ایس اے ساگر
یہ امر کسی سے مخفی نہیں ہے کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی خطہ ارض کا حصہ ہیں۔ انسان کی انسان سے محبت اور خلوص تو عام بات ہے، لیکن انسان کی جانور سے محبت ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ دنیا میں انسان کی جانوروں سے محبت کی مثالیں موجود ہیں۔
پرندے پالنا ایک بڑا کاروبار اور مفید ترین مشغلہ ہے
٭۔۔۔۔۔۔ پرندے کا کاروبار اپنے لیے 50 فیصد توجہ چاہتا ہے، پوری خوراک، مسلسل لگن سے اچھی بریڈنگ ہوتی ہے
٭۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کے گھر میں 10x10 کی جگہ ہے تو آپ ماہانہ 25 سے 30 ہزار کماسکتے ہیں
٭۔۔۔۔۔۔ تھائی لینڈ، ہالینڈ ''اور نمنٹل ''اشیا کے لیے مشہور ہے، جہاں سے روزانہ دو، تین جہاز ''پھول'' لے کر اڑتے ہیں
آپ کے نایاب کا روبار سے متعلق معلومات سے ایک قد م پہلے ہم چاہیں گے آپ کا تعارف سامنے آجائے؟ جہانگیر سجاد
میرا نام جہانگیر سجاد ہے۔ میرے والد صاحب کا نام سجاد ہے۔ ہمارا آبائی علاقہ کشمیر ہے۔ والد صاحب حکیم تھے۔ ہمددر کمپنی میں کام کرتے رہے۔ اب ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ میں نے پری انجینئرنگ میں انٹر کیا ہے۔ اس کے بعد مختلف لینگویج کورسز بھی پڑھے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
اس کاروبار میں کیسے داخل ہوئے؟
جہانگیر سجاد
مجھے بچپن سے ہی پرندوں کا خاصا شغف تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ لوگ ایسے پیدا کیے ہیں، جن کو بچپن سے ہی جانوروں کا شوق اور ان سے لگاؤ ہوتا ہے۔ یہ چیز ان کے جینٹک میں شامل ہوتی ہے۔ اس شغف کی علامتیں بھی بچپن سے ہی نمایاں ہوتی ہیں۔ وہ کسی بلی کے بچے کوپکڑ کر اس سے کھیلنے لگتے ہیں۔ اجازت نہ ملے تو گھر کا دودھ چوری کرکے انہیں پلاتے ہیں، مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے کو اس قسم کی مشغولیت سے قطعی روک دیا جاتا ہے، حالانکہ اگر شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس کی اجازت دے دی جائے تواس قسم کے شوق بہت مفید بھی ثابت ہوتے ہیں۔ بچوں کے حوالے سے اس کاایک نفسیاتی فائدہ بھی ہے۔ ایسے بچے کسی قسم کی ''الرجی'' کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج حساس بن جاتا ہے، وہ دوسرے کی بھوک پیاس، ضروریات اور احساسات کو سمجھنے لگتے ہیں۔ انہیں موت و حیات کا ادراک اسی زمانے سے ہو جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری بھی پیداہوتا ہے۔ وہ بلی، مرغی، چڑیا یا پلّے وغیرہ کی ہر ضرورت بروقت پورا کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہےں۔ آپ نے سنا ہو گا، حدیث پاک میں ہے: ایک نو عمر صحابی حضرت ابوعمیر رضی اﷲ عنہ نے ایک پرندہ پال رکھا تھا۔ پرندہ مر گیا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن سے دل لگی کرتے ہوئے فرمایا : ''ابو عمیر! تمہارے پرندے کا کیا ہوا؟'' اس سے یہی سمجھ آتا ہے بچوں کے اس فطری شغف کا خیال رکھنے میںکوئی حرج نہیں ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ پرندے کا کاروبار اپنے لیے 50 فیصد توجہ چاہتا ہے، پوری خوراک، مسلسل لگن سے اچھی بریڈنگ ہوتی ہے ٭۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کے گھر میں 10x10 کی جگہ ہے تو آپ ماہانہ 25 سے 30 ہزار کماسکتے ہیں
میں نے جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے مفتی عبدالسلام صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا: پرندوں کا کاروبار بالکل جائز ہے۔ لہٰذا میں پورے اطمینان کے ساتھ اس کاروبار کو نبھا رہا ہوں۔ پرندے پالنے میں صرف یہ قباحت ہے کہ اس کے اڑانے وغیرہ میں شرطیں لگائی جاتی ہیں، ان سے گریز کرنا چاہیے۔
بہرحال! میں عرض کررہا تھا کہ مجھے بچپن میں پرندوں کے بچے پالنے کا شوق تھا۔ میں جب بھی کہیں سے ایسی چیزیں پکڑ کر لاتا تو سب گھر والے ڈانٹتے، صرف دادی محترمہ میری حمایت کرتیں۔ آگے چل کر جب میں نے اپنے اس شوق کو کاروبار میں بدلا اور گھر والوں کو اچھا خاصا منافع دینے لگا تو سب کو خوشی ہوئی۔ اس دوران ہمارے گھر کے حالات کچھ اچھے نہ تھے۔ میرے اس ننھے کاروبار نے اس وقت بڑا کام دیا۔
شریعہ اینڈ بزنس
کاروبار کے ترقی پانے تک کون کون سے مرحلے پیش آئے؟
جہانگیر سجاد
ابھی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، جب سے کاروبار کا آغاز کیا۔ ساتھ ساتھ میں نے پنجرے بنا کر فروخت کرنا شروع کیے۔ آگے چل کر ایک فارم ہاؤس والے مجھے اپنے ہاں کام کے لیے لے گئے۔ ان کے ہاں میں نے 15، 16 سال ملازمت کی۔ اس سے میں نے اس کام کو خوب سیکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا ذاتی کام بھی جاری رہا۔ یہ ایسا کام ہے جسے ہر مصروفیت کا حامل شخص ساتھ ساتھ کر سکتا ہے۔ اگر آپ کے گھر میں 10*10 کی جگہ موجود ہے تو آپ ماہانہ 25 سے 30 ہزار روپے کما سکتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ آپ کچھ جوڑے خرید لیں، پھر ان کی افزائش نسل کی کوشش کریں۔ جب بچے نکلیں تو انہیں بیچ دیں۔ آپ کو محنت، شوق اور لگن سے کام کرنا ہوگا۔ گھر کی عورتیں اس کام کو سنبھال سکتی ہیں۔ یہ کاروبار ایک طرح کی تفریح بھی ہے۔ آپ کے فارغ وقت کا بہترین مصرف ہے۔ اس کاروبار کے حوالے سے یہ مقولہ مشہور ہے: "One of the biggest Commercial Hobby" میرے دادا جان کہا کرتے تھے: آپ کی Hobby ایسی ہونی چاہیے، جس کا کوئی مالی فائدہ بھی ہو۔ بس شروع میں آپ جلد بازی نہ کریں۔ ابتدا میں چند پرندے لے کر روزانہ ان کی دیکھ بھال کریں۔ ان پرندوں کی الگ ایک دنیا ہے۔ پرندوں کے مزاج اور مذاق کا مشاہدہ کریں۔ ان کی طبیعت کو سمجھیں۔ اس کے بعد اپنے کاروبار کو بڑھائیں۔ زیادہ پرندے رکھیںاور ان کے بچے پیدا کریں۔
شریعہ اینڈ بزنس
عالمی سطح پر اس کاروبار کا کیا کردار ہے؟
جہانگیر سجاد
پرندے پالنے کارواج پوری دنیا میں ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ یوں توشروع ہی سے انسان کا تعلق پرندوں سے رہا ہے، مگر قدیم تہذیبوں میں اس کا ذکر بالخصوص ملتا ہے۔ میں نے جانوروں کے حوالے سے معروف کتاب ''حیاۃ الحیوان'' کا مطالعہ کیا۔ اس میں بھی لکھا ہے: بڑے بادشاہوں کے درباروں میں طوطے وغیرہ خصوصیت کے ساتھ ہوتے تھے۔ موجودہ دور میں یورپی ممالک میں اس کا رجحان ہے۔ پاکستان سے ایکسپورٹ ہو کر پرندے مشرق بعید اور مشرق وسطی میں جاتے ہےں۔ یہاں سے ترکی میں جاتے ہےں۔ پھر وہاں سے آگے دیگر یورپی ممالک میں منتقل ہوتے ہےں۔ امپورٹ یورپ اور افریقا کے ممالک سے کی جاتی ہے۔ دراصل جوچیز جہاں نایاب ہوتی ہے، وہیں اس کی مانگ بھی ہوتی ہے۔ جبکہ جہاں وہ فراوانی سے دستیاب ہو، وہاں سے لوگ منگواتے ہیں۔ لہٰذاپرندوں کے بھیجنے اور منگوانے میں بنیادی محرک یہی چیز ہے۔ ہمارے ملک میں جو پرندے کثرت سے ہیں، دوسرے کئی ممالک میں اس کی مانگ بہت ہوتی ہے۔ سبز طوطا ہمارے ملک میں ہزار 12 سو کا جوڑا ہے، آسڑیلیا میں اس کی قیمت 3 ہزار ڈالر ہوگی۔ ایسے ہی پودوں میں ہوتا ہے۔ ہم نے انڈونیشیامیں دیکھا کہ جنگلی پودے جنہیں وہاں کوئی پوچھتا نہیں، یہاں ہزاروں روپے میں بکتے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
اس کی امپورٹ ایکسپورٹ میں سیزن یا موسم کا کوئی دخل ہے؟
جہانگیر سجاد
اصل بات کھپت کی ہے۔ اس کاتعلق عام طور پر شوقین مزاجی سے ہے۔ یہی وجہ ہے پرندے پالنے والوں کی اکثریت نے اسے شوق کے طور پر ہی رکھا ہوتا ہے، لوگ کمائی کے لیے نہیں رکھتے۔ خو بصورتی یا آواز سننے کے لیے رکھتے ہیں۔ اگر کوئی اس کو کاروبار کی نیت سے کرتا ہے تو رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اگر کسی نے 500 روپے والے جوڑے سے فروخت کا سلسلہ شروع کیا تو کچھ سالوں میں وہ لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ کے جوڑے کی کوشش میں ہوگا۔ کاروبار کے معاملے میں یہ عمومی تجربہ ہے کہ اﷲ جو چیز کسی کے ہاتھ سے بنواتے ہیں، اس کے گاہگ بھی پیدا کردیتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں: اگر ہم یہ کاروبار شروع کرلیں تو نہ جانے اس کا مستقبل کیا ہو گا؟ میں کہتا ہوں : یہ سوچنا ہمارا کام ہی نہیں ہے۔ ہمارا کام تو بس اپنی استطاعت کی حد تک کوشش کرنا ہے اور بس! اور یہ یقین رکھیں کہکسی چیز کا گاہک اس کے وجود میں آنے سے پہلے ہی پیدا ہوچکاہے۔ وہ آئے گاکب؟ اس کے لیے انتظار، صبر اور کوشش کرنا ہوگی۔ یہی وجہ ہے بہت سی چیزیں پہلے نہیں بکتی تھیں، آج ان کی بڑی مانگ ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
کچھ لوگ کہتے ہیں ''بجری طوطے '' سے دوائیں بنائی جاتی ہیں؟
جہانگیر سجاد
ایسی کوئی بات نہیں۔ اکثر لوگ گھر میں پالنے کے لیے لے جاتے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں کسٹمرز کی ایک تعداد اسی مقصد کے لیے پرندے خریدتی ہے۔ کراچی میں بفرزون میں ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ پہلے ایک آدھ دکان ہوتی تھی، آج مارکیٹ بن گئی۔ صرف شوقیہ پالنے کے لیے خریدنے والے ہی وہاں آتے ہیں۔ میں نے خود بھی ایک عرصہ تک اس کی دکان کی ہے۔ نرسری سے پودے خریدنے اور پرندہ مارکیٹ سے پرندے خریدنے کا مقصد واحد ہوتا ہے۔ پھولوں کی طرح ہر ہر پرندے میں پھر ہزاروں انواع ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
''بجری'' ایک سستے طوطے کا نام ہے، جبکہ ''مکاؤ'' مہنگا ہے، ان کی بریڈنگ کے حوالے سے آپ کا تجربہ کیا ہے۔
جہانگیر سجاد
پہلی بات یہ ہے کہ پرندوں کی قیمت کی کمی زیادتی میں بڑا دخل اس چیز کو بھی ہے کہ اس کی افزائش نسل میں کتنی دشواری ہوتی ہے۔ بجری اور مکاؤ کے مہنگا سستا ہونے میں اسی چیز کا دخل ہے۔ ''مکاؤ'' سال میں تین چار بچے نکالتا ہے۔ پھر اس کا ہر جوڑا اچھا بھی نہیں ہوتا۔ جبکہ بجری اس نسبت سے زیادہ بچے پیدا کرتا ہے اور افزائش نسل بھی آسان ہے۔ باقی مجھے تجربہ تقریباً ہر طرح کے پرندے کا ہے، اگر کوئی پرندہ اپنے تجربے سے نہیں گزرا تو کسی اور کے ہاں دیکھا ضرور ہو گا۔
شریعہ اینڈ بزنس
''بریڈنگ'' میں کوئی اصولی بات بتانا چاہیں گے؟
جہانگیر سجاد
اس کے لیے بعض لوگ پردے وغیرہ لٹکادیتے ہیں۔ یہ کوئی ضروری نہیں، اصل چیز پرندوں کو انسانوں سے مانوس کرنااور ان کے اندر سے آدمی کا خوف نکالنا ہے۔ آپ اپنے ہاتھ سے اسے مسلسل خوراک دیں، وہ بالکل مانوس ہوجائے گا۔ اس کا ڈر ختم ہوجائے گا تو اس قسم کے پردے کی ضرورت بالکل نہیں رہے گی۔ اسی طرح بعض پرندے جنگلوں وغیرہ سے آئے ہوتے ہیں۔ ان کو مرحلہ وار طریقے سے مانوس کرنا پڑتا ہے۔ پہلے پنجروں میں رکھتے ہیں۔ پھر اسے ایساماحول فراہم کیا جاتا ہے کہ بندے اس کے قریب رہیں۔ یوں وہ آہستہ آہستہ مانوس ہوجاتے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
پرندوںکا کاروبار عالمی تناظر میں دیکھتے ہوئے کیا پاکستان میںاتنی بریڈنگ ہورہی ہے کہ یہاں کی ضرورت اور امپورٹ، ایکسپورٹ کے تناسب کو پورا کیا جا سکے؟
جہانگیر سجاد
یہ کاروبار بڑی انڈسٹری ہے نہ ہی اس کوانڈسٹری کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے حوالے سے تویہی ضابطہ ہے کہ جتنا آپ سنبھال سکتے ہیں، اتنا ہی انجام دیں۔ عام چیزوںمیںجتنی پروڈکشن بڑھتی ہے، منافع میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا ہے، جبکہ پرندوںاورجانوروںمیںزیادہ تعدادمیںپالنے سے منافع میںکمی واقع ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میںتوجہ کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ صرف پرندے پالنے میں 50 فیصد توجہ درکار ہوتی ہے۔ آپ ہرپرندے پراتنی توجہ دیںگے اوراس کی ضروریات کوسمجھ کرپورا کریں گے تو وہ یقینا اچھی بریڈنگ کرے گا۔ لہٰذایہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف ایک گھریلو صنعت ہے۔ بظاہر اس کو کوئی بڑی انڈسٹری کا درجہ مل بھی نہیں سکتا۔ بعض ممالک جیسے تھائی لینڈنے ''اورنمنٹل '' (خوبصورتی کے مقصدسے استعمال ہونے والی چیزوں) کے باعث ہی ترقی کی ہے۔ وہاں مچھلیاں، پرندے اور پودے موجود ہیں جن کا مقصد سوائے خوبصورتی کے اور کچھ نہیں۔ ہالینڈ سے روزانہ دو تین جہاز صرف ''پھول'' لے کر اڑتے ہیں۔ پرندوں کی سب سے زیادہ بریڈنگ ہالینڈ میں ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ وہاں سردی بہت ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ پرندے کا کاروبار اپنے لیے 50 فیصد توجہ چاہتا ہے، پوری خوراک، مسلسل لگن سے اچھی بریڈنگ ہوتی ہے
٭۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کے گھر میں 10x10 کی جگہ ہے تو آپ ماہانہ 25 سے 30 ہزار کماسکتے ہیں
٭۔۔۔۔۔۔ تھائی لینڈ، ہالینڈ ''اور نمنٹل ''اشیا کے لیے مشہور ہے، جہاں سے روزانہ دو، تین جہاز ''پھول'' لے کر اڑتے ہیں
آپ کے نایاب کا روبار سے متعلق معلومات سے ایک قد م پہلے ہم چاہیں گے آپ کا تعارف سامنے آجائے؟ جہانگیر سجاد
میرا نام جہانگیر سجاد ہے۔ میرے والد صاحب کا نام سجاد ہے۔ ہمارا آبائی علاقہ کشمیر ہے۔ والد صاحب حکیم تھے۔ ہمددر کمپنی میں کام کرتے رہے۔ اب ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ میں نے پری انجینئرنگ میں انٹر کیا ہے۔ اس کے بعد مختلف لینگویج کورسز بھی پڑھے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
اس کاروبار میں کیسے داخل ہوئے؟
جہانگیر سجاد
مجھے بچپن سے ہی پرندوں کا خاصا شغف تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ لوگ ایسے پیدا کیے ہیں، جن کو بچپن سے ہی جانوروں کا شوق اور ان سے لگاؤ ہوتا ہے۔ یہ چیز ان کے جینٹک میں شامل ہوتی ہے۔ اس شغف کی علامتیں بھی بچپن سے ہی نمایاں ہوتی ہیں۔ وہ کسی بلی کے بچے کوپکڑ کر اس سے کھیلنے لگتے ہیں۔ اجازت نہ ملے تو گھر کا دودھ چوری کرکے انہیں پلاتے ہیں، مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے کو اس قسم کی مشغولیت سے قطعی روک دیا جاتا ہے، حالانکہ اگر شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس کی اجازت دے دی جائے تواس قسم کے شوق بہت مفید بھی ثابت ہوتے ہیں۔ بچوں کے حوالے سے اس کاایک نفسیاتی فائدہ بھی ہے۔ ایسے بچے کسی قسم کی ''الرجی'' کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج حساس بن جاتا ہے، وہ دوسرے کی بھوک پیاس، ضروریات اور احساسات کو سمجھنے لگتے ہیں۔ انہیں موت و حیات کا ادراک اسی زمانے سے ہو جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری بھی پیداہوتا ہے۔ وہ بلی، مرغی، چڑیا یا پلّے وغیرہ کی ہر ضرورت بروقت پورا کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہےں۔ آپ نے سنا ہو گا، حدیث پاک میں ہے: ایک نو عمر صحابی حضرت ابوعمیر رضی اﷲ عنہ نے ایک پرندہ پال رکھا تھا۔ پرندہ مر گیا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن سے دل لگی کرتے ہوئے فرمایا : ''ابو عمیر! تمہارے پرندے کا کیا ہوا؟'' اس سے یہی سمجھ آتا ہے بچوں کے اس فطری شغف کا خیال رکھنے میںکوئی حرج نہیں ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ پرندے کا کاروبار اپنے لیے 50 فیصد توجہ چاہتا ہے، پوری خوراک، مسلسل لگن سے اچھی بریڈنگ ہوتی ہے ٭۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کے گھر میں 10x10 کی جگہ ہے تو آپ ماہانہ 25 سے 30 ہزار کماسکتے ہیں
میں نے جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے مفتی عبدالسلام صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا: پرندوں کا کاروبار بالکل جائز ہے۔ لہٰذا میں پورے اطمینان کے ساتھ اس کاروبار کو نبھا رہا ہوں۔ پرندے پالنے میں صرف یہ قباحت ہے کہ اس کے اڑانے وغیرہ میں شرطیں لگائی جاتی ہیں، ان سے گریز کرنا چاہیے۔
بہرحال! میں عرض کررہا تھا کہ مجھے بچپن میں پرندوں کے بچے پالنے کا شوق تھا۔ میں جب بھی کہیں سے ایسی چیزیں پکڑ کر لاتا تو سب گھر والے ڈانٹتے، صرف دادی محترمہ میری حمایت کرتیں۔ آگے چل کر جب میں نے اپنے اس شوق کو کاروبار میں بدلا اور گھر والوں کو اچھا خاصا منافع دینے لگا تو سب کو خوشی ہوئی۔ اس دوران ہمارے گھر کے حالات کچھ اچھے نہ تھے۔ میرے اس ننھے کاروبار نے اس وقت بڑا کام دیا۔
شریعہ اینڈ بزنس
کاروبار کے ترقی پانے تک کون کون سے مرحلے پیش آئے؟
جہانگیر سجاد
ابھی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، جب سے کاروبار کا آغاز کیا۔ ساتھ ساتھ میں نے پنجرے بنا کر فروخت کرنا شروع کیے۔ آگے چل کر ایک فارم ہاؤس والے مجھے اپنے ہاں کام کے لیے لے گئے۔ ان کے ہاں میں نے 15، 16 سال ملازمت کی۔ اس سے میں نے اس کام کو خوب سیکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا ذاتی کام بھی جاری رہا۔ یہ ایسا کام ہے جسے ہر مصروفیت کا حامل شخص ساتھ ساتھ کر سکتا ہے۔ اگر آپ کے گھر میں 10*10 کی جگہ موجود ہے تو آپ ماہانہ 25 سے 30 ہزار روپے کما سکتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ آپ کچھ جوڑے خرید لیں، پھر ان کی افزائش نسل کی کوشش کریں۔ جب بچے نکلیں تو انہیں بیچ دیں۔ آپ کو محنت، شوق اور لگن سے کام کرنا ہوگا۔ گھر کی عورتیں اس کام کو سنبھال سکتی ہیں۔ یہ کاروبار ایک طرح کی تفریح بھی ہے۔ آپ کے فارغ وقت کا بہترین مصرف ہے۔ اس کاروبار کے حوالے سے یہ مقولہ مشہور ہے: "One of the biggest Commercial Hobby" میرے دادا جان کہا کرتے تھے: آپ کی Hobby ایسی ہونی چاہیے، جس کا کوئی مالی فائدہ بھی ہو۔ بس شروع میں آپ جلد بازی نہ کریں۔ ابتدا میں چند پرندے لے کر روزانہ ان کی دیکھ بھال کریں۔ ان پرندوں کی الگ ایک دنیا ہے۔ پرندوں کے مزاج اور مذاق کا مشاہدہ کریں۔ ان کی طبیعت کو سمجھیں۔ اس کے بعد اپنے کاروبار کو بڑھائیں۔ زیادہ پرندے رکھیںاور ان کے بچے پیدا کریں۔
شریعہ اینڈ بزنس
عالمی سطح پر اس کاروبار کا کیا کردار ہے؟
جہانگیر سجاد
پرندے پالنے کارواج پوری دنیا میں ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ یوں توشروع ہی سے انسان کا تعلق پرندوں سے رہا ہے، مگر قدیم تہذیبوں میں اس کا ذکر بالخصوص ملتا ہے۔ میں نے جانوروں کے حوالے سے معروف کتاب ''حیاۃ الحیوان'' کا مطالعہ کیا۔ اس میں بھی لکھا ہے: بڑے بادشاہوں کے درباروں میں طوطے وغیرہ خصوصیت کے ساتھ ہوتے تھے۔ موجودہ دور میں یورپی ممالک میں اس کا رجحان ہے۔ پاکستان سے ایکسپورٹ ہو کر پرندے مشرق بعید اور مشرق وسطی میں جاتے ہےں۔ یہاں سے ترکی میں جاتے ہےں۔ پھر وہاں سے آگے دیگر یورپی ممالک میں منتقل ہوتے ہےں۔ امپورٹ یورپ اور افریقا کے ممالک سے کی جاتی ہے۔ دراصل جوچیز جہاں نایاب ہوتی ہے، وہیں اس کی مانگ بھی ہوتی ہے۔ جبکہ جہاں وہ فراوانی سے دستیاب ہو، وہاں سے لوگ منگواتے ہیں۔ لہٰذاپرندوں کے بھیجنے اور منگوانے میں بنیادی محرک یہی چیز ہے۔ ہمارے ملک میں جو پرندے کثرت سے ہیں، دوسرے کئی ممالک میں اس کی مانگ بہت ہوتی ہے۔ سبز طوطا ہمارے ملک میں ہزار 12 سو کا جوڑا ہے، آسڑیلیا میں اس کی قیمت 3 ہزار ڈالر ہوگی۔ ایسے ہی پودوں میں ہوتا ہے۔ ہم نے انڈونیشیامیں دیکھا کہ جنگلی پودے جنہیں وہاں کوئی پوچھتا نہیں، یہاں ہزاروں روپے میں بکتے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
اس کی امپورٹ ایکسپورٹ میں سیزن یا موسم کا کوئی دخل ہے؟
جہانگیر سجاد
اصل بات کھپت کی ہے۔ اس کاتعلق عام طور پر شوقین مزاجی سے ہے۔ یہی وجہ ہے پرندے پالنے والوں کی اکثریت نے اسے شوق کے طور پر ہی رکھا ہوتا ہے، لوگ کمائی کے لیے نہیں رکھتے۔ خو بصورتی یا آواز سننے کے لیے رکھتے ہیں۔ اگر کوئی اس کو کاروبار کی نیت سے کرتا ہے تو رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اگر کسی نے 500 روپے والے جوڑے سے فروخت کا سلسلہ شروع کیا تو کچھ سالوں میں وہ لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ کے جوڑے کی کوشش میں ہوگا۔ کاروبار کے معاملے میں یہ عمومی تجربہ ہے کہ اﷲ جو چیز کسی کے ہاتھ سے بنواتے ہیں، اس کے گاہگ بھی پیدا کردیتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں: اگر ہم یہ کاروبار شروع کرلیں تو نہ جانے اس کا مستقبل کیا ہو گا؟ میں کہتا ہوں : یہ سوچنا ہمارا کام ہی نہیں ہے۔ ہمارا کام تو بس اپنی استطاعت کی حد تک کوشش کرنا ہے اور بس! اور یہ یقین رکھیں کہکسی چیز کا گاہک اس کے وجود میں آنے سے پہلے ہی پیدا ہوچکاہے۔ وہ آئے گاکب؟ اس کے لیے انتظار، صبر اور کوشش کرنا ہوگی۔ یہی وجہ ہے بہت سی چیزیں پہلے نہیں بکتی تھیں، آج ان کی بڑی مانگ ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
کچھ لوگ کہتے ہیں ''بجری طوطے '' سے دوائیں بنائی جاتی ہیں؟
جہانگیر سجاد
ایسی کوئی بات نہیں۔ اکثر لوگ گھر میں پالنے کے لیے لے جاتے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں کسٹمرز کی ایک تعداد اسی مقصد کے لیے پرندے خریدتی ہے۔ کراچی میں بفرزون میں ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ پہلے ایک آدھ دکان ہوتی تھی، آج مارکیٹ بن گئی۔ صرف شوقیہ پالنے کے لیے خریدنے والے ہی وہاں آتے ہیں۔ میں نے خود بھی ایک عرصہ تک اس کی دکان کی ہے۔ نرسری سے پودے خریدنے اور پرندہ مارکیٹ سے پرندے خریدنے کا مقصد واحد ہوتا ہے۔ پھولوں کی طرح ہر ہر پرندے میں پھر ہزاروں انواع ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
''بجری'' ایک سستے طوطے کا نام ہے، جبکہ ''مکاؤ'' مہنگا ہے، ان کی بریڈنگ کے حوالے سے آپ کا تجربہ کیا ہے۔
جہانگیر سجاد
پہلی بات یہ ہے کہ پرندوں کی قیمت کی کمی زیادتی میں بڑا دخل اس چیز کو بھی ہے کہ اس کی افزائش نسل میں کتنی دشواری ہوتی ہے۔ بجری اور مکاؤ کے مہنگا سستا ہونے میں اسی چیز کا دخل ہے۔ ''مکاؤ'' سال میں تین چار بچے نکالتا ہے۔ پھر اس کا ہر جوڑا اچھا بھی نہیں ہوتا۔ جبکہ بجری اس نسبت سے زیادہ بچے پیدا کرتا ہے اور افزائش نسل بھی آسان ہے۔ باقی مجھے تجربہ تقریباً ہر طرح کے پرندے کا ہے، اگر کوئی پرندہ اپنے تجربے سے نہیں گزرا تو کسی اور کے ہاں دیکھا ضرور ہو گا۔
شریعہ اینڈ بزنس
''بریڈنگ'' میں کوئی اصولی بات بتانا چاہیں گے؟
جہانگیر سجاد
اس کے لیے بعض لوگ پردے وغیرہ لٹکادیتے ہیں۔ یہ کوئی ضروری نہیں، اصل چیز پرندوں کو انسانوں سے مانوس کرنااور ان کے اندر سے آدمی کا خوف نکالنا ہے۔ آپ اپنے ہاتھ سے اسے مسلسل خوراک دیں، وہ بالکل مانوس ہوجائے گا۔ اس کا ڈر ختم ہوجائے گا تو اس قسم کے پردے کی ضرورت بالکل نہیں رہے گی۔ اسی طرح بعض پرندے جنگلوں وغیرہ سے آئے ہوتے ہیں۔ ان کو مرحلہ وار طریقے سے مانوس کرنا پڑتا ہے۔ پہلے پنجروں میں رکھتے ہیں۔ پھر اسے ایساماحول فراہم کیا جاتا ہے کہ بندے اس کے قریب رہیں۔ یوں وہ آہستہ آہستہ مانوس ہوجاتے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
پرندوںکا کاروبار عالمی تناظر میں دیکھتے ہوئے کیا پاکستان میںاتنی بریڈنگ ہورہی ہے کہ یہاں کی ضرورت اور امپورٹ، ایکسپورٹ کے تناسب کو پورا کیا جا سکے؟
جہانگیر سجاد
یہ کاروبار بڑی انڈسٹری ہے نہ ہی اس کوانڈسٹری کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے حوالے سے تویہی ضابطہ ہے کہ جتنا آپ سنبھال سکتے ہیں، اتنا ہی انجام دیں۔ عام چیزوںمیںجتنی پروڈکشن بڑھتی ہے، منافع میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا ہے، جبکہ پرندوںاورجانوروںمیںزیادہ تعدادمیںپالنے سے منافع میںکمی واقع ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میںتوجہ کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ صرف پرندے پالنے میں 50 فیصد توجہ درکار ہوتی ہے۔ آپ ہرپرندے پراتنی توجہ دیںگے اوراس کی ضروریات کوسمجھ کرپورا کریں گے تو وہ یقینا اچھی بریڈنگ کرے گا۔ لہٰذایہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف ایک گھریلو صنعت ہے۔ بظاہر اس کو کوئی بڑی انڈسٹری کا درجہ مل بھی نہیں سکتا۔ بعض ممالک جیسے تھائی لینڈنے ''اورنمنٹل '' (خوبصورتی کے مقصدسے استعمال ہونے والی چیزوں) کے باعث ہی ترقی کی ہے۔ وہاں مچھلیاں، پرندے اور پودے موجود ہیں جن کا مقصد سوائے خوبصورتی کے اور کچھ نہیں۔ ہالینڈ سے روزانہ دو تین جہاز صرف ''پھول'' لے کر اڑتے ہیں۔ پرندوں کی سب سے زیادہ بریڈنگ ہالینڈ میں ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ وہاں سردی بہت ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
http://www.suffahpk.com/parindou-ko-palny-ka-hukum/
پرندوں کو پالنے کا حکم
سوال: کیا پرندوں کو پکڑنا اور ان کو پنجرے میں بند کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:پرندوں کو پالنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:
(1)ان کے پالنے میں کسی دوسرے شخص کو تکلیف نہ ہو۔
(2)ان کے ذریعے دوسروں کے مملوک پرندے پکڑنا مقصود نہ ہو۔
(3)ان کی خوراک کا انتظام کیا جائے۔
(4)ان کا پنجرہ اتنا بڑا ہو کہ اس میں اس کو اذیت نہ ہو۔(ماخذہٗ التبویب:198/29)
پرندوں کا کاروبار اور خرید وفروخت جائز ہے بشرطیکہ وہ بیچنے والے کی ملکیت اور قبضے میں ہوں اور ان کو سپرد کرنے پر قدرت بھی ہو۔
الدر المختار – (6 / 401)
( يكره إمساك الحمامات إن كان يضر بالناس … وأما للاستئناس فمباح كشراء عصافير ليعتقها إن قال من أخذها فهي له ولا تخرج عن ملكه بإعتاقه وقيل يكره لأنه تضييع المال
حاشية ابن عابدين – (6 / 401)
قوله ( وأما للاستئناس فمباح ) قال في المجتبى رامزا لا بأس بحبس الطيور والدجاج في بيته ولكن يعلفها وهو خير من إرسالها في السكك اه وفي القنية رمزا حبس بلبلا في القفص وعلفها لا يجوز اه أقول لكن في فتاوى العلامة قارىء الهداية سئل هل يجوز حبس الطيور المفردة وهل يجوز عتقها وهل في ذلك ثواب وهل يجوز قتل الوطاويط لتلويثها حصر المسجد بخرئها الفاحش فأجاب يجوز حبسها للاستئناس بها وأما إعتاقها فليس فيه ثواب وقتل المؤذي منها ومن الدواب جائز اه قلت ولعل الكراهة في الحبس في القفص لأنه سجن وتعذيب دون غيره كما يؤخذ من مجموع ما ذكرنا وبه يحصل التوفيق فتأمل
حاشية ابن عابدين – (5 / 68)
ويجوز بيع البازي والشاهين والصقر وأمثالها والهرة، ويضمن متلفها، لا بيع الحدأة والرخمة وأمثالهما. ويجوز بيع ريشها، اهـ لكن في الخانية: بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور، وسباع الوحش والطير جائز معلما أو غير معلم، وبيع الفيل جائز. وفي القرد روايتان عن أبي حنيفة اهـ ونقل السائحاني عن الهندية: ويجوز بيع سائر الحيوانات سوى الخنزير وهو المختار اهـ وعليه مشى في الهداية وغيرها من باب المتفرقات كما سيأتي
واللہ اعلم بالصواب
http://www.suffahpk.com/parindou-ko-palny-ka-hukum/
سوال: کیا پرندوں کو پکڑنا اور ان کو پنجرے میں بند کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:پرندوں کو پالنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:
(1)ان کے پالنے میں کسی دوسرے شخص کو تکلیف نہ ہو۔
(2)ان کے ذریعے دوسروں کے مملوک پرندے پکڑنا مقصود نہ ہو۔
(3)ان کی خوراک کا انتظام کیا جائے۔
(4)ان کا پنجرہ اتنا بڑا ہو کہ اس میں اس کو اذیت نہ ہو۔(ماخذہٗ التبویب:198/29)
پرندوں کا کاروبار اور خرید وفروخت جائز ہے بشرطیکہ وہ بیچنے والے کی ملکیت اور قبضے میں ہوں اور ان کو سپرد کرنے پر قدرت بھی ہو۔
الدر المختار – (6 / 401)
( يكره إمساك الحمامات إن كان يضر بالناس … وأما للاستئناس فمباح كشراء عصافير ليعتقها إن قال من أخذها فهي له ولا تخرج عن ملكه بإعتاقه وقيل يكره لأنه تضييع المال
حاشية ابن عابدين – (6 / 401)
قوله ( وأما للاستئناس فمباح ) قال في المجتبى رامزا لا بأس بحبس الطيور والدجاج في بيته ولكن يعلفها وهو خير من إرسالها في السكك اه وفي القنية رمزا حبس بلبلا في القفص وعلفها لا يجوز اه أقول لكن في فتاوى العلامة قارىء الهداية سئل هل يجوز حبس الطيور المفردة وهل يجوز عتقها وهل في ذلك ثواب وهل يجوز قتل الوطاويط لتلويثها حصر المسجد بخرئها الفاحش فأجاب يجوز حبسها للاستئناس بها وأما إعتاقها فليس فيه ثواب وقتل المؤذي منها ومن الدواب جائز اه قلت ولعل الكراهة في الحبس في القفص لأنه سجن وتعذيب دون غيره كما يؤخذ من مجموع ما ذكرنا وبه يحصل التوفيق فتأمل
حاشية ابن عابدين – (5 / 68)
ويجوز بيع البازي والشاهين والصقر وأمثالها والهرة، ويضمن متلفها، لا بيع الحدأة والرخمة وأمثالهما. ويجوز بيع ريشها، اهـ لكن في الخانية: بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور، وسباع الوحش والطير جائز معلما أو غير معلم، وبيع الفيل جائز. وفي القرد روايتان عن أبي حنيفة اهـ ونقل السائحاني عن الهندية: ويجوز بيع سائر الحيوانات سوى الخنزير وهو المختار اهـ وعليه مشى في الهداية وغيرها من باب المتفرقات كما سيأتي
واللہ اعلم بالصواب
http://www.suffahpk.com/parindou-ko-palny-ka-hukum/
کرنے کا حکم > پرندوں کو پالنے کا حکم
( جلد کا نمبر 26، صفحہ 149)
جانوروں کے ساتھـ نرمی کا سلوک
سوال نمبر: 8 - فتوى نمبر:4552
س 8: کیا پرندوں وچڑیوں کو پالنا اور ان کی ديکھـ بھال کرنا حرام ہے؟ واضح رہے کہ یہ پرندے اکثر گھونسلوں میں بڑھتے اور رہتے ہیں، اور کیا اس کی کوئی دلیل ہے؟
ج 8: پرندوں کا پالنا جائز ہے، جبکہ ان کی ضروریات یعنی پانی، خوراک اور رہنے کی مناسب جگہ مہیا کی جائے، چنانچہ پہلی صدی ہی سے مسلمان ایسا کیا کرتے تھے، اور کسی نے ان پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا، اور بخاری رحمہ اللہ نے اپني صحيح ميں حضرت انس رضی الله عنه سے روایت کیا ہے کہ نبي کریم صلى الله عليه وسلم لوگوں میں بہترین اخلاق کے مالک تھے، اور میرا ایک بھائی جس کا نام : ابو عمير تھا، کہتے ہیں : میرے خیال میں اس کا دودھ چھڑا لیا گیا تھا، اور جب وہ آیا تو اس سے پوجھا : ابو عمير، نغیر ( چڑیا ) نے کیا کیا ؟ چڑیا کے ساتھـ وہ کھیلا کرتا تھا۔ الحديث ۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
http://alifta.com/Fatawa/fatawaDetails.aspx?languagename=ur&BookID=3&View=Page&PageNo=1&PageID=10210
( جلد کا نمبر 26، صفحہ 149)
جانوروں کے ساتھـ نرمی کا سلوک
سوال نمبر: 8 - فتوى نمبر:4552
س 8: کیا پرندوں وچڑیوں کو پالنا اور ان کی ديکھـ بھال کرنا حرام ہے؟ واضح رہے کہ یہ پرندے اکثر گھونسلوں میں بڑھتے اور رہتے ہیں، اور کیا اس کی کوئی دلیل ہے؟
ج 8: پرندوں کا پالنا جائز ہے، جبکہ ان کی ضروریات یعنی پانی، خوراک اور رہنے کی مناسب جگہ مہیا کی جائے، چنانچہ پہلی صدی ہی سے مسلمان ایسا کیا کرتے تھے، اور کسی نے ان پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا، اور بخاری رحمہ اللہ نے اپني صحيح ميں حضرت انس رضی الله عنه سے روایت کیا ہے کہ نبي کریم صلى الله عليه وسلم لوگوں میں بہترین اخلاق کے مالک تھے، اور میرا ایک بھائی جس کا نام : ابو عمير تھا، کہتے ہیں : میرے خیال میں اس کا دودھ چھڑا لیا گیا تھا، اور جب وہ آیا تو اس سے پوجھا : ابو عمير، نغیر ( چڑیا ) نے کیا کیا ؟ چڑیا کے ساتھـ وہ کھیلا کرتا تھا۔ الحديث ۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
http://alifta.com/Fatawa/fatawaDetails.aspx?languagename=ur&BookID=3&View=Page&PageNo=1&PageID=10210
جانور اور پرندے پالنے کا شوق
س: كسی شخص كو جانور پالنے کا شوق ہو تو کیا وہ جانور کو پال سکتا ہے؟ مثال کے طور پر پرندے وغیرہ یا مچھلی وغیرہ بعض لوگ کہتے ہیں یہ تو ان کو قید کرنا ہے توکیا اس بات کی کوئی حقیقت ہے؟
ج: جانور پالنا جائز ہے بشرطیکہ ان کے کھانے پینے اور صفائی ستھرائی کا اہتمام کیا جائے۔ حدیث مبارک میں ایسے شخص کے بارے میں سخت وعید آئی ہے جو جانور کو قید کرکے اسے کھانا پینا بھی نہیں دیتا اور نہ اسے آزاد کرتا ہے کہ وہ خود اپنا کھانا پینا تلاش کریں۔ فقط واللہ اعلم
س: كسی شخص كو جانور پالنے کا شوق ہو تو کیا وہ جانور کو پال سکتا ہے؟ مثال کے طور پر پرندے وغیرہ یا مچھلی وغیرہ بعض لوگ کہتے ہیں یہ تو ان کو قید کرنا ہے توکیا اس بات کی کوئی حقیقت ہے؟
ج: جانور پالنا جائز ہے بشرطیکہ ان کے کھانے پینے اور صفائی ستھرائی کا اہتمام کیا جائے۔ حدیث مبارک میں ایسے شخص کے بارے میں سخت وعید آئی ہے جو جانور کو قید کرکے اسے کھانا پینا بھی نہیں دیتا اور نہ اسے آزاد کرتا ہے کہ وہ خود اپنا کھانا پینا تلاش کریں۔ فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/janwar-or-parinday-palny-ka-shoq/-0001-11-30
..........
..........
ما حكم الاحتفاظ بطيور الزينة الببغاء و العصفور و السمك
⭕ سوال اليوم ورقمه1244 ⭕
كيف الاحتفاظ بطيور الزينة الببغاء و العصفور و السمك في اقفاص خاصة؟
الجواب:
⭕ سوال اليوم ورقمه1244 ⭕
كيف الاحتفاظ بطيور الزينة الببغاء و العصفور و السمك في اقفاص خاصة؟
الجواب:
حامدا و مصليا و مسلما
لا يناسب ذلك أن تحتفظ الطيور في القفص لأجل الزينة إلا أنست الطيور و تبقي بدون القفص عند الحابس فلا حرج فيه كما تحتفظ الحمامات و تعيش عند صاحبها بغير الحبس و القيد عليها.
كتاب الفتاوى 6/270 المأخوذ منها
والله أعلم بالصواب
المفتي عمران إسماعيل ميمن الحنفي الجستي غفر له
أستاذ دار العلوم رامبورا سورت غجرات الهند
المعرب شیخ حیدر علی بوفالی استاذ ندوہ العلماء لکنو
لا يناسب ذلك أن تحتفظ الطيور في القفص لأجل الزينة إلا أنست الطيور و تبقي بدون القفص عند الحابس فلا حرج فيه كما تحتفظ الحمامات و تعيش عند صاحبها بغير الحبس و القيد عليها.
كتاب الفتاوى 6/270 المأخوذ منها
والله أعلم بالصواب
المفتي عمران إسماعيل ميمن الحنفي الجستي غفر له
أستاذ دار العلوم رامبورا سورت غجرات الهند
المعرب شیخ حیدر علی بوفالی استاذ ندوہ العلماء لکنو
TOTA (PARROT), CHIDIYA (SPARROW), MACHHLI (FISH) PALNA
⭕AAJ KA SAWAL NO.1244⭕
Tota, chidiya aur machhli palna aur unko pinjre ya fishpot me rakhna kaisa hai?
JAWAB
حامدا و مصلیا و مسلما
Bataure zeenat (show ke liye) qaid me rakhna behtar nahin,
Haan maanus ho jaye aur bila qaid bhi rehne taiyar ho to koi haraj nahin,
Jaise ke kabutar ko pala jata hai aur woh bila qaid bhi rehte hain.
Haan maanus ho jaye aur bila qaid bhi rehne taiyar ho to koi haraj nahin,
Jaise ke kabutar ko pala jata hai aur woh bila qaid bhi rehte hain.
KITABUL FATAWA 6/270 SE MAKHOOZ
و الله اعلم بالصواب
✍Mufti Imran Ismail Memon hanafi chisti.
Ustaad e daarul uloom Rampura surat, Gujarat, India.
http://www.aajkasawal.page.tl
http://www.aajkasawalgujarati.page.tl
http://www.aajkasawalhindi.page.tl
Urdu, Hindi, Gujarati me islahi Aur masail ke parche padhne Aur download karne ke liye Aur share karne ke liye zarur dekhe
http://www.deeneemalumat.net
.......
.......
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/18541 |
No comments:
Post a Comment