Thursday 11 January 2018

جھوٹ بولے، کوا کاٹے

ایس اے ساگر
معاشرہ میں جھوٹا وعدہ، جھوٹی معذرت، فضول بہانے عام ہیں۔ ان کے ذریعہ لوگ اپنے تئیں ’بے ضرر‘ جھوٹ کا سہارا لے کر تنازع سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ جھوٹ اتنا بھی بے ضرر نہیں، یہ عمل فرد کوبیمار اور ہمارے تعلقات کو تباہ کر دیتا ہے۔ ’سب کچھ ٹھیک ہے، میں خیر خیریت سے ہوں‘ کہنا عام بات ہے جبکہ حالیہ تحقیق کے مطابق یہ ایسا جھوٹ ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ بولا جاتا ہے۔ اس کے بعد مروت میں جھوٹ بولنا، جیسے’میرا فون بند تھا‘ یا ’میں ٹریفک میں پھنس گیا تھا‘ جیسے بہانے بنائے جاتے ہیں۔گویا کہ دنیا بھر میں مختلف انداز سے جھوٹ بولا جاتا ہے لیکن سپلنڈڈ ریسرچ نامی ایک تحقیقی ادارے کے مطابق قریب ساٹھ فیصد جرمن شہری بھی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق زیادہ تر لوگ ہر دس منٹ کی گفتگو کے دوران کم از کم ایک مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ان جائزوں کے نتائج کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں، یہ کہنا بھی مشکل ہے کیوں کہ جھوٹ بولنے سے متعلق سروے کے دوران بھی بعض لوگ جھوٹ بولنے سے باز نہں آتے۔ معروف خبررساں ادارہ ڈی ڈبلیو نے اپنے فیس ب ±ک صارفین سے پوچھا کہ وہ کب اور کیوں جھوٹ بولتے ہیں تو کئی طرح کی توجیحات پیش کی گئیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ وہ اپنی ماں کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولتا ہے۔ ایک سروے کے دوران انچاس فیصد جرمنوں کی رائے تھے کہ کسی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولنا اور معقول وجہ ہے۔ یونیورسٹی آف کاسل University of Kassel سے وابستہ ماہر نفسیات مارک آندرے رائنہارڈ Marc-Andre Reinhard کے مطابق:
”انسانی تعلقات اسی صورت میں کام کرتے ہیں جب آپ ایک دوسرے کی عزت نفس مجروع نہ کی جائے۔ ہم اپنے بارے میں منفی رائے نہیں سن سکتے اور انسان اپنے امیج کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے۔“
سر درد اور ڈپریشن کا باعث:
لیکن روز مرہ کے معمولات میں بولے جانے والے ایسے ’معصومانہ اور بے ضرر‘ جھوٹ بھی کسی شخص کو ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار کر دیتے ہیں۔ امریکی سائیکالوجی ایسوسی ایشن کی ایک تحقیق کے مطابق اگر ہم روزمرہ کی زندگی میں جھوٹ بولنا کم کر دیں توانسانی صحت پر اس کے کافی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس ادارے نے ایک تجرباتی تحقیق کے دوران اس تجربے میں شامل لوگوں کو عام بول چال کے دوران جھوٹ بولنے یا بات بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے منع کیا۔ دس ہفتوں تک ان افراد کا مسلسل جائزہ لیا گیا تو حیرت انگیز طور پر سچ بولنے کے سبب ان کی صحت پر کافی مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ دس ہفتوں بعد اس تجربے میں شامل لوگوں میں ذہنی دباؤ اور ڈیپریشن جیسے مرض نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ علاوہ ازیں سر اور پیٹ میں درد جیسے جسمانی امراض بھی ناپید ہوگئے۔ اس دوران یہ جائزہ بھی لیا گیا کہ سچ بولنے کے بعد ان کے نجی اور دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر ان کے تعلقات میں کوئی بگاڑ نہیں آیا بلکہ توقعات کے برعکس ان لوگوں کے نجی اور سماجی تعلقات مزید گہرے اور مضبوط ہوئے۔
جھوٹ بولنے کی لت:
کچھ لوگوں کو جھوٹ بولنے کی لت ہوتی ہے جبکہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو محض اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں، کچھ لوگ مصلحت کے تحت جبکہ معاشرہ میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو محض دوسروں کو پریشان کرکے لطف اٹھانے کے لئے اس قبیح فعل میں مبتلا ہیں۔ بڑی حیثیت رکھنے والے بھی جھوٹ بولتے ہیں اور عام افراد بھی۔یہ الگ بات ہے کہ بڑے آدمی کے جھوٹ کا اکثر اوقات اس کے بولنے کے دوران ہی بھانڈا پھوٹ جاتا ہے، لیکن شرما حضوری میں کوئی اسے کہہ نہیں پاتا۔ جب کہ چھوٹے آدمی کے جھوٹ پر عموماً کوئی دھیان نہیں دیتا۔پنوکیو جب جھوٹ بولتا ہیں اس کی ناک لمبی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پنوکیو کی کہانی دنیا بھر کے بچے پڑھتے ہیں اور اس کےترجمے اکثر زبانوں میں موجود ہیں۔ مگر دنیا میں جھوٹ پھر بھی بولاجاتا ہے اور ایسے افراد کم کم ہی ہوں گے جو یہ دعویٰ کرسکیں کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ماسوائے ایک شخص کے۔ خلیل جبران نے اپنے ایک افسانے میں لکھا ہے کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سوائے ایک جھوٹ کے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔
جھوٹ پکڑنے کے طریقے:
کہتے ہیں کہ پہلا جھوٹ مشکل ہوتا ہے، دوسرے پر ہچکحاہٹ ہوتی ہے جبکہ تیسرے جھوٹ پر ندامت یا پشمانی کا احساس نہیں ہوتا۔ اور پھر انسان بڑے اعتماد سے جھوٹ بولنے لگتا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح بڑے سے بڑا مجرم اپنے پیچھے کوئی ایسی نشانی چھوڑ جاتا ہے جو اس تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے، اسی طرح ہر جھوٹے سے بھی کوئی ایسی حرکت ضرور سرزد ہوجاتی ہے جس سے شک کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو مگر آپ کو ایسے بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا ہوگا جن کے جھوٹ سے آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی یا آپ کو نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن مستقبل میں آپ ایسے کسی نقصان سے بچ سکتے ہیں کیونکہ نفسیاتی ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد جھوٹ پکڑنے کے چند طریقے تلاش کرلئے ہیں۔ یہ طریقے ایسے ہیں جنھیں بروئے کار لانے میں آپ کو کسی مشین کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی لمبی چوڑی تحقیق کی۔
حرکات و سکنات پر نظر:
ماہرین کا کہنا ہے کسی شخص کی حرکات و سکنات کی بنا پر آسانی سے یہ تعین کیا جاسکتا ہے کہ آیا کہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ ماہرین کے مطابق گفتگو کے دوران ہاتھ اور بازوؤں کی حرکت اور چہرے کے تاثرات سچ اور جھوٹ ظاہر کردیتے ہیں۔کیونکہ جھوٹے شخص کے چہرے پر تناؤ ہوتا ہے اور ہاتھوں اور بازوؤں کی حرکت اس کی گفتگو کا ساتھ نہیں دے پاتی۔ جھوٹا شخص آنکھ ملاکر بات کرنے سے کتراتا ہے۔نیز جھوٹ بولنے والا غیر ارادی طور پر اپنے چہرے، گردن اور منہ پر ہاتھ پھیرتا رہتا ہے اور ناک یا کان کو کھجاتا نظر آتا ہے۔ کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چہرے کے اعصاب یہ بتا دیتے ہیں کہ انسان سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ ڈاکٹر برنکے کہتے ہیں کہ آپ صرف مسکراہٹ دیکھ کر ہی یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ آپ کا مخاطب سچ بول رہا ہے یا سچ کو چھپا رہا ہے۔ کیونکہ انسانی جذبات جھوٹ کا ساتھ نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص اپنی گفتگو میں مسرت، دکھ یا محبت کا اظہار کررہا ہو اور وہ اپنے اظہار میں سچا نہ ہو تو اس چہرے پر تاثرات تاخیر سے ظاہر ہوں گے اور اچانک غائب ہوجائیں گے۔ جب کہ سچے جذبات اظہار سے پہلے چہرے پر آجاتے ہیں اور دیر تک برقرار رہتے ہیں۔
سچی اور جھوٹی مسکراہٹ:
جھوٹ بولنے والے کئی افراد اپنی باتوں کا یقین دلانے اور نارمل نظر آنے کے لئے مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر برنکے کہتے ہیں کہ حقیقی مسکراہٹ میں چہرے کے سارے اعصاب حصہ لیتے ہیں اور دیکھنے والے کو پورا چہرہ کھلا ہوا سا دکھائی دیتا ہے۔ سچی مسکراہٹ دیر تک قائم رہتی ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی ہے۔ جب کہ زبردستی کی مسکراہٹ صرف ہونٹوں اور اس کے آس پاس کے اعصاب تک محدود رہتی ہے۔ منصوعی مسکراہٹ کے دوران گال اور آنکھوں کی بھوئیں اپنی نارمل حالت میں رہتی ہیں۔ ڈاکٹر برنکے کی ٹیم نے اپنی تحقیق کے لئے 52 افراد کے چہروں کے تاثرات کا تفصیلی تجزیہ کیا اور ان کے چہروں کے 23000 سے زیادہ ویڈیو فریم بنائے گئے۔ چہرے کے تاثرات کے معائنے نے 26 افراد کے جھوٹے ہونے کی نشاندہی کی۔ جب ماہرین نے ان سے وابستہ حقائق کا جائزہ لیا تو ان کے جھوٹے ہونے کی تصدیق ہوگئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جھوٹا شخص گفتگو میں دفاعی انداز اپناتا ہے جب کہ سچے کا رویہ عموماً جارحانہ ہوتا ہے۔ جھوٹے سے اگر کچھ پوچھا جائے تو اس پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے، جسے وہ چھپانے کے لئے اپنے سر اور گردن کو بار بار حرکت دیتا ہے۔
خوف کا تسلط:
ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی غیر شعوری حرکتوں سے بھی جھوٹ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر اگر جھوٹ بولنے والا آپ کے سامنے بیٹھا ہے تو وہ بات کرتے ہوئے غیر ارادی طور پر اپنے سامنے رکھی ہوئی کوئی چیز اٹھا کر اپنے اور آپ کے درمیا ن رکھ لے گا۔ وہ یہ عمل لاشعوری طورپر خود کو محفوظ بنانے کے لئے کرتا ہے۔ اگر جھوٹے سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ جواب میں غیر ارادی طورپر سوال کے ہی کچھ لفظ دوہرا دیتا ہے۔ اکثر جھوٹ بولنے والے صاف کہنے کی بجائے بات کو گھمانے اور الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جھوٹا انسان ایک نارمل شخص سے زیادہ بولتا ہے اور غیر ضروری اور غیر متعلقہ تفصیلات بیان کرتا ہے۔ وہ خاموش ہونے سے اس لئے ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی ایسا سوال نہ پوچھ لیا جائے، جس سے اس کا جھوٹ پکڑا جائے۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ مگر جھوٹا شخص کئی جھوٹ بولنے کے باوجود محض اس لئے پکڑا جاتا ہے کیونکہ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ پہلے کیا کچھ کہہ چکا ہے!
موضوع بدلنے کی عجلت:
یہ جاننے کے لئے کہ آیا آپ کا مخاطب جھوٹ تو نہیں بول رہا، فوراً گفتگو کا موضوع تبدیل کردیں۔ اگر وہ سکون اور اطمینان محسوس کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ جب کہ سچا شخص اچانک موضوع بدلنے سے پریشان ہوجاتا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے آپ کو اصل موضوع پر لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض افراد کے اعصاب اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ اپنا جھوٹ ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ اور بعض اوقات سچ بولنے والا اتنی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کا سچ بھی جھوٹ لگنے لگتا ہے۔ چنانچہ بعض افراد کے معاملے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لئے صرف قیافہ شناسی ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ ٹھوس شواہد بھی درکار ہوتے ہیں۔

Lying Less Linked to Better Health

Telling the truth when tempted to lie can significantly improve a person’s mental and physical health, according to a “Science of Honesty” study presented at the American Psychological Association’s 120th Annual Convention.

“Recent evidence indicates that Americans average about 11 lies per week. We wanted to find out if living more honestly can actually cause better health,” said lead author Anita E. Kelly, PhD, professor of psychology at the University of Notre Dame. “We found that the participants could purposefully and dramatically reduce their everyday lies, and that in turn was associated with significantly improved health.”


According to a study conducted by the University of Massachusetts, 60% of adults can’t have a ten minute conversation without lying at least once. But even that number makes it sound better than it really is; those people in the study who did lie actually told an average of 3 lies during their brief chat. And I know you’re sitting there right now insisting you would be part of the 40% that didn’t lie. That’s what the liars in the study thought, too. When they watched the taped conversations back, they were shocked at how many fibs they had told.

Researchers studies deception detection, criminal behaviour, psychopathic personality and behavioural cues to deception. They found four facial muscles “leaked” a person’s true feelings, such as guilt, amid intense emotional pressures. According to reports, the team from the University of British Columbia, in Canada, concluded that liars were betrayed by tiny movements that caused them to raise their eyebrows in surprised expressions and smile slightly. Innocent people, meanwhile, tended to furrow their brow in genuine “expressions of distress”, they found.

The study, published in the journal Evolution and Human Behaviour, concluded that a person’s lack of control over their facial expressions meant genuine feelings could be differentiated from fake emotion. Psychologists say most humans can control lower face muscles in order to talk or eat but those in the upper face are difficult to manipulate and can spark involuntary behavior.

Dr Leanne ten Brinke, who led the study, said the findings suggested attempts to mask our emotions are likely to fail when engaging in a "consequential act of deception”.

“Our research suggests that muscles of the face are not under complete conscious control and certain muscles are likely to betray the liar, particularly in high-stakes and highly emotional situations,” she told The Daily Telegraph.

"Facial cues are an important, but often ignored, aspect of credibility assessments where an emotional issue is in question.

“Cues to emotional deception are likely to occur when the underlying emotion a liar is attempting to mask, is relatively strong.”

The researchers analysed facial expressions of 52 people – half of whom were later proved to be lying – as they made emotional televised pleas for the safe return of a missing relative. More than 23,000 frames of video were viewed from real-life cases in Britain, America, Canada and Australia.

Their study, titled “Darwin the Detective: Observable Facial Muscle Contractions Reveal Emotional High-Stakes Lies”, looked for emotional “leakage” from a person’s muscles, which they found were harder to control during stressful events.

Dr ten Brinke, from the university’s Centre for the Advancement of Psychological Science and Law (CAPSL), said the study found muscles "leaked" signs of true emotion because of the person’s subconscious actions.

The team found that a “deceptive pleader” raised their forehead muscles, called the “frontalis”, which gave off surprised expressions. Liars also had increased activity of the “zygomatic major muscles”, located around the mouth, which caused them to inadvertently lift their lips into a smile. This compared to “genuine pleaders”, who activated their inner frontalis and “corrugator supercilli”, located between the eyebrows, which caused them to frown and furrow their brow in a genuine “an expression of distress”.

Dr ten Brinke, who is based in the university’s psychology department, added: “While genuine pleaders show real distress on their face, the deceptive pleaders are unable to replicate that same activation.”

While the findings were important for “lie catchers”, she cautioned they did not provide a “Pinocchio's nose”.

She added: "Not everyone will leak their true emotions, and some people are better than others at adopting a false face (such as) psychopaths.”
http://eyesin.com/article/business-real-estate-science-tech/science/study-judge-liars-by-smile-eyebrows

https://www.urduvoa.com/a/detect-lies-khalil-jibran-11aprl12-147024865/1349976.html
 

کفر و شرک اور بدعت کے علاوہ اور بہت سے بڑے گناہ ہیں جن کو کبیرہ گناہ کہتے ہیں- کبیرہ گناہ شرع میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کو شرع شریف میں حرام کہا گیا ہو اور اس پر کوئی عذاب مقرر کیا ہو یا اور طرح سے اس کی مذمت کی ہو اور یہ وعید حرمت و مذمت قرآن پاک یا کسی حدیث سے ثابت ہو، :کبیرہ گناہ بہت سے ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے. کچھ کبائر یہ ہیں غیبت یعنی کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنا، جھوٹ بولنا،  
https://www.majzoob.com/1/13/131/1310410.htm

.....
ہمارے دین کامل اسلام میں جھوٹ بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ کبیرہ ہے۔ جھوٹ کا مطلب ہے ”وہ بات جو واقعہ کے خلاف ہو“ یعنی اصل میں وہ بات اس طرح نہیں ہوتی جس طرح بولنے والا اسے بیان کرتا ہے۔ اس طرح وہ دوسروں کو فریب دیتا ہے جو اللہ اور بندوں کے نزدیک بہت برا فعل ہے۔ جھوٹ خواہ زبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے، مذاق کے طور پر ہو یا بچوں کو ڈرانے و بہلانے کےلئے ہر طرح سے گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔

جھوٹ ام الخبائث (برائیوں کی جڑ) ہے۔ کیونکہ اس سے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جھوٹ بولنے والا ہر جگہ ذلیل وخوار ہوتا ہے۔ ہر مجلس میں اور ہر انسان کے سامنے بے اعتبار و بے وقار ہو جاتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے دنیا و آخرت کا نقصان، عذاب جہنم اور قبر کی قسم قسم کی سزاؤں میں مبتلا ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے آدمی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں ،نبیوں اور ولیوں کی رحمت و عنایت سے دور ہوجاتا ہے۔ جھوٹے آدمی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے۔ رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہیں۔

جھوٹ غم و فکر پیدا کرتا ہے کیونکہ ایسا آدمی وقتی طور پر مطمئن ہوجاتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کا ضمیر اسے ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے ۔جس کے نتیجے میں وہ اطمینان قلب کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے ۔

جھوٹ گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کےلیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس قبیح عادت کو چھوڑنے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔

قرآن حکیم میں جھوٹ کی مذمت:
ارشاد خدا وندی ہے۔ ”ان کے دلوں میں مرض ہے تو اللہ نے ان کے مرض میں اضافہ کر دیا۔ اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے “لئے درد ناک عذاب ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
“بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا ۔جو حد سے بڑھنے والا جھوٹا ہو۔”

جھوٹ کی مذمت میں احادیث کریمہ:
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ صدق کو لازم کر لو! کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔

نبی ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔ مزید فرمایا کہ بڑی خیانت کی بات یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔

ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: کہ مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر عرض کیا گیا کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر پوچھا گیا: کیا مومن کذاب (جھوٹا) ہو سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔ نبی کریمﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا، بلکہ انہیں درد ناک عذاب دے گا۔ وہ تین آدمی بوڑھا زانی ،جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر ہیں۔

غرض کہ جھوٹ کی بیماری سراسر نقصان کا ہی سودا ہے، اور ہم کتنے مزے سے صرف وقت گزاری کے لئے کیسے جھوٹ پہ جھوٹ بول کر اپنی قبر بھرتے ہیں۔ مزید کچھ احادیث جن میں(اُن مردوں) کے بارے میں حکم ہے جو کہ مخنث/عورت بنتے ہیں۔

http://www.antidajjalmission.com/5700/%D8%AC%DA%BE%D9%88%D9%B9%D8%8C-%D9%81%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%8C-%D8%AF%DA%BE%D9%88%DA%A9%DB%81-%D8%AF%D8%AC%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B1%D9%88%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D9%86%DB%81-%D8%A8
-----------
............
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%B5%D8%BA%DB%8C%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D8%A8%DB%8C%D8%B1%DB%81-%DA%AF%D9%86%D8%A7%DB%81/2017-02-20

No comments:

Post a Comment