Wednesday, 17 January 2018

حسد اللہ کی تقسیم پر اظہار ناراضگی کا دوسرا نام ہے

حسد اللہ کی تقسیم پر اظہار ناراضگی کا دوسرا نام ہے
حسد کے اصطلاحی معنی، صاحبِِ نعمت سے نعمتوں کے چھننے کی تمنا کرنا ہے۔ حسد، انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں سے ہوئی، جب اﷲ نے ہابیل کی قربانی کو قبول کیا تو قابیل غصے سے بے قابو ہوا اور بھائی کا خون کر بیٹھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا : ’’تم گمان سے بچو، اس لئے کہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے، تم آپس میں حسد نہ کیا کرو، جاسوسی نہ کیا کرو، بغض نہ رکھا کرو، بے رخی نہ برتا کرو، دام بڑھانے کے لیے بولی نہ لگایا کرو، بل کہ اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘ (متفق علیہ)
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’تم میں گذشتہ اقوام کی بیماریاں لوٹ آئیں گی، جن میں سے حسد اور بغض بھی ہے اور یہ مونڈھ دینے والی ہوں گی، یہ بال نہیں، بل کہ دین کا صفایا کردینے والی ہیں۔‘‘ (ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’عن قریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی،
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: پہلی امتوں کی بیماریاں کیا ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: غرور، تکبر، کثرت حرص دنیا میں محو ہونا، ایک دوسرے سے بے زار رہنا، اور ایک دوسرے سے حسد کرنا، یہاں تک کہ بغاوت ہوگی ور پھر قتل بہت زیادہ ہوگا۔‘‘ (المعجم )
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے افضل اور بہتر کون ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’ہر مخموم القلب اور صدوق اللسان،
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا کہ صدوق القلب (زبان کا سچا) تو ہم جانتے ہیں، لیکن یہ مخموم القلب کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ پاک، صاف، متقی شخص جس کے دل میں گناہ، بغاوت، خیانت اور حسد نہ ہو۔‘‘
(ابن ماجہ)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤگے، البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزے میں پڑکر حسد نہ کرنے لگو۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اللہ تعالی کے بندے اور بھائی بھائی ہوکر رہو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔‘‘ (صحیح بخاری)
ضمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’لوگ ہمیشہ بھلائی سے رہیں گے، جب تک وہ حسد سے بچتے رہیں گے۔‘‘ (طبرانی فی الکبیر)
حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھننے کی خواہش کرنا ہے۔ جب کہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے۔ لیکن رشک میں وہ نعمت محسود (جس سے حسد کیا جائے) سے چھن جانے یا اس نعمت کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چناں چہ حسد ایک منفی جب کہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’حسد (رشک) صرف دو چیزوں پر جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اﷲ تعالی نے مال دیا اور اس کو راہ حق پر خرچ کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالی نے حکمت (علم) دی اور وہ اس کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، جلد اول، حدیث نمبر 1324)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’حسد (رشک) صرف دو لوگوں پر ہے، ایک اُس شخص پر جسے اللہ تعالی نے قرآن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا ہے اور اس کا پڑوسی اسے سن کر کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی طرح پڑھنا نصیب ہوتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا، دوسرے اس شخص پر جسے اللہ تعالی نے دولت دی ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے، پھر کوئی اس پر رشک کرتے ہوئے کہے کہ کاش مجھے بھی یہ مال میسر آتا تو میں بھی اسے اسی طرح صَرف کرتا۔‘‘ (صحیح بخاری)
حسد دل کا خبث ہے۔ یہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔ دنیا میں حسد کا نقصان یہ ہے کہ انسان مسلسل تکلیف میں رہتا ہے کہ جب بھی وہ اپنے دشمن یا دوست کو راحت میں دیکھتا ہے تو اس کا خون کھولتا ہے اور اس پر ہونے والی نعمتوں اور راحتوں کے چھننے کی تدبیریں سوچتا ہے اور جب اس سے کچھ بن نہیں پاتا تو دل میں کڑھتا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حسد جیسی مہلک بیماری سے امت  مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین

No comments:

Post a Comment