تین طلاق کے حوالہ سے ناشائستہ اورغیرذمہ دارانہ حرکت کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا امکان
ممبئی سے 24؍ جنوری کو بی این ایس سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دہلی کے ایک روزنامہ نے مشہور فقیہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری وترجمان حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی طرف منسوب کرکے تین طلاق کے حوالہ سے ایک خبر شائع کی ہے؛ جب نمائندہ نے اس سلسلہ میں مولانا رحمانی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ میری بات کو غلط ڈھنگ سے پیش کیاگیا ہے۔ مولانانے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے ستائیسویں سیمینار منعقدہ ممبئی میں تین طلاق کو ایک قرار دینے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ مولانا نے اپنے نقطہء نظر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کہ جب کوئی شخص تین طلاق دے، چاہے ایک ہی مجلس میں ہو؛ تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ مذکورہ سیمینار میں بحث یہ تھی کہ اگر کسی نے طلاق کے لفظ کو مکرر کہا، 3کاعددنہیں کہا اور وہ کہتا ہے کہ میری نیت ایک بار طلاق دینے کی تھی، دوسری بار میں نے زور دینے کےلیئے کہا تو اس کی بات قبول کی جائے گی یا نہیں؟ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے، اور خود علماء احناف کی اس بابت مختلف رائیں ہیں۔ اسی طرح حضرت مولانا رحمانی نے کہا کہ جمعہ کے مطبوعہ مضمون میں بھی تین طلاق کو ایک تسلیم کرنے کی بات ہرگز نہیں کہی گئی ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف ہو اور ان میں سے ہندوستان کے موجودہ حالات میں کوئی رائے زیادہ سہولت بخش ہوسکتی ہے تو علماء کو غور کرنا چاہئے کہ کیا اس سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے یا نہیں؟ واضح ہو کہ اس بات کا بھی تین طلاق کو ایک قرار دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیئے اس طرح کی غلط فہمی پیدا کرنے والی باتوں سے تمام حضرات کو بچنا چاہئے ، اور کسی بھی بات کو اس کے صحیح پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ مولانا رحمانی کے محبین ایسی ناشائستہ اور غیر ذمہ دارانہ حرکت کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
غورطلب ہے کہ دہلی کے اسی روزنامہ نے اس سے قبل بھی حضرت مولانارحمانی کے ایک مضمون کی باتوں کوتوڑمروڑکرغلط اندازسے پیش کرکے انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، حضرت مولانانے بروقت وضاحت کرکے معاملہ کو طول پکڑنے سے روک لیا تھا۔ ایک بارپھرسے اسی اخبارنے یہ مذموم حرکت کی ہے جس سے حضرت مولانا رحمانی کے محبین سخت نالاں ہیں اور مذکورہ اخبارکے خلاف قانونی چارہ جوئی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ممبئی سے 24؍ جنوری کو بی این ایس سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دہلی کے ایک روزنامہ نے مشہور فقیہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری وترجمان حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی طرف منسوب کرکے تین طلاق کے حوالہ سے ایک خبر شائع کی ہے؛ جب نمائندہ نے اس سلسلہ میں مولانا رحمانی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ میری بات کو غلط ڈھنگ سے پیش کیاگیا ہے۔ مولانانے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے ستائیسویں سیمینار منعقدہ ممبئی میں تین طلاق کو ایک قرار دینے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ مولانا نے اپنے نقطہء نظر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کہ جب کوئی شخص تین طلاق دے، چاہے ایک ہی مجلس میں ہو؛ تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ مذکورہ سیمینار میں بحث یہ تھی کہ اگر کسی نے طلاق کے لفظ کو مکرر کہا، 3کاعددنہیں کہا اور وہ کہتا ہے کہ میری نیت ایک بار طلاق دینے کی تھی، دوسری بار میں نے زور دینے کےلیئے کہا تو اس کی بات قبول کی جائے گی یا نہیں؟ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے، اور خود علماء احناف کی اس بابت مختلف رائیں ہیں۔ اسی طرح حضرت مولانا رحمانی نے کہا کہ جمعہ کے مطبوعہ مضمون میں بھی تین طلاق کو ایک تسلیم کرنے کی بات ہرگز نہیں کہی گئی ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف ہو اور ان میں سے ہندوستان کے موجودہ حالات میں کوئی رائے زیادہ سہولت بخش ہوسکتی ہے تو علماء کو غور کرنا چاہئے کہ کیا اس سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے یا نہیں؟ واضح ہو کہ اس بات کا بھی تین طلاق کو ایک قرار دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیئے اس طرح کی غلط فہمی پیدا کرنے والی باتوں سے تمام حضرات کو بچنا چاہئے ، اور کسی بھی بات کو اس کے صحیح پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ مولانا رحمانی کے محبین ایسی ناشائستہ اور غیر ذمہ دارانہ حرکت کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
غورطلب ہے کہ دہلی کے اسی روزنامہ نے اس سے قبل بھی حضرت مولانارحمانی کے ایک مضمون کی باتوں کوتوڑمروڑکرغلط اندازسے پیش کرکے انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، حضرت مولانانے بروقت وضاحت کرکے معاملہ کو طول پکڑنے سے روک لیا تھا۔ ایک بارپھرسے اسی اخبارنے یہ مذموم حرکت کی ہے جس سے حضرت مولانا رحمانی کے محبین سخت نالاں ہیں اور مذکورہ اخبارکے خلاف قانونی چارہ جوئی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment