Wednesday, 10 January 2018

کیا انسان وہیں دفن ہوتا ہے جہاں سے اس کی پیدائش ہوئی؟

سوال و جواب
(مسئلہ نمبر 307)
کیا انسان وہیں دفن ہوتا ہے جہاں سے اس کی پیدائش ہوئی ہے.
سوال: ایک مسئلے کا حل دریافت کرنا ہے وہ یہ کہ ایک شخص کو وہیں دفنایا جاتا ہے جہاں کی مٹی سے اللہ پاک نے اسے وجود بخشا ہے۔ قران و حدیث کی روشنی میں تشفی بخش جواب مطلوب ہے. (ابو الحسن)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب باسم الوہاب:
کتب حدیث اور تفسیر کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے وجود میں زمین کا وہ حصہ شامل ہوتا ہے؛ جہاں اسے دفن ہونا ہے؛ چنانچہ علامہ آلوسی بغدادی نے تفسیر روح المعانی میں، علامہ بغوی نے اپنی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے کہ  ہوتا ہے تو ایک فرشتہ اس جگہ جاتا ہے جہاں پر موت کے بعد اسے دفن ہونا ہے اور وہاں سے مٹی لاکر نطفہ میں ملادیتا ہے اور پھر اس مٹی سے اس کی تخلیق ہوتی ہے۔
امام التفسیر علامہ قرطبی نے بھی اسی قسم کی ایک روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے، اسی لیے بیشتر مفسرین نے اپنی کتب تفسیر میں یہ بات لکھی ہے کہ آدمی کے جسم میں اس کے دفن ہونے کی جگہ کی مٹی ہوتی ہے اور وہ اسی مقام پر دفن ہوتا ہے جہاں سے وہ مٹی لی گئی ہے، اس کی تفصیل اکثر تفسیر کی کتابوں میں سورہ طہ آیت نمبر ٥٥ میں دیکھی جاسکتی ہے.
(١) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب
والدلیل على ما قلنا:
(١) إن الملك ينطلق فيأخذ من تراب المكان الذي يدفن فيه فيذره على النطفة فيخلق الله من التراب ومن النطفة فذلك قوله تعالى : (منها خلقناكم وفيها نعيدكم) (روح المعاني ٣٠٣/٩ سورة طه؛ تفسير البغوي ص ٢٧٩ الجزء الخامس)
تفصل کے لئے دیکھئے: معارف القرآن ١١٧/٦ نیز تفسیر مظہری سورہ طہ آیت نمبر ٥٥۔
کتبہ العبد محمد زبیر ندوی
مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا
مورخہ 21/4/1439
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

......
دفناتے ہوئے میت پر مٹی ڈالتے وقت دعا پڑھنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسئلہ یہ ہے کہ جو میت پر مٹی ڈالتے وقت یہ دعا پڑهی جاتی ہے. 

منها خلقنكم وفيها نعدكم ومنها نخرجكم تارةً اخرى. 
یہ دعا کسی حدیث سے ثابت ہے کہ نہیں اور اس کا ترجمہ کیا کہتا ہے
اطمینان بخش جواب دیں
جزاك الله خيراً کثیرہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداً و مصلیاً
رسول اللہ ﷺ کا اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو دفنانے کے وقت یہ آیت بطورِدعا پڑھنے کا ذکر حدیث کی کتاب مسند احمد میں موجود ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے ’’ہم نے تم کو زمین ہی سے پیدا کیا اور پھر تم کو (بعد موت) اسی میں لے جائیں گے اور (قیامت کے دن) پھر دوبارہ اسی زمین سے تم کو نکالیں گے‘‘۔
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى [طه: 55]
مسند أحمد (5/ 254)
عن أبي أمامة قال : لما وضعت أم كلثوم ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم في القبر . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : {منها خلقناكم وفيها نعيدكم ، ومنها نخرجكم تارة أخرى} ، قال : ثم لا أدري أقال : بسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله ؟ أم لا ، فلما بنى عليها لحدها طفق يطرح لهم الجبوب ويقول : سدوا خلال اللبن . ثم قال : أما إن هذا ليس بشيء ولكنه يطيب بنفس الحي.

==========
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی
http://www.suffahpk.com/dafnaty-howy-mayyat-par-matti-dalty-waqt-dua-ka-hukum/

.......................
سورة المرسلت:
سورة المرسلات مکیہ ہے اور دیگر مکی سورتوں کی طرح یہ بھی عقیدہ توحید آخرت اور بعث بعد الموت جیسے مضامین کی تحقیق و تفصیل پر مشتمل ہے اسکے دو رکوع اور پچاس آیات ہیں۔
سورت کی ابتداء ملائکہ اور چلنے والی ہواؤں کی قسم سے کی گئی اور فرشتوں میں ان کا ذکر فرمایا جو مختلف انواع و اقسام کے تکوینی امور پر مامور ہیں مضمون مقسوم علیہ قیامت کا وقوع ہے جس کو (آیت) ” انما تو عدون “۔ ” لواقع “۔ کے عنوان سے بیان فرمایا گیا اسی کے ساتھ یہ بیان کیا گیا کہ قیامت کے وقوع پر کائنات عالم کا نظام کس طرح درہم برہم کردیا جائے گا اگرچہ اسکو اجمالا بیان فرمایا اثبات قیامت کے مضمون کے ساتھ توحید خداوندی اور اسکے دلائل ذکر کئے گئے اور دلائل قدرت اور توحید رب العالمین سے اعراض وبے رخی کرنے والوں پر وعید کا سلسلہ بیان اخیر سورت تک جاری رکھا گیا اور یہ کہ قیامت کے روز انکا حال نہایت ہی برا ہوگا ان مجرمین کی ذلت کی کوئی حد نہ ہوگی اور حقارت ونفرت کے ساتھ انکو جہنم میں دھکیل دیا جائے گا یہ کہتے ہوئے کہ دیکھ لو یہ ہے وہ جہنم جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔
اختتام سورت پر ان اعمال اور بدترین خصلتوں کا بھی ذکر فرما دیا گیا جو کفار کی فطرت میں رچی ہوئی تھیں اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ کافروں کو دنیوی نعمتوں کو دیکھ کر کسی دھوکہ میں نہ رہنا چاہئے یہ تو خدا کی طرف سے انکو ڈھیل دی جارہی ہے اور ایک طرح کا امتحان ہے اس لئے اہم ایمان اور حق پرست لوگوں کو کسی قسم کے شبہ میں نہ پڑنا چاہئے۔ 

http://www.elmedeen.com/read-book-3050&page=5698#page-5697
وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا
ترجمہ:
اعلان پراگند کی نظام عالم برائے تکمیل وعدۂ قیامت و بربادی مجرمین وانعام والطاف بر مومنین:
قال اللہ تعالیٰ: (آیت) ” والمرسلت عرفا ...... الی ........ فبای حدیث بعدہ یؤمنون “۔
(ربط) گذشتہ سورت میں انسانی ہستی کا بیان تھا کہ کائنات کی تخلیق اور دنیا میں انسانوں کی آبادی اس طرح پیش آئی کہ ایک وقت تھا کہ انسان کا کوئی وجود ہی نہ تھا اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس کو عدم سے وجود بخشا اور اسی کے لئے یہ کارخانہ قائم کیا جیسے کہ فرمان ہے (آیت) ” وخلق لکم مافی الارض جمیعا “۔ اور ظاہر ہے کہ تخلیق انسان اور نظام کائنات قائم کرنے کی غرض ہے اللہ کی عبادت و بندگی ہے جس پر انسانوں کے دو گروہ بٹ گئے ایک گروہ اہل ایمان و اطاعت کا ہوا دوسرا گروہ نافرمان ومجرمین کا تو اب اس سورت میں نظام عالم درہم برہم کردینے کا ذکر ہے اور یہ کہ رب العالمین نے قیامت کا جو وعدہ کیا ہے وہ کس طرح پورا ہوگا اسکے لیے ان احوال کو بیان فرمایا جا رہا ہے جو قیامت کے واسطے مبادی ہوں گے اور ان کے پیش آنے پر کائنات کا یہ جملہ نظام درہم برہم کردیا جائے گا ارشاد فرمایا۔
قسم ہے ان خوشگوار ہواؤں کی جو جاری ہیں لطافت ونرمی کے ساتھ جن کے لطیف جھونکوں سے مخلوق کی زندگی اور انکے منافع وابستہ ہیں۔
حاشیہ (ترجمہ میں ان الفاظ کا اضافہ فرفا کے معنی لغوی وعرفی کے پیش نظر کیا گیا اور اس امر کو بھی ملحوظ رکھتے ہوئے یہ لفظ عربیت کے لحاظ سے تمیز ہے المرسلت کیلئے اور مقصد وغرض بھی ایسے نرم ولطیف اور خوشگوار ہوا کے جھونکوں کے واسطے۔
اس موقعہ پر خداوند عالم نے جن پانچ چیزوں کی قسم کھائی ہے وہ یہ ہیں (١) المرسلت۔ (٢) العاصفات۔ (٣) الناشرات، (٤) الفارقات۔ اور (٥) الملقیات۔
سورة والمرسلات میں اختیار کردہ الفاظ قسم کی تشریح :
ان پانچ چیزوں کی مراد اور انکے مصداق کے متعلق ائمہ مفسرین نے متعدد اقوال بعض حضرات صحابہ کرام کرام (رض) اور تابعین سے نقل کئے ہیں اعمش (رح) ابوہریرہ (رض) سے یہ بیان کیا کرتے تھے کہ ان سے ملائکہ اور فرشتے مراد ہیں لیکن اسکے بالمقابل سفیان ثوری (رح) یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے جب ان آیات کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا ان سے مراد ہوائیں ہیں، ابن عباس (رض) اور مجاہد (رح) وقتادہ (رح) سے بھی منقول ہے ان اقوال کا حاصل یہ ہے کہ ایک جماعت پانچوں کو فرشتوں کے معنی پر محمول کرتی ہے دوسری جماعت سب کو ہواؤں پر منطبق کرتی ہے۔
ملائکہ، مصداق ہونے کی صورت میں اس طرح ترجمہ ہوگا قسم ہے ان فرشتوں کی جو بھیجے جاتے ہیں (حضرات انبیاء (علیہم السلام) کی طرف) نیکی اور بھلائی کیلئے “ اس لئے کہ وہ وحی الہی لے کر آتے ہیں اور اللہ کی وحی ہی دین ودنیا کی خیر اور فلاح کی ضامن ہے پھر ان فرشتوں کی جو اکھاڑ پھینکنے والے ہیں کہ وہ عالم میں تغیر وتبدل اور ہنگامہ وتہل کہ جیسی باتوں کے لئے مامور ہیں پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو اکھاڑ پھینکنے والے ہیں کہ وہ عالم میں تغیر وتبدل اور ہنگامہ وتہل کہ جیسی باتوں کیلئے مامور ہیں پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو پھیلا دینے والے ہیں معنی ایسی جماعت جو مثلا قحط وارزانی صحت وبیماری جیسی چیزوں کو عالم میں پھیلانے پر مامور ہے پھر ان فرشتوں کی جو فرق کردینے والے ہیں عالم میں فرق کردینا حق و باطل، ضعف وقوت، نور وظلمت، حرارت وبرودت اچھے برے اور نفع ونقصان جیسے امور میں اور ایک جماعت فرشتوں کی نظام عالم کی تدبیر میں اسی پر مامور ہے پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو ڈالنے والے ہیں ذکر یعنی وہ فرشتے جو تدبیر عالم میں اس پر مامور ہے کہ تکمیل مخلوق کے بعد ان میں ذکر الہی ڈالتے ہیں، خواہ وہ ذکر غیر اختیاری طور پر اس مخلوق میں ڈالتا ہو جیسے کہ نباتات اشجار واحجار طیور وبہائم اور حشرات سبکی فطرت اور سرشت میں ذکر ڈالا گیا چناچہ ارشاد ہے (آیت) ” وان من شی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم “۔ اور ارشاد ہے (آیت) ” کل قدعلم صلوتہ وتسبیحہ “۔ غرض ہر مخلوق ذکر الہی کررہی ہے جیسا کہ کہا گیا۔
بذکرش ہر چہ بینی درخروش است
ولے داند دریں معنی کہ گوش است :
یا وہ ڈالنا اس طرح ہو کہ مخلوق اپنے ارادہ اور اختیار سے اس ذکر میں مصروف ہو یہ نوعیت ذوی العقل یعنی انسانوں کے لیے ہے یا جن وملائ کہ کے لیے کہ فرشتے انکے دل میں ذکر کا القاء کرتے ہیں اور فرشتے ہی لوح محفوظ سے اللہ کے ذکر تسبیح وتحمید اور اسکی طاعت و عبادت کے احکام لے کر آتے ہیں اور پھر اللہ کے بندے (فرشتوں اور جنوں میں سے اہل ایمان) وہ ذکر کرتے ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور وحی الہی جو ان فرشتوں کے ذریعہ اتری اس سے انسانوں کے عذر اور حیلے بہانے ہی ختم کردیئے گئے اور عذاب آخرت سے ڈرایا بھی گیا بہرکیف یہ دونوں قسم کا ذکر فرشتوں ہی نے مخلوق میں لا کر ڈالا تو ان فرشتوں کی ان کلمات میں قسم کھائی گئی تو اس نوعیت سے ان پانچوں کلمات سے فرشتوں کی ان قسموں کا بیان ہوا جو نظام عالم اور تدبیر خلائق میں ان امور پر مقرر ہیں جن میں تکوین عالم اور عالم کی ہر موجود چیز کی ابتدائی حالت پھر اسکی قوت و کمال تک پہنچنے کی نہایت پھر ممکنات کے اکتساب خیر وشر اور اس کے بعد کی حالت پھر بقاء عالم کے اسباب اور ہر شے کی نشوونما کی کیفیت کہ عالم عدم سے عالم ظہور تک کیا کیا صورتیں اور تغیرات ظہور پذیر ہوتے ہیں اور پھر سب کی پیدائش کا نتیجہ اور غرض دار آخرت کی تیاری اور اس ضمن میں اہل عقل کے لئے اتمام حجت اور عذاب آخرت سے ڈرانا غرض یہ انواع و اقسام ہیں جو تدبیر عالم میں فرشتوں کے ذریعہ مخلوقات میں جاری ہیں۔
یہ ترجمہ تو اس تقدیر پر ہوا کہ فرشتے مراد ہوں اور اگر ہوائیں مراد ہوں تو پہلی چار قسموں کا مطلب ترجمہ میں ظاہر کردیا گیا اب اس صورت میں اگر (آیت) ” فالملقیات ذکرا “۔ بھی ہوا پر محمول ہو تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ ہوائیں جو ذکر اور وحی کو لوگوں کے کانوں میں ڈالنے والی ہیں کیونکہ آواز کا کانوں تک پہنچانا ہوا ہی کا کام ہے جیسے شاہ عبدالعزیز (رح) نے اپنی تفسیر میں فرمایا۔
تو اس دوسرے قول کے پیش نظر ہوا کی ان پانچ قسموں کو قسم کھانے کے لیے اس بناء پر مخصوص کیا گیا کہ ہوا کا عالم کی بقاء وفناء اور کاروبار میں عجب دخل ہے سننا دیکھنا، چھونا، چکھنا، سونگھنا سب کچھ ہوا پر ہی موقوف ہے آواز بھی ہوا کے ذریعے متکیف ہو کر کان پر پہنچتی ہے دیکھنے میں بھی شعاع بصریہ شئے مرئی اور مبصرتک رسائی کرتی ہے کیونکہ عنصر لطیف ہے تو جب کہ کوئی حائل نہیں تو ہوا بھی شعاع بصریہ کے نفوذ کا ذریعہ ہے علی ھذا القیاس دیگر ادر اکارت کا بھی یہی حال ہے نیز ہوا ہی سے ہر جاندار کی حیات وابستہ ہے تو اس عظمت کے پیش نظر ہواؤں کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا قسم ہے ان ہواؤں کی جو نرم ولطیف اور خوشگوار جھونکوں کی صورت میں چلتی ہیں پھر ان ہواؤں کی جن کے تیزوتند جھونکے درختوں اور سمندر میں چلنے والی کشتیوں کو اکھاڑ پھینکے اور سمندر میں طوفان برپا کردیں گویا یہ ہوائیں تلاطم اور انقلاب برپا کرنے والی ہیں پھر فا کا لفظ لاکر یہ ظاہر کردیا گیا کہ ہر چیز کے دو وصف ہوتے ہیں تو وہی ہوائیں جو ابتداء میں نرم ولطیف ہوتی ہیں وہی شدت اختیار کرکے طوفان وتلاطم بھی برپا کردیتی ہیں پھر ان ہواؤں کی قسم جو عالم میں بکھیرنے اور پھیلانے والی ہیں کہیں بادلوں کو پھیلا رہی ہیں کہیں سردی گرمی کو کہیں صحت ومرض کو کہیں رطوبت ویبوست کو حتی کہ آوازوں کو پھر قسم ان ہواؤں کی جو جدا کرتی ہیں اور فرق کرتی ہیں حتی کہ غلہ کو گھاس کے تنکوں اور پانی کو کدورت سے نیز اجزاء نباتیہ کو اجزاء حیوانیہ سے جدا کرنا اسی ہوا کا کام ہے پھر یہی ہوا ہے جو مغروروں اور سرکشوں کے اجسام کے اعضاء کو مرنے کے بعد پارہ پارہ کرکے اڑانے اور جدا کرنے والی ہے کہ سر کہیں اور جسم کہیں الغرض یہ ہوا ہی تمام عالم میں جمع وتفریق اور تالیف و انتشار کا کرشمہ دکھارہی ہے تو یہ ناشرات وفارقات ہوائیں انقلاب و تغیر اور اشیاء عالم کی پراگندگی اور انکے اجتماع کو ظاہر کرکے قیامت کا نمونہ پیش کررہی ہیں اور پھر اخیر میں ان ہواؤں کی قسم کھائی جو ذکر الہی اور وحی خداوندی عالم میں پھیلانے والی ہیں تو اس طرح مخاطب کے ذہن میں ان احوال و امور کا جو قیامت کا نقشہ بڑی سہولت سے ہر مخاطب کے سامنے لاسکتے ہیں جواب قسم میں قیامت کا واقع ہونا بیان فرمایا (آیت) ” انما تو عدون لواقع “۔ اے انسانو ! جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ بیشک ہو کر رہے گی۔
حضرت شاہ عبدالقادر (رح) اور حضرت شیخ الہند (رح) کی رائے یہ ہے کہ اول چار قسمیں ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے ہم نے ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھئے ہوئے پانچویں قسم کے ساتھ فرشتوں کا ترجمہ کیا واللہ اعلم بالصواب تفصیل کے لئے روح المعانی تفسیر عزیزی اور تفسیر حقانی کی مراجعت فرمائیں ١٢)
پھر قسم ہے ان تیز وتند آندھیوں کے جھونکوں کی جو اکھاڑ پھینکنے والی ہوں درختوں اور عمارتوں کو اکھاڑ پھینکنے کی شدت کے ساتھ پھر ان ہواؤں کی جو بلندی تک لے جانے والی ہوں کسی چیز کو اٹھا کر وہ بخارات ہوں یا گردوغبار یا بادل ہوں جن کو ہوائیں بلندی تک لے جائیں اور فضاء میں پھیلادیں اور جہاں حکم خدا ہو وہاں پہنچا دیں پھر ان ہواؤں کی جو پھاڑ دینے والی ہوں نباتات یا پھل اور پھولوں کو یا بادلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کہ ان ہی جھونکوں نے زمین کی تہوں کو شق کرکے زمین میں دبے ہوئے تخم اور بیج کو سبزہ کی شکل میں رونما کیا اور ان ہی جھونکوں نے پھولوں کی کلیاں شگفتہ بنائیں اور انہی ہواؤں نے خوشوں کو پھاڑ کر پھل نمودار کئے اور ان ہی ہواؤں نے بادلوں کو پھاڑ کر انکے ٹکڑے ٹکڑے کئے اور پھر مختلف جانبوں میں پھیلایا پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو اتار کر لاتے ہیں اللہ کی وحی کو عذر ختم کرنے کے لئے یا ڈرانے کے لیے کہ کافروں اور نافرمانوں کے لیے کوئی عذر کی گنجائش نہ رہے، اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ اے اللہ ہمیں تو خبر نہ تھی یا ڈرانے کیلئے عذاب آخرت سے کہ اگر کسی کو علم بالاحکام ہو تو ہو لیکن اسکو خوف خدا نہیں اور آخرت کے عذاب کا ڈر نہیں تو فرشتوں نے اللہ کی وحی اتار کر حیلے اور معذرت کا دروازہ بھی بند کردیا اور اس وحی الہی میں خوف خدا اور عذاب آخرت کا سامان بھی مہیا کردیا اور ہر ذکر اور وحی خداوندی میں ان دونوں باتوں میں سے ضرور ایک نہ ایک چیز موجود ہے اس سے خلوممکن نہیں البتہ یہ دونوں چیزیں بہت سی جگہ مجتمع ہو کر بھی پائی جاتی ہیں۔ ١
حاشیہ ١ (ان کلمات کا اضافہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ہے کہ (آیت) ” عذرا اونذرا “۔ میں اوانفصال حقیقی کے لئے نہیں ہے اور نہ مانعۃ الجمع ہے بلکہ یہ بطریق قضیہ منفصلہ مانعۃ الخلو ہے کہ ہر وہ ذکر جس کا فرشتوں نے القاء کیا ہے اس میں کسی جگہ عذر ومعاذ یر کو ختم کرنا ہے تو کسی جگہ عذاب سے ڈرانا ہے یہ دونوں باتیں کبھی علیحدہ علیحدہ پائی جاتی ہیں اور کہیں کسی ذکر اور وحی میں دونوں مجتمع اور موجود ہوتی ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ ان میں سے کوئی نہ ہو۔ )
آگاہ ہوجاؤ اے لوگو ! بیشک بس اسکے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ تم سے جس چیز کا وعدہ کیا گیا وہ یقیناً واقع ہونے والی ہے اور وہ قیامت ہے آخرت میں میدان حشر کی پیشی و کتاب اور جزاء سزا جیسے جملہ احوال ہیں جن میں جنت و جہنم بھی ہے بلاشبہ ان میں سے ہر ایک بات واقع ہو کر رہے گی اور انکے وقوع میں شبہ کرنے والے کو دیکھ لینا چاہئے کہ عالم میں چلتی ہوئی ہواؤں میں دن رات قیامت بعث بعد الموت اور فناء وبقا کے نمونے موجود ہیں جن کو ہر انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے تو پھر کون ہے جو اس روز قیامت کے آنے میں شبہ کرے جان لینا چاہئے کہ قیامت کا دن ایسا ہوگا جب کہ ستارے بےنور کردئیے جائیں گے اور آسمانوں میں شگاف پڑجائیں گے اور پھٹ کر ان میں دریچے اور جھروکے جیسے نظر آنے لگیں گے اور جب کہ پہاڑ ریزہ ریزہ۔
حاشیہ (جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) ” ویوم نسیر الجبال وتری الارض بارزۃ “۔ اور ارشاد ہے (آیت) ” ویسئلونک عن الجبال فقل ینسفھا ربی نسفا “۔ ١٢)
کرکے اڑا دیئے جائیں گے حتی کہ روئی کے گالوں کی طرح جو یکے بعد دیگرے اپنی اپنی امتوں کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیش ہوں گے اور پھر رسولوں سے بھی سوال ہوگا اور انکی امتوں سے بھی پوچھا جائے گا۔ ٢
حاشیہ ٢ (یہ وہی مضمون ہے جو (آیت) ” یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ما ذا اجبتم “ میں ذکر فرمایا گیا۔ )
یہ ہے قیامت، اور قیامت کے وقت پیش آنے والے احوال اور جانتے بھی ہو اے لوگو ! کس دن کے واسطے ان چیزوں کو مؤخر اور ایک طے شدہ وقت کیلئے ” وقت کیا گیا ہے یہ سب کچھ اس دن کے لیے جو ہر بات اور ہر چیز میں آخری اور دو ٹوک فیصلہ کا دن ہے اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ دن اسی وقت برپا کردیتا اور ابھی ہر چیز کا فیصلہ ہوجاتا لیکن اسکی حکمت کا تقاضا تھا کہ اسکو مؤخر کیا جائے اور اے انسان تو جانتا بھی ہے کہ کیا ہے یہ فیصلہ کا دن مت پوچھو کہ یہ فیصلہ کا دن کیا ہے ؟ اسکی ہیبت وشدت کی کوئی حد نہیں اور جھٹلانے والوں کے لیے اس روز سخت مصیبت وتباہی کا سامنا ہوگا اور یکایک ایسی ہولناک صورت سامنے آجائے گی کہ ہوش و حواس پراگندہ ہوں گے اور حسرت وندامت ان منکرین پر مسلط ہوگی بس ہلاکت و بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے یہ منکرین ومکذبین سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کہاں اس قدر وسیع دنیا ہلاک ہوجائے گی اور کس طرح ہم مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور نسل انسانی نیست ونابود ہو کر کس طرح زندہ کی جائے گی کہاں جہنم اور عذاب جہنم اور کیسی جنت اور جنت کی نعمتیں تو منکرین ومکذبین کو کیا یہ معلوم نہیں ہم ان سے پہلے کتنوں کو ہلاک کرچکے ہیں پھر ہم ان کے بعد لاتے رہے بعد والوں کو تو موت وہلاکت اور پہلوں کے دنیا سے نیست ونابود ہو کر پچھلوں کا آنا کوئی عجیب بات نہیں ہماری قدرت کا یہ سلسلہ تاریخ قدیم سے چلا آرہا ہے جسکو یہ دیکھتے رہے ہیں تو پھر انہوں نے یہ کیسے خیال کیا تھا کہ ہم دنیا کے انسانوں کو فنا کرکے دوبارہ قیامت کے روز انکو نہیں اٹھائیں گے ہم ایسا ہی کرتے ہیں مجرمین کے ساتھ کہ ان پر جرم کے سبب عذاب نازل کیا انکو ہلاک کرکے پھر دوسری قوم کو لے آئے تو اب ہم نے قیامت کے روز سب مجرموں کو جمع کرلیا تاکہ انکو عذاب دیں اور سب اہل ایمان کو بھی جمع کرلیا تاکہ مجرمین اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ایمان ویقین والوں کے واسطے کیسے کیسے انعامات ہیں پس ہلاکت و بربادی ہے جھٹلانے والوں کیلئے آخر انکار کرنے والوں نے کیوں قیامت کا انکار کیا اے انسانو ! کیا ہم نے پید انہیں کیا ہے تمہیں ایک حقیر پانی سے۔
حاشیہ (اس موقعہ پر جس اہم اور عظیم الشان مضمون کے لئے خداوندعالم نے پانچ چیزوں کی قسم کھائی اور ان قسموں پر اصل مدعی اور مقصد کو واضح فرمایا وہ مقصد ومدعی (آیت) ” انما تو عدون لواقع “۔ ہے کہ قیامت جس کا وعدہ کیا گیا ہے وہ برحق ہے اور صادق ہے اور بلاشبہ قیامت واقع ہو کر رہے گی تو اس کے ثابت کرنے کے لئے منجملہ دلائل یہ بھی ایک اہم دلیل بیان کی گئی (آیت) ” الم نخلقکم من مآء مھین “۔ یعنی انسانی تخلیق کا یہ سلسلہ یقیناً اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ کی دلیل تو ہے ہی لیکن اس نظام قدرت میں قیامت اور بعث بعد الموت کا بھی پورا پورا نمونہ موجود ہے کہ کس طرح خداوندعالم نے ایک قطرہ میں انسان کے تمام جسم اور اعضاء جسم کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے کہ سر سے پاؤں تک کے جملہ اعضاء بطور جوہر اس ایک قطرہ میں ہیں پھر صرف یہی نہیں کہ اجزاء بدنیہ بلکہ ہر شخص کی عادات خصلتیں مزاج شکل و صورت حتی کہ آواز اور طرز گفتگو جیسی کیفیات بھی اس میں جمع کردی ہیں چناچہ اسی ذریعہ سے یہ ساری صفات اور کیفیات اولاد منتقل ہوئی ہیں تو اس طرح بعث بعد الموت کا مسئلہ ثابت کیا گیا کہ بس سمجھ لو ایسے ہی خداوندعالم انسانوں کے مرنے کے بعد انکے اجزاء بدنیہ سمیٹ کر اٹھالے گا خواہ وہ کسی بھی حالت کو اختیار کرچکے ہوں اور انسان اجزاء کا جمع کرکے اٹھانا اس سے زیادہ عجیب نہیں کہ ایک قطرۂ منی میں تمام اجزاء بدن اور اوصاف و عادات جمع کرکے اس کو دوبارہ ایک انسانی شکل و صورت میں پیدا کیا جائے تو اس طرح (آیت) ” الم نخلقکم من مآء مھین “۔ کا مضمون (آیت) ” انما تو عدون لواقع “۔ کے ثبوت کے لیے دلیل کے طور پر مرتب کیا گیا واللہ اعلم بالصواب۔ ١٢)
نطفہ منی سے پھر کیا نہیں رکھا ہے ایک محفوظ ٹھیراؤ کی جگہ میں یعنی رحم مادر میں جہاں اس نطفہ نے نہایت ہی محفوظ طریقہ سے نشوونما پایا اعضاء کی ساخت ہوئی شکل و صورت بنی اس میں حیات وروح کو ڈالا یہ سب کچھ اس کے معین کردہ وقت تک کیلئے ہوتا ہے جو مدت حمل ہے اس وقت پر انسان ان تمام تدریجی مراحل کو طے کرکے دینا میں آتا ہے تو ہم نے ایک وقت کا اندازہ کردیا ہے اور طے کرلیا ہے بس ہم بہت ہی اچھے انداز سے وقت مقرر کرنے والے ہیں کہ کیسی خوبی سے ایک نطفہ کے لیے تدریجی مراحل سے نشوونما مقدر کرکے اسکو انسانی شکل میں پیدا کیا جبکہ انسانی عقل وفکر کے محدود دائرہ میں سوچنے والا انسان تصور نہیں کرسکتا تھا کہ یہ حقیر سا قطرہ اتنی مدت کے بعد بہترین اعضاء کی ساخت شکل و صورت حیات وادراک اور عقل و شعور کی تمام صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوجائے گا تو بس اسی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ انسان مرنے اور ہلاک ہونے کے بعد دوبارہ قیامت کے روز زندہ ہو کر اٹھے گا رہا یہ امر کہ وہ قیامت کب آئے گی، تو یہ ایک مقرر کردہ وقت ہے جو اللہ نے اپنی ایسی ہی حکمت بالغہ اور کاملہ سے مقرر کر رکھا ہے جیسا کہ ہر نطفہ کی پیدائش کا اس نے اپنی حکمت۔
حاشیہ (ان کلمات سے اشارہ کیا گیا کہ (آیت) ” فقدرنا فنعم القادرون “۔ کا تعلق ہر دو مدتوں کی تقدیر اور تعین سے ہے یعنی مدت حمل کی تقدیر تو جس طرح مدت حمل کی تقدیر اللہ کی حکمت کاملہ پر مبنی ہے اسی طرح قیامت کی مدت بھی اللہ نے اپنی حکمت کاملہ سے طے کر رکھی ہے اور وہ اسی پر واقع ہوگی۔ ١٢)
سے وقت مقرر کیا اور اس میں مہلت رکھی پس ہلاکت و بربادی ہے اس دن انکار کرنے والوں کیلئے تو کیا یہ تمام چیزیں اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ وہ خداوندعالم قیامت قائم کرنے پر قادر ہے اور ان منکرین کا یہ کہنا کہ ” ہم مٹی میں ملنے کے بعد جب کہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو پھر کیونکر ہم دوبارہ زندہ ہوسکتے ہیں “ نہایت ہی لغو اور مہمل بات ہے انکو دیکھنا چاہئے کہ کیا ہم نے نہیں بنایا ہے زمین کو جو سمیٹنے والی ہے زندوں کو اور مردوں کو جس پر زندہ بھی آباد ہیں اور مردے بھی اسی میں مرنے کے بعد دفن ہیں اس طرح زندوں کو اور مردوں کو جس پر زندہ بھی آباد ہیں اور مردے بھی اسی میں مرنے کے بعد دفن ہیں اس طرح زندوں کو بھی اسی خاک سے حیات وزندگی ملی اور مر کر بھی اسی میں چلے گئے تو جس خاک سے انسانوں کی نشوونما ہے اسی خاک میں ملنے والے انسانوں کے اس میں سے اٹھنے اور دوبارہ زندہ ہونے پر کیا تعجب ہے کیوں نہیں اس بات کو دیکھ کر کہ ہر دانہ زمین میں بودیئے جانے کے بعد جب کہ وہ مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ اور بظاہر مٹی ہی بن جاتا ہے کس طرح اگ رہا ہے قیامت اور بعث بعد الموت کا مسئلہ نہیں سمجھتے تو جب زمین میں دفن ہوچکنے کے بعد ہر دانہ اور تخم دوبارہ پیدا ہورہا ہے تو کیوں نہیں انسان زمین میں مل کر اور خاک ہو کر دوبارہ پیدا ہوسکتے تو جس قادر مطلق کی قدرت کے یہ نمونے دن رات نظروں کے سامنے ہیں اس قادر مطلق کو کیا مشکل ہے کہ عالم کو فنا کرکے قیامت قائم کردے اور اس زمین میں ہم نے بنائے ہیں ایسے جم جانے والے بوجھل پہاڑ جن کو چوٹیاں بلند ہیں جو اپنی جگہ سے ذرہ بھی جنبش نہیں کھاتے تو یہ زمین کس قدر مضبوط ہے کہ اس نے اپنے اوپر ایسے وزنی پہاڑوں کو اٹھا رکھا ہے جن کی بلند چوٹیاں بادلوں سے بھی اوپر تک پہنچی ہوئی ہیں اور اسی زمین اور پہاڑوں سے چشمے جاری کرکے تم کو میٹھا پانی پلایا جو پیاس بجھانے والا ہے پانی کے یہ سیال چشمے مضبوط زمین اور سخت چٹانوں سے جاری ہو کر خدا کی عظیم قدرت کا نمونہ دنیا کی نگاہوں کے سامنے پیش کررہے ہیں تو جو خداوند عالم اپنی قدرت کاملہ کے یہ متضاد نمونے دکھلارہا ہے اور موت وحیات اور سختی ونرمی کے مناظر پیش کررہا ہے کیا وہ خدا میدان حشر میں نرمی و سختی اور نجات وہلاکت کے مناظر نہیں دیکھا سکتا ؟ نیز جس کے قبضہ میں تمام اسباب حیات ہیں اور وہ پہاڑوں کے سینہ میں معدنیات پانی کے چشمے اور بیشمار چیزیں جمع کرنے والا ہے اس پروردگار کو کیا مشکل ہے کہ انسانوں کے مرنے کے بعد زمین میں دفن ہونے کے بعد ریزہ ریزہ ہو کر ہواؤں میں اڑ رہے ہوں یا پانی کی موجوں میں بہہ رہے ہوں انکو اپنی قدرت بالغہ سے سمیٹ کر جمع کرلے اور دوبارہ میدان حشر میں اٹھالے ان حقائق اور مناظر قدرت کو دیکھ کر تو کسی کی یہ مجال نہ ہونی چاہئے کہ انکار کرنے والوں کے لئے بہرکیف قیامت کا برپا ہونا یقینی ہے اور خداوندعالم جس کی قدرت کے یہ عظیم کرشمے نظرون کے سامنے ہمہ وقت موجود ہیں انکے ہوتے ہوئے کسی مجال نہیں کہ قیامت کا انکار کرسکے تو جب قیامت قائم ہوگی مردوں کو انکی قبروں سے اٹھایا جارہا ہوگا آفتاب کی تپش سے لوگوں کے دماغ کھول رہے ہوں گے اہل ایمان کیلئے سایہ عرش ہوگا اور مجرمین ومنکرین بدحواسی کے عالم میں ہوں گے تو ان سے کہا جائے گا چلو اس چیز کی طرف جس کو تم جھٹلاتے تھے اور اسکا انکار کرتے تھے وہ نامہ اعمال کی پیشی اور میزان اعمال پر حاضری اور جہنم کے کناروں پر قائم کردہ پل پر سے گذرنا ہے اس اعلان پر منکرین و کفار بےچینی سے گریہ وزاری کرنے لگیں گے تو پھر انکو کہا جائے گا اچھا چلو ایک ایسے سایہ کی طرف جس کی تین شاخیں ہیں۔
حاشیہ (یہ تین شاخوں والا دھواں اس طرح ہوگا دائیں بائیں اور سر پر محیط گویا ہر طرف سے گھیرنے والا ہوگا بظاہر اسکی حکمت یہ ہوگی کہ عالم آخرت میں انسان کے اعمال عالم مثال میں حقائق موجودہ کی شکل میں رونما ہوتے ہیں تو یہ انکے اعمال فاسدہ اور عقائد باطلہ کی تاریکی ہوگی جو ہر طرف سے ان کو محیط ہوگی اور دھوئیں کی شکل میں ظاہر ہورہی ہوگی۔
حضرات عارفین فرماتے ہیں کہ انسان کے اندر تین لطیفے ہیں جن کی اصلاح اسکو مقام ملکیت تک پہنچا دیتی ہے اور اسکا فساد اسکو شیاطین کے زمرے میں شامل کردیتا ہے ایک بائیں طرف جو لطیفہ قلب ہے جس کا فساد قوت غضبیہ کو حد سے بڑھا کر ظلم وسرکشی پر آمادہ کرتا ہے دوسرا دائیں طرف ہے جس کا فساد قوت شہویہ کو بڑھاتا ہے اور اسکی وجہ سے انسان فسق وفجور اور بدکاریوں میں پڑجاتا ہے کیونکہ جگر معدن خون ہے اور یہی شہوتوں کا سرچشمہ ہے تیسرا لطیفہ دماغ ہے جو قوت ادراکیہ کا خزانہ اور معدن ہے تو پہلے دو لطیفوں کا فساد عملی خرابیوں کا باعث ہے اور تیسرے لطیفہ کا فساد عقائد باطلہ کا سبب ہے اس طرح اعمال خبیثہ اور عقائد باطلہ ان لطائف کی خرابی پر مرتب ہوئے تو اس مناسبت سے یہ اعمال خبیثہ اور عقائد جہنم کے دھوئیں اور شعلوں سے ظاہر ہونے والے سایہ کی تین شاخوں کی شکل میں نمایاں ہوں گے واللہ اعلم بالصواب (روح المعانی، فتح المنان)
ایک طرف اشارہ کرکے کہا جائے گا دور سے ظاہر ہوگا کہ وہ ایک سایہ ہے جس کی تین شاخیں ہیں فرشتوں کے اس اعلان پر وہاں پہنچیں گے تو کچھ اور ہی پائیں گے نہ تو وہ سایہ ہوگا ڈھانکنے والا جس میں کوئی ٹھنڈک اور چین ہو اور نہ ہی وہ جہنم کی لپٹوں اور شعلوں سے بچانے والا ہوگا بلکہ وہ سایہ تو درحقیقت جہنم سے اٹھنے والا دھواں ہوگا اور قعر جہنم سے اٹھنے والے سیاہ شعلے ہوں گے جو پہاڑوں کی بلندی کی طرف اوپر کی جانب بلند ہوتے ہوں گے اور دور سے محسوس ہوگا کہ وہ کوئی سایہ ہے۔
وہ جہنم پھینکتی ہوگی ایسے شعلے اور انگارے جو محل کی طرف بلند ہوں گے دیکھنے میں ایسا محسوس ہوگا گویا وہ اونٹ ہیں زرد رنگ کے کہ ابتداء میں وہ انگارے اور شعلے محل کی بلندی کے بقدر قعر جہنم سے بلند ہوتے ہوں گے پھر ان میں سے ٹوٹ ٹوٹ کر چنگاریاں ایسی نظرآئیں گی جیسے زرد رنگ کے اونٹ ہوں یہ ہے وہ عذاب جو آخرت میں مجرمین ومنکرین کے لئے ہوگا افسوس ہلاکت و بربادی ہے اس دن انکار کرنے والوں کے لیے اس دن کی شدت اور عذاب کی سختی کا کیا حال بتایا جائے یہ وہ دن ہوگا جس میں وہ بول نہ سکیں گے اور اگر اس سے قبل روز محشر کچھ بولے بھی ہوں وہ بےسود تھا اور نہ انکو اجازت ہوگی کہ وہ کوئی معذرت پیش کریں اور توبہ کریں پس ہلاکت و بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے ان منکرین نے جو یہ سمجھ رکھا تھا کہ دنیا کی عدالتوں میں جس طرح حیل وحجت اور عذرومعذرت سے کام چل جاتا ہے شاید میدان حشر میں اسی طرح ہم کچھ حیلے بہانے یا معذرت و توبہ کرکے چھوٹ جائیں گے نہیں ہرگز نہیں وہاں نہ تو بولنے کی سکت ہوگی اور نہ کوئی معذرت و توبہ قبول ہوگی بہرحال یہ ہے فیصلہ کا دن جس میں حق و باطل نیکی وبدی اور ایمان وکفر کا فیصلہ کردیا جائے گا اور ہر عمل کا انجام سامنے ہوگا مومنین جدا ہوں گے اور مجرمین ومنکرین جدا ہوں گے ایک گروہ نجات و کامیابی پر شاداں وفرحاں ہوگا تو دوسروں کے چہروں پر ذلت و حقارت اور پریشانی وپشیمانی برس رہی ہوگی غرض ہر چیز کا فرق سامنے ہوگا اور ہر عمل کا فیصلہ ہورہا ہوگا جمع کردیا ہے ہم نے تم کو اور ان کو جو تم سے پہلے گذرے ہیں تاکہ سب کو اکٹھا کرکے پھر الگ الگ کردیں اور آخری فیصلہ سب کو سنا دیں تو اے مجرمو ! اگر کوئی تدبیر کرسکتے ہو تو کرلو وہ تدبیر میرے مقابلہ میں اور آجائیں وہ گستاخ بھی جو کہا کرتے تھے دوزخ کا ذکر (اور ان پر مقرر انیس فرشتوں کو) سن کر کہ ” سترہ کو تو میں اکیلا ہی کافی ہوجاؤں گا “ باقی دو سے تم نمٹ لینا بس ہلاکت وتباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے ظاہر ہے کہ سب کچھ مصائب اور عذاب کی شدت و سختی اور میدان حشر کی پریشانی منکرین ومکذبین کیلئے ہے جو انکے کفرونافرمانی اور سرکشی کا نتیجہ ہے لیکن انکے بالمقابل اہل ایمان وطاعت کامیاب وکامران ہوں گے اللہ رب العزت کی نعمتوں اور اسکی رضاء و خوشنودی سے سرفراز ہوں گے۔ جن کی راحت ونعمتوں کا یہ حال ہوگا کہ بیشک تقوی اور ایمان والے نہایت ہی راحت و سکون کے ساتھ جنت کے سایوں میں اور چشموں میں جن سے پانی اور دودھ کی نہریں بہتی ہونگی اور ہر قسم کے میوے اور پھلوں میں ہوں گے جس قسم کے بھی وہ چاہیں غرض ہر طرح کا آرام و سکون عزت اور ہر قسم کی نعمتیں ہونگی اور انکو کہہ دیا جائے گا کھاؤ اور پیو مزے سے خوب بلاکسی روک ٹوک کے یہ سب کچھ ان اعمال کا بدلہ ہے جو تم کرتے تھے دنیا کی زندگی میں بیشک ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں نیکی کرنے والوں کو مگر اس کے برعکس ہلاکت وتباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے یہ مجرمین ومکذبین جو دنیا کی لذتوں اور عیش و عشرت میں مست تھے اور آخرت کو انہوں نے بھلا رکھا تھا انکو دنیا میں ہی اسی وقت بتادیا گیا تھا کھالو اور مزے اڑا لو تھوڑے دنوں تک یقیناً تم مجرم ہو اور تم کو یہ چند دن اور قلیل مدت گذرنے پر معلوم ہوجائے گا کہ تمہارا انجام کس قدر برا ہے افسوس ! ہلاکت و بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے دنیا کی زندگی نے ان مجرموں کو ایسا سرکش ونافرمان بنا دیا تھا کہ جب ان سے کہا جاتا کہ جھک جاؤ۔
حاشیہ (لفظ ارکعوا کا ترجمہ ” جھک جاؤ “۔ اس لفظ کے معنی لغوی کے لحاظ سے کیا گیا اور یہی زیادہ بلیغ ہے بہ نسبت اسکے کہ یہاں رکوع کو رکوع اصطلاح کے معنی کے معنی پر محمول کیا جائے۔ ١٢)
اللہ کے سامنے تو نہیں جھکتے تھے اور کسی طرح خدا کے سامنے سرنگوں ہونے اور عبادت و بندگی کے لیے تیار نہ ہوئے جس کا یہ انجام دیکھ لیا بس ہلاکت و بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے قرآن حکیم نے کس قدر واضح دلائل بیان کردیئے جن کے بعد خدا اور آخرت پر ایمان لانے میں کوئی تردد ہی نہ رہنا چاہئے لیکن انکار کرنے والے اب بھی اگر ایمان نہیں لائے تو پھر اسکے بعد اور کون سی بات ہوگی جس پر وہ ایمان لائیں گے اور اس پر یقین کرکے آخرت کو مانیں گے نہ تو قرآن کے بعد اب کوئی کتاب نازل ہوگی اور جو دلائل وحقائق ذکر کئے گئے ان کے بعد احاطہ تصور میں مزید کسی دلیل اور تحقیق کا امکان نہیں اور نہ ہی خاتم الانبیاء والمرسلین جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اور کوئی نبی مبعوث ہوگا کہ یہ توقع کرلی جائے کہ شاید کسی اور پیغمبر کے کسی معجزہ کو دیکھ کر یا دلیل کو سن کر مان لیں اور ایمان لے آئیں بہرحال جو بدنصیب بھی ان قرآنی دلائل وحقائق کے باوجود ایمان سے محروم رہے تو اسکے بعد کوئی توقع نہیں کہ وہ کسی اور بات پر ایمان لاسکے گا۔
(آیت) ” خسر الدنیا والاخرۃ ذلک ھو الخسران المبین “۔ اعاذنا اللہ منہ ووفقنا من فضلہ وکرمہ للایمان والثبات علی الدین فیارب ثبتنا علی الاسلام وعلی ملۃ نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توفنا مسلمین والحقنا بالصالحین غیر خزایا ولا مفتونین آمین برحمتک یا ارحم الرحمین۔
(آیت) ” ویل یومئذ للمکذبین “ کے تکرار کی حکمت :
سورة المرسلات میں یہ آیت مبارکہ (آیت) ” ویل یومئذ للمکذبین “ دس جگہ ارشاد فرمائی گئی تکرار آیات قرآنیہ کی حکمت سورة الرحمن میں فبای الآء ربکما تکذبان “ میں بیان کردی گئی وہ تو ہر جگہ اور جو بھی آیات قرآن کریم میں بار بار ہیں ان پر منطبق ہوتی ہے یہاں یہ آیت دس بار مکرر ہے بعض عارفین کے کلام سے یہاں اسکے تکرار کی مزید ایک خاص حکمت بھی معلوم ہوتی ہے۔
سورة المرسلات میں اصل خطاب منکرین قیامت سے ہے اسی ضمن میں دس مرتبہ (آیت) ” ویل یومئذ للمکذبین “ کا اعادہ کرکے یہ ظاہر کرنا بظاہر مقصود ہے کہ منکرین قیامت دس وجوہ سے ہلاکت و بربادی میں ہیں تو ہر وجہ کے وجہ کے پیش نظر ہلاکت و بربادی کی یہ وعید بیان فرما دی گئی جس کی تفصیل اس طرح سمجھ لی جائے کہ انسان میں قدرت خداوندی کی طرف سے تین قوتیں رکھی گئی ہیں جن کی اصلاح سے سعادت اور فلاح کا ترتب ہوتا ہے اور انکے فساد سے شقاوت وبدبختی اور ہلاکت و بربادی ہے (١) اول قوت نظریہ جس پر ادراک صحیح اور اعتقادات کا دارومدار ہے کافروں اور منکرین قیامت نے اسکو بگاڑ رکھا تھا متعدد وجوہ سے اول ذات خداوندی کا شرک کرکے (٢) دوم صفات خداوندی میں بیہودہ اور لغو خیالات اور من گھڑت تصورات باطلہ قائم کرکے سوم فرشتوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ہمارے کاروبار کے وہی مالک ومختار ہیں (٤) چہارم یہ کہ انسان کی زندگی بس دنیاہی تک محدود ہے نہ حشر ہے نہ بعث بعد الموت ، (٥) پنجم قضاء وقدر کا انکار اور مخلوقات کی اس میں شرکت، (٦) ششم انبیاء (علیہم السلام) اور کتب سماویہ کا انکار اور انکے اوامر وہدایات سے سرتابی تو یہ چھ قسم کی خرابیاں تو منکرین قیامت میں قوت نظریہ کے فساد کی وجہ سے پائی جاتی ہیں۔ (٢) دوسری قوت شہویہ جس کی خرابی افراط وتفریط ہے افراط کے باعث انسان بہائم کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور تفریط کی وجہ سے حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے تو یہ دونوں عیب منکرین قیامت میں تھے (٣) تیسری قوت غضبیہ ہے اس میں بھی افراط انسان کو بہائم اور درندوں سے بڑھا دیتا ہے اور اس کی وجہ سے ظلم وتعدی کی کوئی حد نہیں رہتی اور تفریط انسان میں سے حمیت و غیرت کا وصف ختم کردیتی ہے نوبت یہاں ہوجاتی ہے کہ محارم الہیہ کی بےحرمتی اور گستاخی پر غصہ تو درکنار کان پر جوں تک نہیں رینگتی تو دو خرابیاں یہ ہوئیں اس طرح ظاہر ہوا کہ منکرین قیامت اور ایسے مجرمین ان دس خرابیوں میں مبتلا تھے تو ہر ایک خرابی کے بالمقابل ایک بار فرمادیا گیا (آیت) 

”ویل یومئذ للمکذبین“ 
 واللہ اعلم بالصواب:
http://www.elmedeen.com/read-book-3050&page=5698
 

No comments:

Post a Comment