقہ پر جو موجودہ جماعت تبلیغ کا نظام چل رہا ہے، حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ نے شروع فرمایا، اور ان کی ہمنوائی حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب مفتی اعظم ہند و دیگر اہل حق علمائے کرام فرماتے رہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/History--Biography/4079
..................
سوال # 557
مولانا الیاس کون تھے؟ اور یہ لوگ (تبلیغ والے) کیا کرتے ہیں؟ اکثر وہ ہمارے پاس آتے ہیں اورایسا تبلیغ کرتے ہیں جیسے کہ ہم کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ وہ ہمیں تین دن (جماعت میں نکلنے) کے لیے دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کو کیا جواب دیں اور ان کے ساتھ کیسا معاملہ کریں؟ ذاتی طور پر مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی آئے اور ہماری تعلیم میں خلل ڈالے۔ ان کے بارے میں مجھے کچھ رہ نمائی عطا فرمائیں۔ کیا وہ کوئی نیا طریقہ یا فرقہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟نیز، وہ کس امام کے ماننے والے ہیں؟
جواب # 557
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 225/م=229/م)
تبلیغ والے لوگوں کو دین کے بنیادی ارکان، نماز روزہ وغیرہ کی دعوت دے کر ان کی زندگی میں صحابہ والی صفات پیدا کرنے کی کوشش اور ان کی پوری زندگی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات کے مطابق گذارنے کی دعوت و تبلیغ کرتے ہیں۔ تبلیغ والے آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کی بات غور سے سنا کریں کیوں کہ ہرشخص دین کا محتاج ہے اور ہر ایک کو اصلاح کی ضرورت ہے، اور اپنی تعلیم کا خیال رکھتے ہوئے فارغ اوقات جماعت میں لگانے کی کوشش کریں۔ یہ کوئی نیا فرقہ بنانے کی کوشش نہیں کررہے ہیں بلکہ امت کو موجودہ پستی سے نکالنے اور لوگوں میں فساد و بگاڑ کے اصلاح کی فکر و کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے وہ لوگوں کے حالات و ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک آسان سی ترتیب کی پابندی پر زور دیتے ہیں جس کی تکمیل کوئی دشوار نہیں ہوتی۔ اس جماعت میں ہرمسلک حق کے ماننے والے موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ اور ان کی دینی دعوت، آپ کے مسائل اور ان کا حل اور فتاویٰ محمودیہ وغیرہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/557
..........
مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
آپ کے مسائل اور ان کا حل
http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-07-tableeg-e-deen/
.......................
بعض کے مطابق اننچاس کروڑ کی فضیلت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب نور اللہ مرقدہ جیسے کبار محدثین نے بھی لکھی ہے،
............
سوال # 251
تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
والسلام
Published on: Apr 21, 2007
جواب # 251
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 19/د=20/د)
یہ امت امت دعوة ہے یعنی دعوة الی اللہ اس امت کی بنیادی ذمہ داری ہے، ارشاد خداوندی ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ
( آل عمران: آیت:104)
ترجمہ: اورتم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ (اور لوگوں کو بھی) خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اورایسے لوگ (آخرت میں ثواب سے) پورے کامیاب ہوں گے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ
(حٰمٓ سجدة: آیت:33)
پہلی آیت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مسلمان صرف اپنے اعمال و افعال کی اصلاح پر بس نہ کریں بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں کی اصلاح کی فکر بھی ساتھ ساتھ رکھیں۔
دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ انسان کے کلام میں سب سے افضل و احسن وہ کلام ہے جس میں دوسروں کو دعوت حق دی گئی ہو، اس میں دعوت الی اللہ کی سب صورتیں داخل ہیں، زبان سے تحریر سے یا کسی اور عنوان سے۔ (معارف القرآن: ج7، ص652)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک ہردور میں امت مسلمہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اس فریضہ کو انجام دیتی رہی ہے۔ تعلیم و تدریس، وعظ و تبلیغ، تصنیف و تالیف، تزکیہ و احسان یہ سب ہی امر بالمعروف، نہی عن المنکر کے ذریعہ دعوت الی اللہ کے طرق ہیں۔
تبلیغی جماعت جس کو ہمارے بزرگوں نے قائم فرمایا ہے یہ بھی دعوت الی اللہ کا ایک طریقہ ہے جس سے بے نمازی نماز کے پابند اور مسجد سے دور رہنے والے مسجد میں حاضر باش ہونے لگتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ پر یقین اوراس کے فیصلوں پر یقین اور آخرت پر یقین پیدا کرنے کی محنت کی جاتی ہے جو ایمان کی بنیاد ہے۔ اور ہرمومن کے لیے ضروری ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/251
..........................
سوال # 4079
تبلیغ کا کام سب سے پہلے کس نے شروع کیا اور کس سال یہ شروع ہوا؟
Published on: Jun 3, 2008
جواب # 4079
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 751=650/ ب
تبلیغ و دعوت کا کام ہرزمانے میں علمائے کرام کرتے چلے آئے ہیں۔ البتہ باقاعدہ منظم طریقہ پر جو موجودہ جماعت تبلیغ کا نظام چل رہا ہے، حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ نے شروع فرمایا، اور ان کی ہمنوائی حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب مفتی اعظم ہند و دیگر اہل حق علمائے کرام فرماتے رہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/History--Biography/4079
..................
سوال # 557
مولانا الیاس کون تھے؟ اور یہ لوگ (تبلیغ والے) کیا کرتے ہیں؟ اکثر وہ ہمارے پاس آتے ہیں اورایسا تبلیغ کرتے ہیں جیسے کہ ہم کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ وہ ہمیں تین دن (جماعت میں نکلنے) کے لیے دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کو کیا جواب دیں اور ان کے ساتھ کیسا معاملہ کریں؟ ذاتی طور پر مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی آئے اور ہماری تعلیم میں خلل ڈالے۔ ان کے بارے میں مجھے کچھ رہ نمائی عطا فرمائیں۔ کیا وہ کوئی نیا طریقہ یا فرقہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟نیز، وہ کس امام کے ماننے والے ہیں؟
جواب # 557
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 225/م=229/م)
Published on: May 7, 2007
مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ ہندوستان کے معروف ضلع مظفرنگر کے مشہور قصبہ کاندھلہ سے تعلق رکھنے والے ایک جید و باکمال عالم دین، دین اسلام کے بڑے داعی و مبلغ اور اصلاح امت کی فکر میں ہمہ وقت بے چین رہنے والے ایک باہمت اور عظیم انسان تھے، حنفی المذہب، مسلک علمائے دیوبند کے ترجمان اورحضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے ہم عصر تھے۔تبلیغ والے لوگوں کو دین کے بنیادی ارکان، نماز روزہ وغیرہ کی دعوت دے کر ان کی زندگی میں صحابہ والی صفات پیدا کرنے کی کوشش اور ان کی پوری زندگی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات کے مطابق گذارنے کی دعوت و تبلیغ کرتے ہیں۔ تبلیغ والے آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کی بات غور سے سنا کریں کیوں کہ ہرشخص دین کا محتاج ہے اور ہر ایک کو اصلاح کی ضرورت ہے، اور اپنی تعلیم کا خیال رکھتے ہوئے فارغ اوقات جماعت میں لگانے کی کوشش کریں۔ یہ کوئی نیا فرقہ بنانے کی کوشش نہیں کررہے ہیں بلکہ امت کو موجودہ پستی سے نکالنے اور لوگوں میں فساد و بگاڑ کے اصلاح کی فکر و کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے وہ لوگوں کے حالات و ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک آسان سی ترتیب کی پابندی پر زور دیتے ہیں جس کی تکمیل کوئی دشوار نہیں ہوتی۔ اس جماعت میں ہرمسلک حق کے ماننے والے موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ اور ان کی دینی دعوت، آپ کے مسائل اور ان کا حل اور فتاویٰ محمودیہ وغیرہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/557
..........
جہاد فی سبیل اﷲ یا مطلق فی سبیل اﷲ کی آیات اور احادیث کو دعوت و تبلیغ پر محمول کرنا
سوال: عام طور پر تبلیغی حضرات جہاد فی سبیل اللہ یا مطلق فی سبیل اللہ کی آیات اور آحادیث کودعوت و تبلیغ پر محمول کرتے ہیں کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟
جواب: تبلیغی حضرات کا جہاد فی سبییل اللہ یا مطلق فی سبیل اللہ کی آیات اور احادیث کہ دعوت وتبلیغی پر محمول کرنا بالکل درست اور صحیح ہے، و جہ یہ ہے کہ محدثین حضرات نے بھی اس قسم کی روایات کو کارِخیر پر محمول فرمایا ہیں،
ہاں جہاد بمعنی قتال کی نفی جائز نہیں بلکہ وہ بھی اعلاء کلمۃ اللہ اور دشمنوں کی سرکوبی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ملاحظہ ہو:
ہاں جہاد بمعنی قتال کی نفی جائز نہیں بلکہ وہ بھی اعلاء کلمۃ اللہ اور دشمنوں کی سرکوبی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ملاحظہ ہو:
امام بخاریؒ نے با ب قائم فرمایاہے :
باب المشی الی الجمعۃ، اور ا س کے تحت فی سبیل اللہ والی روایت ذکر فرمائی ہے جو کہ عامۃً کتاب الجھاد میں ذکر کی جا تی ہے۔ملاحظہ ہو:
باب المشی الی الجمعۃ، اور ا س کے تحت فی سبیل اللہ والی روایت ذکر فرمائی ہے جو کہ عامۃً کتاب الجھاد میں ذکر کی جا تی ہے۔ملاحظہ ہو:
قال یزید بن أبی مریم حدثنا عبایۃ بن رفاعۃ قال أدرکنی أبوعبس وأنا أذھب الی الجمعۃ فقال سمعت رسول اﷲا یقول من اغبرت قدماہ فی سبیل اﷲ حرمہ اﷲ علی النار۔
(رواہ البخاری ۱/۱۲۴/۸۹۷)،
(رواہ البخاری ۱/۱۲۴/۸۹۷)،
یعنی سعی الی الجمعۃ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔
نیز امام ترمذی ؒ نے بھی یہ حدیث ذکر فرمائی ہے ۔
ملاحظہ ہو:
ملاحظہ ہو:
عن یزید بن أبی مریم قال لحقنی عبایۃ بن رفاعۃ عن رافع وأنا ماش الی الجمعۃ فقال أبشرفان خطاک ھذہ فی سبیل اﷲ سمعت أبا عبس یقول قال رسول اﷲامن اغبرت قدماہ فی سبیل اﷲ فھما حرام علی النار۔ھذا حدیث حسن صحیح و أبو عبس اسمہ عبد الرحمن بن جبر۔
(رواہ الترمذی ۲/۲۹۲)
(رواہ الترمذی ۲/۲۹۲)
وقال الشیخ فی اللمعات: والمراد بسبیل اﷲ السعی الی الجھاد وھو المتعارف فی الشرع وقد یراد بہ السعی الی الحج والرزق الحلال۔
(حاشیۃ الترمذی للمحدث أحمد علی السھارنفوری ۲/۲۹۲)
(حاشیۃ الترمذی للمحدث أحمد علی السھارنفوری ۲/۲۹۲)
مرقات میں ہے:
(فی سبیل اﷲ) ھوفی الحقیقۃ کل سبیل یطلب فیہ رضاہ، فیتناول سبیل طلب العلم و حضورصلوۃ جماعۃ وعیادۃ مریض وشھود جنازۃ ونحوھا لکنہ عند الاطلاق یحمل علی سبیل الجھاد وقیل یحمل علی سبیل الحج لخبرأن رجلا جعل بعیرا فی سبیل اﷲ فأمرہ اأن یحمل علیہ الحاج۔
(مرقات ۷/۲۷۱)
(فی سبیل اﷲ) ھوفی الحقیقۃ کل سبیل یطلب فیہ رضاہ، فیتناول سبیل طلب العلم و حضورصلوۃ جماعۃ وعیادۃ مریض وشھود جنازۃ ونحوھا لکنہ عند الاطلاق یحمل علی سبیل الجھاد وقیل یحمل علی سبیل الحج لخبرأن رجلا جعل بعیرا فی سبیل اﷲ فأمرہ اأن یحمل علیہ الحاج۔
(مرقات ۷/۲۷۱)
ملا علی قاری ؒ نے فی سبیل اﷲ کو ہرکارِ خیر پر محمول کیا ہے جو اللہ کی رضامندی کے لئے ہو ۔اور دعوت و تبلیغ تو کارِ خیر کی اصل جڑ اور بنیاد ہے لہذا بدرجۂ اولی محمول کر سکتے ہیں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
فی سبیل اﷲ عبارۃ عن جمیع القرب فیدخل فیہ کل من سعی فی طاعۃ اﷲ و سبیل الخیرات ۔(بدائع الصنائع ۳/۱۵۴)
یعنی فی سبیل اللہ میں ہر وہ شخص داخل ہے جو اللہ کی اطاعت اور کارِ خیر میں سعی کرے ۔
نیز امام بخاریؒ نے باب قائم فرمایا:
’’باب مسح الغبارعن الرأس فی سبیل اﷲ ‘‘ اور اس میں مسجد ِ نبوی کی تعمیر کا واقعہ بیان فرمایا ۔
ملاحظہ ہوـ:
عن أبی سعیدص قال: کنا ننقل لبن المسجد لبنۃ لبنۃ وکان عمارینقل لبنتین لبنتین فمر بہ النبیاومسح عن رأسہ الغبارفقال ویح عمار تقتلہ الفئۃ الباغیۃ۔
یعنی مسجد کی تعمیر کارِ خیر اور فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔
نیز امام بخاریؒ نے باب قائم فرمایا:
’’باب مسح الغبارعن الرأس فی سبیل اﷲ ‘‘ اور اس میں مسجد ِ نبوی کی تعمیر کا واقعہ بیان فرمایا ۔
ملاحظہ ہوـ:
عن أبی سعیدص قال: کنا ننقل لبن المسجد لبنۃ لبنۃ وکان عمارینقل لبنتین لبنتین فمر بہ النبیاومسح عن رأسہ الغبارفقال ویح عمار تقتلہ الفئۃ الباغیۃ۔
یعنی مسجد کی تعمیر کارِ خیر اور فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔
نیز نصوص میں بکثرت لفظِ جہاد قتال کے علاوہ استعمال کیا گیاہے
۔ملا حظہ ہو بخاری شریف میں ہے:
۔ملا حظہ ہو بخاری شریف میں ہے:
عن زید بن خالدص قال قال رسول اﷲامن جھزغازیا فی سبیل اﷲ فقد غزا ومن خلف غازیا فی سبیل ا ﷲ بخیرفقد غزا
(رواہ البخاری ۱/۳۹۸)
(رواہ البخاری ۱/۳۹۸)
قال عمرؓ:شدوا الرحال فی الحج فانہ أحد الجھادین
(بخاری ۱/۲۰۵)
(بخاری ۱/۲۰۵)
المجاھد من جاھد نفسہ فی سبیل اﷲ
(رواہ الترمذی ۱/۲۹۱ باب ما جاء فی فضل من مات مرابطا)
(رواہ الترمذی ۱/۲۹۱ باب ما جاء فی فضل من مات مرابطا)
عن عبد اﷲ بن عمروقال: جاء رجل الی النبیافاستأذنہ فی الجھاد فقال أحی والدک قال: نعم قال: ففیھما فجاھد۔
(رواہ البخاری ۱/۴۲۱)
(رواہ البخاری ۱/۴۲۱)
عن عائشۃ ؓ قالت: قلت یا رسول اﷲ علی النساء جھاد؟قال :نعم علیھن جھاد لاقتال فیہ۔
(رواہ ابن ماجۃ ص۲۰۸)
(رواہ ابن ماجۃ ص۲۰۸)
ان تمام احادیث میں جہاد فی سبیل اللہ سے قتال مراد نہیں ہے بلکہ کبھی توحج اور کبھی والدین کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ فرمایا ہے۔
ہجرت کے سفر میں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق صجب غارِ ثور میں تشریف فرماتھے توحضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ کھانا پہنچاتی تھی، امام بخاریؒ نے اس واقعہ کو بھی غزوہ میں شامل فرمایا،
ہجرت کے سفر میں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق صجب غارِ ثور میں تشریف فرماتھے توحضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ کھانا پہنچاتی تھی، امام بخاریؒ نے اس واقعہ کو بھی غزوہ میں شامل فرمایا،
ملاحظہ ہو بخاری شریف میں ہے:
باب حمل الزاد فی الغزو:
عن أسماءؓ قالت: صنعت سفرۃ رسول اﷲ فی بیت أبی بکرحین أراد أن یھاجرالی المدینۃ،قالت فلم نجد لسفرتہ ولسقائہ ما نربطھما بہ فقلت لأبی بکرواﷲ ما أجد شیئا أربط بہ الا نطاقی،قال فشقیہ باثنین فأربطی بواحد السقاء و
بالآخرالسفرۃ ففعلت ذلک فلذا سمیت ذات النطاقین۔ (رواہ البخاری۱/۴۱۸)
نیز آیتِ کریمہ{و الذین جاھدوا فینا لنھدینّھم سبلنا}
میں بھی جہاد سے قتال مراد نہیں، کیونکہ یہ مکی سورت ہے۔
بالآخرالسفرۃ ففعلت ذلک فلذا سمیت ذات النطاقین۔ (رواہ البخاری۱/۴۱۸)
نیز آیتِ کریمہ{و الذین جاھدوا فینا لنھدینّھم سبلنا}
میں بھی جہاد سے قتال مراد نہیں، کیونکہ یہ مکی سورت ہے۔
خلاصہ: ان تمام نصوص سے واضح ہوتا ہے کہ لفظ جہاد فی سبیل اللہ کارِ خیر میں مستعمل ہے اور ائمہ و محدثین نے بھی استعمال فرمایا ہیں، لہذا تبلیغی حضرات جہاد فی سبیل اللہ کی نصوص کو دعوت الی اللہ کے لئے استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں بالکل صحیح ہے۔ بلکہ دعوت الی اللہ کارِ خیر کی اصل بنیاد ہے.
ہاں جہاد فی سبیل اللہ کی ایک اعلی قسم دشمنانِ اسلام کی سرکوبی (قتال) بھی ہے جس سے انکار کرنا حماقت ہے۔
واللہ اعلم
آخر میں شہید اسلام مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اور دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں
اسی طرج مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں
س… تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں نکلو، اللہ کے راستے میں ایک نماز کا ثواب انچاس کروڑ نمازوں کے برابر ہے، لیکن میں نے سنا ہے کہ یہ ثواب جہاد فی سبیل اللہ میں ہے؟
ج… تبلیغی کام بھی جہاد فی سبیل اللہ کے حکم میں ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا خل
آپ کے مسائل اور ان کا خل
سوال
کیا تبلیغی جماعتوں میں نکلنا او رتبلیغی گشتوں میں شامل ہونا جہاد فی سبیل اللہ میں شامل ہے؟ کیا اس کام میں شرکت کرنے سے اللہ کے راستے میں نکلنے کا اجر ملے گا؟
Jun 08,2009
Answer: 12214
کیا تبلیغی جماعتوں میں نکلنا او رتبلیغی گشتوں میں شامل ہونا جہاد فی سبیل اللہ میں شامل ہے؟ کیا اس کام میں شرکت کرنے سے اللہ کے راستے میں نکلنے کا اجر ملے گا؟
Jun 08,2009
Answer: 12214
تبلیغ جماعت میں نکلنا کار ثواب ہے، اس میں مخلوق کو خالق سے جوڑنے کی محنت ہوتی ہے، اس سے پوری دنیا میں اشاعت دین کا کام ہورہا ہے، اس میں نکلنے کو فی سبیل اللہ کہا جاسکتا ہے، مزید تفصیل کے لیے مراجعت فرمائیں، حضرت شیخ الحدیث زکریا صاحب قدس سرہ کی کتاب: تبلیغی جماعت پر اعتراضات اور ان کے جوابات۔ (م عروس پبلیکیشنز دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ملخص۔ فتاوی دارالعلوم زکریا
آپ کے مسائل اور ان کا حل
دارالعلوم دیوبند
متعلم زرمحمدخان حنفی دیوبندی
https://www.facebook.com
آپ کے مسائل اور ان کا حل
دارالعلوم دیوبند
متعلم زرمحمدخان حنفی دیوبندی
https://www.facebook.com
/متعلم-زرمحمدخان-حنفی-دیوبندی-1536730743298386/
...............
http://zarbedeoband.blogspot.in/2017/04/blog-post_64.html
No comments:
Post a Comment