Monday, 15 January 2018

ایصال ثواب کی صورتیں

سوال: صرف قرآن پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنا کیسا ہے؟
چاہے انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور پر کسی حدیث میں ہے؟
جواب: ۶۔ تلاوت قرآن:
عن ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺ من داخل المقابر ثم قرأ فاتحۃ الکتاب وقل ھو اﷲ أحد و الٰھکم التاکثر ثم قال اللھم إنی جعلت ثواب ہذا ما قرأت لأ ھل المقابر من المؤمنین والمؤمنات کانوا شفعاء لہ إلی اﷲ تعالیٰ۔ (شرح الصدور للسوطحا، ص ۱۳۵)
’’حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: جو قبرستان میں داخل ہوکر سورۃ فاتحہ، سورۃ اخلاص اور سورۃ التکاثر پڑھے۔ پھر کہے اے اﷲ میں نے جو تیرا کلام پڑھا اس کا ثواب اس قبرستان کے مؤمن مردوں اور عورتوں کو بخشتا ہوں تو وہ سب اس کی شفاعت کریں گے۔
عن أنس رضی اﷲ عنہ أن رسول اﷲ ﷺ قال من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰسین خفف اﷲ عنھم وکان لہٗ بعدد من فیھا حسنات۔ (شرح الصدور للسوطحا ص ۱۳۵) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: جو قبرستان میں داخل ہوا اور اس نے سورت یٰسین کی تلاوت کی، مردوں سے اللہ تعالیٰ عذاب ہلکا فرمادیں گے اور اس پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر نیکیاں ملیں گی۔
حماد مکی کا بیان ہے کہ میں ایک رات مکہ کے ایک قبرستان میں گیا۔ میں ایک قبر پر سر رکھ سو گیا میں نے دیکھا کہ قبرستان والے مختلف ٹولیوں میں بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا قیامت قائم ہوگئی؟ انہوں نے کہا نہیں۔ ہمارے ایک بھائی نے ’’قل ھو اﷲ أحد‘‘ پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخشا تھا اور ہم ایک سال سے وہ ثواب تقسیم کررہے ہیں۔
مندرجہ بالا امام سیوطی رحمہ اللہ نے شرح الصدور میں نقل فرمائی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ان روایات میں اگرچہ ضعف ہے لیکن ان کا مجموعہ اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی اصل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔
......
اجتماعی قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟
in BidaatOrRasme on 23:37
الجواب وباللہ التوفیق:
اجتماعی قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟ ؟
آج کل مدارس میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ کسی کے یہاں میت ہو یا نیا دکان مکان بنایا جائے تو ایصال ثواب کے لئے یا خیر وبرکت کے لئے طلباء کو مدعو کیا جاتا ہے اور دعوت بھی ہوتی ہے اور کوئی ھدیةً رقوم بھی پیش کرتا ہے تو کیا اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا اور اس پر ھدیہ لینا صحیح ہے؟ صحیح طریقہ کیا ہے؟ ؟ اور کیا مدارس میں پڑھائی کے وقت طلباء کو بھیجا جاسکتا ہے؟
مفصل ومدلل بحث فرمائیں....
الجواب باسم ملہم الصواب
اجتماعی قرآن خوانی کئی خرابیوں کی وجہ سے ممنوع اور قابل ترک ہے، بہشتی زیور میں ہے، میت کے لئے چالیس دن تک قرآن خوانی کرانے کا حکم سوال: محلے میں ایک شخص کا انتقال ہوگیا تو لوگ چالیس دن تک پورے محلے میں مکان در مکان قرآن خوانی کا سلسلہ چلاتے ہیں اس دوران اگر دوسرے شخص کا انتقال ہوجائے تو دوسرا چلہ شروع ہوجاتا ہے آیا اس مروجہ قرآن خوانی کی کوئی شرعی حیثیت ہے ؟ جواب : اس میں شک نہیں ہے کہ قرآن مجید پڑھ کر ایصال ثواب کرنا ثابت ہے مگر آجکل قرآن خوانی محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے اگر رسم کی غرض سے اجتماع کرکے ایصال ثواب کرتا ہے تو جائز نہیں کیونکہ اجتماع کر کے ایصال ثواب کرنے کا صحابہ کرام سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایصال ثواب کا صحیح طریقہ ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کرکے ایصال ثواب کرے۔ (تسھیل بہشتی زیور :1/62 طبع گھر) فتاویٰ عثمانیہ :1/102 طبع نیز دیوبند کا فتویٰ ملاحظہ ہو، 1) کیا اسلام میں قرآن خوانی کی اجازت ہے؟
(2) اگر نہیں تو کیوں؟ 
Jul 05,2007 Answer
: 1156 (فتوى: 461/ن = 449/ن)
(1) مروجہ قرآن خوانی جائز نہیں ہے۔
(2) اس لیے کہ اس میں اجتماع کا التزام کیا جاتا ہے، دعوت و شیرینی وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور قرآن پڑھنے والوں کو قرآن پڑھنے پر نذرانہ وغیرہ دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کو کھانا کھلایا اور ناشتہ وغیرہ کرایا جاتا ہے اور قرآن پڑھنے والے اسی وجہ سے قرآن پڑھتے ہیں جو کہ اجرت و معاوضہ کی شکل ہوجاتی ہے اور یہ کہ دعوت خوشی کے مواقع میں مشروع ہے نہ کہ غمی کے مواقع میں، ان تمام وجوہات وغیرہ کی بنا پر مروجہ قرآن خوانی ناجائز ہے: یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث بعد الأسبوع... واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص (رد المحتار: 3/148، ط زکریا دیوبند) ویکرہ لاتخاذ الضیافة من الطعام من أھل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور وھی بدعة مستقبحة (رد المحتار: 3/148، ط زکریا دیوبند) فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا یجوز لأن فیہ بالقراءة و إعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال. (رد المحتا: 9/77، ط زکریا دیوبند) واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند دوسری بات اس پر اجرت لینا، فتاویٰ زکریا میں ہے قرآن شریف پڑھ کر ایصال ثواب کرنے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، علامہ شامیؒ نے اس پر ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایاہے, شفاء العلیل و بل الغلیل فی حکم الوصیۃ بالختمات والتہالیل، اس میں آپ نے اس مسئلہ پر بالتفصیل کلام فرمایاہے، عدم جواز پر چند احادیث فرمائی مثلاﹰ، قال رسول اللہﷺ اقرئوا القرآن ولا تاکلوا بہ ولا تجفوا عنہ ولا تغلوا فیہ ولا تستکثروا بہ (فتاویٰ زکریا ۲، ۶۶۳) عربی فتویٰ ملاحظہ ہو، حكم أخذ الأجرة على قراءة القرآن               
====================================
س: ما حكم أخذ الأجرة على قراءة القرآن ؟ ج : الحمد لله ، تلاوة القرآن عمل صالح وعبادة عظيمة ، مع التدبر والتفكر بآياته، والعمل بما فيه من الأحكام . وأخذ الأجرة على قراءة القرآن يجوز إذا كان ذلك للتعليم ، قال بذلك جمهور أهل العلم ، وأجازه الحنفية المتأخرون للضرورة ، خشية ضياع القرآن . و يمكن القول إنه ينبغي لمعلم القرآن عند الحاجة أخْذ الأجرة من جهة عامة ، و يمكن أن يجعل ذلك مقابل تفرُّغه , وحبذا لو أنه جعل الأجرة مقابل ضبط الطلاب وتربيتهم، وتعليمهم مادة أخرى بجانب القرآن . وأما اسْتِئْجَارُ القُرّاء لأجل التِّلاوَةِ ، وَإِنْ صَارَ مُتَعَارَفًا عليه كما يحصل في المآتم والمناسبات ، فلا يجوز ، قال بذلك أئمة الحنفية والحنابلة، لأَنَّهُ بدعةٌ مُحدثة و مُخَالَفةٌ لِلنَّصّوص، و منها حديث عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شِبْلٍ قال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (اقْرَءُوا الْقُرْآنَ وَلَا تَغْلُوا فِيهِ وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِهِ) رواه أحمد برقم 15529 وصححه الألباني في السلسلة الصحيحة برقم 3057 . و تلاوة القرآن قربةٌ وعبادة ، وأخذ الأجرة على القرَب والعبادات كالصلاة والصوم لا يجوز . وأما حديث (أحق ما أخذتم عليه أجرًا كتاب الله) متفق عليه ، فهو خاص بأخذ أجرة على الرقية
بالقرآن، جمعاً بينه وبين الأحاديث الزاجرة عن أخذ أجرة أو هدية على قراءة القرآن أو تعليمه . و ننصح إخواننا حمَلَة القرآن أن يطلبوا الرزق من الوجوه المباحة والمكاسب الطيبة بعيدا عن الشبهات، وبالله التوفيق . الشيخ محمد الصادق مغلس الشيخ أمين علي مقبل الشيخ أحمد حسان (غائب بعذر) الشيخ مراد القدسي تیسری بات، طلباء کو پڑھائی کے وقت میں بھیجنا تو اس کے لئے مدرسہ کے ذمے دار اور مہتمم کی اجازت سے بھیجا جا سکتا ہے. (فتاویٰ محمودیہ ۳، ۹۳)
فقط،
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
میت کے لئے ایصال ثواب کی اگر ضرورت ہو تو اس کی اطلاع مدرسہ میں کردی جائے اور مدرسہ کے بچے جو قرآن پاک پڑھتے ہیں اس کا ثواب مذکورہ میت کو پہنچا دیا جائے، خواہ میت غریب ہو یا مالدار، لیکن میت کے گھر جاکر قرآن پاک پڑھنا اور اس کے عوض ناشتہ یا کھانا یا اور کسی طرح اجرت لینا قطعاً جائز نہیں ہے، اس طرح بالعوض قرآن پڑھنے سے خود پڑھنے ہی والے کو ثواب نہیں ملتا ہے تو میت کو ایصال ثواب کیسے ہوسکتا ہے؛ اس لئے مروجہ قرآن خوانی سے بہرحال اجتناب لازم ہے۔
إن القرآن بالأجرۃ لایستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔
(شامی زکریا ۹؍ ۷۷، فتاوی رحیمیہ ۱؍ ۳۸۹، احسن الفتاوی ۱؍ ۳۶۱) فقط واﷲ تعالی اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصور پوری غفر لہ
۲۹؍۱۱؍۱۴۲۵ھ
India
Question: 49309
نئے گھر میں داخل ہوتے وقت۔ اور دکان کے افتتاح کے وقت۔ نیز مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے عام رواج ہے کہ مدرسہ کے طلبہ کو طلب کیا جاتا ہے اور کھانا وغیرہ کھلایا جاتا ہے ۔اور مدرسہ والے مدرسہ کے نام پر یاطلبہ کے نام ہر ایک متعینہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ۔کیا مدرسہ کے طلبہ کا استعمال اور رقم کا مطالبہ درست ہے ؟
Nov 20,2013
Answer: 49309
Fatwa ID: 1552-1549-U
قرآن پاک کی تلاوت ایصال ثواب کے لیے ہو یا برکت کے لیے دونوں صورتوں میں یہ عبادت محضہ ہے، جس پر کسی قسم کا لین دین ہرگز جائز ودرست نہیں؛ لہٰذا نئے گھر یا دکان کی افتتاح کے موقع پر برکت کے لیے یا کسی کے انتقال پر ایصال ثواب کے لیے مدرسہ کے طلبہ کی قرآن خوانی پر مدرسہ کے لیے یا مدرسہ کے طلبہ کے لیے معاوضہ کا لین دین یا بالخصوص قرآن خوانی کرنے والوں کے لیے کھانے یا ناشتہ وغیرہ کا نظم کرنا ہرگز جائز ودرست نہیں، ایسی صورت میں تلاوت قرآن پاک پر نہ کوئی ثواب ملے گا اور نہ اس کی وجہ سے کوئی برکت حاصل ہوگی بلکہ تلاوت قرآن پر لین دین کرنے والے سب لوگ سخت گنہ گار ہوں گے کیونکہ یہ واضح طور پر قرآن پاک کی تلاوت کو پیسوں وغیرہ کے عوض بیچنا ہے جو بلاشبہ ناجائز ہے:
”قال في رد المحتار (کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة: ۹/۷۷ ط مکتبہ زکریا دیوبند) عن الیعیني فی شرح الہدایة: فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ة الأجزاء بالأجرة لا یجوز لأن فیہ الأمر بالقراء ة وإعطاء الثوب للآمر والقراء ة لأجل المال فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیة الصحیحة فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزکان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلة إلی جمع الدنیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون اھ․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
========================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد مصروف مظاھری
انوارالفقھاء
..........................................................
ایصال ثواب:
۱۔ ایصال ثواب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کوئی نیک عمل کرے تو اس پر  اجر و ثواب اس کو ملنے والا تھا  وہ یہ نیت یا دعا کرلے کہ اس عمل کا ثواب فلاں زندہ یا مرحوم کو عطا کردیا جائے ایصال ثواب کی اس حقیقت کی روشنی میں چند مسائل معلوم ہوئے:
اول… ایصالِ ثواب ایسے عمل کا کیا جا سکتا ہے جس پر انسان کو خود ثواب ملنے کی توقع ہو اور واقع میں نیک عمل ہو۔ اگر عمل کرنے والے کو خود ہی ثواب نہ ملے تو دوسرے کو کیسے عطا کرے گا؟  چنانچہ جو عمل خلافِ شرع اور خلافِ سنت ہو وہ ثواب سے محروم رہتا ہے۔ ایسے عمل کے ذریعے ثواب بخشنا خوش فہمی ہے۔
دوم… ایصالِ ثواب زندہ اور مردوں دونوں کو ہوسکتا ہے۔ مثلاً آپ دو رکعت نماز پڑھ کر اس کا ثواب اپنے والدین کو یا پیرو مرشد کو ان کی زندگی میں بخش سکتے ہیں اور ان کی وفات کے بعد بھی۔ عام رواج مردوں کو ایصال ثواب کا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ زندہ آدمی کے اپنے اعمال کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مرنے کے بعد صدقہ جاریہ کے سوا آدمی کے اپنے اعمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اس لیے مرحوم کو ایصالِ ثواب کا محتاج سمجھا جاتا ہے اور ویسے بھی زندوں کی طرف سے مردوں کے لیے اگر کوئی تحفہ ہوسکتا ہے تو وہ ایصالِ ثواب ہی ہے۔
سوم… جس عمل کا ثواب کسی کو بخشنا منظور ہو تو اس کام کے کرنے سے پہلے اس کی نیت کر لی جائے یا عمل کرنے کے بعد دعا کر لی جائے کہ حق تعالیٰ شانہ اس عمل کو قبول فرما کر اس کا ثواب فلاں صاحب کو عطا فرمائیں۔
۲۔  میت کو ثواب صرف نفلی عبادات کا بخشا جا سکتاہے۔ فرائض کا ثواب کسی دوسرے کو بخشنا صحیح نہیں۔
۳۔  جمہور امت کے نزدیک نفلی عبادت کا ثواب بخشنا صحیح ہے۔ مثلا دعا و استغفار، ذکر و تسبیح، درود شریف، تلاوت قرآن مجید، نفلی نماز و روزہ، صدقہ و خیرات، حج و قربانی وغیرہ۔
۴۔  یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ ایصال ثواب کے لیے کوئی چیز صدقہ و خیرات کی جائے وہ بعینہ میت کو پہنچتی ہے بلکہ صدقہ و خیرات کا جو ثواب آپ کو ملنا تھا  ایصال ثواب کی صورت میں وہی ثواب میت کو ملتا ہے۔
ایصال ثواب پر ہونے والے اعتراضات اور ان کے جوابات:
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایصال ثواب کا عقیدہ قرآن پاک سے بالکل خلاف ہے۔ قرآن پاک میں صاف طور پر آیا ہے۔ لیس للإنسان إلا ما سعیٰ۔ (اور یہ کہ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا) اور دوسری جگہ ہے۔ ولا تجزون إلا ما کنتم تعملون (اور وہی بدلہ پاؤگے جو کرتے تھے)
اس کا جواب یہ ہے کہ ایصال ثواب قرآن کی کئی آیات سے ثابت ہے۔ مثلا وقل رب ارحمھما کما ر بینیٰ صغراً (اور کہہ اے رب! ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا) اس آیت مبارکہ میں والدین کے لیے دعا کرنے کا حکم ہے چاہے زندہ ہوں یا وفات پا گئے ہون۔ اور ظاہر ہے کہ اس دعا سے ان کو فائدہ بھی پہنچے گا اس لیے کہ قرآن بے فائدہ کام کا حکم نہیں دیتا۔ یہی ایصال ثواب ہے۔ اس میں سعی اور کوشش بیٹے بیٹی کی ہے اور فائدہ والدین کو پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح دیگر کئی آیات سے بھی ایصال ثواب ثابت ہے۔ باقی ہیں وہ آیات جن کو لے کر اعتراض کیا گیا تو اس کا مطلب صاف اور واضح ہے۔ جیسے کوئی شخص پورا مہینہ مزدوری کرے تو اس کی تنخواہ کا حق دار بھی وہی ہوگا اور اسی کی ہی ملکیت ہوگی۔ کوئی اور اس تنخواہ کا حق دار نہیں بن سکتا۔ لیکن اگر وہ خود تنخواہ لے کر کسی محتاج کو صدقہ یا دوست کو ہدیہ کردے تو اب وہ اس کا مالک بن جائے گا۔ اسی طرح کسی انسان کی سعی، کوشش اور محنت کا ثواب اسی کو ملے گا۔ لیکن اگر اس کے بعد وہ یہ بھی سعی کرے کہ اے اﷲ! اس کا جو ثواب مجھے ملا ہے وہ فلاں کو پہنچا دے تو وہ اس کو مل جائے گا۔
یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ ماں، باپ اولاد کی کوشش کا فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ ان کی پیدائش کا سبب ہیں۔ باقی کسی اور کو دوسرے کے عمل کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ لہٰذا کسی اور کے لیے ایصال ثواب درست نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعا مذکور ہے۔ رب اغفرلی والوالدی ولمن دخل بیتی مؤمنا و للمؤمنین و المؤمنات (اے رب معاف کر مجھے اور میرے ماں باپ کو اور جو آئے میرے گھر میں ایماندار اور سب ایمان والے مردوں اور عورتوں کو) اس آیت کریمہ میں سب مؤمن مردوں اور عورتوں کے لیے دعا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نوح! میں نے تیرے اور تیرے والدین کے حق میں دعا قبول کرلی کیونکہ وہ تیری پیدائش کا سبب ہیں اور با قی مؤمن جو تیرے گھر میں ہیں اور گھر سے باہر کے سب مؤمن مردو اور عورتوں کے لیے تیری دعا بے فائدہ عبثت اور فضول ہیں۔ آئندہ ایسا نہیں کرنا۔ اس لیے کہ تیری کوشش کا فائدہ کسی اور کو پہنچانا میرے قانون کے خلاف ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا نقل فرماکر ہمیں دعا کا طریقہ سکھلایا ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں بھی تمام مؤمنین کے لیے دعا ہے۔
ایصال ثواب کی مختلف صورتوں کی تفصیل:
ذخیرہ احادیث میں ایصال ثواب کے مختلف طریقے منقول ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
۱۔ نماز جنازہ:
انسان کی وفات کے بعد سب سے پہلے جس عمل کی ادائیگی ہوتی ہے وہ نماز جنازہ ہے اور نماز جنازہ بھی ایصال ثواب کی ایک صورت ہے اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: إذا صلیتم علی المیت خلصوالہ الدعاء (ابن ماجہ)
’’جب مردہ پر نماز پڑھو تو خلوص کے ساتھ اس کے لیے دعا کرو۔ اسی طرح آپ ﷺ سے کئی دعائیں کتب احادیث میں منقول ہیں جو آپ ﷺ نے جنازوں میں پڑھیں، اس سے مقصود صرف ایصال ثواب ہے۔
چونکہ نماز جنازہ سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس لیے مؤمن کے بارے میں تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہر نیک و بد پر نماز جنازہ پڑھو، مگر کافروں کو ثواب نہیں پہنچتا، اس لیے ان کی نماز جنازہ سے سختی سے منع کردیا گیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ولا تصل علیٰ أحد منہم مات أبداً ولا تقم علیٰ قبرہ انھم کفروا باﷲ ورسولہ وما توادھم فسقون۔ (اور نماز نہ پڑھ ان میں سے کسی پر جو مر جائے کبھی اور نہ کھڑا ہو اس کی قبر پر۔ وہ منکر ہوئے اﷲ سے اور اس کے رسول سے اور وہ مر گئے نافرمان)
۲۔ قبر پر دعا:
عن عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ قال کان النبی ﷺ إذا فرغ من دفن المیت فقال استغفر وألا خیکم واسئلوالہ التبثیت فإنہ الأن یسئل۔‘‘ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب مردہ کے دفن سے فارغ ہوتے تو فرماتے اپنے بھائی کے لیے بخشش مانگو اور اس کی ثابت قدمی کی دعا کرو۔ کیونکہ اب اس سے سوال ہورہا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کو دفنانے کے بعد اس کے لیے استغفار کرنا اور بخشش طلب کرنا چاہیے۔ اور یہ بھی ایصال ثواب ہے۔ اور زندوں کو سعی و کوشش ہے جس سے مردوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے نیز اس میں یہ بھی قید نہیں کہ صرف بیٹا دعا کرے اور کوئی نہ کرے۔
زیارت قبور:
زیارت قبول مسنون ہے اور زیارت کے وقت بھی مردہ کے لیے دعا کرنا مسنون ہے۔ یہ دعا بھی ایصال ثواب ہی ہے۔ اس میں بھی یہ کوئی تخصیص نہیں کہ صرف بیٹا ہی دعا مانگے باقی دعا نہ مانگیں۔ مسلم شریف میں دعا کے الفاظ یہ ہیں: السلام علیکم أھل الدیار من المؤمنین والمسلمین وانا إن شاء اﷲ بکم لا حقون نسأل اﷲ لنا ولکم العافیۃ (سلام ہو تو پر اے ان گھروں والے مؤمنو اور مسلمانو! اور ہم بھی ان شاء اﷲ تم سے ضرور ملنے والے ہیں۔ ہم اپنے اور تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرتے ہیں‘‘۔
۴۔ صدقات: عن عائشہ رضی اﷲ عنھا أن رجلاً اتی النبی ﷺ فقال یا رسول اﷲ ان امی افتتلت نفسھا ولم تومن وأظنھا لو تکلمت تصدقت أفلھا أجر إن تصدقت عنھا؟ قال نعم (بخاری ص ۳۸۶)
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس کی والدہ اچانک فوت ہوگئی اور اس نے کوئی وصیت نہ کی اورمیرا گمان ہے اگر وہ بات کرتی تو صدقہ کرتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو اس کا ثواب پہنچے گا؟ فرمایا ہاں۔‘‘
اسی طرح کی ایک حدیث مسلم اور مسند احمد میں بھی مذکور ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔
۵۔ حج:
عن ابن عباس رضی اﷲ عنھا ان امراۃ من جھینۃ جاء ت الی النبی ﷺ فقالت إن أمی نذرت أن تحج فلم تحج حتی ما تت أفاحج عنھا؟ قال جحی عنھا۔ (بخاری ج ۱ ص ۲۵۰) ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہنہ کی ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی، اور وہ منت پوری کرنے سے پہلے فوت ہوگئیں کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ فرمایا اس کی طرف سے حج کر۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کی طرف سے حج کرکے اس کو اس کا ثواب پہنچانا صحیح ہے اور یہ ایصال ثواب ہے۔
۶۔ تلاوت قرآن:
عن ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺ من داخل المقابر ثم قرأ فاتحۃ الکتاب وقل ھو اﷲ أحد و الٰھکم التاکثر ثم قال اللھم إنی جعلت ثواب ہذا ما قرأت لأ ھل المقابر من المؤمنین والمؤمنات کانوا شفعاء لہ إلی اﷲ تعالیٰ۔ (شرح الصدور للسوطحا، ص ۱۳۵)
’’حضرت ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو قبرستان میں داخل ہوکر سورۃ فاتحہ، سورۃ اخلاص اور سورۃ التکاثر پڑھے۔ پھر کہے اے اﷲ میں نے جو تیرا کلام پڑھا اس کا ثواب اس قبرستان کے مؤمن مردوں اور عورتوں کو بخشتا ہوں تو وہ سب اس کی شفاعت کریں گے۔
عن أنس رضی اﷲ عنہ أن رسول اﷲ ﷺ قال من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰسین خفف اﷲ عنھم وکان لہٗ بعدد من فیھا حسنات۔ (شرح الصدور للسوطحا ص ۱۳۵) حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو قبرستان میں داخل ہوا اور اس نے سورت یٰسین کی تلاوت کی، مردوں سے اﷲ تعالیٰ عذاب ہلکا فرما دیں گے اور اس پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر نیکیاں ملیں گی۔
حماد مکی کا بیان ہے کہ میں ایک رات مکہ کے ایک قبرستان میں گیا۔ میں ایک قبر پر سر رکھ سو گیا میں نے دیکھا کہ قبرستان والے مختلف ٹولیوں میں بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا قیامت قائم ہوگئی؟ انہوں نے کہا نہیں۔ ہمارے ایک بھائی نے ’’قل ھو اﷲ أحد‘‘ پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخشا تھا اور ہم ایک سال سے وہ ثواب تقسیم کر رہے ہیں۔
مندرجہ بالا امام سیوطی رحمہ اﷲ نے شرح الصدور میں نقل فرمائی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ان روایات میں اگرچہ ضعف ہے لیکن ان کا مجموعہ اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی اصل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے بھی ایصال ثواب کیا جا سکتاہے۔
قربانی:
امام ابوداؤد نے ابوداؤد شریف میں ایک باب باندھا ہے‘‘ باب الأضحیۃ عن المیت‘‘ یعنی میت کی طرف سے قربانی کرنا اور اس میں حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہ حضرت ﷺ کے وصال کے بعد ہر سال دو دنبے قربانی کیا کرتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اکرم ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کرکے ایصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ کلام:
خلاصہ یہ ہے کہ مطلق ایصال ثواب کا اہل سنت و الجماعت میں سے کوئی منکر نہیں۔ معتزلہ جیسا بدعتی فرقہ اس کا منکر رہا ہے۔ اہل سنت کا مسلک نہایت واضح ہے کہ ایصالِ ثواب درست اور جائز ہے، خواہ بدنی عبادت کا ہو یا مالی عبادت کا۔
البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ شریعت کے موافق ہو۔ شریعت کا مزاج او ذوق یہ ہے کہ فرائض میں اعلان و اجتماع ضروری ہے اور نوافل میں انفرادیت اور اخفاء محبوب و مطلوب ہے۔ مثلاً فرض نماز باقاعدہ اذان و اقامت کے ساتھ با جماعت ادا کرنے کی تاکید ہے، مگر نوافل اور سنن اگر مسجد کے بجائے گھر میں پڑھی جائیں تو زیادہ محبوب ہیں۔ اسی طرح ایک ایصال ثواب تو فرض کفایہ ہے اور وہ ہے نماز جنازہ۔ یہ باجماعت ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ساری عمر ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس میں اجتماع اور اعلان شریعت کے مخالف ہے۔ اس کے لیے دن مقرر کرنا، اعلان کرکے لوگوں کو جمع کرنا اور اجتماعی رنگ دینا، یہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہے اور خصوصاً احناف کے ہاں یہ بدعت ہے اور بدعت سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
اسی طرح ایک اور احتیاط بھی بہت اہم ہے کہ اگر ایصال ثواب کرنے والا اپنی ملکیت سے کر رہا ہے تو خیر، لیکن اگر میت کے ترکہ سے ترکہ تقسیم کیے بغیر کر رہا ہے تو سب وارثوں کا رضا مند ہونا ضروری ہے۔ ان میں سے کوئی وارث غائب یا نا بالغ نہ ہو ورنہ بجائے ثواب کے گناہ ہوگا۔ اس لیے میت کا مال پہلے شرعی طریقے سے کیا جائے۔ پھر اپنے حصہ میں سے ایصالِ ثواب کیا جائے۔
http://www.suffahpk.com/easly-sawab/

No comments:

Post a Comment