Saturday, 6 January 2018

طلاق شرعی رہنمائی

طلاق شرعی رہنمائی
(۱/۲)

          ’’نکاح‘‘ عظیم نعمت ہے،اس کے ذریعہ آدمی عفت وعصمت اور پاکدامنی حاصل کرتا ہے، زنا جیسی قبیح حرکت سے محفوظ رہتا ہے، اسی پاکیزہ رشتہ کی برکت سے نسلِ انسانی کی بقا ہے، یہ انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے، ایران کے مانی فرقہ کے لوگ، اسی طرح عیسائی راہب اور سادھو سنت؛ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے نکاح نہیں کرتے تھے، اس طریقہ کو اسلام نے بالکلیہ رد کردیا اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ”النکاح من سنتی“ (ابن ماجہ:۱/۳۴۰) کی صراحت فرمائی اور دوسری حدیث میں حضرت عثمان بن مظعون کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ: جو شخص میری سنت سے اعراض کرے، وہ میرا نہیں۔ (بخاری:۵۰۶۳)

          یہ پاکیزہ رشتہ حضرتِ آدم علی نبینا علیہ الصلاة والسلام سے شروع ہوا جو آج تک جاری ہے اور جنت میں بھی باقی رہے گا، دوسرے کسی رشتہ کو یہ خصوصیت حاصل نہیں (الدرالمختار علی ہامش رد المحتار ۲/۲۸۰) یہ رشتہ جب قائم ہوجاتاہے تو اس میں پائداری اور ہمیشگی مقصود ہوتی ہے؛ تاکہ مرد وعورت باہم وابستہ رہ کر عفت وپاکبازی کے ساتھ مسرت وشادمانی کی زندگی گذارسکیں، جس طرح وہ کسی کی اولاد ہیں، اسی طرح ان سے بھی اولاد کا سلسلہ چلے اور اولاد اُن کے لیے دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک، دلوں کا سرور اور آخرت میں حصولِ جنت کا وسیلہ بنیں، گویا نکاح کے مقاصد پر غور کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ رشتہ باقی رہے، اسے باقی رکھنے کی ساری اور آخری کوشش کرنا لازم وواجب ہے۔

زوجین کا اختلاف کوئی انہونی بات نہیں:

          میاں بیوی میں کبھی کبھار ناراضگی، بحث وتکرار اور جھگڑے ہوجانا یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ تو ہوگا، جب بھی چند لوگ ایک جگہ رہتے ہیں تو اُن کے درمیان اختلاف ہوتا ہی ہے، تو تو، میں میں ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے، جب چند برتنوں کو ایک ساتھ رکھا جاتا ہے تو وہ کھڑکتے ضرور ہیں، ہمیں سوچنا چاہیے اور اپنے آپسی اختلاف پر تعجب نہیں کرنا چاہیے، میاں بیوی کا اختلاف تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تھا، خود بارہا سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، ”واقعہٴ اِفک اور واقعہٴ مغافیر“ کا تذکرہ تو خود قرآن پاک میں موجود ہے، ان سب کے باوجود ازواج کے درمیان جدائیگی نہیں ہوئی، طلاق وخلع کی نوبت نہیں آئی، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب بھی میاں بیوی کے درمیان تلخی پیدا ہوجائے دونوں مل کر، ناگواریوں کو جھیلیں اور تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں، میاں بیوی کے بہت سے اختلافات ایسے ہوتے ہیں جن کو کسی تیسرے کے سامنے نہ تو ظاہر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے اور نہ کوئی تیسرا اُسے حل کرسکتا ہے؛ اس لیے آپسی اختلاف کو خود حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک بڑے بزرگ نے اس کا ایک طریقہ یہ لکھا ہے کہ: دن بھر اختلاف رہے، رہنے دو؛ لیکن رات کو بستر پر اس اختلاف کو ختم کرلو اور آپس میں یہ طے کرلو کہ ہم لوگ بستر پر کوئی اختلاف باقی نہیں رکھیں گے، پھر جو صبح ہوگی وہ نہایت خوش گوار اور مسرت وشادمانی لیے ہوگی۔

طلاق کی قباحت:

          رشتہٴ نکاح کو ختم کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے، حدیث شریف میں ہے: ”أَبْغَضُ الْحَلَالِ الی اللّٰہِ الطَّلَاقُ“ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰة ص:۲۹۳): جائز کاموں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے: لاَ خَلَقَ اللّٰہُ شَیْئاً عَلٰی وَجہِ الأرْضِ أبْغَضَ الیہ مِنَ الطَّلاَقِ (دارقطنی بحوالہ مشکوٰة ص:۸۴) کہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے طلاق سے زیادہ ناپسندچیز کو پیدا نہیں فرمایا۔ طلاق ایسا غیرمعمولی اقدام ہے کہ جب کوئی آدمی، اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عرش ہل جاتا ہے۔ (عمدة القاری۳۰/۴۵) ایک روایت میں ہے کہ جو عورت کسی سخت تکلیف کے بغیر اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی بحوالہ مشکوٰة ص:۲۸۳)

کثرتِ طلاق کے نقصانات:

          طلاق کوبُرا نہ سمجھنا اور کثرت سے اس کا ارتکاب کرنا بہت سی خرابیوں کو سامنے لاتا ہے، خاندان میں بہت سی مشکلات اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں، چند نقصانات کو ذیل میں لکھا جاتا ہے:

۱- نفس کا بگاڑ: سب سے پہلی خرابی یہ ہے کہ طلاق کی کثرت سے طلاق دینے والوں کا راست نقصان ہوتا ہے، اُن کا نفس بگڑجاتا ہے، آدمی میں انسانیت کے بجائے حیوانیت آجاتی ہے، وہ شرم گاہ کی شہوت کا غلام ہوجاتا ہے، وہ نکاح کے ذریعہ محض لطف اندوز ہونا چاہتا ہے، نکاح سے نظام خانہ داری قائم کرنے کا ارادہ نہیں کرتا، نہ معاشی معاملات میں معاونت کا ارادہ کرتا ہے، اور نہ ہی شرم گاہ کی حفاظت اس کے پیش نظر ہوتی ہے، وہ ہر شب کو شبِ زفاف ہی بنانا چاہتا ہے، اس لیے شہوت رانی کے لیے کثرت سے نکاح کرتا اور طلاق دیتا رہتا ہے، وہ عورتوں کو کمپنی کا مال سمجھتا ہے، اور ان کے ساتھ یوز اینڈ تھرو(Use and Throw) جیسا معاملہ کرتا ہے۔

          ایسے آدمی کے نکاح اور زنا میں کوئی فرق نہیں، صرف ظاہری اور قانونی فرق ہے، ایسے آدمی سے اللہ تعالیٰ کو بہت ہی نفرت ہے، حدیث شریف میں ہے: انَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الذَّوَّاقِیْنَ وَالذَّوَّقَاتِ․ (کنزالعُمّال حدیث ۲۷۸۷۳ بحوالہ رحمة اللہ الواسعہ/۱۳۹) کہ اللہ تبارک وتعالیٰ چکھنے والے مرد اور چکھنے والی عورتوں کو پسند نہیں فرماتے ہیں۔

          بعض عورتیں بھی اسی مزاج کی ہوتی ہیں، وہ ایک سے زائد شوہروں کا مزہ چاہتی ہیں، اس کے لیے ایک سے نکاح کے بعد مختلف قسم کے اعذار بتاکر، یا شوہر کو مختلف تدبیروں سے ناک میں دم کرکے طلاق لیتی رہتی ہیں، اور پھر دوسرے اور تیسرے سے نکاح کرتی رہتی ہیں، ایک سے طلاق لیتے وقت دوسرے سے بات پکی کیے ہوتی ہیں اور کبھی مُکَرْجانے کی وجہ سے سخت شرمندہ ہوتی ہیں، دارالافتاؤں میں اس قسم کے تجربات بارہا سامنے آتے ہیں، شوہر کو مختلف تدبیروں سے مجبور کرکے طلاق لینے کے بعد رو روکر اپنی غلطی کا اعتراف اور عاشق کے دھوکے کا ذکر کرتی ہیں یہ تو قانون کے دائرے میں رہنے کی بات ہے۔

          اس سے آگے بڑھ کر ایک ایسا واقعہ بھی میرے سامنے آیا کہ ایک ہی خاتون نے نام بدل کر بیک وقت دو مردوں سے نکاح کررکھا تھا اور دونوں کے نکاح نامے اس کے پاس موجود تھے، اللہ جانے کیا مقصد تھا؟ لاحول ولا قوة الاّ باللہ، خلاصہ یہ کہ آدمی نفس کے بگاڑ کی وجہ سے کثرت سے نکاح اور طلاق کا ارتکاب کرتا ہے، یا یوں کہیے کہ کثرتِ نکاح وطلاق سے انسان کا نفس مزید بگڑ جاتا ہے، وہ حیوانوں سے بدتر ہونے لگتا ہے۔

۲- معاشرتی بگاڑ: نکاح کا مقصد پاکبازی کے ساتھ خوشیوں کی زندگی بسر کرنا ہے، اور یہ مقصد اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب میاں بیوی دائمی رفاقت ومعاونت پر آمادہ ہوں اور اپنے آپ کو اس کا خوگر بنائیں؛ لیکن جب طلاق کا رواج چل پڑتا ہے تو یہ بات باقی نہیں رہتی، میاں بیوی کے دل میں چند روزہ رفاقت کا تصور رہتا ہے؛ اس لیے معمولی معمولی باتیں رنجش کا سبب بن جاتی ہیں، دونوں ناگواریوں کو جھیلنے اور تعلقات کو خوش گوار بنانے کے بجائے طلاق کی سوچنے لگتے ہیں، زود رنجیوں اور جھٹ خفگیوں کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ (رحمة اللہ الواسعہ ۵/۱۳۹ ملخصاً)

۳- اولاد کی پرورش بے لطف: جب زوجین جدائی کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو اولاد کی پرورش کے لیے یا تو دونوں میں سے کوئی تیار نہیں ہوتے، یا دونوں کے دونوں اولاد کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے اگر شرعی حل نکالا جاتا ہے تو بھی اولاد کی تعلیم وتربیت، اس کی صحت وصحبت اور اس کے مستقبل کے لیے لائحہٴ عمل طے کرنے میں مختلف قسم کی دشواریاں پیش آتی ہیں، بسا اوقات ایسی اولاد جرائم کی خوگر ہوجاتی ہیں اور معاشرہ کے لیے ضرر رساں ثابت ہوتی ہیں۔

۴- بے حیائی کا فروغ: کثرتِ طلاق کی وجہ سے برائیوں کا فروغ ہوتا ہے، جن کو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ”رحمة اللہ الواسعہ شرح حجة اللہ البالغہ“ میں ہے:

          ”اگر عورتیں اس چیز کی عادی بن جائیں کہ وہ ذائقہ چکھ کر چل دیں اور لوگ بُرا نہ سمجھیں اور نہ اس پر افسوس کریں، نہ نکیر؛ تو بے حیائی کو فروغ ملے گا، اور کوئی دوسرے کے گھر کی بربادی کو اپنے گھر کی بربادی نہیں سمجھے گا، اور خیانت کی طرح پڑے گی؛ ہر ایک اس فکر میں رہے گا کہ جدائی ہوئی تو فلاں سے نکاح کروں گا، اور اس میں جو مفاسد ہیں وہ ظاہر ہیں۔“ (۵/۱۳۹)

طلاق کی ضرورت:

          اپنی اصل کے اعتبار سے طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے؛ لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ کبھی یہ رشتہ کسی آدمی کے لیے عذاب بن جاتا ہے، اور ایسے حالات میں نکاح کو برقرار رکھنا اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ مرد وعورت کو رشتہٴ ازدواج سے جوڑے رکھنا معاشرے کے لیے بڑے فساد کا موجب ہوجاتا ہے، اس لیے شریعت نے طلاق کو ایک ناپسندیدہ عمل ہونے کے باوجود ”مباح“ قرار دیا ہے، اس کی مثال مجبوری کی صورت میں جسم کے سڑے ہوئے کسی عضو کے کاٹنے کی طرح ہے، کہ اس پر آدمی خواہی نہ خواہی راضی ہوہی جاتا ہے۔

اسبابِ طلاق:

          ۱-       میاں بیوی کے مزاج میں ہم آہنگی نہ ہو، دونوں ایک دوسرے نفرت کرتے ہوں، اور اختلاف شدت پکڑلے، حل کی کوئی شکل نہ ہو۔

          ۲-       دونوں معیشت میں تنگی محسوس کرتے ہوں، شوہر کھانا، خرچہ اور مکان نہ دے سکتا ہو۔

          ۳-       شوہر حقوق کی ادائیگی پر قادر نہ ہو مثلاً: اس کا آلہٴ تناسل کٹا ہوا ہو، یا آلہٴ تناسل تو ہو مگر جماع کی طاقت و صلاحیت نہ ہو۔

          ۴-       یا کسی ایک میں حُمق (بے وقوفی) یا کم عقلی ہو، جسے دوسرا برداشت کرنے سے قاصر ہو۔

          ۵-       بیوی کسی وجہ سے قابلِ جماع نہ ہو یا اس سے اولاد کی امید ختم ہوگئی ہو اور وہ سوکن کو برداشت کرنے پر راضی نہ ہو۔

          مذکورہ بالا تمام صورتوں میں اگر علاحدگی کی راہ نہ اپنائی جائے تو زندگی اجیرن ہوکر رہ جائے گی اور رشتہٴ ازدواج عذاب اور وبال بن جائے گا۔ ان صورتوں میں شوہر کو خوب سوچ سمجھ کر طلاق کی صورت اختیار کرنی چاہیے۔

 طلاق کا بے جا استعمال:

          طلاق کا بے محابا، بے دھڑک اور بے جا استعمال گناہ ہے، اسی طرح جب شوہر کو یقین ہوکہ ازدواجی زندگی خوش گوار نہیں رہے گی، بیوی کو نکاح کے باقی رہنے کی وجہ سے شدید پریشانی کاسامنا ہوگا پھر بھی وہ طلاق نہ دے، تکلیف دینے کے لیے نکاح میں باقی رکھے، یہ جائز نہیں ہے۔ (مستفاد از: مجموعہ قوانینِ اسلامی ص۱۲۵)

          یہ فیصلہ کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ خوش گوار زندگی گذارسکتا ہے یا نہیں؟ اور طلاق کی ضرورت ہے یا نہیں؟ شوہر کے احساسات سے متعلق ہے؛ اس لیے اس کا فیصلہ خود شوہر ہی کرسکتا ہے، اگر شوہر کو یقین ہو کہ وہ اچھی طرح بیوی کو نہیں رکھ سکتا، اس کے حقوق ادا نہیں ہوں گے تو اس پر واجب ہے کہ وہ طلاق دے دے۔

          بلا سبب محض ایذا رسانی کے لیے طلاق دینا، اسی طرح بیوی اور اس کے اولیاء کی طرف سے شوہر کے ناجائز مطالبات پورے نہیں ہونے کی صورت میں طلاق دینا، ناجائز اور حرام ہے۔ (ایضاً ص۱۲۶)

نکاح ختم کرنے کا اختیار:

          نکاح ختم کرنے کا اختیار صرف مرد ہی کو حاصل نہیں ہے؛ بلکہ بعض صورتوں میں عورت بھی حاکمِ وقت اور قاضی شریعت کے ذریعہ رشتہٴ نکاح کو ختم کرسکتی ہے۔ عورت کو اجازت ہے کہ وہ ان اسباب کو بتائے جو رشتہ کے ختم کرنے میں موٴثر ہوں، اسلامی ملک میں قاضی اپنے اختیار سے اور غیراسلامی ممالک میں اگر دارالقضا ہے تو اس کے ذریعہ یا ”شرعی پنچایت“ یا ”علماء کی مجلس“ کے ذریعہ تفریق کراسکتی ہے۔

اسبابِ تفریق:

          جن اسباب کی وجہ سے بیوی تفریق کا مطالبہ کرسکتی ہے، وہ درج ذیل ہیں:

          ۱-       شوہر مفقود الخبر ہو، لاپتہ ہو معلوم نہیں، زندہ ہے یا مردہ۔

          ۲-       یہ تو معلوم ہوکہ فلاں جگہ ہے؛ لیکن نہ خود آتا ہو، نہ بیوی کو بلاتا ہو اور نہ ہی خرچہ دیتا ہو اور نہ طلاق دیتا ہو۔

          ۳-       شوہر نفقہ دینے سے عاجز ہو۔

          ۴-       شوہر استطاعت کے باوجود نفقہ نہ دیتا ہو۔

          ۵-       شوہر حقوقِ زوجیت ادا نہ کرتا ہو۔

          ۶-       شوہر کا آلہٴ تناسل پورا کٹا ہوا ہو یا اس کا بعض حصہ کٹا ہوا ہو۔

          ۷-       شوہر کو آلہٴ تناسل تو ہو، مگر وہ جماع کرنے پر قادر نہ ہو۔

          ۸-       شوہر پاگل ہو۔

          ۹-       شوہر ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ بیوی کا ساتھ رہنا ممکن نہ ہو۔

          ۱۰-      شوہر تکلیف دہ حد تک مارتا پیٹتا ہو۔

          ۱۱-      شوہر سے ایسا شدید اختلاف ہوجائے کہ حَکَمْ وغیرہ سے بھی حل نہ ہوسکے۔

(کتاب الفسخ والتفریق ص۶۰، مزید اسباب کے لیے مذکورہ کتاب دیکھیے)

          مذکورہ بالا تمام صورتوں میں بیوی شوہر سے علیحدہ ہونے کا دعویٰ دارالقضاء یا شرعی پنچایت میں پیش کرسکتی ہے، پھر علماء کی جماعت اس پر غور و خوض کرکے اگر مناسب سمجھے گی تو تفریق کردے گی اور تفریق ”فسخ“ کہلائے گی۔ فسخ کی صورت میں عددِ طلاق میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے، اگر دوبارہ نکاح ہوجائے تو شوہر تین طلاق کا مالک رہتا ہے۔ (الدرالمختار باب الولی ۲/۴۲)

طلاق، خلع اور فسخ:

          اگر جدائی مرد کے اختیار سے ہوتو ”طلاق“ ہے، اور بیوی کے مطالبہ پر باہمی رضامندی سے ہوتو ”خلع“ ہے اور اگر بیوی کے مطالبہ پر ”قاضی“ یا ”شرعی پنچایت“ کے فیصلے سے ہوتو ”فسخ“ ہے۔ (مجموعہ قوانین اسلامی ص۱۲۶)

طلاق دینے کا بہتر طریقہ:

          طلاق دینے کا وہ طریقہ جو سب سے بہتر ہے، حدیث شریف سے ثابت ہے، جسے ”طلاقِ سنت“ بھی کہا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ: مدخولہ بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق نہ دی جائے؛ بلکہ ایسے طہر (پاکی) کی حالت میں دی جائے جس میں شوہر نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو، اور ایک ہی طلاق رجعی دی جائے؛ تاکہ زمانہٴ عدت (تین حیض آنے تک) رجوع کرلینے کی گنجائش باقی رہے، پھر اگر شوہر رجوع کرنے کا فیصلہ نہ کرسکے تو عدت کی مدت گزرجانے دے، اس سے رجعت کی گنجائش تو نہیں رہے گی؛ البتہ دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کا رشتہ قائم ہوسکے گا۔ اس کو ”طلاقِ احسن“ بھی کہا جاتا ہے۔

طلاق کا دوسرا صحیح طریقہ:

          ایک طریقہ یہ ہے کہ: آدمی اپنی مدخولہ بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق نہ دے؛ بلکہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، پھر دوبارہ حیض کے بعد طہر کی حالت آئے اس میں دوسری طلاق دے، پھر حیض کے بعد تیسرے طہر میں، تیسری طلاق دے۔ یہ طریقہ بھی ٹھیک ہے، اسے ”طلاقِ حسن“ کہا جاتا ہے اور ”طلاقِ سنت“ بھی۔

          اور بیوی سے ملاقات اور خلوتِ صحیحہ نہیں ہوئی ہے تو حالتِ حیض میں بھی ایک طلاق دینا ٹھیک ہے، اسے بھی طلاقِ حسن کہا جاتا ہے۔

          اور بیوی اگر چھوٹی نابالغہ ہو یا کافی عمر ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو تو اس کو مہینہ کے لحاظ سے ہر ماہ ایک طلاق دینا بھی ”طلاقِ حسن“ کہلاتاہے۔

طلاق دینے کے ممنوع طریقے:

          مذکورہ بالا طریقوں کے علاوہ طلاق کے دوسرے طریقے بدعت اور ممنوع ہیں؛ لیکن اُن صورتوں میں بھی طلاق ہوجاتی ہے۔

          مثال کے طور پر:

          ۱-       مدخولہ بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دینا، حیض کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؛ لیکن ایسی حالت میں اگر ایک یا دو طلاقِ رجعی دی ہے تو رجوع کرلینا مستحب ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۵۷)

          ۲-       ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں صحبت کرچکا ہو، یہ طریقہ بھی بہتر نہیں ہے؛ لیکن اس میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

          ۳-       طلاقِ بائن دینا۔

          ۴-       ایک ہی طہر میں ایک سے زائد بار (دو یا تین) طلاق دینا، یا ایک جملہ میں تینوں طلاق دینا۔ ان میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۳۴)

          ۵-       نابالغہ بیوی کو یا بڑی عمر والی بیوی کو جس کو حیض نہ آتا ہو ایک مہینہ میں ایک سے زائد طلاق دینا، یہ سب طریقے ”طلاقِ بدعت“ کے ہیں، جو ممنوع ہیں۔ (الدرالمختار ۲/۵۷۴تا۵۷۸)

          خلاصہ یہ کہ طلاق دینے کے مذکورہ بالا سارے طریقے بدعت اور ممنوع ہیں، اگر کسی نے ایسی طلاق دے دی تو طلاق دینے والا سخت گنہگار ہوگا؛ لیکن طلاق واقع ہوجائے گی۔

صریح اور رجعی طلاق:

          اگر آدمی لفظِ ”طلاق“ بول کر طلاق دے تو لفظ کے صریح اور واضح ہونے کی وجہ سے طلاق رجعی واقع ہوگی؛ لیکن شرط یہ ہے کہ ایک یا دو طلاق ہو؛ اس لیے کہ تین طلاق کے استعمال کرنے کی وجہ سے رجوع کی کوئی شکل نہیں رہ جاتی اور طلاق مُغَلَّظْ ہوجاتی ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے: الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَامْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِاحْسَان (بقرہ:۲۲۹) یعنی ایسی طلاق جس میں رجوع ہوسکتا ہے، دو ہی بار ہے، اب چاہے تو معروف طریقے سے رکھے یا خوبی کے ساتھ رخصت کردے۔

          طلاقِ رجعی میں عدت کے اندر شوہر رجوع کرسکتا ہے، اس میں بیوی کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن اگر عدت ختم ہوجائے یعنی اگر حیض والی عورت ہوتو تین حیض اور حیض والی نہ ہو تو تین مہینے گذرجائیں تو عورت ”بائنہ“ ہوجائے گی، یعنی طلاق رجعی، طلاقِ بائن میں تبدیل ہوجائے گی، اب دوبارہ نکاح میں لوٹنے اور ایک ساتھ رہنے کے لیے تجدیدِ نکاح ضروری ہوگا، باہمی رضامندی کے ساتھ نکاح کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔ (ہدایہ ۲/۳۷۴، ۳۷۹)

رجعت کا طریقہ:

          رَجْعت قول اور عمل دونوں سے ہوتی ہے، ”قولی رجعت“ کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ: شوہر دومرد یا ایک مرد اور دو عورت گواہ کے سامنے کہے کہ: میں نے اپنی بیو کو لوٹالیا، پھر اس کی اطلاع بیوی کو کردے۔

          اگر گواہ نہ بھی بنائے، ویسے ہی بیوی کو کہہ دے کہ: میں نے تم کو نکاح میں لوٹالیا تو رجعت صحیح اور درست ہوجائے گی؛ البتہ گواہ کا ہونا بہتر ہے۔ (ہدایہ۲/۳۹۵) اور رجعت کا ”فعلی طریقہ“ یہ ہے کہ: شوہر بلا کچھ بولے بیوی سے وطی کرلے یا بوس وکنار کرلے، بس رجوع ہوجائے گا؛ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رجوع کرنے سے بیوی تو نکاح میں لوٹ آتی ہے؛ مگر دی ہوئی طلاق واپس نہیں ہوتی؛ اس لیے اگر ایک طلاق دے کر رجوع کیا تو اب دو طلاق کا مالک ہے اور اگر دو طلاق کے بعد رجوع کیا تو بس ایک ہی طلاق کا مالک ہے، تیسری کے بعد رجوع کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔

کنائی الفاظ سے بائن طلاق:

          اگر آدمی ایسے الفاظ سے طلاق دے جو طلاق اور غیرطلاق دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہوں تو وہ الفاظ کنائی کہلاتے ہیں مثلاً: طلاق کی نیت سے کہے کہ: ”تم مجھ سے جدا ہو“ تو ”طلاقِ بائن“ واقع ہوجائے گی، طلاقِ باطن میں بلانکاح رجوع کرنا جائز نہیں ہے، نکاح کے بعد ہی رجوع ممکن ہے خواہ عدت کے اندر ہو یا عدت گذر جانے کے بعد۔ (جاری)
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/03-Talaq%20Shariah%20rahnumai_MDU_5_May_12.htm

تین طلاق کا حکم:

           بہ یک وقت ”تین طلاق“ دینا سخت گناہ ہے، قرآنِ پاک کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف؛ بلکہ قرآنِ پاک کے ساتھ ایک طرح کا کھیل اور مذاق ہے؛ لیکن جس طرح حالتِ حیض میں دی ہوئی طلاق سخت گناہ اور معصیت ہونے کے باوجود پڑ جاتی ہے، اسی طرح ایک دفعہ میں دی ہوئی تین طلاق بھی جمہورِ امت کے نزدیک واقع ہوجاتی ہے، اس پر ائمہٴ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ متفق ہیں۔

          بعض لوگ ایسی صورت میں غیرمقلدین علماء کے پاس چلے جاتے ہیں؛ اس لیے کہ وہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں؛ حالاں کہ ائمہٴ اربعہ کے اتفاق اور اجماع کی صورت میں ان کے اختلاف کی کوئی اہمیت نہیں۔ کوئی چیز حرام ہوتو کسی کے کہنے سے حلال نہیں ہوسکتی، حدیث شریف میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے متعلق یہ اطلاع ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصہ کی حالت میں کھڑے ہوگئے اورارشاد فرمایا کہ: ابھی جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، کیا کتاب اللہ سے کھیلا جائے گا؟ (یعنی ایک ساتھ تین طلاق دینا قرآنِ پاک کے بتائے ہوئے طریقہٴ طلاق سے مذاق ہے) اس وقت ایک صحابی کھڑے ہوگئے، اور عرض کیا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اس آدمی کو قتل ہی نہ کردوں، جس نے یہ حرکت کی ہے؟ (سنن نسائی)

          اس حدیث شریف میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا کہ: تین طلاق ایک ہی کے برابر ہے؛ بلکہ اگر ایک کے حکم میں ہوتی تو آپ علیہ السلام کو غصہ ہی نہ آتا، غصہ اس بات پر آیا کہ قرآنِ پاک میں ”الطلاق مرتان الخ“ میں الگ الگ طلاق استعمال کرنے کی تلقین ہے۔

          تیسری طلاق دینے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ رکھنا ہے یا چھوڑنا؟ جیسا ارادہ ہو ویسا عمل کرے؛ لیکن اس آدمی نے ایسا نہیں کیا، اسی وجہ سے سرکارِ دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا۔

          غرض یہ کہ اگر کوئی آدمی تین طلاق دے دے تو تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہیں، اور دوبارہ اس شوہر کے پاس رجوع ہونے کی صورت صرف یہ ہوتی ہے کہ عورت عدتِ طلاق گذرنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرلے اور وہ دوسرا مرد اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد مرجائے یا اُسے طلاق دے دے تو پھر عدتِ وفات یا عدتِ طلاق گذرجانے کے بعد پہلے شوہر سے باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرے، تبھی تین طلاق دینے والے شوہر سے رشتہٴ زوجیت قائم ہوسکتا ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۹۹، مشکوٰة، ص:۲۸۴)

طلاق واقع ہونے کی شرطیں:

          وقوعِ طلاق کے لیے شوہر کا عاقل بالغ ہونا، بیداری اور ہوش وحواس کی حالت میں ہونا شرط ہے، یہی وجہ ہے کہ:

          (۱) ”نابالغ“ کی طلاق واقع نہیں ہوتی، یعنی اسلامی کلینڈر سے پندرہ سال کا لڑکا شرعی لحاظ سے بالغ کہلاتا ہے، جب کہ پندرہ سال سے پہلے بلوغ کی علامت ظاہر نہ ہوئی ہو، اگر بلوغ کی علامت (احتلام وانزال) پندرہ سال سے کم میں ظاہر ہوجائے تو وہ شریعت میں بالغ کہلائے گا، اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ (الدرالمختار علی ہامش رد المحتار، فصل فی بلوغ الغلام بالاحتلام ۵/۱۳۲، ۲/۵۷۶)

          (۲) ”پاگل یا کم عقل (معتوہ) کی طلاق“ بھی واقع نہیں ہوتی؛ اس لیے کہ اِن کے تصرفات، عقل وشعور سے خالی ہوتے ہیں، ان کے ارادے کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے۔

          اس صورت میں بیوی دارالقضاء یا شرعی پنچایت سے رجوع ہوکر اپنی پریشانی رکھ سکتی ہے؛ تاکہ وہاں شرعی لحاظ سے فسخِ نکاح کی کارروائی عمل میں آسکے۔

          (۳) ”بے ہوش“ آدمی کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے کہ اس وقت سوچنے سمجھنے کی قوت معطل رہتی ہے۔

          (۴) ”نیند کی حالت“ میں دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی۔

          (۵) خوف ودہشت کی وہ کیفیت جس میں انسان عقل کھوبیٹھے اس حالت کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی۔

          (۶) اسی طرح غصہ کی وہ حالت جس میں انسان پاگل ہونے کی حد کو پہنچ جاتا ہے، عقل مغلوب ہوجاتی ہے، وہ یہ بھی نہیں سمجھتا کہ کیاکہہ رہا ہے، کیا کررہا ہے؟ اس طرح کی کیفیت ہزاروں میں ایک آدھ کی ہوسکتی ہے۔ اس حالت کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ہے۔

          عام طور سے لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ غصہ کی حالت میں ہوش وحواس کھوگیا تھا، اس حالت میں میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غصہ کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؛ حالاں کہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا آدمی طلاق خوشی کی حالت میں دیتا ہے؟ طلاق تو ہمیشہ غصہ کی حالت ہی میں دیتا ہے؛ اس لیے محض غصہ ہونا، طلاق کے عدمِ وقوع کے لیے کافی نہیں ہے؛ بلکہ عقل وحواس کھوکر جنون کی حد میں داخل ہونے کی حالت میں بے اختیار طلاق کا زبان سے نکل جانا مراد ہے۔

          ایک بار ایک صاحب سے میں نے پوچھا کہ: اس حالت میں آپ نے کتنی طلاق دی؟ کچھ یاد ہے؟ انھوں نے کہا کہ: ہاں، تین طلاق دی تھی! ظاہر سی بات ہے کہ اگر ”تین طلاق“ یاد ہے تو وہ حواس باختہ ہونے کی حالت کیسے کہی جاسکتی ہے؟ دارالافتاء کے ماحول میں چودہ سال میں صرف ایک واقعہ ایسا آیا، جس میں واقعتا صاحبِ واقعہ غصہ کی اس حد میں پہنچا ہوا معلوم ہوا۔

          اس موقع پر مفتیوں کو بہت ہی گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے، عموماً لوگ حیلہ کرنے کے لیے، اور طلاق کے واقع نہ ہونے کا فتویٰ حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں؛ حالاں کہ لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی چیز حرام ہوگئی ہے تو مفتیوں کے کہنے سے حلال نہیں ہوسکتی؛ اس لیے سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

          (۷) نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۵۹) البتہ درج ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں:

          (الف) بطور دوا وعلاج نشہ آور شے استعمال کی گئی، تو طلاق واقع نہ ہوگی۔

          (ب) اگر کوئی بھوک کی وجہ سے مرنے کے قریب تھا، اس حالت میں جان بچانے کے لیے شراب اور نشہ آور چیز کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی، اس نے مجبور ہوکر نشہ آور چیز استعمال کی تو اس حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

          (ج) اگر کسی کو جان سے مارنے کی دھمکی کے ساتھ نشہ آور چیز استعمال کرائی گئی، اس وقت غالب گمان ہوکہ اگر وہ استعمال نہیں کرے گا تو سخت جسمانی مضرت یا کوئی ناقابل برداشت نقصان پہنچ سکتا ہے تو اس حالت میں دی گئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

          (د) کوئی چیز استعمال کرلی جس سے نشہ ہوگیا؛ لیکن استعمال سے پہلے اس کے نشہ آور ہونے کا علم نہیں تھا، اتفاق سے وہ نشہ آور نکلی تو اس حالت میں دی گئی طلاق واقع نہ ہوگی، جب کہ نشہ بہت زیادہ ہوگیا ہو، زمین وآسمان کا فرق بھی اس حالت میں نہ ہو۔ (مستفاد از: مجموعہ قوانین اسلامی ص:۱۳۴، حسامی ص:۱۵۷، رد المحتار ۲/۵۸۷، ۳/۲۴۰، ۳/۳۴۰ مطبوعہ کراچی)

          (۸) جبر واکراہ کی حالت میں اگر کسی نے مجبور ہوکر زبان سے طلاق دی تو طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں، اگر کسی نے مجبور کرکے طلاق نامہ لکھوایا یا طلاق نامہ تیار کرکے دستخط پر مجبور کیا، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (ایضاً بحوالہ ردالمحتار ۲/۵۷۹)

          (۹) ہنسی مذاق میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ (مشکوٰة ص:۲۸۴)

          (۱۰) اگر مریض بحالتِ ہوش وحواس طلاق دے تو واقع ہوجائے گی۔ (بدائع الصنائع ۳/۱۰۰)

          (۱۱) گونگا اگر لکھ کر طلاق دے، یا اشارہ سے طلاق دے تو اس کی طلاق بھی واقع ہوجائے گی۔ (ہدایہ ۲/۳۵۹)

تحریری طلاق:

          جس طرح زبان سے طلاق واقع ہوتی ہے، اسی طرح تحریر لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:

          ۱-       باضابطہ طلاق نامہ، یا خط پتہ اور مخاطب کی صراحت کے ساتھ تیار کیاگیا تو طلاق واقع ہوگئی؛ اس لیے کہ اس صورت میں تحریر، تلفظ کے قائم مقام ہوتی ہے۔

          ۲-       اگر یوں ہی کسی کاغذ یا دیوار پر لکھے کہ ”طلاق ہے، یا طلاق دی“ اور نیت اس سے بیوی کو طلاق دینا ہوتو بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔

          ۳-       پانی یا ہوا میں ”طلاق“ لکھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، چاہے نیت کرلے۔ (مجموعہ قوانین اسلامی ص۱۳۰، بحوالہ الدرالمختار مع رد المحتار ۲/۵۸۹)

فون پر طلاق:

          فون پر طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

عورت اگر طلاق منظور نہ کرے:

          بعض لوگوں کو غلط فہمی رہتی ہے کہ بیوی طلاق کو قبول کرے تب ہی طلاق واقع ہوگی، ایسی بات نہیں، طلاق میں بیوی کی رضامندی اور عدمِ رضامندی کو کوئی دخل نہیں ہے۔

بیوی کی طلاق:

          طلاق کا حق شوہر کو ہے بیوی کو نہیں؛ اس لیے اگر بیوی اپنے اوپر طلاق لے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور اگر وہ شوہر کو طلاق دے تو بھی طلاق نہیں ہوتی، یہ جہالت کی بات ہے۔

حمل کی حالت میں طلاق:

          بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حمل کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی؛ حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؛ البتہ طلاق کی عدت، ولادت کے بعد پوری ہوجاتی ہے۔

بلاگواہ طلاق:

          بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بلا گواہ طلاق واقع نہیں ہوتی؛ حالاں کہ ایسا نہیں، طلاق کے لیے گواہ کی ضرورت نہیں، بلاگواہ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

بیوی کی موجودگی میں طلاق:

          بیوی موجود نہ ہو تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ یہ خیال نہیں رکھنا چاہیے کہ بیوی اگر موجود ہے تو ہی طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں۔

ایک طلاق بھی کافی:

          جیساکہ اوپر بتایاگیا کہ ایک طلاق بھی طلاق مانی جاتی ہے اور واقع ہوجاتی ہے، یہ خیال رکھنا کہ تین سے کم طلاق واقع نہیں ہوتی غلط ہے، لوگ نادانی میں تین ہی کو طلاق سمجھتے ہیں؛ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ایک طلاق سے بھی بیوی جدا ہوجاتی ہے، مزید یہ کہ اس صورت میں سوچنے کا پورا موقع رہتا ہے۔

طویل جدائی کے باوجود نکاح کی بقا:

          بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ طویل جدائی کے بعد نکاح خود بخود ختم ہوجاتا ہے، بیوی شوہر سے قانوناً الگ سمجھی جاتی ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ اچھی طرح سمجھے رہنا چاہیے کہ شوہر چاہے پوری عمر جدا رہے، اس کے طلاق دیے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔

          ایسی عورتیں جو اس طرح کی آزمائش میں ہوں، ان کو دارالقضاء یا شرعی پنچایت سے رجوع ہوکر اپنا حل تلاشنا چاہیے۔

          اب اس طرح کے واقعات بھی پیش آنے لگے ہیں کہ عورتیں طویل جدائی کے بعد اپنے کو مطلقہ سمجھ کر دوسری جگہ نکاح کرلیتی ہیں، اس طرح وہ صاحبِ اولاد بھی ہوجاتی ہیں؛ حالاں کہ ایک نکاح کے باقی رہتے ہوئے دوسرا نکاح منعقد ہوتاہی نہیں؛ اس لیے اولاد بھی حرام ہی پیدا ہوتی ہے۔

وکیل کے ذریعہ طلاق:

          شوہر کو طلاق دینے کا حق ہے؛ لیکن اگر وہ حق کسی دوسرے کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے، مثلاً: اگر وہ وکیل کے ذریعہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو دے سکتا ہے، وکیل کو جتنی طلاق کا وکیل بنائے گا اتنی ہی دے سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

          اگر وکیل کو ایک طلاق کی وکالت کی اجازت دی اور اس نے تین طلاق دے دی، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

          اگر وکیل نے تین طلاق کا طلاق نامہ بناکر پڑھ کر سنادیا، اوراس پر شوہر نے دستخط کیا تو تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی۔ اکثر وکلاء طلاق کا وکالت نامہ تیار کرنا نہیں جانتے؛ اس لیے جب بھی ان سے طلاق نامہ تیار کرایا جاتا ہے، وہ تین طلاق لکھ دیتے ہیں، ایسی صورت میں موٴکل مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔

بیوی کو تفویضِ طلاق:

          اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق لے لینے کا اختیار سپرد کردے، تو بھی طلاق واقع ہوجائے گی، اگر ایک طلاق کا اختیار دیا اوراس نے ایک سے زیادہ طلاق اپنے اوپر واقع کرلی تو زائد کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔

          تفویضِ طلاق کے بعد شوہر اس سے رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ (مجموعہ قوانین اسلامی ص:۱۵۴، بحوالہ الدرالمختار علی ہامش رد المحتار ۲/۶۶۹)

انشاء اللہ کے ساتھ طلاق:

          اگر کوئی آدمی بیوی کو طلاق دینے کے ساتھ ہی ”انشاء اللہ“ کہہ دے تو طلاق واقع نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ انشاء اللہ کا مطلب ہے کہ ”اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا“ تو اللہ تعالیٰ کا چاہنا کیسے معلوم ہوگا؟ لہٰذا طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (ہدایہ ۲/۳۸۸)

تعلیقِ طلاق:

          اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے کہے: ”اگر تم نے نماز نہیں پڑھی تو تم کو طلاق ہے“ یا ”اگر تم آج پانچ بجے شام تک میرے گھر نہ آئی تو تم کو طلاق ہے“ تو پہلی صورت میں اگر بیوی نماز نہیں پڑھے گی تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور دوسری صورت میں پانچ بجے شام کے بعد آئے گی یا نہیں آئے گی تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔

          حاصل یہ کہ طلاق کو کسی کام یا وقت پر معلق کرنے سے طلاق معلق ہوجاتی ہے، اور اس چیز کے واقع ہونے کی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

طلاق کے بعد افسوس یا کفارہ:

          بعض لوگ کہتے ہیں کہ طلاق دینے کے بعد مجھے بہت افسوس ہوا، میں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی، تو کیا افسوس کرنے اور توبہ کرنے کے بعد بھی طلاق واقع ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح بندوق کی گولی چل جانے کے بعد افسوس کرنے سے اور توبہ کرنے سے دوبارہ واپس نہیں آتی، اسی طرح طلاق بھی دوبارہ واپس نہیں ہوتی۔

          بعض لوگ طلاق کا کفارہ پوچھتے ہیں، یا طلاق دینے کے بعد چند مسکینوں کو کھانا کھلاکر دوبارہ ساتھ رہنے لگتے ہیں، یہ طریقہ بھی جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ شریعت میں طلاق کا کوئی کفارہ مقرر نہیں ہے؛ اس لیے اگر تین طلاق دے کر اس طرح کے ڈھونگ رچتا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ کفارہ سے حلال نہیں ہوگی۔

ایک مشورہ:

          جب بھی میاں بیوی کے درمیان ایسا شدید اختلاف ہوجائے کہ ایک ساتھ رہنا ناممکن سمجھ میں آرہا ہوتو دونوں طرف کے ایک ایک یا چند افراد جمع ہوکر اختلاف کی وجوہات پر محض اللہ واسطے غور کریں، اگر اتفاق کی کوئی صورت سمجھ میں آجائے تو ملادیں، یہ مضمون قرآنِ پاک میں وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ (نساء ۳۵)

          اگر اس طرح بھی اتفاق نہ ہوسکے تو شوہر کو کسی بڑے عالم یا قریبی دارالافتاء سے رجوع ہوکر طلاق کی سب سے اچھی اور بہتر صورت معلوم کرنی چاہیے، اس طرح طلاق دینے کے ناجائز اور مکروہ طریقے سے بچنا ممکن ہوگا، اپنی مرضی سے طلاق دینے میں عام آدمی اکثر غلط طریقہ ہی اپنا لیتا ہے۔ یا اکٹھے تین طلاق دے کر ایسی شرمندگی اور گناہ اپنے سر لاد لیتا ہے، جس کی تلافی کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اللہ تعالیٰ طلاق جیسے منحوس ومکروہ عمل سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
از: مفتی اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/05-Talaq-Sharai%20Rahnumai_MDU_6_June_12.htm
طلاق کی قسمیں
طلاق کی تین قسمیں ہیں:
(١) ''طلاق احسن'' یعنی شوہر بیوی کو ایک طلاق دے،ایسے طہرمیں جو جماع سے خالی ہو اور اُسی حالت میں بیوی کو چھوڑ دے تاآنکہ عدت پوری ہوجائے یا رجوع کرنا چاہے تو زمانہ عد ت میں رجعت کرلے۔
(٢) طلاق کی دوسری قسم'' طلاق حسن'' ہے یعنی مدخول بہا عورت کو تینطلاق الگ الگ طہر میں دے
(٣) تیسری طلاق کو'' طلاق بدعی'' کہتے ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں ،پہلی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی طہر میں تین طلاق (الگ الگ مجلس میں) دے ۔ (ہدایہ ١/٢٢١، مطبوعہ بیروت ، ١٩٩٥ء )
اول الذکر دوقسموں کاذکر قرآن وحدیث دونوں میں موجود ہے ، پہلی قسم کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں ہے یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ (سورہ طلاق:١) اے نبی ۖ جب آپ طلاق دیں عورتوں کو تو اُن کو طلاق دیجئے اُن کی عدت پر، یعنی طہر میں طلاق دیجئے تاکہ اُس کے بعد والا حیض عدت میں شمار ہو جائے اور حدیث سے یہ قید بھی ثابت ہے کہ اُس طہر میں صحبت نہ کی ہو چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی ، حضرت عمر نے آپ ۖ سے اِس کا ذکر کیا تو آپ ناراض ہو گئے اورکہا کہ ابن عمر کو رجوع کرلینا چاہیے اوربیوی کو نکاح میں باقی رکھنا چاہیے تاآنکہ عورت کود وسرا حیض آجائے اور اُس حیض سے پاک ہو جاوے تو اب اگر ابن عمر کو مناسب معلوم ہو تو بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، الخ ۔ (نسائی ٣٣٩١، بخاری ٥٢٥١،مسلم ١٤٧١، ابن ماجہ ٢٠١٩)
طلاق کی دوسری قسم کا ذکر اِس آیت میں ہے اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاک بِّمَعْروْفٍ اَوْ تَسْرِیْح بِّاِحْسَانٍ (سورہ بقرہ : ٢٢٩) طلاق رجعی دوبارہے ، اِس کے بعد دستور کے موافق بیوی کو رکھنا ہے یا بھلے طریقے سے چھوڑدینا ہے یعنیطلاق جس میں رجعت ہو سکے کل دوبارہے ، ایک یادوطلاق تک تو اختیار دیا گیا کہ عدت کے اندر مردچاہے توعورت کو پھر دستور کے موافق رکھ لے یا بھلی طرح سے چھوڑدے، پھر عدت کے بعد رجعت باقی نہیں رہتی ،ہاں اگر دونوں راضی ہوں تو وہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں اور اگر تیسری بار طلاق دے گا تو پھر ان میں نکاح بھی درست نہیں ہوگا جبتک کہ دوسرا خاوند اِس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلیوے۔ (ترجمہ شیخ الہند)اورطلاق کی دوسری قسم کا ذکر حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس حدیث میں ہے کہ سنت طریقے پر طلاق یہ ہے کہ شوہر ایک طلاق دے ایسے طہر میں جس میں جماع نہ کیا ہو،پھر عورت کو حیض آوے اورحیض سے پاک ہو جائے تو دوسری طلاق دی جائے پھر عورت تیسرے حیض سے بھی پا ک ہو جائے تو تیسری طلاق دے اوراب عورت ایک حیض عدت گزارے گی (اخرجہ النسائی ٣٣٩٤، وابن ماجہ ٢٠٢١)
اورمذکورہ دونوں قسمو ںکا مجموعی ذکر اس آیت میں ہے : وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ ( سورہ بقرہ ٢٣١)جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک طلاق یا دو طلاق الگ الگ طہر میں دینے کی صورت میں رجعت کا حق صرف عدت تک ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے یا تورجعت کرے (اگر بھلے طریقے پر رکھنا ہے) یا بھلے طریقے پرچھوڑدے اورعدت گزرجائے۔
مندرجہ بالا تینوں آیتوں میں اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ دوطلاق تک شوہر کو عدت کے زمانے میں رجعت کا حق باقی رہتا ہے ، عدت گزرنے کے بعد رجعت کا حق با قی نہیں رہتا ہے بلکہ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا اورتین طلاقدینے کی صورت میں زمانہ عدت میں نہ تو رجعت کا حق باقی رہتا ہے اورنہ ہی عدت کے بعد اِس سے نکاح درست ہے جب تک دوسرا شوہر اِس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلے۔
قرآن کریم میںطلاق کی صرف دوقسموں کا ذکر کرنے کی حکمت ومصلحت دوسری آیت میں ملتی ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے : وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ مَخْرَجًا ( سورہ طلاق : ٢) وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ مِنْ اَمْرِہ یُسْرًا ( سورہ طلاق :٤) لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا( سورہ طلاق: ١) یعنی طلاق کی بابت جو اللہ سے ڈرے اور اُس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق طلاقدے تو ممکن ہے کہ اللہ اُس پر رحم وکرم اورنرمی کا معاملہ کریں اورکوئی سبیل پیدا فرمادیں بایں طور کہ طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ شوہر کے دل میں بیوی کی محبت پیدا کر دیںاورشوہر بیوی کو چاہنے لگے اوررجعت کرلے اورظاہر ہے کہ تین طلاق دینے کی صورت میں رجعت نہیں کرسکتا ۔
مندرجہ بالا آیتوں میں سے کسی ایک بھی آیت میں تیسری قسم کا بیان ہے ہی نہیںکہ جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دیں تو اُس کا کیا حکم ہے؟ قرآن نے اِس کا ذکرہی نہیں چھیڑا ہے بلکہ اس کا ذکر صرف احادیث ِصحیحہ شریفہ میں آیا ہے، اس لیے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ماننے پر قرآن کریم سے استدلالجس طرح غلط ہے اس سے کہیں زیادہ غلط یہ نظریہ ہے کہ'' ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا جائے،تین ماننا قرآن کے خلاف ہے ۔'' اس لیے کہ جب قرآن میں سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں ہے تو ایک ماننے کو قرآن کے حکم کے موافق اورتین ماننے کو قرآن کے خلاف بتانا کہاں کا انصاف ہے؟ اور تمام اصولیین کے نزدیک یہ قاعدہ مسلَّم ہے کہ جب کوئی حکم قرآن میں مذکور نہ ہو تو احادیث کی طرف رجوع کیا جائے گااور احادیث کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا اوراِس صورت میں حدیث ''جآء بحکم لم یزکرفی القرآن الکریم ''کے قبیل سے ہوگی ۔
طلاق ثلاثہ اورائمہ مجتہدین :
پہلے ہم ایک مجلس کی تین طلاق کی بابت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ (جو اسلام کے سب سے اعلیٰ اورممتاز ترین ماہر قانون تھے)کا نظریہ ذکر کریں گے کہ اِن حضرات نے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا ہے یا تین ، پھر اُن احادیث وآثار کو ذکرکریں گے جن میںایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے کہ ان احادیث وآثار میں آپ ۖ اورصحابہ کرام نے کیا فیصلے اورفتوے صادر فرمائے۔
امام نووی ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں ائمہ اربعہ کا نظریہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ علماء کا اُس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو اپنی بیوی سے انت طالق ثلاثا کہے (میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں)۔ امام شافعی ،امام مالک ، امام ابوحنیفہ ، امام احمد اورجمہور علماء سلف وخلف اس بات کے قائل ہیں کہ تینوںواقع ہو جائیں گی۔ (شرح نووی علی صحیح مسلم : ٥/٣٢٨ ، تحقیق حازم محمد واصحابہ ، طباعت : ١٩٩٥ء )
امام نووی کے اِس بیان سے معلوم ہوگیا کہ ائمہ اربعہ نے ایک مجلس کی تینطلاق کو تین ہی مانا ہے ، ایک نہیں مانا۔ لیکن افسوس غیر مقلدین پر نہیں ہے بلکہ حیرت اورتعجب اُن لوگوں پر ہے جو اپنے آپ کو مقلد بھی ظاہر کرتے ہیں اورکہتے بھی ہیں ، پھر بھی ائمہ اربعہ کے مسلک کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اورمجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے پر اصرار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ تین ماننا اسلامی انصاف اورقانون کو مسخ کرنا ہے۔ اب ہم اُن احادیث کو ذکر کریں گے جن میں ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے۔
طلاق ثلاثہ اوراحادیث :
(١) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بیوی کو تینطلاقیں دیں ،اُس عورت نے دوسرا نکاح کرلیا۔ دوسرے شوہر نے بھی (قبل الوطی )طلاق دے دی ۔آپ ۖسے پوچھا گیا کہ کیا وہ پہلے مرد کےلیے حلال ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک دوسرا شوہر پہلے شوہر کی طرح لطف اندوز نہ ہولے۔ (صحیح بخاری : ٥٢٦١، صحیح مسلم : ١٤٣٣)ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے والے حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں''طلق امرأتہ ثلاثاً'' میں ثلاث سے مراد ثلاثِ مفرقہ ہے یعنی یہ تینوں طلاقیں ایک مجلس میں نہیں دی گئی تھیں اس لیے اِس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال فاسد ہے۔
لیکن اِن حضرات کا ثلاث سے ''ثلاثِ مفرقہ'' (تین طہر میں ایک ایک کرکے طلاق دینا)مراد لینا غلط ہے بلکہ ثلاث سے مراد ثلاث مجموعہ (ایک ہی دفعہ تینوں طلاق دینا) ہے کہ صحابی نے دفعتاً واحدہ (ایک مجلس میں) تینوں طلاق دی تھیں ، ثلاث ِمفرقہ مراد لینا خلاف ظاہر ہے اوراِس پر کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے، اس کے برعکس مجموعہ مرا دلینا ظاہر لفظ کے عین مطابق ہے، نیز ثلاث مجموع کے متعین ہونے کی تائید امام بخاری جیسے حدیث داں اورمحدث کے ترجمة الباب سے ہوتی ہے ، موصوف اِس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں ،باب من جوز الطلاق الثلاث۔ اور شارح بخاری حافظ ابن حجر ترجمة الباب کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں : ھذا یُرجح أن المراد بالترجمة بیان من أجاز الطلاق الثلاث ولم یکرھہ، اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ترجمة الباب کا مقصد اس امر کا بیان ہے کہ تین طلاقوں کو جائز قراردیا اور اُس کومکروہ نہیں سمجھا ۔ (فتح الباری : ٩/٣٦٧)
(٢) ایک مجلس کی تین طلاق کے جائز اور آپ ۖ سے ثابت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رفاعہ قرظی کی بیوی آپ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورکہا کہ اے اللہ کے رسول : ان رفاعة طلقنی فبت طلاقی کہ رفاعہ نے مجھے طلاق قطعی دے دی (عدت گزرنے کے بعد) میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کرلیا۔ لیکن اُن کے اندر قوت رجولیت ختم ہوگئی ہے، آپ ۖ نے فرمایا ! شاید تمہاری خواہش یہ ہے کہ پھر رفاعہ کی زوجیت میںچلی جائو، ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ (عبدالرحمن )تم سے اورتم اُس سے لطف اندوز نہ ہولو۔( بخاری: ٥٢٦٠)
حضرت عائشہ کی پہلی حدیث اوریہ حدیث دونوںالگ الگ ہیں، حافظ ابن حجرنے اِسی کو راجح قرار دیاہے اوردونوں احادیث کو الگ الگ واقعہ پر محمول کیا ہے۔
مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے اِس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے تین طلاق کا ذکر نہیں ہے لیکن یہ کہنا کم علمی کی دلیل ہے اس لیے کہ خود امام بخاری نے کتاب اللباس میںس حدیث کو ذکرکیا ہے اوراِس میں'' ثلاث تطلیقات''ہے کہ رفاعہ نے تین طلاق دی تھی ، طلاق البتہ (مغلظہ) نہیں دی تھی ،یہ راوی کا اپنا بیان ہے۔
اس کے بعدبھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس تین طلاق سے کیا مراد ہے ؟ ''ثلاث مجموعہ'' مراد ہے کہ ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی یا'' ثلاث ِمفرقہ'' مراد ہے کہ الگ الگ مجلس میں طلاق دی تھی۔ مجلس کی تینطلاق کا انکار کرنے والے ثلاث ِمفرقہ ہی مراد لیتے ہیں لیکن امام بخاریکی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ رفاعہ نے ایک مجلس میں تینوں طلاق دی تھیں اورآپ ۖنے تینوں طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا جیسا کہ حلالہ کی بات سے پتہ چلتا ہے لہٰذا تین طلاق کے منکرین کی بات یہاں بھی غلط ثابت ہوگئی اورمجلس کی تین طلاق کا جواز اورثبوت اِس حدیث سے بھی ثابت ہوگیا(تفصیل کے لیے دیکھئے ، فتح الباری : ٩/٣٦٧، ٤٦٨)
(٣) فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں: طلقنی زوجی ثلاثاً وھو خارج الی الیمن فاجاز ذلک رسول اللّٰہ ۖ (میرے شوہر حفص بن عمرو نے مجھے تین طلاق دے دی اوروہ یمن کے سفر میں تھے ، آپ ۖ نے اِس کو جائز یعنی نافذ قرار دیا)(اخرجہ ابن ماجہ ٢٠٢٤)۔
اس روایت میں اضطراب دکھلانے کی بے جاکوشش کی جاتی ہے کہ بعض روایت میں ہے کہ پہلے فاطمہ کو دوطلاق دی گئی تھیں پھر تیسری طلاق دی اور بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حفص نے'' طلاق البتہ'' دی تھی اوربعض روایت میں مطلق طلاق کا ذکر ہے تعداد کا ذکر ہی نہیں ہے۔ (دیکھئے : التعلیق المغنی علی الدار قطنی: ٤/١١)
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حفص نے تین طلاق دی تھیں اورایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھیں ، اس لیے کہ دار قطنی کی روایت میں ہے کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن کے پاس کچھ لوگوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کو مکروہ ہونے کا تذکرہ کیا ، ابو سلمہ نے کہا کہ حفص بن عمرو نے فاطمہ بنت قیس کو ایک مجلس میں تین طلاق دی تھیں لیکن کسی روایت سے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ آپ نے اِس پر نکیر فرمائی ہو ۔ (اخرجہ الدارقطنی : ٤/١١)
الغرض مذکورہ روایت میں اضطراب نہیں ہے بلکہ دارقطنی کی روایت کی وجہ سے تین طلاق کی روایت کو ترجیح دی جائے گی اورحدیث مضطرب میں سے کسی ایک کو دوسرے پرراجح قرار دینے کے بعد اِس کا اضطراب ختم ہوجاتا ہے ، رہا یہ سوال کہ دارقطنی کی روایت کو ترجیح کیوں دی گئی تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اس کے الفاظ کا اختلاف ختم ہو جاتا ہے اوراُن کے درمیان تطبیق ہوجاتی ہے، ورنہ کم ازکم دارقطنی کی روایت کو ترک کرنا
پڑے گااگر ترجیح کی کوئی دوسری صورت اختیار کی گئی ۔
نیز امام ابن ماجہ کی تبویب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حفص نے ایک ہی مجلس میںتینوں طلاقیں دی تھیں ، موصوف اِس حدیث پریوں عنوان لگاتے ہیں : من طلق ثلاثاً فی مجلس واحد جس نے ایک مجلس میں تینطلاقیں دیں اورحضرت فاطمہ بنت قیس کی تطلیق کی مذکورہ روایت کو بہ سند ذکر کیا ہے۔
( ٤) شروع میں حضرت ابن عمر کی تطلیق (طلاق دینے )کی جوحدیث گزری ہے اُس کے بعض طرق میں حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں : فقلت (ابن عمر) یارسول اللّٰہ أرأیت لو أنی طلقتھا ثلاثا أکان یحل لی أن أراجعھا ؟قال: لا،کانت تبین منک وتکون معصیة (اخرجہ البیہقی: ٧/٣٣٤) صحیحین کے الفاظ یہ ہیں: 
وکان عبد اللّٰہ (بن عمر)اذا سئل عن ذالک قال ان کنت طلقتھا ثلاثا فقد حرمت علیک حتی تنکح زوجاً غیرہ ۔
بیہقی کی روایت کی وجہ سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ اس میں حضرت ابن عمر نے ثلاث مجموعہ کے بارے میں آپ ۖ سے سوا ل کیا ہے کہ کلمہ واحدہ میں تین طلاق دینے کے بعد رجعت کرنا درست ہے یا نہیں (یعنی تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں یا نہیں)۔ آپ ۖنے جواب میں فرمایا کہ اب رجعت نہیں کرسکتے ، اس لیے کہ طلاق کے بعد رجعت کا حق ختم ہو جاتا ہے اور تین طلاق دینا (ایک مجلس میں ) گناہ ہے۔
اس روایت میں ثلاث مجموعہ کے متعین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر نے حالت ِحیض میں بیوی کو ایک طلاق دی، اورآپ کا ارادہ یہ تھا کہ حیض سے پاک ہوجانے کے بعد طہر میں پھر طلاق دوں گاپھر حیض سے پاک ہوجانے کے بعد تیسری طلاق دوں گا ، جب آپ ۖ کو اِس کی اطلاع ہوئی تو ا پ ۖ نے صرف حیض میں طلاق دینے پر نکیر فرمائی کہ تم کوپہلی طلاق حیض کے بجائے طہر میں دینا چاہئے تھا ، سنت طریقہ یہی ہے ، تم رجعت کرلو ۔ پھر آپ ۖ نے سنت طریقے کی وضاحت بھی فرمادی تاکہ بقیہ دوطلاق کے استعمال میں ابن عمر غلطی نہ کریں، اگرچہ اُن کا ارادہ پہلے ہی سے تھا کہ بقیہ دوطلاق طہر میں دوں گا ۔(امام ابن تیمیہ نے ''منتقی الاخبار''میں ابن عمر کے تطلیق کے قصہ میں دار ِ قطنی کے حوالے سے جو حدیث ذکر کی ہے اُس کا مفاد وہی ہے جوابھی ہم نے ذکر کیا ہے ، ملاحظہ ہو: منتقی الاخبار مع شرحہ نیل الاوطار: ٤/٣٢١،رقم ٢٨٥٢) اس حدیث میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ثلاث مفرقہ کا حکم خود آپ ۖ نے پہلے ہی حضرت ابن عمر کوبتادیا تھا، دوبارہ ابن عمر جیسا شخص اِس کے بارے میں پھر سوال کرے یہ ممکن نہیں ہے۔
بیہقی کی روایت پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ اِس میںایک راوی عطا ء خراسانی ہے اوریہ ضعیف ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابن معین، امام ابو حاتم، امام نسائی، دارقطنی اورابن سعد وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے اورعطاء سنن اربعہ اورمسلم کے رجال میں سے ہیں، لہٰذا اِن کو ضعیف کہنا غلط ہے۔ دیکھئے: تہذیب التہذیب /٧/٢١٣، ٢١٤، عطا ء خراسانی کا ترجمہ )
(٥) حضرت عویمر عجلانی کے لعان کی حدیث صحیحین وغیرہ میں ہے، اُس حدیث کے آخر میں حاضر واقعہ حضرت سہل بن سعد ساعدی کہتے ہیں:
فتلا عنا وأنا مع الناس عندرسول اللّٰہ ۖ ، فلما فرغاقال عویمر: کذبت علیھا یا رسول اللّٰہ ان أمسکتھا ، فطلقھا ثلاثاً قبل أن یأ مرہ رسول اللّٰہ ۖ ۔ (بخاری ٥٢٥٩، مسلم ١٤٩٢)
ابو دا ؤد کے الفاظ یہ ہیں : فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللّٰہ ۖ فانفذہ رسول اللّٰہ ۖ ۔ (سنن ابی دا ؤد ، حدیث ٢٢٥٠)
حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان دونوں (عویمر اوراُن کی بیوی )نے لعان کیا اور میں بھی لوگوں کے ساتھ حاضر خدمت تھا، جب میاں بیوی لعان سے فارغ ہوگئے تو عویمر نے کہا : اے اللہ کے رسول ۖ ! اگر میں نے اس کو نکاح میں روک لیا تب تومیں نے اس پر غلط الزام لگایا ہے(اورالزام جھوٹا نہ ہونے کی وجہ سے ) حضرت عویمر نے بیوی کوتین طلاق دے دیں ، آپ کی طرف سے حکم صادر ہونے سے پہلے ہی ، اورابودائود کی روایت میں ہے کہ عویمر نے بیوی کو تین طلاق دیں اورآپ ۖ نے تینوں کو نافذ بھی کردیا۔
یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد ایک ہی مجلس میں تین طلاق دی تھیں جیسا کہ ظاہر لفظ سے پتہ چلتا ہے لیکن اِس پر اشکال یہ ہوتا ہے کہ لعان میں میاں بیوی کے درمیان جدائی نفس لعان سے ہو جاتی ہے طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہے ،اس لیے جب عویمر اور اِن کی بیوی لعان سے فارغ ہو گئے توان کے درمیان فرقت ہو گئی ، اب عویمر کاطلاق دینا غیر محل (اجنبیہ )میں تھا (دیکھئے : نیل الا وطار: ٤/٣٢١۔تحقیقعادل عبدالموجود واصحابہ ، مطبوعہ بیروت ، طباعت ٢٠٠٠ئ)
حافظ ابن حجر نے اِس کا جواب یہ دیا ہے کہ اِس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال اس بات سے ہے کہ جب حضرت عویمر نے آپ ۖ کے سامنے ایک مجلس میں تین طلاق دیں تو آپ ۖنے نکیر نہیں فرمائی ، اگر تین طلاق دینا (ایک مجلس میں )ناجائز اورحرام ہوتا توآپ ۖ ضرور نکیر فرماتے، قطع نظر اِس سے کہ فرقت تو نفس لعان سے ہوگئی یا نہیں ، ان کی بیوی محل طلاق تھی یا نہیں (دیکھئے : فتح الباری ٩/٣٦٧)۔
(٦) سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ جب حضرت علی شہید کردئیے گئے تو حسن بن علی کی بیوی عائشہ خثعمیہ نے آکر حضرت حسن سے کہا: آپ کو خلافت مبارک ہو ، حضرت حسن نے کہا : امیر المومنین کی شہادت پر مجھے مبارک باد دیتی ہے، جا ! تجھے طلاق دیتا ہوں (ایک روایت میں تین طلاق کا ذکر ہے، دیکھئے ، دارقطنی: ٤/٣٠)
اور حضرت حسن نے کہا : اگر میں نے اس کو طلاق بائن نہ دی ہوتی تو میں اِس سے رجعت کرلیتا، مگر میں نے اللہ کے رسول ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے ہر طہر میں ایک طلاق یا ہرمہینے کے شروع میں ایک طلاق یا بیک وقت (ایک مجلس میں )تین طلاق دے تو اُس کے لیے وہ عورت حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے (اخرجہ الدار قطنی : ٤/٣١، والبیہقی : ٧ /٣٣٦) ۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ اکٹھی تین طلاق دے چکنے کے بعد رجوع کرنا ایسا ہی حرام ہے جیسا کہ متفرق طورپر تین طہر میں تین طلاقیں دینے کے بعد حرام ہے، اگر دفعتاً تین طلاقیں دینے کے بعد بھی رجوع کی کوئی امکانی صورت باقی ہوتی تو حضرت حسن ضرور مراجعت فرمالیتے۔
اس حدیث پر جو اعتراض کیا گیا ہے وہ بقول مولانا شمس الحق صاحب عظیم آبادی غیر مقلد یہ ہے کہ اِس کی سند میں دوراوی ضعیف ہیں، پہلا راوی عمروبن ابی قیس ہے اوردوسر ا سلمہ بن فضل ہے اوریہ بھی اُن کے بقول ضعیف ہے ۔ (دیکھئے التعلیق المغنی علی الدارقطنی : ٤/٣١)
لیکن غیر مقلد صاحب کا یہ اعتراض اصول حدیث کے پیشِ نظر کوئی وزن نہیں رکھتا اورمذکورہ حدیث حسن سے کسی طرح کم نہیں ہے کیونکہ عمرو بن ابی قیس سے امام بخاری نے تعلیقاً روایت کیا ہے اورامام ابو دائود ،نسائی ، ترمذی اورابن ماجہ نے اِن سے استدلال کیا ہے، ابن ِحبان اور ابن ِشاہین ان کو ثقات میں لکھتے ہیں اورامام بزارن کو مستقیم الحدیث سے یاد کرتے ہیں (ملاحظہ ہو: تہذیب التہذیب : ٨/٩٤)۔
اسی طرح سلمہ بن فضل کی امام ابن معین نے ایک روایت میں توثیق کی ہے ، علامہ ابن سعد اِن کو ''ثقہ صدوق''کہتے ہیں،امام ابودائود بھی اِن کو ثقہ کہتے ہیں،اما م احمد فرماتے ہیں کہ مجھے اِن کے بارے میںخیر ہی معلوم ہے ۔ (دیکھئے تہذیب التہذیب لابن حجر : ٤/١٥٣)
آثار صحابہ :
ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز اوروقوع پراحادیث صحیحہ مرفوعہ سے استدلال کے بعد اب ہم صحابہ کرام کے فتاوٰی اورآثار کو ذکر کررہے ہیں کہ صحابہ کرام نے مجلس کی تین طلاق کو ایک نہیں مانا بلکہ تین مانا ہے اوروہ آثار درج ذیل ہیں :
(١) مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباسکے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہیں، حضرت ابن عباس خاموش رہے ۔مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابن عباس بیوی کو اِس آدمی کے نکاح میں لوٹا دیں گے ،پھر ابن عباس نے کہا : تم لوگ حماقت کا کام کرتے ہو پھر آکر چلاتے ہو ،اے ابن عبّاس ، اے ابن عبّاس ، اللہ فرماتا ہے : ومن یتق اللّٰہ یجعل لہ مخرجاً، اورتم اللہ سے نہیں ڈرتے اس لیے میرے یہاں تمہارے لیے کوئی سبیل نہیں ہے ، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اورتمہاری بیوی تم سے جد اہو گئی ۔ (اخرجہ ابودائود: ٢١٩٧، دار قطنی : ٤/١٣)
(٢) حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزارطلاق دے دیں ، حضرت ابن عبّاس نے کہا تمہارے لیے کافی تھا کہ تینطلاق دے دیتے اوربقیہ نوسوستانوے ترک کر دیتے۔ (دارِقطنی ٤/١٢)
(٣) مدینہ میں ایک مسخرے آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دے دیں ، حضرت عمر کے پا س استفتاء آیا ، آپ نے کہا کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے ، اُس آدمی نے کہا نہیں ، میری نیت طلاق کی نہیں تھی میں تو مذاق کررہا تھا۔ حضرت عمر نے اُس کو کوڑے لگائے اورکہا کہ تین طلاقدینا کافی تھا۔ (عبدالرزاق فی المصنف ١١٣٤٠ ،بیہقی: ٧/٣٣٤)
(٤) ایک آدمی حضرت علی کے پاس آیا اورکہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی ہیں، آپنے فرمایا: تین طلاق نے بیوی کو تم پر حرام کردیا ہے یعنی بقیہ نوسو ستانوے لغوہو گئیں ۔ (بیہقی ٧/٣٣٥)
(٥) محمد بن ایاس کہتے ہیں کہ ابن عباس ،ابو ہریرہ اورعبداللہ بن العاص تینوں سے اُس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو قبل الدخول طلاق دے دی ، تینوں نے کہا عورت اِس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے (ابودائود: ٢١٩٩)بیہقی کی روایت میں یہ زیادتی ہے کہ ابن عباس اور ابوہریرہ نے اِس آدمی کی مذمت نہیں کی کہ اس نے تین طلاق کیوں دی اورنہ ہی عبداللہ بن عمرو نے یہ کہا کہ تین طلاق دے کر تم نے بہت برا کام کیا۔ (اخرجہ البیہقی : ٧/٣٣٠)
(٦) حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیوی تماضر بنت الاصبغ کو کلمہ واحدة (ایک مجلس میں )تین طلاق دے دیں ، عبدالرحمن کے شاگرد ابوسلمہ کہتے ہیںکہ کسی روایت سے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کسی صحابی رسول نے آپ پر نکیر کی ہو۔ (دارِقطنی : ٤/١٢)
(٧) مسلمہ بن جعفر احمسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذجعفر بن محمد سے پوچھا کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ جس نے نادانی میں بیوی کو طلاق دے دی تو اُس کو سنت کی طرف لوٹایا جائے گا یعنی ایک طلاق واقع ہوگی اور اس بات کو آپ سے روایت کرتے ہیں ۔ جعفر بن محمد نے کہا: اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ہم نے اِس طرح کی بات نہیں کہی ہے بلکہ جس نے تین طلاق دی تو اُس کے قول کا اعتبار ہوگا یعنی تین طلاق واقع ہوگی ۔(اخرجہ الامام البیہقی: ٧/٣٤٠)
طلاق ثلاثہ کے اِن ناقابل تردید حقائق وشواہد کے باوجود ایک مجلس کی تینطلاق کوایک ماننے پر اصرار کے پس پردہ نفسانی خواہشات کی پیروی کے علاوہ اور کون سا جذبہ ہوسکتا ہے، اوراب تو مسلمانوں کا ایک روشن خیال طبقہ مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کرنے لگا ہے اوربڑے جذباتی انداز میں تین طلاق کے حکم کو کالعدم قرار دینے اور عورتوں کو طلاق کا حق دینے کی تحریک چلا رہا ہے، ایسے تجدد پسندوں میں تقلید کے مخالفین نمایاں نظرآتے ہیں۔
اگر ایسے دانشور حضرات واقعی مسلمانوں کے ہمدرد ہوتے اوراسلام کی حقیقت پردل سے ایمان رکھتے تو طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے مسلمانوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کی تحریک چلاتے کہ تین طلاق دینا اگرچہ جائز ہے لیکن اسلام نے اِس حرکت کو مبغوض ترین عمل قراردیا، اِس جائز پر عمل نہ کرنا ہی افضلہے، کسی ایسے عمل کے جواز سے جس کی قباحت بھی واضح انداز میں بیان کردی گئی ہے بچنا اصل امتحان اوردینی بیداری کا ثبوت ہے ،مگر جدید ذہن کے دانشوروں کو تو اسلام میں تحریف کرنے کا اتنا ارمان ہے کہ وہ کسی طرح سے بھی اسلام کو جدید نصرانیت سے ہم آہنگ کرنے کے مشتاق ہیں۔ اُن کو اسلام کی کاملیت اورجامعیت پر فخر نہیں بلکہ مغربیت کی نقالی کرنے اوراسلامی قوانین پر اعتراض کرکے اپنے آپ کو روشن خیال مسلمان ثابت کرنے کا جنون ہے۔
ان حضرات سے میری تو یہی گزارش ہے کہ رسماً اسلام کو تھامنے کے بجائے یہ نفس پرست مفکرین اپنا کوئی نیا راستہ ہی اختیار کرلیں نہ مسلمانوں کو اِن کے مشوروں کی ضرورت ہے نہ اسلام کو اِن کی حاجت ہے، نہ ہی ایسے افراد مغربیت کے لیے موزوں ہیں اس لیے کہ خمیر میں ہند وستانیت ہے ، مزاج میں مغربیت ہے ، زبان پر مسلمانوں سے ہمدردی اوردل میں لیڈرشپ اوراقتدار کی ہوس ، یہ زرخرید ذہن والے صرف اخبار کی سرخیوں میں رہنے اورملت کے نام پر فتنہ انگیزی میں مشغول رہنے کے شوقین ہیں ،بہر حال یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ایسے افراد ہردور میں گزرے ہیں۔
جہاں تک عورت کوحق طلاق دینے کی بات ہے تو اسلام نے کب منع کیا ہے ، اگر آپ واقعی اتنے حساس ہیں تو اپنی بیوی کو حق طلاق تفویض کردیجئے، اپنے بچوں کو حکم دیں کہ وہ نکاح کرتے وقت اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اختیار سونپ دیں، پھر عورت کی بالادستی کا یورپی منظر اپنے گھروں میں عملاً دیکھیں ، انشاء اللہ ایک بھی عالم دین نہیں کہنے جائے گا کہ آپ نے عورت کو طلاق دینے حق کیوں دے دیا ہے۔
رہ گئی یہ بات کہ علماء کرام قانون بنا کر عورتوں کو اسلام کی طرف سے طلاقدینے کا ویسا ہی حق دے دیں جیسا کہ یورپ میں کورٹ میرج میں مردوعورت دونوں کو ایک دوسرے کو طلاق دینے کا حق ہوتا ہے ،تو اسلام بہرصورت ایسا حق عورتوں کو نہیں دے سکتا ، وہ مردوں کو'' قوام'' کہتا ہے تو اس کے بعد عورتوں کو قوام بنانا خلافِ فطرت بھی ہے اورخلاف عقل بھی ہے، پہلے دانشواران قوم مردوعورت کی تخلیقی حقیقت ، مزاج وطبیعت کو سنجیدگی سے مطالعہ وتحقیق کے ذریعہ جانیں پھر اِس موضوع پرلب کشائی کریں۔
ماہنامہ دارالعلوم دیوبند /مئی ٢٠٠٥
 

No comments:

Post a Comment