Friday, 19 January 2018

جانوروں کے ذریعہ کئے گئے شکار کے حلال ہونے کی شرطیں

جانوروں کے ذریعہ کئے گئے شکار کے حلال ہونے کی شرطیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتیان کرام کلب معلم (سدھایا ہوا کتا) کے ذریعہ شکار کیا گیا جانور اگر مرجائے تو اسکا کھانا درست ہے یا نہیں؟
نیز اسکو شرعی طور پر ذبح کیا جائے گا یا نہیں؟
اس کا مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
محمد عطاء اللہ سمیعی۔ میرٹھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب وباللہ التوفیق:
بخاری شریف میں اس بابت تفصیلی روایت ذکر گئی ہے:
بَاب إِذَا أَكَلَ الْكَلْبُ وَقَوْلُهُ تَعَالَى (يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمْ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنْ الْجَوَارِحِ [ص: 2089] مُكَلِّبِينَ) الصَّوَائِدُ وَالْكَوَاسِبُ (اجْتَرَحُوا) اكْتَسَبُوا (تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمْ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ إِلَى قَوْلِهِ سَرِيعُ الْحِسَابِ) وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ فَقَدْ أَفْسَدَهُ إِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ وَاللَّهُ يَقُولُ (تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمْ اللَّهُ) فَتُضْرَبُ وَتُعَلَّمُ حَتَّى يَتْرُكَ وَكَرِهَهُ ابْنُ عُمَرَ وَقَالَ عَطَاءٌ إِنْ شَرِبَ الدَّمَ وَلَمْ يَأْكُلْ فَكُلْ
5166 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ بَيَانٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ إِنَّا قَوْمٌ نَصِيدُ بِهَذِهِ الْكِلَابِ فَقَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَإِنْ قَتَلْنَ إِلَّا أَنْ يَأْكُلَ الْكَلْبُ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَى نَفْسِهِ وَإِنْ خَالَطَهَا كِلَابٌ مِنْ غَيْرِهَا فَلَا تَأْكُلْ
صحيح البخاري. كتاب الصيد والذبائح۔
حضرت عدی بن حاتم رض کہتے ہیں مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: (اے عدی) جب تم اپنے (سدھائے ہوئے شکاری) کتے کو چھوڑنے لگو تو بسم اللہ پڑھو۔ پھر وہ کتا اگر تمہارے لئے شکار کو پکڑے رکھے اور تم اس کو زندہ پالو تو شکار کو ذبح کرلو۔ اور اگر شکار کو اس حال میں پائو کہ وہ مرچکا ہو اور کتے نے اس میں سے کچھ نہیں کھایا تو تم اس کو کھاسکتے ہو اور اگر کتے نے (اس میں سے کچھ) کھالیا تو پھر تم (اس شکار کو) نہ کھاؤ کیونکہ (اس صورت میں) کتے نے شکار کو اپنے لئے پکڑے رکھا ہے اور اگر تم اپنے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا پاؤ (جس کو کسی شکار ی نے نہ چھوڑا ہو یا ایسے نے چھوڑا ہو جس کا ذبیحہ حلال نہیں یا جس کے مالک کے بارے میں کچھ علم نہ ہو) اور شکار مرچکا ہو تو اس شکار کو بھی نہ کھاؤ کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس کو ان دونوں کتوں میں سے کس نے قتل کیا ہے۔
نصوص بالا سے مفہوم ہوتا ہے کہ کتے کے شکار کے حلال ہونے کے لئے بنیادی طور پہ تین شرطیں ہیں:
سدھایا ہوا ہو (معلم ہونے کی علامتیں ائمہ مجتہدین کے یہاں مختلف ہیں)
بسم اللہ پڑھ کے چھوڑا جائے
شکار میں سے وہ اپنے لئے کچھ نہ کھائے۔
یہ تین شرطیں تو آیت قرآنی سے سمجھ میں آتی ہیں۔
باقی حضرات فقہاء کرام نے مختلف احادیث وآثار کی روشنی میں  شکار کئے ہوئے جانور کی حلت  کے لئے کچھ مزید شرطیں لگائی ہیں۔ مثلا:
۱[ شکاری جانور جب شکار پر چھوڑا ہو تو وہ اپنی تعلیم مکمل کرچکا ہو۔
۲[ مسلمان یا کتابی نے اس کو چھوڑا ہو یا تیر چلایا ہو۔
۳[ چھوڑتے وقت یا تیر چلاتے وقت بسم اللہ پڑھی ہو الایہ کہ بھول گیا ہو۔
۴[ ایسے جانور پر چھوڑا گیا ہو جو اپنی ٹانگوں سے یا اپنے پروں سے اپنے آپ کو بچانے کی قدرت رکھتا ہو۔
۵[ بدن کی کوئی جگہ جانور یا تیر سے زخمی ہوئی ہو اور جانور مرگیا ہو۔
۶[ اگر شکار کئے ہوئے جانور کو زندہ پایا اور اس میں ذبح شدہ سے زیادہ حیات ہو تو اس کو ذبح کرنا ضروری ہے۔
۷[ اگر تیر شکار کو لگا اور جانور تیر سمیت بھاگتا گیا اور نظروں سے غائب ہوگیا تو شکاری اس کا پیچھا کرتا رہے، کہیں بیٹھ نہ جائے۔
ان شرطوں کی رعایت کے ساتھ کتے کا شکار حلال ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
30 ربیع الثانی 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment