انیسویں صدی برصغیر کی تاریخ میں ایک انقلاب آفریں صدی تھی، جس کے آغاز میں برصغیر میں مغربی طاقتیں بر سر پیکار رہیں۔ وسط میں اس مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا جس کی داغ بیل ظہیر الدین بابر کے تابڑ توڑ حملوں نے1526 میں ڈالی تھی اور بقیہ نصف صدی مسلمانوں نے اپنے کھوئے ہوئے وقار اور سماجی و معاشرتی شیرازہ بندی میں وقف کی۔
اس صدی کا ایک بڑا واقعہ1857کی جنگ آزادی ہے، جس کے ذریعے اہل ہند نے مغربی سامراج کا طوق غلامی اتار پھینکنے کے لئے بھر پور طاقت کا مظاہرہ کیا اس جنگ آزادی میں ہندوستان کے ایک شہر نے بہت شہرت حاصل کی یہ دلی کے قریب صوبہ یو پی کا شہر میرٹھ تھا، جہاں سے مجاہدین نے 6مئی 1857 کو غدر برپا کیا اور طوفان کی طرح ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک بستی سے دوسری بستی تک پرچم حریت لہراتے ہوئے ختم ٹھونک کر میدان عمل میں آ گئے۔ اسی میرٹھ کے قصبے ہاپوڑ میں مولوی عبدالحق پیدا ہوئے۔ انہوں نے ساری زندگی اردو زبان و ادب کے لئے جہاد میں گزار دی اس کے لئے وہ بستی بستی اور قریہ قریہ میدان عمل میں رہے ان کے بھتیجے محمود حسین تحریر کرتے ہیں:
” دہلی سے چھتیس میل دور مراد آباد کی جانب میرٹھ میں ایک قصبہ ہاپوڑ واقع ہے، ہم لوگ اس قصبے کے رہنے والے ہیں۔ اگر آپ ہاپوڑ جائیں تو کوئی بھی آپ کو محلہ قانون گویان میں پتھر والے کنوئیں کا پتہ بتا دے گا۔ اس کنوئیں کے سامنے ایک بڑی سی عمارت دکھائی پڑتی ہے، جو آج سے تقریباً چالیس برس پہلے مٹی گارے کے کچے مکان کو منہدم کر کے نئے سرے سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہی بابائے اردو مولوی عبدالحق اور ہم سب کا آبائی مکان ہے۔ ہمارے اجداد یہیں رہتے تھے اور ان کے سپرد دور مغلیہ میں محکمہ مال کی قانون گوئی کی خدمتیں تھیں۔“
مولوی عبدالحق کے بزرگ ہاپوڑ گے کا نستخیر تھے جنہوں نے مغلیہ عہد میں اسلام کی روشنی سے اپنے دلوں کو منور کیا۔ ان کے سپرد سلطنت مغلیہ میں ہمیشہ محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں و مراعات اور معافیاں حاصل رہیں جو سلطنت مغلیہ کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئی تھیں یہ معافیاں انگریزی حکومت نے بھی بحال رکھیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی احمد حسن کے بقول:
” میں ہی خاندان کا وہ آخری فرد ہوں جس نے بہ منظوری گورنمنٹ 1945 میں اپنی خاندانی معافی کو ختم کیا۔“
مولوی عبدالحق کے خاندانی حالات پر ان کے بھتیجے محمود حسین نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں:
” یہ سب ہندو تھے اور کائستھ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب عہد شاہجہانی میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور شیخ عبدالدائم نام پایا ان کی اولاد شمال مغربی ہند جس کو آج اتر پردیش کہا جاتا ہے، کے تمام اضلاع میں پھیل گئی۔ ان ہی میں سے ہمارے مورث اعلیٰ شیخ صادق حسین تھے، جن کی قبر آج بھی ہمارے خاندانی قبرستان ہاپوڑ میں موجود ہے۔ شیخ صادق حسین مرحوم سے جو سلسلہ چلا۔ اس میں میرے دادا یخ علی حسین صاحب مرحوم تھے، جن کی آٹھ اولادیں ہوئیں چار لڑکے اور چار لڑکیاں اولاد نرینہ میں سب سے بڑے شیخ ضیاءالحق صاحب مرحوم تھے، اس کے بعد مولوی عبدالحق اب صرف میرے والد مولوی احمد حسن، جو بابائے اردو کے چھوٹے بھائی ہیں، بقید حیات ہیں، باقی سب بہن بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے۔“
لیکن بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک خاص ملازم عبدالرشید جن کی تین پشتیں (دادا، والد اور عبدالرشید) مولوی عبدالحق کے خاندان کی خدمت میں رہیں، اپنے ایک انٹرویو میں، جو انہوں نے مولوی عبدالحق کی وفات پر شمیم احمد کو دیا تھا، محمود حسین صاحب کے اس بیان سے اختلاف کیا ہے جس میں شیخ محمود حسین نے اپنے دادا کی آٹھ اولادیں بتائی تھیں۔ صوفی عبدالرشید اپنی والدہ کی روایت سے بتاتے ہیں:
” مولوی صاحب سمیت تین بھائی اور تین بہنیں تھیں بھائیوں میں بڑے ضیاءالحق صاحب ہاپوڑ میں رہتے تھے۔ منجھلے بھائی عبدالحق صاحب تھے اور چھوٹے احمد حسن، جو بھوپال میں انجینئر تھے۔ مولوی صاحب کی بڑی بہن منشی اخلاق حسین محرر اور زمیندار کو بیاہی گئی تھیں، جو ہاپوڑ میں رہتے تھے باقی دو چھوٹی بہنیں بھی ہاپوڑ کے زمیندار گھرانوں میں بیاہی گئی تھیں۔“
غیور عالم صاحب نے ’ قومی زبان‘ کراچی 1968 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سوانحی خاکہ اپنی ذاتی تحقیق کی بنیادپر تحریر کیا، گو اس تحقیقی خاکے میں انہوں نے تحقیقی حوالے، شواہد اور روایتوں کا تذکرہ نہیں کیا، لیکن تحریر میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاندانی پس منظر پر اچھی خاصی روشنی پڑتی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
” بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاندان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔روایتیں کمزور ہیں ،ہاں صرف ان کے جد اولیٰ صادق علی کے نام کا پتہ چلتا ہے، لیکن درمیانی کڑیاں غائب ہیں اور ہمیں ان کے خاندان کا سلسلہ ان کے دادا صفدر بخش سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ شیخ صفدر بخش کے دو بھائیوں کے نام جو مجھے اپنی ذاتی تحقیق کے دوران میں معلوم ہوئے، ان میں ایک کا نام شیخ بشارت علی اور دوسرے کا شیخ ضامن علی تھا۔ ان میں شیخ صفدر بخش ہی سب سے بڑے نکلے۔ شیخ صاحب نے دو شادیاں کیں ان میں پہلی بیوی سے شیخ امام بخش وغیرہ تھے جن کے خاندان کے افراد آج بھی ہاپوڑ میں موجود ہیں۔ دوسری بیوی سے شیخ علی حسن تھے جو مولوی عبدالحق کے والد تھے۔“
شیخ علی حسن کے سات اولادیں تھیں۔ ان میں سب سے بڑے شیخ ضیاءالحق، شیخ احمد حسن اور چھوٹے محمود تھے، ان کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ بعض حضرات نے جب بابائے اردو کے خاندانی حالات پر روشنی ڈالی تو انہوں نے ان کے صرف تین بھائیوں کا تذکرہ کیا۔ شیخ احمد حسن نے بھی اپنے چھوٹے بھائی محمود کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے شاید اس وجہ سے کہ وہ بچپن میں انتقال کر گئے تھے، اہمیت نہیں دی، لیکن میں نے یہ ذکر ضروری سمجھا، اس لئے کہ آئندہ تحقیقی اعتبار سے غلطی کا امکان نہ رہے۔دوسرے یہ کہ حالات کی گرد جب عبدالحق کے خاندانی حالات پر دبیز ہو جائے گی تو غلطی ایک حقیقت بن جائے گی، اور ان کے خاندانی حالات لکھنے والے تحقیق اور یقین کے ساتھ ان کے دو بھائیوں کا ذکر کریں گے۔ اس لئے میں نے زیادہ اختصار بہتر نہ سمجھا۔ بابائے اردو کے تین بھائیوں کا تو ذکر کر چکا ہوں، اس کے علاوہ ان کی تین بہنیں تھیں۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے خاندانی پس منظر کے سلسلے میں ہمیں مولوی عبدالحق صاحب کے بھائیوں کا تذکرہ تو تفصیل سے مل جاتا ہے لیکن بہنوں کے سلسلے میں صرف اشارے یا ان کی شادیوں کا ذکر ملتا ہے۔ مولوی عبدالحق کے بڑے بھائی کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ بے باک صحافی تھے بقول فضول احمد صدیقی:
” شیخ صاحب کی شہرت ان سے بہت آگے آگے چلتی تھی۔ پگڑیاں اچھالنے میں ان کا نام خاصا اونچا تھا اور وہ اونچی اونچی کی ہی خبر لیتے تھے مرحوم مولانا محمد علی جوہر اور خواجہ حسن نظامی میں جو بم خچ رہی اس سلسلے میں ہاپوڑی صاحب محتاج تعارف نہ تھے۔ ایک ہاپوڑ کیا ان سے رجواڑے تک پناہ مانگتے تھے۔ اس لئے شیخ صاحب کا ہر شہر میں ڈیکلریشن کا چھاپہ خانہ تھا اور وہ جہاں سے چاہتے اپنے عجیب عجیب دستخط شدہ پمفلٹ بڑے طرم بازوں کے خلاف بے دھڑک شائع کر دیتے۔“ (۶)
دراصل یہ زمانہ ہندوستان میں انگریزوں اور ان کے گماشتوں کے خلاف بغاوتوں کا دور تھا رجواڑے مغربی سامراج کی پناہ گاہیں تھیں جہاں کے عوام روایتی ظلم و ستم کا شکار تھے شہزادوں، ولی عہدوں اور نوابوں میں باہم جنگ تخت نشینی رہتی تھی اور دربار میں سازشیں پروان چڑھتی تھیں، اس لئے اخبار نویسوں کا ایک طبقہ جس کے علم بردار دیوان سنگھ مفتون تھے، بے باک صحافت کی داغ بیل ڈال رہے تھے، اس طبقے سے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بڑے بھائی ضیائ الحق صاحب کا تعلق تھا، اس سلسلے میں فضل احمد صدیقی لکھتے ہیں:
” تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ان کے شبدیز قلم نے بجائے ادب کے میدان سیاست کو جولاں گاہ بنایا جیسا کہ ان کی تصانیف سے ظاہر ہوتا ہے وہ اردو کے بڑے زبردست اہل قلم، انشاءپرداز، ماہر صحافی تھے۔ بابائے اردو کو سر سید، علی گڑھ کالج کی تعلیم اور ماحول نے شہرت پر پہنچا دیا مگر وہ اپنے وطن اور پنجاب ہی میں رہے جہاں ان کے والد بر سر ملازمت تھے۔ انیسوی صدی کے آخر دور میں انہوں نے دیسی والیاں ریاست کی بد عنوانیاں اور بد کرداریاں اور مظالم بے نقاب کرنے کے لئے قلم اٹھایا اور کتابچے لکھ کر شائع کرنا شروع کئے جن میں سنسنی خیز انکشافات کئے گئے۔ جس کے نتیجے میں ان پر مقدمات دائر ہوئے۔۔۔۔ 1904 کی تقسیم بنگال اور جنگ روس و جاپان کے ایام میں ہندو بنگالیوں نے حکومت انگریزی کے خلاف منظم ہل چل شروع کر رکھی تھی۔ صوفی اصبا پرشاد کا ایک اردو اخبار نکلتا تھا جس سے شیخ صاحب بھی وابستہ رہے اور ان کے ہم نوا اور شریک کار ہو گئے ۔جب حکومت نے ان لوگوں کے خلاف اقدامات شروع کئے تو اجیت سنگھ، اصبا پرشاد اور شیخ صاحب ہندوستان سے ایران چلے گئے۔ اصبا پرشاد کا ایران میں انتقال ہو گیا، اجیت سنگھ ایران سے لاپتہ ہو گیا۔ شیخ صاحب انگریزی سفیر متعینہ ایران کی ایماءپر گرفتار کر لئے گئے اور سات سال کی سزا ہو گئی۔۔۔۔ ان کورشین اسپائی (روس جاسوس) قرار دیا گیا اور سینٹرل انٹیلی جنس (مرکزی سی آئی ڈی) نے نگرانی شروع کر دی۔“ (۷)
شیخ ضیاءالحق عمر کے آخری حصے میں بیمار رہنے لگے۔ انہوں نے اپنے خط محررہ 8ستمبر 1936 میں سراج احمد عثمانی کو بیماری کے سلسلے میں تحریر کیا:
” ڈاکٹروں کے علاج سے کچھ فائدہ ہوا، مگر کل نہیں تین چار دن سے یونانی علاج ایک باہر کے حکیم کا ہے۔ بخار بالکل نہیں رہا۔ کچھ یرقان کا اثر ہے۔ کھایا پیا کچھ نہیں جاتا۔ بلا سہارے نہیں چل سکتا۔“
اس خط کے کچھ عرصے بعد شیخ ضیاءالحق صاحب کا یرقان کے سبب انتقال ہو گیا۔
شیخ ضیاءالحق مرحوم کو کتب بینی کا بہت شوق تھا اور ہزاروں کی تعداد میں بیش قیمت کتابیں ان کے ذاتی کتب خانے میں موجود تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد یہ کتب خانہ نا قدری کا شکار ہو گیا اور یہ کتابیں ان کے صاحبزادے 1934ءمیں دیوان سنگھ مفتوں کے حوالے کر آئے جنہوں نے اسے دہلی کے کتب خانہ نذیرہ کو دے دیا۔
مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی شیخ احمد حسن انجینئر تھے، جن کی کفالت بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے کی ۔شیخ احمد حسن نے اپنے مضمون’ ابدی بھائی‘ مطبوعہ سہ ماہی’ اردو‘کراچی 1936 مرتبہ سید وقار عظیم صاحب میں تسلیم کیا ہے۔
” انہوں نے 1897 میں راقم الحروف کو بغرض تعلیم اپنے پاس حیدر آباد بلا لیا اور مدرسہ آصفیہ میں داخل کر دیا۔ فرصت کے اوقات میں خود بھی پڑھاتے رہے چھ سال تک میں ان کے پاس رہا۔ میرا رحجان ٹیکنیکل تعلیم (ڈرائنگ وغیرہ) کی طرف دیکھتے ہوئے نواب افسر الملک سے اس کا تذکرہ کیا۔ ممدوح نے فرمایا کہ میجر اٹیکسن پرنسپل روڑ کی کالج میرے دوست ہیں۔ احمد حسن کو اس کے پاس بھیج دیتا ہوں، جہاں لیاقت اور اہلیت کے مطابق اس کا داخلہ ہو جائے گا۔ چنانچہ روڑ کی بھیج دیا گیا اور میجر اٹیکس پرنسپل تھامسن سول انجینئرنگ کالج روڑ کی نے امتحانی مقابلہ سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے میرا داخلہ کر لیا یہاں سے 1907 میں میں نے ڈپلوما حاصل کیا۔ زمانہ تعلیم میں بحیثیت واحد سرپرست بھائی صاحب مرحوم ہی میرے جملہ مصارف ادا کرتے رہے صرف یہی نہیں بلکہ گھر کے اخراجات اور بہن بھائیوں نیز والدین کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر رہی۔“
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی ساری حیات علم و ادب کی نذر کی۔ لوگوں کے تذکرے لکھے، خاکے قلم بند کئے، افکار و حالات پر قلم اٹھایا لیکن انہیں اپنی مربوط اور منظم آپ بیتی لکھنے کی فرصت نہ ملی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ مولوی عبدالحق کا مولد اور تاریخ پیدائش کیا ہے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کے انتقال16اگست1961پر اخبارات میں ان کی عمر کے سلسلے میں کافی تضاد تھا۔ اس ضمن میں افضل صدیقی صاحب نے اپنے مضمون’بزم سرسید کی آخری شمع‘ میں تحریر کیا:
” مولوی صاحب کی عمر گذشتہ کئی دنوں سے 93 یا94 سال لکھی جا رہی ہے، جو غلط ہے۔ کل بھی مولوی صاحب کی صحیح تاریخ شائع نہیں ہوئی، مارچ1870 لکھا گیا اصل میں بابائے اردو 20اپریل1870 کو پیدا ہوئے ۔اس حساب سے ان کی عمر91برس اور4مہینے ہوتی ہے۔ یہ بھی غلط ہے کہ وہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے ۔ہاپوڑ کے قریب ایک مقام ہے ’ سسراواں‘ مولوی عبدالحق صاحب اس قصبے میں پیدا ہوئے۔“
ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب نے بھی مشفق خواجہ صاحب کے نوٹس کے حوالے سے جو انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کی زندگی میں لئے تھے اور اس پر ان کی زندگی میں منظوری بھی لے لی تھی، مولوی عبدالحق صاحب کی پیدائش 20اپریل1870 اور جائے ولادت ’ سسراواں‘ نامی گاو ¿ں بتایا ہے۔
ڈاکٹر ممتاز حسن11 سے قبل اور بعد کے مصنفین تحریر کرتے رہے کہ مولوی عبدالحق کا خاندان کائستھ سے عہد شاہ جہانی میں مسلمان ہوا تھا لیکن ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب کا کہنا ہے:
” ان کے بزرگوں نے جہانگیر کے عہد میں اسلام قبول کیا۔“
شاہد عشقی نے مولوی عبدالحق کاسنہ ولادت1871 اور جائے ولادت ضلع میرٹھ کا شہر ہاپوڑ قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب 14نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کا سنہ ولادت اور زندگی کے ابتدائی حالات کے ضمن میں سب سے معتبر شہادت ان کے برادر خورد شیخ احمد حسن کی ’ معلومات آفریں تحریر‘ 15کو قرار دیا ہے جس میں وہ (شیخ احمد حسن) تحریر کرتے ہیں:
” میرے دونوں بھائیوں کی پیدائش ہاپوڑ کی ہے اور جیسا اکثر لکھا گیا ہے کہ بھائی عبدالحق مرحوم سرواہ جو ہاپوڑ سے ملحق واقع ہے، میں پیدا ہوئے، صحیح نہیں یہ بات ہمارے خاندانی رسم و رواج کے خلاف تھی کہ زچگی کا انتظام میکے میں ہو۔ اس غلط فہمی کی وجہ شاید یہ ہو کہ والدہ مرحومہ اپنے ماں باپ کی واحد لڑکی اور اپنے بھائیوں کی ایک ہی بہن تھیں ہمارے نانا اور ماموں ان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کا قیام سراوہ میں رہتا تھا لیکن جہاں تک بھائی صاحب کی پیدائش کا تعلق ہے ان کا مولد ہاپوڑ ہی ہے۔“
ڈاکٹر سید معین الرحمن نے اس دلیل کا مزید ثبوت بابائے اردو مولوی عبدالحق کے 6مئی 1947 کے اس اسلحہ کے فارم کی خانہ پری سے بھی دیا جس میں مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے قلم سے اپنی تاریخ ولادت اور وطن (ہوم ایڈریس) کی صراحت کی ہے جس کے مطابق مولوی عبدالحق صاحب کی تاریخ پیدائش20اگست1870 ہے اور مولد ہاپوڑ
بابائے اردو مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی شیخ احمد حسن تحریر کرتے ہیں:
” ہمارے خاندان میں نام حسن یا حسین پر رکھے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے سنا تھا کہ والد مرحوم شیخ علی حسین 18کے پیرو مرشد نے ان سے فرمایا کہ اپنے لڑکوں کے نام’ حق‘ پر رکھنا ،لہٰذا پہلی دو نرینہ اولادوں کا نام حق پر رکھا گیا۔ اب اسے محض حسن اتفاق کہئے یا پیر صاحب کی کرامت کہ ہمارے خاندانی نام میںلفظ’ حق‘کا شامل ہونا بڑا مبارک ثابت ہوا۔“
” میرے دو بڑے بھائی تھے۔ ایک حقیقی بھائی(شیخ ضیاءالحق مرحوم جرنلسٹ) دوسرے ’ ابدی بھائی‘ کسے معلوم تھا کہ یہ غلط تلفظ ایک دن حقیقت ہو کر رہے گا اور بھائی عبدالحق صاحب اپنے اس عشق کی بدولت جو انہیں اردو سے تھا، واقعی ابدی شہرت کے مالک ہو کر رہیں گے۔“
مولوی عبدالحق صاحب کا خاندان اوسط درجے سے تعلق رکھتا تھا لیکن ان کے والد نے اپنے بچوں کی تعلیم پر پوری توجہ دی۔
” یہاں تک کہ زمین بیج دی اور قرض بھی حاصل کیا۔ ہر طرح کی مصیبت اٹھائی لیکن اپنے لڑکوں کی تعلیم کے لئے کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔“
مولوی عبدالحق صاحب کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور ان کا دل کھیل کود کی بجائے لکھنے پڑھنے میں زیادہ لگتا تھا۔ اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان کے بچوں کے ایک پروگرام میں مولوی عبدالحق صاحب نے ایک بچے کے سوال پر کہ انہیں کون سا کھیل پسند تھا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
” یوں تو بچپن میں انہوں نے گیڑیاں اور گلی ڈنڈا بھی کھیلا ہے لیکن وہ کھلنڈرے نہیں تھے۔ وہ بچپن سے غور و فکر کرنے کے عادی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید احمد خان انہیں عبدالحق فلسفی کے نام سے یاد کرتے تھے۔“
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے مولد اور تاریخ پیدائش کی طرح ان کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اقبال یوسفی صاحب تحریر کرتے ہیں:
” ابتدائی تعلیم اپنے ننھیال سرواہ میں پائی جو ہاپوڑ کے قریب میرٹھ ہی کے ضلع میں واقع ہے، پرائمری کے بعد مڈل تک ان کی تعلیم مشرقی پنجاب میں ہوئی۔“
حکیم اسرار احمد صاحب کا بیان اس سے زیادہ واضح اور قرین قیاس ہے وہ تحریر کرتے ہیں:
” ابتدائی تعلیم ہاپوڑ اور سرواہ میں پائی (سرواہ ہاپوڑ کے قریب ایک گاو ¿ں ہے جہاں مولوی صاحب کی ننھیال تھی) ۔ابتدائی تعلیم سے فراغت پا کر وہ اپنے والد شیخ علی حسن مرحوم کے پاس فیروز پور پنجاب چلے گئے۔ شیخ علی حسن صاحب سرکاری ملازم تھے اور ان دنوں فیروز پور میں تعینات تھے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اردو مڈل تک یہیں تعلیم حاصل کی اور پھر علی گڑھ چلے گئے اور وہیں سے 1894میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔“
ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب نے تحریر کیا ہے:
” مولوی صاحب ابھی کم سن ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کے ماموں شیخ امتیاز علی اور دوسرے ماموں نے جو پنجاب کے محکمہ مال میں ملازم تھے مولوی صاحب کی پرورش کی مولوی صاحب کی ابتدائی تعلیم کا دور پنجاب کے مختلف اضلاع مثلاً فیروز پور، گجرات وغیرہ میں گذرا۔ میٹرک کا امتحان بھی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی ہی سے پاس کیا۔ یہ 1890 کا واقعہ ہے یعنی مولوی صاحب20سال کی عمر میں انٹر پاس ہوئے ۔اس سال وہ علی گڑھ گئے۔“
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے بھائی احمد حسن نے اپنے مضمون’ابدی بھائی‘ میں تحریر کیا کہ ان کی میٹرک تک تعلیم پنجاب میں ہوئی۔
مولوی عبدالحق صاحب کی ابتدائی تعلیم کے ضمن میں مختلف محققین بھی اس بات پر تو متفق ہیں کہ ان کی کم از کم مڈل تک تعلیم پنجاب میں ہوئی لیکن یہ بات حتی طور پر نہیں کہہ سکے کہ پنجاب کی وہ کون سی بستی اور درسگاہ تھی جس سے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے علم کا فیض حاصل کیا یا ان کے وہ کون سے ابتدائی معلمین تھے جن سے ان کے نیاز مندانہ مراسم تھے لیکن گوجرانوالہ کے ایک قانون گو شیخ خاندان کے چشم و چراغ خالد محمود ربانی مرحوم (صحافی) کی جستجو سے اس راز سے پردہ اٹھ گیا ہے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مڈل تک تعلیم گوجرانوالہ مشن ہائی ا اسکول میں ہوئی جہاں خالد محمود ربانی مرحوم کے دادا ان کے معلم تھے اور مولوی عبدالحق صاحب کے ان سے نیاز مندانہ مراسم تھے۔ اس سلسلے میں خالد محمود ربانی صاحب کے پاس مولوی عبدالحق صاحب کی وہ نایاب تحریر ہے جو انہوں نے خالد محمود ربانی صاحب کے والد محترم شیخ اکرم ربانی صاحب سپرنٹنڈنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کو ان کے اس خط کے جواب میں تحریر کی تھی جو انہوں نے مولوی صاحب کو گوجرانوالہ آنے کی دعوت کے لئے لکھا تھا۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے مرقومہ 17فروری 1953 کے مکتوب سے ان کی ابتدائی تعلیم سے پردے اٹھ جاتے ہیں اور یہ بحث ختم ہو جاتی ہے کہ مڈل تک انہوں نے پنجاب میں کس جگہ تعلیم حاصل کی تھی مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:
” آپ کے والد شیخ کرم داد صاحب گوجرانوالہ کے مشن ہائی ا اسکول میں معلم تھے اور میں طالب علم تھا۔ وہ میرے حال پر بڑے مہربان تھے اور بہت شفقت فرماتے تھے ۔کچھ دنوں بعد میں علی گڑھ چلا آیا اور ایم اے او کالج میں داخل ہو گیا۔ اس کے چند سال بعد جب علی گڑھ کالج میں مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا اجلاس ہوا تو آپ کے والد بھی اس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے ۔اس موقع پر ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے ۔تعلیم سے فراغت کے بعد میں حیدر آباد دکن چلا گیا۔ بہت عرصے کے بعد جب میں صوبہ اورنگ آباد کا صدر مہتمم تعلیمات تھا ۔آپ کے والد کا خط آیا(انہوں نے شاید اخباروں میں نام پڑھا تھا) اور مجھ سے دریافت کیا کہ تم وہی عبدالحق ہو جو کچھ دن گوجرانوالہ میں تھا، جب انہیں معلوم ہوا کہ میں وہی ہوں تو بہت خوش ہوئے۔۔۔۔۔ معلوم نہیں ہے وہ مشن ہائی اسکول اب ہے یا نہیں ۔اس وقت گوجرانوالہ کوئی بڑا شہر نہیں تھا۔ اب سنا ہے کہ بہت بڑا ہو گیا ہے، اور تجارت و صنعت کا مرکز ہے۔ اس زمانے میں منشی محبوب عالم گوجرانوالہ ہی میں تھے اور انہوں نے اپنا ہفت روزہ ’ پیسہ اخبار‘ وہیں سے نکالا تھا۔“
اس وقت مشن ہائی اسکول کے کھنڈرات کے سوا اس کے کچھ آثار نہیں ہیں۔ خالد محمود ربانی صاحب نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے گوجرانوالہ مشن ہائی اسکول میں داخل اور خارج ہونے کے ضمن میں مزید شہادتوں کے لئے گوجرانوالہ میونسپلٹی (جس کیزیر انتظام یہ ہائی اسکول تھا) کا ریکارڈ نکالنے کی کوشش کی لیکن ریکارڈ کرم خوردہ اور ضائع ہو جانے کی وجہ سے ان کی کوشش بر آور نہ ہو سکی۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے اس مکتوب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشن ہائی اسکول گوجرانوالہ سے ہی علی گڑھ گئے لیکن انہوں نے میٹرک تک تعلیم یہاں حاصل نہیں کی کیوں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:
” تہذیب الاخلاق کا مطالعہ مجھے کھینچ کر علی گڑھ لے گیا اور میں کالج کے اسکول میں داخل ہو گیا پہلے کانوں پر تکیہ تھا، اب آنکھوں نے جلوہ دکھایا۔“
کالج کے اسکول میں داخل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق انٹرنس پاس کرنے سے قبل ہی علی گڑھ گئے اور یہ امتحان انہوں نے علی گڑھ کے زمانہ قیام میں پاس کیا۔
مولوی عبدالحق کو علی گڑھ کے مدرسے کا ماحول بڑا طلسماتی اور دلکش محسوس ہوا۔ اس کا تذکرہ وہ بڑے پر لطف انداز میں کرتے ہیں، کہتے ہیں:
” میں جب اول روز مدرسة العلوم مسلمانان ایم اے او کالج علی گڑھ کے اسکول میں داخل ہوا تو بورڈنگ ہاو ¿س میں پرنسپل صاحب کی عنایت سے کمرہ مل گیا، مجھے ایسا معلوم ہوا کہ نئی دنیا میں آ گیا ہوں۔ وہاں کے طالب علم، ان کی عادات اور شرارتیں اور مصروفیات، وہاں کے ڈائننگ ہال اور اس کے کھانے، دنیا بدل گئی، پر اس کا مزہ نہ بدلا، مسجد اور نمازیں اور موذن کی کڑک دار آواز، یہ سارا ماحول میرے لئے بالکل نیا اور عجیب سا تھا1888 یا1889 کی بات ہے، اس وقت طالب علموں کی تعداد تین سو سے زیادہ نہ تھی۔“
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے علی گڑھ کے مدرسے میں بڑی دلجمعی سے پڑھا انہیں کھیل کود سے رغبت نہ تھی، بلکہ مسٹر بیک کمرے سے پکڑ انہیں کھیل کے میدان میں لے بھی جاتے، تو مولوی صاحب فیلڈ میں پہنچ کر غچہ دے کر دوسری طرف نکل جاتے۔ مولوی صاحب کے ذہن پر اسکول کے اساتذہ کی بڑی گہری چھاپ تھی اور وہ بڑے خلوص اور عقیدت سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں مولوی صاحب کہتے ہیں:
” اسکول کے سب معلم ہندوستانی تھے، سوائے ہیڈ ماسٹر ہیورسٹ کے، جو بلند قامت، گراں ڈیل شخص تھے اور کسی فوج کے کرنیل معلوم ہوتے تھے ۔سیکنڈ ہیڈ ماسٹر ولایت حسین تھے، جو بڑے محنتی اور فرض شناس تھے بورڈنگ ہاو ¿س کی نگرانی انہی کے ذمے تھی اور وہ بورڈنگ ہاو ¿س ہی کے کمرے میں رہتے تھے۔ ان کے ذمے اور بھی کئی کام تھے۔ سر سید، محسن الملک اور دیگر اکابرین کے بہت عزت کرتے تھے۔ میرے حال پر بڑی مہربانی فرماتے۔ وہ ہماری جماعت کو ریاضی بھی پڑھاتے تھے۔“
” اسکول کے معلمین میں مولوی خلیل احمد صاحب کی دھج نرالی تھی وہ عربی کے استاد تھے چھوٹے قد کے، ٹخنوں سے اونچا شرعی پاجامہ، کوتاہ نظر، وہ بورڈنگ ہاو?س ہی میں رہتے تھے۔“
اسکول کے زمانے کی طرح کالج کے ایام بھی بابائے اردو مولوی عبدالحق بہت یاد کرتے ہیں سر سید کی محبت، مسٹر بیک کا تذکرہ، کالج کا ماحول اور پروفیسروں کی شفقتیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی یادوں کا انمول خزانہ ہیں۔ مولوی عبدالحق ان ایام رفتہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
” کالج میں تمام پروفیسر سوائے عربی، فارسی، سنسکرت اور ریاضی کے انگریز تھے، فارسی، عربی کے پروفیسر مولانا شبلی اور مولانا عباس حسین تھے ریاضی کے بابو مکر جی، مولانا شبلی، شاعر ادیب اور مورخ تھے ان کی جماعت میں بیٹھ کر جی خوش ہوتا تھا۔ موقع موقع سے ادبی نکات اور اساتہ کے اشعار اور لطائف سنا کر تاریخی واقعات اس طرح بیان کرتے تھے کہ درس کا حق ادا ہو جاتا تھا عباس حسین نرے ملا تھے ادبی ذوق سی عاری، البتہ ضلع جگت کے استاد تھے ضلع بولنے سے کبھی نہ چوکتے اور جو کوئی ان کے جواب میں ویسا ہی بول جاتا تو باغ باغ ہو جاتے۔۔۔۔۔ پروفیسر آرنلڈ کی حیثیت کالج میں خاص بلکہ امتیازی تھی وہ علم کے سچے طالب اور علم دوست تھے۔“
کالج کے زمانے میں جو نامور شخصیات ان کی ہم جماعت تھیں ان میں ڈاکٹر ضیاءالدین، مولوی حمید الدین، مولانا ظفر علی خان، ولایت اللہ، سید محفوظ علی، خواجہ غلام الثقلین، شیخ عبداللہ، سیٹھ یعقوب حسین اور خان بہادر شوکت علی شامل تھے۔
ان تمام مباحث کا حاصل یہ ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انٹرنس(میٹرک) یا بی اے علی گڑھ سے کیا شہاب الدین ثاقب لکھتے ہیں:
” 1892 میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد مولوی صاحب بی اے کی جماعت میں پہنچے۔ بی اے میں فلسفے سے شغف ہوا، اس وجہ سے شمس العلماءمولانا خلیل احمد مرحوم بہت دنوں تک انہیں فلاسفر کے لقب سے یاد فرماتے تھے۔“
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے بی اے کرنے کے سلسلے میں بھی مختلف اور متضاد بیانات میں مثلاًافضل صدیقی، شاہد عشقی، ممتاز حسین، ڈاکٹر سید معین الرحمن اور حکیم اسرار احمد وغیرہ نے بی اے پاس کرنے کا سال 1894 تحریر کیا ہے، جبکہ شہاب الدین ثاقب نے ایم اے او کالج کی ڈائریکٹری کے حوالے سے تحریر کیا ہے:
” مولوی عبدالحق صاحب نے 1895 میں بی اے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔۔۔۔۔۔ ضیاءالدین احمد، ظفر علی خان، سید محفوظ حسین اور محمد ولایت اللہ وغیرہ مولوی صاحب کے ہم جماعت تھے اور سب نے ساتھ ہی 1895 میں بی اے پاس کیا۔“
اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب نے 1895 میں بی اے کیا۔
ڈاکٹر ممتاز حسین صاحب نے ’ اقبال اور عبدالحق‘ میں ان کے بی اے کے داخلے کے ضمن میں تحریر کیا ہے:
” مولوی صاحب ابھی کم سن ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ان کے بڑے ماموں شیخ امتیاز علی اور دوسرے ماموو ¿ں نے جو پنجاب کے محکمہ مال میں ملازم تھے، مولوی عبدالحق کی پرورش کی۔“
یہ بات بھی درست نہیں ہے کیونکہ بہت سے ایسے بیانات ملتے ہیں جن میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ملازمت کر لینے تک ان کے والد صاحب کا تذکرہ ملتا ہے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بھائی شیخ احمد حسن نے مولوی صاحب کا علی گڑھ میں داخلے کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
” بھائی صاحب مرحوم کو علی گڑھ میں داخل کر دیا گیا جہاں سے انہوں نے1894-95 میں بی اے پاس کیا۔ یہ ہاپوڑ کے پہلے شخص تھے جو انگریزی تعلیم کے لئے کالج میں داخل کئے گئے۔ اس وقت ماحول اور شدید خاندانی مخالفت کے پیش نظر والد صاحب کا یہ اقدام بے حد جرآت مندانہ تھا۔“
مندرجہ بالا بیان کی تصدیق کہ بابائے اردو کے والد کا سایہ بچپن میں نہیں اٹھا تھا، محمود حسین صاحب کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے اپنے خاندان سے تعلقات اور ان کی خاندان پروری کا ذکر بڑی سپاس گزاری سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
” مولوی صاحب نے علی گڑھ سے بی اے کرنے کے فوراً بعد حیدر آباد کا رخ کیا اور نواب محسن الملک کے توسط سے آصفیہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہوئے بعد ازاں بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز رہے اور جو ترقی کی وہ سب پر ظاہر ہے ملازم ہوتے ہی اپنے چھوٹے بھائی یعنی میرے والد کو اپنے پاس بلا لیا اور ان کو تعلیم دلائی ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے خرچ پر انجینئری کی تعلیم کے لئے روڑکی بھیجا۔۔۔۔ دادا دادی کو برابر ماہانہ معقول رقم اخراجات کے لئے تاحین حیات بھیجتے رہے اور دادا دادی کے انتقال کے بعد یہی رقم اپنے بڑے بھائی شیخ ضیائ الحق مرحوم کو بھیجتے تھے۔“
بابائے اردو مولوی عبدالحق1888 میں بحیثیت طالب علم علی گڑھ وارد ہو کر1895 میں فارغ التحصیل ہوئے یہ زمانہ علی گڑھ کے عروج کا زمانہ تھا سر سید کی ولولہ انگیز شخصیت اور مولانا حالی کی پاس داری مولوی عبدالحق کی شخصیت پر وہ نقش اول تھا جو نقش آخر ثابت ہوا۔
پروفیسر آرنلڈ کی ’ اخوان الصفا‘نے مولوی عبدالحق کے لئے خطبات کی راہیں ہموار کیں اور طالب علموں میں بہت مشہور ہو گئے وہ تحریر کرتے ہیں:
” ایک مضمون میں سینٹ پال پر پڑھا اس دن سے لڑکے مجھے سینٹ پال کہنے لگے۔“
علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی سے ہی مولوی عبدالحق کو مضمون نگاری کا چسکا پڑ گیا یہاں تک کہ انہیں1888-89 میں ان کے ایک مضمون پر تمغہ لارڈلینسی ڈاو ¿ن ملا۔
سر سید احمد خان جوہر شناس تھے انہوں نے جوہر قابل پایا تو:
” ان کی صلاحیتیں دیکھتے ہوئے سر سید نے تہذیب الاخلاق میں بھی ان سے کام لینا شروع کر دیا۔“
مولد، سن ولادت اور تعلیم کی طرح ان کی شادی کا مسئلہ بھی روایات کی گتھیوں کا شکار ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے سرے سے شادی ہی نہیں کی اور اکثر یہ کہتے ہیں کہ کی تھی، لیکن گھر نہیں بسایا محمود حسین تحریر فرماتے ہیں:
” مولوی صاحب نے عمر بھر شادی نہیں کی۔۔۔۔ ایک دفعہ جب دادا دادی نے شادی کرنا چاہی تو منہ سے تو نہ کہہ سکے لیکن ایسا طریقہ اختیار کیا کہ یہ زنجیر ان کے پاو ¿ں میں نہ پڑ سکی۔۔۔۔ میں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بھوپال میں شادی کی تھی یا کچھ عرصہ ازدواجی زندگی گزاری تھی۔۔۔۔ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ صحیح اور حقیقی معنی میں ان کی شادی، جیسا کہ خود مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا تھا ،اردو سے ہو چکی تھی وہی ان کی محبوب ان کی اولاد۔“
شاہد احمد دہلوی کا بھی یہی خیال ہے کہ مولوی عبدالحق نے شادی ساری عمر نہیں کی۔
لیکن بعض لوگوں نے اپنی تحریروں اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی شادی کا تذکرہ بڑے وثوق سے کیا ہے اور ان کی زوجہ کا نام تک تحریر کیا ہے۔ صوفی عبدالرشید نے اپنی والدہ کے حوالے سے کہا:
” جب ان کی چھوٹی بہن کی شادی چھوٹے محل میں ہونے لگی جو ہاپوڑ کا ایک زمیندار گھرانہ تھا تو مولوی صاحب کی شادی بھی اسی گھرانے کی ایک لڑکی سے طے کر دی گئی تھی۔ مولوی صاحب کی بیوی کا نام جعفری تھا۔ یہ شادی مولوی صاحب نے زبردستی والدہ کے اصرار پر کی تھی مگر ان سے یہ زبردستی زیادہ دیر تک برداشت نہ ہوئی، اور بیوی سے بالکل تعلق نہ رکھا، اور علی گڑھ چلے گئے۔ تھوڑے عرصے بعد مولوی صاحب نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی شادی کسی دوسری جگہ ہو گئی، پھر مولوی صاحب نے ساری عمر شادی نہ کی۔“
بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک دوسرے معتمد جن کی ساری عمر مولوی صاحب کی خدمت میں گزری، انہوں نے بھی اپنی والدہ سے روایت کی ہے کہ:
” جناب قبلہ مولوی صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شادی نہیں کی، یہ بات غلط ہے انہوں نے شادی کی تھی اور جس لڑکی سے شادی کی تھی وہ بھی مولوی صاحب کے خاندان کی تھی یہ بات اس لئے اور پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ میرا مکان بھی مولوی صاحب کے بالکل قریب تھا اور میری والدہ صاحبہ برابر ان کے ہاں جایا کرتی تھیں اور جس دن مولوی صاحب کی شادی ہوئی، میری والدہ بھی شریک ہوئی تھیں۔ جب شادی سے فارغ ہو گئے تو سب اگلے دن صبح کو ولیمے کی تیاری میں مصروف تھے معلوم ہوا کہ دولہا میاں علی الصبح گھر سے روانہ ہو چکے ہیں، یہ بات بڑی مضحکہ خیز تھی۔ گھر کے لوگوں کو بڑی شرمندگی اٹھانا پڑی۔ کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا مولوی صاحب قبلہ نے اپنی بیوی کا مہر وغیرہ سب کچھ ادا کر دیا ہے۔ ان کی بیوی کافی عرصے تک میکے بیٹھی رہی اور پھر کافی عرصے بعد ایک دوسرے صاحب ممتاز حسین کے ساتھ ان کا نکاح ہوا اور کئی بچے بھی ان سے ہوئے جو اب تک ہاپوڑ میں موجود ہیں۔“
غیور عالم صاحب نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی شادی کے سلسلے میں ہاپوڑ کے لوگوں کے حوالے سے ان کی شادی ہونے کی شہادت دی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
” مولانا کی شادی ہوئی تھی لیکن وہ شادی کے سخت خلاف تھے۔ ہاپوڑ میں بعض لوگوں نے بتایا کہ مولانا نے شادی کی شروع ہی سے مخالفت کی تھی، بقول ہاپوڑ کے ایک بزرگ” وہ کہتے تھے کہ میری شادی اور میری بہن کی شادی بدلہ میں مت کرو“ اور بقول مقتدا خان شیروانی” میں بیوی کے حقوق ادا نہ کر سکوں گا“ لیکن والدین نہیں مانے اور خصوصاً والدہ نے بہت اصرار کیا تو مولوی عبدالحق چپ ہو گئے لیکن ادھر دلہن رخصت ہو کر آئی، ادھر مولانا دوسرے دروازے سے نکل کھڑے ہوئے، اور حیدر آباد جا کر طلاق لکھ کر بھیج دی۔“
ڈاکٹر سید معین الرحمن نے یکم اگست1964ئ کو بابائے اردو کے ایک قدیم دوست نواب معشوق یار جنگ کا ایک طویل انٹرویو لیا تھا جس میں انہوں نے ان سے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی شادی کے سلسلے میں بھی ایک سوال کیا تھا یہ انٹرویو” قومی زبان“ کراچی کے 1964ئ کے شمارے میں شائع ہوا تھا ڈاکٹر سید معین الرحمن تحریر کرتے ہیں کہ میرے ایک سوال کے جواب میں نواب صاحب نے فرمایآ:
” تجرد پسندانہ زندگی کی نعمتوں یا متاہلانہ زندگی کی برکتوں کا بھی کوئی ذکر مولوی صاحب نے مجھ سے کبھی نہیں کیا بلکہ کسی سے نہیں۔۔۔ ویسے میں نے سنا ہے کہ مولوی صاحب کی شادی ہو گئی تھی۔ لڑکی والوں نے پرانی رسموں کی انجام دہی پر اصرار کیا تو مولوی صاحب بدک گئے اور وہاں سے بمبئی بھاگ آئے۔ یہاں سے کچھ دنوں بعد حیدر آباد چلے گئے بعد میں سنا ہے، طلاق بھی ہو گئی۔۔۔۔ یہ میں کوئی شہادت نہیں دے رہا یہ ساری بات ہے میں نے جیسا سنا، آپ کو بتا دیا، اب صحیح صورت حال کیا تھی، اللہ جانے۔“
مولانا عبدالماجد دریا آبادی صاحب نے بھی نواب معشوق یار جنگ سے ملتا جلتا بیان دیا ہے۔ انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک پرانے رفیق منشی ظفر الملک علوی مرحوم کاکوروی کے حوالے سے تحریر کیا ہے:
” منشی ظفر الملک مرحوم علوی کاکوروی سے یہ روایت سننے میں آئی تھی کہ شادی ٹھہر چکی تھی مگر بارات جس وقت پہنچی، اس وقت کوئی ایسا نا خوشگوار واقعہ پیش آ گیا، جس سے متاثر ہو کر موصوف نے عمر بھر مجرد ہی رہنے کا عہد کر لیا۔“
شہاب الدین ثاقب نے مشفق خواجہ صاحب اور صوفی عبدالرشید کے حوالے سے یہی کہا ہے:
” جناب مشفق خواجہ اور صوفی عبدالرشید نے راقم الحروف کو کراچی میں ملاقات کے دوران بتایا کہ مولوی عبدالحق کی شادی ہوئی تھی لیکن بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے متعلق انہیں ناکامی کا احساس تھا اس لئے بیوی کو طلاق دینے کے سوا ان کے نزدیک چارہ کار نہ تھا۔“
مولوی عبدالحق کی شادی کے سلسلے میں جتنے بیانات سامنے آئے ہیں ان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ ان کا نکاح ضرور ہوا تھا لیکن بات نکاح سے آگے نہ بڑھ سکی اور وہ گھر بسانے اور گھریلو جھنجھٹوں سے آزاد رہے۔ ان کی ازدواجی زندگی سے آزادی، علم و ادب کے لئے نیک فال ثابت ہوئی اور ان کی بھر پور توجہ ان کے اپنے مشن یعنی اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لئے وقف ہو گئی۔ اردو کی خدمت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ اردو سے ان کا والہانہ عشق اس بلندی کو چھو گیا جہاں ان کی ذات اور اردو ایک دوسرے میں مدغم ہو گئیں۔
٭٭٭٭٭٭
دکن کا دور اور انجمن ترقی اردو سے تعلق
(1895 تا1935)
ہندوستان میں جس طرح حصول علم کے لئے علی گڑھ مسلم نوجوانوں کے لئے مرکز نگاہ تھا، یہی حیثیت حصول روزگار کے لئے ریاست حیدر آباد دکن کو حاصل تھی۔ دکن میں پڑھے لکھے مسلمان نوجوانوں کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی ہمت افزائی کی جاتی تھی اس کے نتیجے میں سارے ہندوستان اور بالخصوص بہار، بنگال، یوپی اور پنجاب سے پڑھا لکھا طبقہ حیدر آباد دکن کا رخ کرتا اور وہاں اپنے جوہر دکھاتا بقول محمد اعظم:
” مولوی عبدالحق کے علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے کا زمانہ وہ تھا جب ہندوستان کے طول و عرض سے اہل فضل و کمال کھنچ کھنچ کر اس عروس البلاد میں پہنچ گئے تھے، جو عہد عباسیہ کے بعد بغداد کی طرح علم و حکمت کا گہوارہ بنا ہوا تھا اور جہاں علم و فن کے با کمال کثیر تعداد میں جمع تھے۔ چنانچہ اس وقت اردو کے اکثر ممتاز ادیب، شعرااور انشاءپرداز حیدر آباد میں موجود تھے مثلاً نواب حیدر یار جنگ، طبا طبائی، جوش ملیح آبادی، فصاحت جنگ، جلیل، سجاد مرزا بیگ دھلوی، مرزا ھادی رسوا اور مرزا فرحت اللہ بیگ وغیرہ۔“
گو مولوی عبدالحق کے بھائی شیخ احمد حسن کا بیان ہے:
” وہ علی گڑھ سے بی اے پاس کرنے کے بعد سر سید کی ایماءپر محسن الملک کے خط کے ساتھ حیدر آباد گئے، جہاں نواب وقار الملک کمانڈنگ چیف نے مدرسہ آصفیہ میں بطور ہیڈ ماسٹر تقرری کروا دی۔“
لیکن خود مولوی عبدالحق صاحب اور ان کے رفقاءکار کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے حیدر آباد جانے سے قبل بمبئی کا رخ کیا تھا جہاں وہ تجارت اور صحافت کا پیشہ اختیار کرنا چاہتے تھے۔
بمبئی میں ان کا تعلق لیڈی حیدری کے خاندان سے رہا جو روشن خیال سلیمانی بوھری کنبہ تھا گو وہ تاجر پیشہ تھے، لیکن علی گڑھ تحریک اور جدید علوم کے حامی تھے۔محمد حبیب اللہ رشدی کا بیان ہے:
” مولوی عبدالحق نے ایک مرتبہ گفتگو کے دوران میں فرمایا تھا کہ بمبئی میں لیڈی حیدری کے والد انہیں کام سکھاتے تھے۔“
بمبئی کے سفر کا ذکر مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کانفرنس منعقدہ بمبئی1945 میں بھی کیا تھا ،انہوں نے فرمایا:
” بمبئی کی اردو سے وابستگی خاصی پرانی ہے۔ نوے سال پہلے بھی یہاں سے اردو اخبار نکلتے تھے جس میں کشف الاخبار، روضة الاخبار، ریاض الاخبار، برق خاطف کے نام اب تک ملتے ہیں ایک اخبار’ پریم گوپال پرکاس‘ نام کو بھی تھا جو اردو میں شائع ہوتا تھا۔ جب 1895 میں یہاں آیا تو اس وقت بھی جاری تھا اور میں اس کے ایڈیٹر سے ملا تھا۔“
تحسین سروری لکھتے ہیں:
” ریاست حیدر آباد کے معتمد مال نواب محسن الملک سے ان کی ملاقات ہوئی جو تبدیل آب و ہوا کی غرض سے وہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ نواب صاحب نے مولوی صاحب کو عارضی طور پر پرائیویٹ سیکرٹری بنا لیا۔ مولانا ظفر علی خان اور مولوی امین زبیری بھی وارد بمبئی ہوئے۔ وہ محسن الملک سے ملے اور انہی کے ساتھ رہنے لگے۔ ان تینوں نوجوانوں نے اپنے علم، اپنی روشن خیالی اور مستعدی سے نواب صاحب کو کافی متاثر کیا اور نواب صاحب ان نوجوانوں کو دل سے چاہنے لگے۔“
لیکن مولوی عبدالحق اور ان کے ان رفقاءکا بمبئی میں قیام بہت مختصر اور عارضی تھا۔ بالآخر امین زبیری صاحب نے بھوپال اور ظفر علی خان نے حیدر آباد دکن کا رخ کیا۔ تحسین سروری تحریر کرتے ہیں:
” مولوی عبدالحق اور ظفر علی خان نے محسن الملک سے سفارشی خط لے کر1889 میں حیدر آباد دکن کی راہ لی۔ حیدر آباد میں اس وقت ہوم سیکرٹری مولوم عزیز مرزا تھے۔ انہیں نے علی گڑھ کے ان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی قدر کی اور اپنے دفتر میں ملازم رکھ لیا ان کے ذمے مترجمی کا کام تھا۔“
لیکن ” نقوش“ لاہور کے آپ بیتی نمبر1964 میں مولانا ظفر علی خان کے حیدر آباد دکن پہنچنے کے سلسلے میں یوں تحریر ہے:
” مولانا ظفر علی خان یہاں (دکن)1896 کے آخر میں پہنچے اور تیرہ سال قیام کیا۔“
اور یہی سن حیدر آباد دکن جانے کا درست معلوم ہوتا ہے۔ پروفیسر سید محمد نے اپنے مضمون’ بیسویں صدی کا سرسید‘ میں لکھا ہے:
” مولوی صاحب علی گڑھ سے نکلتے ہی بمبئی میں نواب محسن الملک کے ہاں انگریزی مراسلت اور مضمون نگاری کے کام پر مامور ہوئے۔ دو سال کے اندر ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھ کر افسر الملک انہیں حیدر آباد لے آئے اور مدرسہ آصفیہ کی پرنسپلی پر ان کا تقرر کروا دیا۔“
مولوی عبدالحق صاحب نے بمبئی جانے کا سن1895 بتایا ہے اور اگر وہ مولانا ظفر علی خان کے دو سال بعد حیدر آباد گئے تو یقینا1896 کا آخر درست معلوم ہوتا ہے۔
حبیب اللہ رشدی کا خیال ہے کہ پہلے مولوی عبدالحق صاحب کو بریگیڈ آفس میں ملازمت ملی۔ اس کے بعد مدرسہ آصفیہ ملک پیٹھ حیدر آباد کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا۔یہ مدرسہ نواب سر افسر الملک بہادر کمانڈر انچیف افواج کے ایما پر ان کے داماد میجر ممتاز الدولہ نے فوجیوں کے بچوں کے لئے قائم کیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب1908 تک اس مدرسے کے ہیڈ ماسٹر رہے۔
مولوی عبدالحق صاحب نے مدرسہ آصفیہ کے نظم و ضبط کے لئے ان تھک جدوجہد کی اور اس کا دائرہ فوجی افسروں کے بچوں سے بڑھا کر عام شہریوں تک وسیع کر دیا۔ بہت جلد مدرسہ آصفیہ نے حیدر آباد کی درسگاہوں میں امتیازی مقام حاصل کر لیا۔ بقول محی الدین صاحب:
” اب تک حیدر آباد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس مدرسے میں مولوی صاحب کے زمانہ صدارت میں تعلیم پائی تھی، وہ ان کے دل چسپ طریقہ تعلیم اور محبت آمیز برتاو ¿ کا ابھی تک ذکر کرتے ہیں۔“
مدرسہ آصفیہ کی سربراہی اور رسالہ’ افسر‘ سے مولوی عبدالحق کے تعلق کا تذکرہ ایک ساتھ چلتا ہے محی الدین احمد کا خیال ہے:
” مولوی عبدالحق صاحب نے اسکول میگزین کے طور پر رسالہ ’ افسر‘ جاری کیا جو کرنل افسر الملک بانی مدرسہ کے نام سے معنون ہے۔“
یہ رسالہ 1897 میں نواب افسر الدولہ نے حیدر آباد دکن سے جاری کیا تھا بعض محققین کا خیال ہے کہ مدرسہ آصفیہ کی صدر معلمی اور رسالہ ’ افسر‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں مولوی عبدالحق کو ایک ساتھ سونپی گئی تھیں۔ یہی خیال تحسین سروری کا ہے وہ تحریر کرتے ہیں:
” ایک موقع پر 1898 مولوی عبدالحق کی ملاقات حضور نظام (نواب میر محبوب علی خان غفران مکان) کے ایڈی کانگ اور افواج آصفیہ کے سپہ سالار افسر الملک نواب افسر یار جنگ سے ہوئی۔ افسر جنگ سپاہی زادے تھے، لیکن وہ علم و فضل کے بڑے قدر دان تھے۔ چنانچہ مولوی صاحب کے علمی ذوق و شوق اور ان کی ادبی معلومات سے اتنے خوش ہوئے کہ انہیں اپنے رسالے (افسر) کی ادارت کے لئے منتخب کر لیا، اور ساتھ ہی اپنی قائم کی ہوئی درس گاہ مدرسہ آصفیہ کی صدر مدرسی کی پیش کش کر دی۔“
مولوی عبدالحق کا مدرسہ آصفیہ سے تعلق 1897 میں ہو چکا تھا۔1899 میں رسالہ ’ افسر‘ سے منسلک ہوئے اور جنوری1900سے رسالے کی باقاعدہ ادارت کرنے لگے۔ یہ رسالہ پانچ سال جاری رہنے کے بعد سن1902 کے وسط میں بند ہو گیا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے رسالے کے بند ہونے پر اپنے ایک مکتوب بنام مولوی عبدالحق صاحب محررہ 10جولائی 1902 میں بہت افسوس کا اظہار کیا، انہوں نے لکھا:
” کیا’ افسر‘ بالکل بند ہو گیا؟ افسوس ہے، ہندوستان میں کوئی عمدہ رسالہ نہیں چل سکتا۔ معارف، ادیب، حسن اور دیگر عمدہ میگزین چند روز کی دنیا کی ہوا کھا کر نوبت بہ نوبت راہی ملک عدم ہو گئے، پھر ’ افسر‘ کے چلنے کی کیا امید ہو سکتی تھی؟ (بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں) جس چیز کی خریداری کا مدار زیادہ تر مسلمانوں پر ہو گا، اس کا رونق اور فروغ معلوم۔۔“
مولانا ظفر علی خان بھی مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ حیدر آباد دکن وارد ہوئے تھے۔ وہ مختلف خدمات انجام دیتے ہوئے 1900 میں معتمدئی عدالت و امور عامہ کوتوالی میں صدر مترجم کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن درباری سازشوں نے مولانا ظفر علی خان کے قدم حیدر آباد دکن سے اکھاڑ دئے اور 9اکتوبر1909کو مولانا ظفر علی خان کو حیدر آباد سے اخراج کا حکم صادر ہوا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس واقعہ پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:
” 9اکتوبر1909کو ہماری قسمت نے دفعتاً پلٹا کھایا، یعنی مشیت ایزدی عتاب الٰہی کی شکل میں نازل ہوئی۔۔۔۔ اگر13سال تک دولت آصفیہ کی سلک ملازمت میں منسلک رہنے کے بعد بلا اس بات کے آگاہ کئے ہوئے کہ میرا جرم کیا ہے، صرف اس مبہم علت پر کہ میں نے مولوی عزیز مرزا مرحوم کے ساتھ مل کر دولت آصفیہ کے ساتھ خفیہ ساز باز میں حصہ لیا، اور مجھے اڑتالیس گھنٹے کے اندر حیدر آباد کو ، جو میرا دوسرا وطن عزیز تھا، چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو یہ سب کچھ سرمایکل ایڈوائر کی عنایت کا نتیجہ تھا۔“
حیدر آباد دکن سے مولانا ظفر علی خان کی ریاست بدری کے بعد مولوی عبدالحق کو ان کی جگہ بطور مترجم ہوم آفس مامور کیا گیا۔
فروری1911 میں مسٹر گوبند رام چندر کالے مددگار مہتمم تعلیمات حیدر آباد رخصت پر گئے تو نواب سر بلند جنگ معتمد تعلیمات نے مولوی عبدالحق صاحب کو 7فروری 1911 سے تین ماہ کے لئے اپنی نیابت میں لے لیا۔ کالے صاحب نے مزید چھ مہینے کی رخصت لے لی تو مولوی عبدالحق صاحب مستقل طور پر محکمہ تعلیمات سے وابستہ ہو گئے۔ وہ یہ خدمت بطور مہتمم تعلیمات1915 تک انجام دیتے رہے اور ان کا مرکز اورنگ آباد ہو گیا۔ جہاں اس کے بعد وہ صدر مہتمم تعلیمات بھی مقرر ہوئے۔
مولوی عبدالحق صاحب نے بطور مہتمم تعلیمات اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا اور ماہر تعلیمات کی حیثیت سے اپنی قابلیت تسلیم کرو الی۔
مولوی عبدالحق صاحب نے مہتمم تعلیمات ہوتے ہی اس شعبے میں جان ڈال دی۔ وہ بڑی پابندی سے مدرسوں کا معائنہ کرتے اور اساتذہ کی تدریسی کانفرنس منعقد کرتے۔ مولوی صاحب کی ان انتظامی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے سید سجاد علی تحریر کرتے ہیں:
” مولوی صاحب نے صدر مہتمم تعلیمات کی حیثیت سے صوبہ اورنگ آباد کے اضلاع کی ہی نہیں بلکہ ملحقہ چھوٹے چھوٹے مقامات کی تحتانی مدارس تک کا تفصیلی دورہ کیا۔ وہاں کے حالات سے ذاتی واقفیت حاصل کی۔ انتظامات کی اصلاح کی طریقہ تدریس میں جدتیں پیدا کیں۔ ریل، سڑک، بیل گاڑی، ٹٹو، پیدل، غرض جس طرح بنا، طویل دورے کئے۔ سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور صوبے میں تعلیم اور ترقی کا غیر معمولی جوش و ولولہ پیدا کیا۔“
مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی تعلیمی اصلاحات کا آغاز ہی کیا تھا کہ دسمبر1912 میں ان کے کندھوں پر انجمن ترقی اردو کی ذمہ داریاں بھی آن پڑیں۔ انجمن ترقی اردو کے معتمد عزیز مرزا صاحب تھے لیکن 1902 میں ان کے انتقال کے بعد سے یہ عہدہ خالی پڑا تھا۔1911 میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس لکھنو میں منعقد ہوا تو اس میں اس عہدہ کے لئے مولوی عبدالحق صاحب کو منتخب کر لیا گیا اور انہوں نے مہتمم تعلیمات کے ساتھ ساتھ معتمد انجمن کے طور سے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ مولوی عبدالحق صاحب کی ملازمت کا مرکز اورنگ آباد تھا، اس لئے انجمن ترقی اردو کا مرکز بھی اورنگ آباد کو قرار دیا گیا اور انجمن کا دفتر جو پہلے علی گڑھ میں تھا اورنگ آباد منتقل ہو گیا یہاں مقبرہ درانی ہی انجمن اور مولوی صاحب دونوں کا مستقر مقرر ہوا۔
مولوی عبدالحق صاحب کو بطور معتمد انجمن ترقی اردو، وراثت میں رسی سے بندھا ہوا ایک چوبی صندوق ملا جس میں چند غیر مرتب مسودات، ایک رجسٹر اور قلم دوت تھی۔
” لیکن 1912 میں اجلاس کانفرنس کے انتخاب نے ان کی جولانی طبع کے لئے بالکل نیا اور وسیع میدان کھول دیا اور وہ ایسے تازہ شوق اور ولولے کے ساتھ اس اقلیم جدید میں داخل ہوئے جو سرکاری عہدہ داری یا تصنیف و تالیف کے عام مشغلوں میں پیدا نہ ہو سکتے تھے۔ انجمن، زندگی کی نئی دھن اور سب سے بڑا مقصد حیات بن گئی۔“
مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی جدوجہد اور سر تن کی بازی سے انجمن ترقی اردو کی آبیاری کی انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق کی ذات ایک دوسرے میں اس طرح جذب ہو گئیں کہ جدا کرنا مشکل ہو گیا۔
مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن کا معتمد بننے کے بعد اس کی تنظیم نو کی پسلو تارک کی ’ مشاہیر یونان‘ لہکی کی ’ تاریخ اخلاق یوروپ‘ اور البیرونی کی ’ کتاب الہند‘ جیسی نادر روزگار کتب کے تراجم کروا کے شائع کئے۔ انجمن کی مطبوعات کی فروخت کا باقاعدہ انتظام کرنے کے لئے الناظر پریس لکھنو کو ایجنسی دی گئی۔ انجمن کے لئے سرمایہ جمع کرنے کی تحریک چلائی اول عطیات و چندے امراءاور والیاں ریاست سے لئے گئے۔ دوم انجمن کی ممبر سازی سے انجمن کی انتظامی مجلس بنائی گئی۔ سرپرستوں سے یک مشت ہزار روپیہ ،دوامی ممبران سے پانچ سو روپیہ وصول کیا گیا۔ ارکان کی اعانت، اور خریدار ارکان کی مدد کا یہ ذریعہ نکالا کہ انہیں انجمن کی مطبوعات نصف قیمت پر دی جاتی تھیں۔ اس طرح مختلف مدوں سے دو سال میں انجمن کا سرمایہ آٹھ ہزار روپیہ ہو گیا۔ ابتدا میں اعلیٰ حضرت نظام نے بارہ سو روپے سالانہ انجمن کے لئے منظور کئے، بعد میں مستقل طور پر پانچ ہزار روپے سالانہ امداد ملتی رہی۔ انجمن ترقی اردو کے دکنی دور میں نواب حیدر نواز جنگ (سر اکبر حیدری) کو ایک یونیورسٹی کے قیام کے لئے قائل کیا۔
” کیونکہ ریاست کے لئے تنہا ڈگری کالج یعنی نظام کالج سے بقول شخصے سالانہ ڈیڑھ دو گریجویٹ نکلتے تھے۔ یہ کالج مدراس یونیورسٹی سے ملحق تھا۔ مدراس یونیورسٹی ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں میں ایک عجوبہ سمجھی جاتی تھی۔ تعلیمی نصاب اتنا مشکل رکھا گیا تھا جو طالب علموں کی تمام ذہنی قوتوں کا خاتمہ کر دیتا تھا۔“
جامعہ عثمانیہ کا منصوبہ منظور ہوتے ہی اس کے عملی خد و خال کی تیاری کے لئے ناظم تعلیمات سر راس مسعود کے تحت دار الترجمہ قائم ہوا تو سر اکبر حیدری کی نگاہ انتخاب مولوی عبدالحق پر پڑی لیکن مولوی عبدالحق کو اورنگ آباد سے جو تعلق خاطر ہو گیا تھا، اس وجہ سے وہ اورنگ آباد چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے۔ بالآخر وہ اس شرط پر رضا مند ہو گئے کہ مہینے میں دس دن وہ اورنگ آباد میں رہا کریں گے۔ اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مولوی عبدالحق نے اپنے 7دسمبر1958 کے مکتوب بنام محمد علی میں تحریر کیا ہے:
” سید ہاشمی صاحب کہا کرتے تھے کہ اورنگ آباد کے قدر دان اورنگ زیب عالمگیر تھے یا عبدالحق ،تم کو معلوم تھا کہ جب عثمانیہ یونیورسٹی کا منصوبہ منظور ہوا تو پہلے دار الترجمہ قائم کیا گیا۔ اس کی نظامت مجھے بخشی گئی۔ میں اورنگ آباد کو چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ حیدری صاحب اور حبیب الرحمن خان شیروانی نے کہا کہ یہ سارا کارخانہ تمہارے مشورے اور تمہارے بھروسے پر کھڑا کیا گیا ہے۔ اگر تم دار الترجمہ کی نظامت قبول نہ کرو گے تو یہ کارخانہ کیسے چلے گا؟ میں نے ان کے اصرار پر دو سال کے لئے یہ خدمت اس شرط پر منظور کی مہینے میں دس دن اورنگ آباد میں رہوں گا۔“
مولوی عبدالحق نے اس دار الترجمہ میں بھی بڑی جانفشانی اور لگن سے کام کیا ۔دار الترجمہ کا بنیادی مقصد جامعہ عثمانیہ کے لئے نصاب کو اردو میں منتقل کرنا تھا۔ مولوی صاحب کے انتقامی شعور پر نظر ڈالتے ہوئے محی الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
” اس شعبے میں مولوی صاحب نے اپنے ذوق اور قابلیت کا پورا پورا ثبوت دیا جس فن کی کتاب کا ترجمہ کرنا ہوتا، اس مضمون کا قابل ترین شخص جو دونوں زبانوں پر پوری مہارت رکھتا ہو، منتخب کیا جاتا۔ چنانچہ اس دار الترجمہ میں ہندوستان کا گویا عطر کشید کر کے رکھ دیا تھا۔ ان میں مولانا عبداللہ عمادی، سید ہاشمی فرید آبادی، مرزا ہادی رسوا، پروفیسر چودھری برکت علی، قاضی محمد حسین جیسے لوگ شامل تھے۔ جو کتاب بھی ترجمہ کی جاتی، وہ مختلف مراحل سے گذرتی۔ اول زبان و ادب کی جانچ ہوتی۔ جوش ملیح آبادی اس دار الترجمہ میں ناظر ادبی تھے۔ اس کے بعد مولانا خیر المبین جو یہاں بڑے زبردست عالم دین تھے، وہ اور نواب حیدر یار جنگ صدر الصدور مذہبی امور پر مشتمل کمیٹی میں یہ کتاب پیش ہوتی، اور مذہبی نقطہ نظر سے جانچ پڑتال کی جاتی یہاں سے گزر کر جس فن پر کتاب ہوتی اس کے ماہر پروفیسروں کی کمیٹی میں پیش ہو کر فنی نقطہ نظر سے اس پر جرح و تنقید کی جاتی۔ یہاں سے پاس ہونے کے بعد مسودہ مطبع میں جاتا اور اس کی طباعت عمل میں آتی ۔ظاہر ہے کہ اس اہتمام سے جو کتاب تیار ہو، اس کی افادیت میں کیا شبہ ہو سکتا تھا۔“
7اگست1919کو عثمانیہ یونیورسٹی کا افتتاح ہوا اور مولوی عبدالحق اپنے مشن کو مکمل کرنے دوبارہ مستقل طور پر بطور مہتمم تعلیمات اورنگ آباد آ گئے اور اپنے معمولات انجام دینے لگے۔
جامعہ عثمانیہ کے قیام سے ریاست حیدر آباد دکن کے تعلیمی ماحول پر بڑے مثبت نتائج سامنے آئے۔
” جامعہ عثمانیہ کے قیام نے ریاست حیدر آباد میں تعلیم اک شوق پیدا کر دیا تھا، جس سے مدارس کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اس زمانے میں محکمہ تعلیمات نے آپ سے فرمائش کی کہ میٹرک تک کی جماعتوں کے لئے اردو کی ریڈریں تیار کریں۔ اس وقت تک انجمن کی ساکھ نہیں بندھی تھی، اس لئے محکمہ نے معاملہ آپ کی ذات سے کیا۔ انجمن سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ آپ نے بڑی محنت اور مشقت سے دس جماعتوں کے لئے درس عثمانیہ کے نام سے ریڈریں تیار کیں۔۔۔۔ ان ریڈروں کے علاوہ آپ کی قواعد اردو بھی میٹرک کے نصاب میں شامل تھی۔ یہ گیارہ کتابیں بیس پچیس برس اس وسیع ریاست کے تمام مدرسوں میں رائج ہیں، جن کی فروخت کی آمدنی دس لاکھ سے زیادہ تھی۔ یہ سالانہ آمدنی انجمن کے حساب میں جمع ہوتی رہی۔ آپ نے اس میں سے ایک پیسہ بھی نہ لیا۔“
مولوی عبدالحق صاحب نے نہ صرف ریڈریں مرتب کیں بلکہ ان کی کتابت اور طباعت تک اپنی نگرانی میں کروائی۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنے ایک مکتوب بنام غلام ربانی محررہ یکم نومبر1958 میں بتایا ہے:
” دلی سے کاتب بلا کر وہاں رکھے، ان کی مہمان داری اور ناز برداری کی۔ اپنے سامنے اصول املا کے مطابق کتابت کروائی۔ بہت سے سبق خود لکھے اور باقی سبقوں میں اصلاح اور ترمیم کی یہ کام دن رات ہوتا رہا۔ کئی مہینوں بلکہ ایک سال اس شغل میں صرف ہو گیا۔“
1923 میں مدرسہ فوقانیہ مشرقیہ اور انگریزی ہائی اسکول اورنگ آباد کو یک جا کر کے اورنگ آباد انٹرمیڈیٹ کا قیام عمل میں آیا مولوی عبدالحق کو صدر مہتمم تعلیمات اور معتمد انجمن کے ساتھ ساتھ اس کالج کی پرنسپلی بھی دی گئی ۔1924 میں وہ صدر مہتمم کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے، لیکن بد ستور اورنگ آباد کالج کے پرنسپل رہے۔ یہاں سے انہوں نے 1929 میں وظیفہ (پنشن) لیا۔
مولوی عبدالحق صاحب کی زمانہ پرنسپلی میں اورنگ آباد کالج میں شاندار روایات کی بنیاد پڑی۔ مثلاً کالج ڈے شاندار طریقے سے منایا جاتا تھا۔ اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ہارون خاں شیروانی تحریر کرتے ہیں:
” مولوی صاحب نے عثمانیہ کالج اورنگ آباد کی صدارت کیا کی، وہاں کے جنگل کو منگل بنا دیا اور لوگ مقبرہ درانی کے باغ کو اردو باغ کہنے لگے۔ سن 1926 میں انہوں نے مرزا فرحت اللہ بیگ مرحوم کی لکھی ہوئی ادبی تمثیل کو جس کا عنوان سن1261 ہجری کا مشاعرہ تھا، اپنے کالج میں پیش کیا۔ اس تمثیل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حیدر آباد سے جو لوگ اسے دیکھنے کے لئے اورنگ آباد گئے تھے، ان میں اس زمانے کے حیدر آباد کے روح رواں حیدری صاحب اور یہاں کے ممتاز ناظم تعلیمات مسعود جنگ بھی تھے اور ان کے ساتھ جامعہ عثمانیہ کے تقریباً تمام اساتذہ بھی (جن کی تعداد اس زمانے میں تیس چالیس سے زیادہ تھی)، بلائے گئے تھے۔ مولوی صاحب نے سب مہمانوں کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا ایسا انتظام کیا تھا کہ آج بھی اس کی یاد تازہ ہے۔“
مولوی عبدالحق کے وظیفہ خدمت (پنشن) پر جانے کے بعد بھی کالج ڈے شاندار طریقے سے منایا جاتا رہا۔ کالج کے منتظمین اور طلبا اپنے کالج ڈے پر مولوی عبدالحق صاحب کو ضرور بلاتے رہے۔ اس قسم کے ایک اجتماع میں طلباءنے انہیں ’ بابائے اردو‘ کے خطاب سے نوازا۔ اس زمانے میں واردھاا سکیم کے نام پر اردو اور اسلامی ثقافت کے خلاف سازش کی گئی تھی، جس کا مسلمانوں میں بھی شدید رد عمل تھا1935 میں جب عثمانیہ کالج کے طلبا نے حسب معمول کالج ڈے منایا تو مولوی عبدالحق صاحب مہمان خصوصی تھے ۔اس موقع پر مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کے حق اور واردھا اسکیم کی مخالفت میں بڑی جذباتی تقریر کی تھی۔ محمد احمد سبزواری لکھتے ہیں:
” تقریر بڑی مدلل اور موثر تھی۔ کچھ لوگ آبدیدہ بھی ہو گئے تھے۔ دکن کے ایک جوشیلے نوجوان محمد یوسف نے نعرہ لگایا’ اردو زندہ باد‘، ’ بابائے اردو زندہ باد‘ بس پھر کیا تھا ،ساری محفل بابائے اردو زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی۔ جب اس موقع کی خبر اورنگ آباد کے ایک ہفتہ وار اخبار شائع ہوئی تو سرخی تھی:
’ بابائے اردو کا کالج کے طلبا سے خطاب‘
پھر یہ خطاب حیدر آباد پہنچا اور اس کے بعد وہاں سے ساتھ ہی ساتھ سارے برصغیر میں پھیل گیا اور جب تک اردو زندہ ہے، بابائے اردو کا نام بھی زندہ رہے گا۔“
عثمانیہ کالج اورنگ آباد کی پرنسپلی کے زمانے میں مولوی عبدالحق کا ایک بڑا کارنامہ رسالہ نورس کا اجرا تھا جو عثمانیہ کالج اورنگ آباد کا علمی و ادبی جریدہ تھا۔ یہ رسالہ 1925 کے وسط سے شروع ہوا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے ایک مکتوب محررہ 22فروری 1925 میں سید ساجد علی کو اس رسالے کے ضمن میں تحریر کیا:
” میں کالج سے بھی میگزین شائع کرنے والا ہوں منظوری آ چکی ہے۔ امید ہے کہ مہینے ڈیڑھ مہینے میں پہلا پرچہ شائع ہو جائے گا۔ یہ دو ماہی ہو گا، یعنی سال میں چھ پرچے نکلا کریں گے۔ اس کا نام میں نے بہت ہی اچھا رکھا ہے۔ آپ سن کر خوش ہوں گے’ نورس‘ ہر لحاظ سے مناسب ہے۔“
مولوی عبدالحق صاحب پنشن پر آنے کے بعد اپنی باقی عمر اورنگ آباد میں گزارنا چاہتے تھے تاکہ صبر و سکون سے وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کر سکیں لیکن حالات و واقعات کے دھارے اس کے خلاف جا رہے تھے۔ 1929 میں مولانا وحید الدین کا بہ سبب کینسر انتقال ہوا تو جامعہ عثمانیہ میں اردو کی پروفیسری کی آسامی خالی ہوئی۔ شہاب الدین ثاقب کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر مولانا صاحب پنڈت کیفی کو لانا چاہتے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد، سر اکبر حیدری وغیرہ کی خواہش تھی کہ مولوی عبدالحق اس پر تعینات ہوں لیکن نہ تو مولوی صاحب راضی ہوتے تھے اور نہ قانون میں ایسی گنجائش تھی لیکن سر اکبر حیدری کی شخصیت نے مولوی عبدالحق کو راضی کر لیا اور ارباب جامعہ کو بھی پروفیسر مسعود احمد کا کہنا ہے:
” حیدر آباد کی ملازمت کے سلسلے میں انہیں600 پنشن ملتی تھی پروفیسر کے کل 1000روپیہ۔“
مولوی صاحب پھر اورنگ آباد سے حیدر آباد واپس آ گئے اور درس و تدریس میں مصروف ہو گئے ۔انجمن کا کام اور تحقیق و تدوین کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ پروفیسر عبدالقادر سروری ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
” ان کی پروفیسری بڑی طنطنہ کی تھی۔ وہ ہفتے میں پانچ چھ گھنٹوں سے زیادہ درس نہیں دیتے تھے اور درس بھی جامع کی عمارت میں دینے کی بجائے اکثر سبزہ زار پر بیٹھ کر دیا کرتے تھے۔“
جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری کے زمانے میں بھی انجمن کا مرکز بد ستور اورنگ آباد رہا اور وہ پروفیسروں کے ساتھ تن دہی سے انجمن کے اماور اور تحقیق و تدوین میں مصروف رہے۔ اس زمانے کا سب سے بڑا کارنامہ اردو کی جدید اور کلاں لغت کی تیاری ہے۔ جس کے لئے حکومت حیدر آباد نے بارہ ہزار سکہ عثمانیہ سالانہ کی مدد بھی فرمائی تھی۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
” لغت کا دفتر حیدر آباد میں کھولا گیا۔ جس قدر کام زیادہ ہوا، مولوی عبدالحق صاحب کے منصوبے بڑھتے رہے۔ دس بارہ سال میں لغت کا اتنا کچھ سرمایہ فراہم ہو گیا کہ پہلے کسی کے خیال میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔ کتاب تکمیل کو نہ پہنچی۔ چند اجزا حیدر آباد کے سرکاری مطبع میں چھپے تھے کہ آزادی ہند کی آندھیوں میں وہ دفتر ہی پراگندہ ہو گیا۔“
جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری اور اورنگ آباد عثمانیہ کالج کی پرنسپلی کے زمانے میں مولوی عبدالحق کی نگاہیں جواہر قابل پر پڑتی رہیں اور انہوں نے بعض ایسے نامور افراد تربیت کئے جنہوں نے اردو ادب میں کافی شہرت حاصل کی بقول نصیر الدین ہاشمی:
” آپ نے جن طلبا پر توجہ فرمائی، وہ آگے چل کر ہم چشموں میں ممتاز اور نامور ہو گئے، مثلاً شیخ چاند مرحوم، سکندر علی وجد وغیرہ۔“
ملکی حالات بڑی تیزی سے بدل رہے تھے۔ سیاسی کشمکش اور نشیب و فراز نے مذہبی اور لسانی تعصبات کی آگ بھڑکا دی تھی۔ انگیزوں نے اہل ہند میں تعلیم عام کرنے کے لئے ’ سارجنٹ اسکیم‘ کے نام کا منصوبہ بنایا۔ گاندھی جی نے اس کے جواب میں’ ودیا مندر اسکیم‘ کا منصوبہ جاری کیا۔ ان تمام اسکیموں کا نزلہ اردو اور اسلامی ثقافت پر پڑا۔ سید ہاشمی فرید آبادی کا کہنا ہے:
” اردو اور ہندی کے اختلافات نے سب سے پہلے نزاع کی صورت بہار ہی میں اختیار کی تھی، پھر یہ جھگڑا یہاں سے بڑھا اور آگے دو آب میں قدم بڑھاتا رہا۔“
مولوی عبدالحق نے پہلے مصالحت چاہی، گاندھی جی سے خط و کتابت کی، کانگریس کے ارباب سیاست سے بحث و مباحثے کئے لیکن جب یہ دیکھا کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے تو خم ٹھونک کر میدان عمل میں نکل پڑے۔ حالات جس سمت لے کر جا رہے تھے، اس کے لئے ضروری تھا کہ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کا مرکز جنوبی ہند سے وسط ہند کی طرف منتقل کریں تاکہ پورے ملک میں اردو اور اسلامی ثقافت کی بقا کے لئے جہاد کیا جا سکے۔ چنانچہ25-24اکتوبر 1936کو علی گڑھ میں حالات کا جائزہ لینے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے اجلاس منعقد ہوا مولوی عبدالحق صاحب نے اس کی روداد میں تحریر کیا:
” 1936 کی کانفرنس علی گڑھ میں منعقد ہوئی تھی۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ آئندہ انجمن کا صدر مقام کہاں ہو؟ ڈاکٹر سر محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان اور دوسرے احباب کو اصرار تھا کہ انجمن کا صدر مقام لاہور ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کا کہنا تھا کہ اب اردو پنجاب ہی میں رہ جائے گی، اس لئے یہیں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ سر راس مسعود (مرحوم) نے علی گڑھ کا سبز باغ دکھایا کیونکہ یونیورسٹی کی وجہ سے وہاں ہر قسم کے کام کرنے والے موجود تھے۔ میری رائے دلی کی طرف مائل تھی۔۔۔۔ قطع نظر دیگر وجوہ کے، میں انجمن کو ان دو بلاو ¿ں سے بچانا چاہتا تھا جو آج کل سارے ہندوستان پر مسلط ہیں۔ ایک بلا تو فرقہ واری اور دوسری صوبہ داری۔۔۔۔۔۔ اردو کسی خاص فرقے یا طبقے کی زبان نہیں نہ کسی خاص طبقے یا صوبے سے منسوب ہے، اور سوائے دہلی کے جہاں کہیں بھی انجمن کا صدر مقام ہوتا، وہ صوبہ داری کے الزام سے نہیں بچ سکتا تھا۔“
اس اجلاس میں انجمن ترقی اردو کو دہلی منتقل کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی۔ انجمن کے دہلی منتقل ہونے سے پہلے یہ بھی لازم تھا کہ مولوی عبدالحق اورنگ آباد اور حیدر آباد کی مصروفیات سے فراغت حاصل کر لیں۔ چنانچہ1937 میں مولوی عبدالحق صاحب جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری سے سبکدوش ہو گئے اور انجمن کا دفتر دہلی منتقل ہو گیا۔
اورنگ آباد اور حیدر آباد میں مولوی عبدالحق صاحب انجمن ترقی اردو کے علاوہ درس و تدریس اور انتظامی امور کے بکھیڑوں میں بھی الجھے ہوئے تھے ۔اس کے باوجود انہوں نے انجمن میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ انجمن کی رکن سازی کے لئے مختلف اضلاع کے دورے کئے انجمن کی شاخیں قائم کیں یہاں تک کہ چھ سال کی کوشش کے نتیجے میں:
” 1920سے ہمیں انجمن کے حوصلوں میں بلندی اور منصوبوں میں نمایاں وسعت نظر آتی ہے، وہ دوسرے مفید تراجم و تصانیف کے علاوہ زبان کے ایسے بنیادی کاموں کو اٹھاتے ہیں جیسے اصطلاحات علم جدید، اصطلاحات پیشہ وراں، انگریزی سے اردو کی اور خود اردو کی بڑی لغت کے آخر الذکر کی تکمیل تو ابھی تک نہ ہو سکی مگر دوسری آٹھ جلدوں میں اور انگریزی اردو لغت بڑی تقطیع کے کوئی ہزار صفحات پر کئی سال کی محنت اور صرف کثیر سے طبع کروا دی گئی۔۔۔۔ انتخاب کلام میر اور فلسفہ جذبات جو چند ہی سال پہلے چھپی تھی دوسری دفعہ طبع کروائی گئیں۔“
جنوری1921 سے مولوی عبدالحق کی ادارت میں رسالہ ’ اردو‘ کا اجرا ہوا۔1924 میں انجمن کے آئین کی تجدید اور با ضابطہ مجلس ناظمین بنی۔ اس سال اردو باغ میں انجمن کا اپنا ٹائپ کا مطبع قائم ہوا۔ جنوری1928 میں مولوی عبدالحق نے رسالہ سائنس جاری کیا جس کے بالترتیب مظفر قریشی، محمد احمد خان اور نصیر احمد مدیر تھے مولوی صاحب نے دکنی ادب کے قدیم نسخوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور دکنی زبانوں کی بیسیوں کتابوں کو گوشہ گمنامی سے شہرت دوام بخشی سید ہاشمی فرید آبادی کا تجزیہ ہے:
” اجمالی طور پر نظر ڈالئے تو انجمن ترقی اردو صحیح معنوں میں اورنگ آباد آ کر ہی علی گڑھ کی ماتحتی سے آزاد ہوئی مستقل ادارہ بنی اور ترقی اردو کے مقاصد استقلال و تسلسل کے ساتھ انجام دیے۔۔۔۔ انجمن جس وقت علی گڑھ سے اورنگ آباد آئی تو کل کائنات ایک ٹوٹا ہوا صندوق تھا اور جب یہاں سے دلی چلی تو مطبوعات کے ذخائر مال گاڑی کے کئی ڈبوں میں لادے گئے۔ چھاپے خانے کا کثیر بھاری سامان اور کلوں کو حمل و نقل کی دشواری کی وجہ سے اورنگ آباد ہی میں فروخت کر دینا پڑا۔“
اس طرح مولوی عبدالحق صاحب کی زندگی کا ایک اہم دور، جو سن1896 سے شروع ہو کر 1935 تک کے چالیس سالوں پر محیط ہے، ایک نیا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ بقول حبیب اللہ رشدی صاحب:
” ایک گمنام نوجوان کی حیثیت سے حیدر آباد گئے اور تین چالیس سال کے بعد کل ہند شہرت کے مالک بن کر حیدر آباد سے لوٹے۔“
٭٭٭٭٭٭
دلی کا دور اردو کی اشاعت و مدافعت میں جہاد
(1937تا1947)
مولوی عبدالحق دکن میں علم و ادب کی خاموشی سے خدمت کرتے رہے اور بحیثیت معتمد انجمن ترقی اردو مولوی صاحب نے اردو زبان اور ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں، جس سے اردو زبان اور ادب کے سرمائے میں اضافہ ہوا الہ آباد یونیورسٹی نے ان کی خدمات کے صلے اور اعتراف میں1937میں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ مولوی صاحب کی جانثاری اور جدوجہد جاری تھی۔ سید معین الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
” پہلی جنگ عظیم برصغیر پاک و ہند کی کشت سیاست کے لئے طوفان کا پہلا جھکڑ ثابت ہوئی۔ تحریک خلافت اور ترک موالات کے مناشقوں نے اس طلاطم کو پر شور کر دیا۔ آگے چل کر یہ طغیانی اور طوفان ہندو مسلم فسادات اور اختلافات کی صورت میں متشکل ہوا۔ اس زمانے میں زبان کے مسئلے نے نہایت ناگوار اور اندیشہ ناک صورت اختیار کر لی۔ مولوی عبدالحق صاحب اس لسانی یورش کے مقابل اردو کو بچانے اور منوانے والوں کے محاذ کے سپہ سالار تھے۔ انہیں اردو کی محبت اور مدافعت میں ایک طویل جنگ لڑنا پڑی۔“
1936 میں اردو کے خلاف باقاعدہ مورچہ قائم کیا گیا۔ بھارتیہ سلھتیہ پریشد اور ودیا مندر اسکیم کے تحت اردو کے خلاف ہندی کو فروغ دینے کی مہم کاآغاز ہوا۔ابتدا میں مولوی صاحب نے اردو کے مخالفین سے مصالحت چاہی اور انہیں اردو کی اہمیت اور وسعت کا قائل کرنا چاہا لیکن مہاتما گاندھی کی حکمت عملی اور کانگریسی رہنماو ¿ں کی ضد سے یہ اختلاف تنازع کی شکل اختیار کر گیا۔ اپریل 1936 میں کل ہند زبان کا اجتماع’ اکھل بھارتیہ سلھتیہ پریشد‘ کے زیر اہتمام گاندھی جی کی صدارت ہوا۔ اس میں یہ قرار داد پیش ہوئی:
” اس پریشد کا ادیش ہو گا:
(الف) ہندوستان کے سب پرانتوں کی بھاشاو ¿ں کے ساتھ ساتھیوں اور ساہت کاروں میں آپس میں میل جول کرنا۔۔۔۔
(ب) اس سبھا کا کام ’ ہندی ہندوستانی‘ میں ہو گا۔“۔۔۔۔۔
مولوی عبدالحق صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ گاندھی جی اور ان کے چیلے ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں اور کوئی بھی معقول بات انہیں قائل نہیں کر سکتی تو انہوں نے سلھتیہ پریشد کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا اور اردو کی مدافعت میں خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے لیکن دکن کی زمین اس مہم کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے لئے ایک ایسے مرکز کی ضرورت تھی، جہاں سے ہر علاقے اور مقام پر نظر رکھی جا سکے۔ چنانچہ اس سال علی گڑھ میں دسمبر1936 میں انجمن ترقی اردو نے کل ہند کانفرنس منعقد کی جس میں بہت غور و خوض کے بعد یہ طے ہوا کہ انجمن ترقی اردو کا مرکزی دفتر دلی منتقل کر لیا جائے۔ مولوی عبدالحق صاحب حیدر آباد میں اپنے بکھرے ہوئے کام کو سمیٹ کر اور جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری ترک کر کے حیدر آباد سے دلی منتقل ہو گئے۔ انجمن ترقی اردو کا دفتر بھی دلی منتقل ہوا۔ بھاری بھر کم سامان اور پریس کی مشینیں وہیں فروخت کر دی گئیں۔ انجمن کی مطبوعات، کتب خانہ اور مسودات سے بھرے ہوئے صندوق مال گاڑی کے ڈبوں میں دلی روانہ کئے گئے۔ اس ضمن میں سید ہاشمی فرید آبادی نے تحریر کیا:
” شروع شروع میں نئی دہلی کی ایک کوٹھی (القریش) انجمن کے واسطے کرائے پر لی گئی تھی مگر چند ماہ کے بعد احباب کے اصرار سے ڈاکٹر انصاری مرحوم کی کوٹھی ( نمبر1دریا گنج) کو کرائے پر لیا۔ آگے چل کر مرحوم کے وارثوں نے اسے سیٹھ صاحب کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ انجمن سیٹھ صاحب کی کرایہ دار ہو گئی دفتر، کتاب خانہ جناب مولوی صاحب، پنڈت کیفی صاحب اور عملے کے بہت سے افراد سن47 (آزادی ہند کے فسادات) تک اس احاطے میں مقیم رہے۔“
اب مقبرہ درانی اورنگ آباد کی خاموش اور پر سکون علمی و ادبی کاوشوں کی زندگی کی بجائے دریا گنج کی طوفانی اور مہم جو زیست تھی، اور مولوی عبدالحق اردو کے دفاع کے لئے مجاہدانہ خدمات کا آغاز کر چکے تھے۔ اس دوران میں کانگریس کی عبوری وزارتوں نے اپنے عمل سے اردو کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور ہندی زبان، دیو ناگری رسم الخط مسلط کرنے کے لئے منصوبے بنائے لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کے تحفظ کے لئے دن کا چین اور رات کا آرام حرام کر لیا۔ اپنے اس دور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے سید ساجد علی کو تحریر کیا:
” اس بر اعظم پاک و ہند کا شاید ہی کوئی بڑا یا چھوٹا قصبہ ایسا ہو جس کی خاک میں نے نہ چھانی ہو۔ شہر اور قصبے تو میری جولاں گاہ تھے، پہاڑوں، جنگلوں، دریاو ¿ں اور سمندروں کی بھی جی بھر کر سیر کی، جن دنوں مجھ پر اردو کا جن سوار تھا اور ہندی والوں اور کانگریسی حکومت سے معرکہ آرائی تھی تو سچ مچ زمین کا گز بنا ہوا تھا۔ وہ دور عجیب و غریب تھا۔ اگر تحریر میں لاو ¿ں تو الف لیلیٰ کی داستان معلوم ہو گی۔“
مہاتما گاندھی اور کانگریسی رہنماو ¿ں نے اردو کی مخالفت بہار سے شروع کی تھی لیکن سی پی کی زمین اردو ہندی تنازع کا مرکز بن گئی۔ چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب کو سب سے زیادہ سی پی کی حکومت سے معرکہ آرائی کرنا پڑی۔ سی پی میں کانگریسی عبوری حکومت نے ’ ودیا مندر اسکیم‘ کا جبراً نفاذ چاہا، لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اس کی شدید مخالفت کی اور اپنے دست راست حکیم اسرار صاحب کی قیادت میں31مارچ1938 کو ناگپور سیکرٹریٹ میں ایک وفد روانہ کیا جس نے حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی کو اپنی شکایات پیش کیں اور مطالبہ کیا:
1۔ودیا مندرا سکیم کا نام تبدیل کیا جائے۔ اگر وہ اس سکیم کے لئے کوئی نام رکھنا ہی چاہتے ہیں تو ’ پڑھائی گھر‘ رکھ لیں۔
2۔مسلمان بچوں کے لئے اردو تعلیم کا انتظام کیا جائے۔
3۔سی پی میں جو کتابیں رائج ہیں، ان میں ہندو دیو مالا، ہندو سورماو ¿ں اور بزرگوں کا حال درج ہے، مسلم تہذیب و آداب یا مسلمان بزرگوں کا نام تک نہیں، اس ضرورت کو پورا کیا جائے۔
4۔ودیا مندر اسکیم کی رو سے کسی گاو ¿ں میں مدرسہ جاری کرنے کے لئے چالیس لڑکے لڑکیوں کی شرط کی بجائے جہاں دس یا دس سے زائد بچے ہیں، اسکول کھولے جائیں اور جہاں پانچ بچے اردو پڑھنے والے ہیں، وہاں اردو رسم الخط میں ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔
اس مسئلے پر مولوی عبدالحق نے گاندھی جی کے نام کھلی چٹھی بھی لکھی جس میں ان پر واضح کیا گیا کہ اگر مسلمانوں کی تعلیمی شکایات رفع نہ ہوئیں تو ان پر ان ہی کے حربے استعمال ہوں گے۔
سی پی میں انجمن کے رضا کاروں اور کارکنوں نے سارے صوبے کا دورہ کیا۔ شہر شہر، قصبہ قصبہ انجمن کی شاخیں، کتب خانے اور مدرسے قائم کئے جس کے نتیجے میں نارتھ ارکاٹ، ساو ¿تھ ارکاٹ، ٹائر نکور اور کوچین جیسے اہم علاقوں میں انجمن کی شاخیں قائم ہو گئیں ۔مجموعی طور پر سی پی اور برار میں تیرہ مدرسے اور صوبے بھر میں ایک سو آٹھ (108) انجمن کی شاخیں قائم ہوئیں۔
چھوٹے ناگپور میں رومن کیتھولک کا زور تھا۔ چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب نے ان کے پادریوں کو اپنے اعتماد میں لے کر ان کے مدارس میں اردو کی تعلیم کا اجراءکیا، جس کے نتیجے میں چھ ہزار عیسائی لڑکے اور لڑکیاں اردو زبان کی تدریس سے فیض یاب ہوئیں۔ یہاں تک کہ کیتھولک ننوں نے اردو پڑھ کر اردو میں مڈل کا امتحان دیا۔
انجمن نے اچھوتوں کے لئے مدرسے قائم کئے اور سی پی کے تمام کالجوں میں جن کی تعداد آٹھ تھی، اردو کی تدریس کے لئے لیکچرار مقرر کئے۔ ڈاک خانوں کے فارموں اور ریل کے ڈبوں پر اردو تحریر کی جانے لگی ۔سی پی کی اسمبلی میں اردو میں تقاریر کا آغاز ہوا۔ اسمبلی کی کارروائی اردو میں لکھی جانے لگی ’ ناگپور‘، ’جاگپور‘میں تبدیل ہو گیا ۔مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی ان کامرانیوں کا اردو کانفرنس کراچی منعقدہ 1951 میں بڑے فخر سے ذکر کیا:
” یا تو ایک وقت یہ حالت تھی کہ مسلمان اردو بولنے سے شرماتے تھے یا تھوڑے ہی عرصے میں یہ نوبت ہوئی کہ مرہٹے اردو بولنے لگے اور اردو میں تقریریں کرنے لگے، ناگپور اردو کا خاص مرکز بن گیا۔“
بنگال میں اردو تدریس کا معقول انتظام نہ تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب کی یہ خواہش تھی کہ یہ سر زمین اردو زبان سے فیض یاب ہو، چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب کی جدوجہد، کاوش اور منصوبہ سازی سے وہ بنگالی طلبا جو دلی کے عربی مدرسوں میں زیر تعلیم تھے، مسجد فتح پوری میں دو کمرے لے کر ان میں شبینہ مدرسہ قائم کر کے اردو کا درس لینے لگے۔ وہ آگے چل کر بنگال میں اردو کی ترویج کے لئے معاون ہوئے۔
مالا بار میں تقریباً آٹھ لاکھ عربی النسل موپلے آباد تھے۔ مولوی عبدالحق صاحب کی سعی سے انجمن نے وہاں ان کے لئے مدرسے قائم کئے اور انجمن کی شاخیں قائم کیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کے سرکاری مدرسوں میں بھی اردو زبان رائج ہو گئی۔
صوبوں کے ساتھ ساتھ ریاستوں میں بھی اردو کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا تھا، بالخصوص کشمیر اور جے پور میں اردو کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ ان ریاستوں میں مدت سے فارسی زبان رائج تھی اس ضمن میں جے پور میں ریجنٹ کلائنٹس کی خدمت میں وفود جاتے اور اردو کے اخراج کا مطالبہ کرتے لیکن مرزا اسمعیل کے عہد وزارت سے قبل ایسا ممکن نہیں ہوا۔ بقول عبادت بریلوی صاحب:
” جب مرزا اسماعیل اس منصب جلیلہ پر فائز ہوئے تو بلا تامل اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان بنا دیا۔ اور جو کام خود مہاراجہ نہ کر سکے، جو انگریزی ریجنٹ سے نہ ہو سکا اور جسے ہندو وزیر اعظم نے رد کر دیا، وہ جناب مرزا صاحب سے بے خرچے انجام پایا۔“
مولوی عبدالحق صاحب نے اس موقع پر بھی مرزا اسماعیل کے اس نازیبا اقدام پر سخت احتجاج کیا۔ حالانکہ وہ کچھ عرصے کے بعد جب ریاست حیدر آباد دکن کے وزیر اعظم ہوئے تو انہوں نے انجمن کی وہ امداد بند کروا دی جو ریاست حیدر آباد کی سلطنت عثمانیہ انجمن کو اورنگ آباد سے دلی منتقل ہونے کے بعد پچیس ہزار روپے سالانہ اس شرط پر دیتی تھی کہ انجمن ہر سال بیس کتابیں شائع کرے گی۔
باوجود اس کے کہ مولوی صاحب اردو کے دفاع کے لئے بر سر پیکار تھے، وہ انجمن کے بنیادی مقصد یعنی اردو کی ترویج اور اشاعت سے کنارہ کش نہ ہوئے، بلکہ ان کے مقاصد میں وسعت اور عزم میںپختگی پیدا ہو گئی۔ انہوں نے 1939 میں کل ہند کانفرنس منعقد کی ۔اس کانفرنس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سجاد مرزا صاحب لکھتے ہیں:
” مولوی صاحب کی تحریک پر اردو زبان کے متعلق چند اہم تحریکات منظور کیں، جن کے خد و خال پر اب بھی عمل ہو رہا ہے۔“
مولوی عبدالحق صاحب کی خواہش تھی کہ انجمن ترقی اردو کی دلی میں اپنی عمارت ہو، اس کے لئے انہوں نے باقاعدہ فنڈ کا اجرا کیا، جس کی رسیدوں پر مجوزہ عمارت کا نقشہ دیا گیا تھا۔ یہ فنڈ جمع کرنے کے لئے تنخواہ دار کارکن مامور کئے گئے۔ حکیم امامی صاحب کہتے ہیں:
” حیدر آباد دکن سے دہلی آنے کے بعد آپ نے دہلی میں ایک اردو کالج کا ڈول ڈالا۔ آپ کی کوشش یہ تھی کہ دلی میں ایک یونیورسٹی قائم ہو جائے۔“
سالہا سال کی کوشش کے بعد آپ نے دہلی میں ہزاروں روپے کی مالیت کا ایک وسیع قطعہ زمین حاصل کیا۔ یہ زمین انجمن کی عمارت کے لئے تھی۔ اس عمارت کے لئے مولوی صاحب نے نہ صرف قوم سے ڈیڑھ لاکھ روپوں کا چندہ فراہم کیا، بلکہ اپنی عمر بھر کی کمائی 54 ہزار روپے بھی اس کار خیر میں دے دئیے۔ بابائے اردو کا ارادہ تھا کہ دہلی کی سر زمین پر ایک اردو گھر تعمیر ہو جائے اور بربک کوچک دہلی اردو زبان اور ادب کی اشاعت کا مرکز قرار دیا جا سکے۔
انجمن کو اورنگ آباد سے دلی منتقل کرنے کے بعد مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن کے اشاعتی پروگرام اور سرگرمیوں کو نظر انداز نہ ہونے دیا، بلکہ اس جانب بھی پوری توجہ دی۔ دلی منتقل ہوتے ہی اپریل 1939سے پندرہ روزہ ’ ہماری زبان‘ کا اجرا ہوا۔ پہلے ہی سال انجمن نے ’ معلومات سائنس‘ اور’ فرہنگ اصطلاحات پیشہ واراں‘ جیسی قابل قدر تحقیقی کتابیں شائع کیں 1946 میں ماہنامہ ’ معاشیات‘ کا اجرا ہوا۔
دلی کے اس سارے دور میں اشاعتی پروگرام میں بھی سرگرمی رہی۔ اس نو سال کی قلیل مدت میں انجمن نے تقریباً” ڈیڑھ سو کتابیں شائع کیں جس کے نتیجے میں انجمن کی مطبوعات کی کل تعداد اڑھائی سو کے لگ بھگ ہو گئی۔“
1961 میں حیدر آباد دکن سے مولوی عبدالحق صاحب کی خدمات عالیہ کے اعتراف میں ’ مجلس‘ نے مولوی عبدالحق نمبر شائع کیا جس میں پروفیسر سید محمد صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے دلی کے نو سالہ دور جہاد پر بھر پور روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا:
” نو برس تک علمی کارناموں کے ساتھ ساتھ اردو کے حقوق کی حفاظت اور حمایت کے لئے بالکل مجاہدانہ انداز میں مصروف رہے۔ مولوی صاحب کے طوفانی دورے، جلسوں اور کانفرنسوں میں شرکت اور ان کی صدارت، اس دور کے خطبات اور مضامین پر روشنی ڈالو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک جواں ہمت اور کبھی نہ تھکنے والا سپاہی، جو ہر محاذ پر مصروف جنگ ہے۔ اس کو نہ گرمیوں کی دھوپ اور لوکاڈر ہے، نہ جاڑے اور برسات کی سردی اور مینہ کا اندیشہ، وہ اپنی پوری طاقت سے مخالفوں کا تن تنہا مقابلہ کر رہا ہے۔ ہر حملے کا منہ توڑ جواب دے رہا ہے۔ اس کا یہ ایثار، اس کا یہ جوش عمل، اس کی یہ سرفروشی و مستعدی ایسی موثر اور ولولہ انگیز ثابت ہوئی کہ خود بخود اس کے گرد اردو ہوا خواہ جمع ہونے لگے۔ جو اپنی زبان کی خدمت کے فرض کو بھولے ہوئے تھے، وہ سب جاگ اٹھے، ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس مرد مجاہد کی للکارنے دم کے دم میں سارے اردو دانوں کو بیدار کر دیا۔“
لیکن دلی کی بزم بہت جلد درہم برہم ہو گئی۔ انقلاب کے جھکڑوں نے تمام منصوبوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کو خس وخاشاک کی طرح اڑا دیا۔
بقول مختار الدین احمد:
” انجمن کا کام پوری طرح دلی میں جم بھی نہیں سکا تھا کہ ملک کی سیاست کا رخ بدل گیا۔ مولوی عبدالحق صاحب اس کے تحفظ کے لئے سینہ سپر ہو گئے۔ انہوں نے ہر محاذ پر اس کے لئے جنگ لڑی، مگر حالات روز بروز نا سازگار ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ ملک کی تقسیم کا اعلان ہو گیا۔ ہر طرف فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ دلی میں انجمن کا دفتر تباہ کر دیا گیا، جس میں کتنی قیمتی کتابیں اور کتنے قیمتی کاغذات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ ہو گئے۔“
جب انجمن کے دفتر پر قیامت گزری تو مولوی عبدالحق صاحب دلی میں موجود نہ تھے، وہ انجمن کی امداد بحال کروانے اور رسالہ ’ سائنس‘ اور سائنس کمیٹی کے معاملات طے کرنے حیدر آباد دکن گئے ہوئے تھے۔ جب انہیں اپنے امور سے فراغت ہوئی تو وہ بھوپال میں منزل کرتے ہوئے دلی آنے کے عزم سے 3ستمبر1947 کو حیدر آباد سے بھوپال روانہ ہوئے۔ بھوپال پہنچ کر مولوی عبدالحق صاحب کو دلی کے حالات سے آگاہی ہوئی۔ مولوی عبدالحق صاحب دلی روانہ ہونے کے لئے بضد تھے، لیکن ان کے رفیق خاص شعیب قریشی صاحب نے بمشکل تمام انہیں بھوپال رو کا ہوا تھا۔ وہاں انہیں رحم علی ہاشمی اور حکیم رشید احمد صاحب کے خطوط سے یہ معلوم ہوا کہ انجمن کا دفتر بلوائیوں نے تباہ کر دیا ہے اور تمام سامان لوٹ لیا ہے۔ ملازمین جان بچا کر بھاگ گئے ہیں۔ سید ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں کہ بقول مولوی صاحب:
” اس وقت مجھے سب سے بڑی فکر ان کتابوں کی تھی جو میرے کمرے میں تھیں اور کتب خانے کی جان تھیں۔ ان کی کیفیت معلوم نہ ہونے سے دل بے چین تھا میں چاہتا تھا کہ خود جاو ¿ں اور دیکھوں کہ کیا گیا اور کیا رہا، کیا کھویا اور کیا پایا لیکن شعیب صاحب اور دوسرے افراد مانع آئے کہ یہ وقت دلی جانے کا نہیں۔“
آخر مولوی صاحب نے اپنے ہمسفر اور رفیق خاص سید علی شبیر حاتمی کو دلی روانہ کیا جنہوں نے وہاں سے واپس آ کر اس بات کی تصدیق کی کہ انجمن کا دفتر اور مولوی صاحب کا ذاتی سامان لوٹ لیا گیا ہے اور سید ہاشمی کی موٹر کار توڑ پھوڑ دی گئی ہے۔ صرف وہی سامان بچا ہے جو بلوائیوں سے اٹھ نہ سکا۔
25ستمبر1947 کو مولوی عبدالحق صاحب چار و ناچار بھوپال سے دوبارہ حیدر آباد دکن روانہ ہو گئے، لیکن ان کے دل کی دھڑکنیں دلی سے وابستہ ہیں۔ انہیں دلی کی اس تباہی پر بہت افسوس تھا۔ انہوں نے اپنے خط محررہ6 اکتوبر1947 بنام ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کو تحریر کیا:
” آپ کا خط پہنچا آپ کا پہلا جملہ دلی تباہ ہو گئی ہے۔ ہر گز نہیں، مسلمان تباہ ہو گئے۔ اب دلی شاہجہان کی نہیں، سکھوں اور پٹیل کے گرگوں کی ہے۔۔۔۔۔ نادر شاہ کا قتل عام چند گھنٹے رہا اور اس میں ہندو مسلمان سبھی تھے۔ غدر کی تباہی میں اگرچہ مسلمان زیادہ تباہ ہوئے لیکن ہندو بھی نہیں بچے رہے۔ 1857ئ کے بعد1947 کی تباہی اور قتل و غارت گری سب سے بڑھی ہوئی تھی جو پورے نوے برس بعد ہوئی اور اس میں صرف مسلمان تباہ و برباد ہوئے۔ یہ منظم سازش تھی، نیشنل ہیرلڈ لکھنو نے جو خاص کانگریس اخبار ہے۔۔۔۔ اس سازش کا راز فاش کیا۔“
مولوی عبدالحق صاحب تقریباً ایک ماہ بعد24اکتوبر کو پھر بھوپال پہنچے اور وہاں سے انہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد سے دلی میں رابطہ کیا اور دلی آنے اور ان کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے ان کا پیغام مثبت جواب میں دیا اور مولوی عبدالحق صاحب 8نومبر1947 کو بھوپال سے روانہ ہو کر 9نومبر کو دلی پہنچے اور 10نومبر کو انجمن کا تباہ شدہ دفتر دیکھنے گئے تو دفتر کا دفتر ہی پلٹا ہوا تھا مولوی صاحب نے اس المناک رو داد کو خود قلم بند کیا ہے وہ تحریر کرتے ہیں:
” کتابوں کی متعدد الماریاں تھیں۔ کھلی الماریوں کے سوا دو بڑی فولادی الماریاں جن میں خاص خاص نادر قلمی نسخے اور قدیم کاغذات اور بعض نامور اشخاص مثلاً ناسخ، غالب، سرسید، حالی، محسن الملک، اقبال، سرتیج بہادر وغیرہ کے خطوط اور اسی قسم کی بہت سی عزیز اور بیش بہا قیمتی اشیا تھیں۔ ان کے علاوہ کئی بڑے صندوق تھے جن میں میرے نوٹ اور یاد داشتیں مختلف قسم کی خاص کر اردو لغت کے متعلق بہت سامان، الفاظ کی اصل کا تحقیقی سرمایہ اردو زبان کی تاریخ کی یاد داشتیں اور مضمون اور اردو اور ہندی تنازع کے متعلق بہت سے قدیم کاغذات (میرا ارادہ اس تنازع کی تاریخ لکھنا تھا)۔۔۔۔۔۔ میرے کپڑے کی الماریاں اور صندوق تھے، کپڑے اور دوسری چیزیں جو اس کمرے میں تھے، وہ تو لٹیروں نے سب لوٹ لیں ۔جو صندوق، بڑے نئے اور اچھے تھے، وہ انہیں بہت پسند آئے۔ کاغذات تو انہوں نے وہیں پھینک دئیے اور صندوق لے کر چلتے بنے فولادی مقفل الماریوں پر ان کی للچائی ہوئی نظریں پڑیں اور سمجھے کہ ان میں ضرور مال و زر ہو گا پتھر مار مار کر انہیں توڑ دیا جب ان کو کتابوں اور کاغذوں کے سوا کچھ نہ ملا تو بڑی مایوسی ہوئی اور غصے کے جانجھ میں وہ سب کاغذات اور کتابیں نکال کر باہر پھینک دئیے۔“
مالک مکان نے کرائے کے لالچ میں یہ عمارت بھارت کمپنی کو دے دی اور لٹا پٹا اور بچا بچایا سامان ردی کی شکل میں غسلخانوں، برآمدوں، باورچی خانوں اور گوداموں میں ڈھیر کر دیا۔ مولوی عبدالحق صاحب، چودھری رحم علی، رفیق الدین احمد، محمد یعقوب اور حامد علی، ان ڈھیروں سے قلمی نسخوں کے کاغذات اور پرزوں سے ’ جگر کے ٹکڑے‘ جمع کرتے رہے۔ مولوی عبدالحق صاحب اور علی شبیر حاتمی مولانا ابو الکلام آزاد کی کوٹھی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لیکن دو تین دن بعد جب رفیق الدین احمد بھی آ گئے تو یہ لوگ نظام پیلس میں منتقل ہو گئے لیکن حیدر آبادی وفود کی آمد کی وجہ سے یہ جگہ ان کے لئے تنگ ہو گئی۔ دہلی کے حالات نا گفتہ بہ تھے، آخر مجبوراً مولوی عبدالحق صاحب کو کراچی آنا پڑا۔ لیکن ابھی مولوی عبدالحق کو یکسوئی حاصل نہ ہوئی تھی۔ ان کا عزم ہندوستان میں اردو کی خدمت کرنے کا تھا اور حالات کے دھارے انہیں پاکستان کی سر زمین کی جانب دھکیل رہے تھے۔ اس ضمن میں مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:
” میں دلی جانے کے لئے تڑپ رہا تھا۔ میرے سب دوست احباب سمجھاتے تھے کہ اب اس ملک میں اردو کے کام کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ حکومت مخالف، اکثریت مخالف، کوئی کیا کام کر سکتا ہے۔ خصوصاً تمہارا وہاں جا کر کام کرنا خطرے سے خالی نہیں اور تو اور، ہمارے مخدوم علامہ کیفی صاحب بھی دلی میں رہ کر کام کرنے کے مخالف تھے۔ وہ بھی کہتے تھے کہ ہندوستان میں تو اردو کا خاتمہ ہو گیا۔ اب یہ پنپے گی تو پاکستان میں پنپے گی۔“
ملک تقسیم ہوتے ہی مولانا ابو الکلام آزاد بھی انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق کے بھارت میں کام کرنے کے خلاف ہو گئے۔ حالات بھی خلاف جا رہے تھے لیکن مولوی عبدالحق صاحب اتمام حجت کی غرض سے ہندوستان جانا چاہتے تھے۔ آخر تیرہ جنوری 1948 کو مولوی عبدالحق صاحب حامد علی صاحب کو اپنے ساتھ لے کر ایک دفعہ پھر دلی پہنچے۔ اس دفعہ ان کا قیام زاہد حسین صاحب کی عنایت سے پاکستان ہائی کمیشن میں تھا اور وہ پھر انجمن کے لٹے ہوئے کوچے کے چکر کاٹنے لگے جہاں ابھی تک ردی کی چھٹائی کا کام جاری تھا۔
25جنوری 1948 کو مولوی عبدالحق صاحب کی درخواست پر اولڈ بوائز لاج علی گڑھ میں ہمدردان اردو کا ایک اجتماع ہوا۔ اس کے ایجنڈے میں یہ امور تھے۔
1۔ انجمن ترقی اردو کا صدر مقام اب کہاں ہو؟
2۔ موجودہ حالات میں اس کا پروگرام کیا ہو؟
سید ہاشمی فرید آبادی کا کہنا ہے:
”اس میں قریباً 25حضرات تشریف لائے اس میں نواب اسماعیل خان صاحب وائس چانسلر، بیگم اعزاز رسول، شیخ عبداللہ، پروفیسر محمد شریف، پروفیسر منظور، آل احمد سرور، پروفیسر رشید احمد صدیقی، سید الطاف حسین، محمد بشیر الدین صاحب لائبریرین، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، امیر الدین وغیرہ تھے۔“
25جنوری1945 کو مولوی عبدالحق صاحب الہ آباد گئے تاکہ انجمن ترقی اردو کے صدر سرتیج بہادر سپرو سے تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے وہ 31جنوری کو مولوی بشیر الدین صاحب سے ملاقات کرنے اٹاوہ گئے۔ لیکن ان سے ملاقات نہ ہو سکی کیوں کہ وہ ڈاکٹر ضیاءالدین مرحوم کی تدفین میں شرکت کے لئے علی گڑھ گئے ہوئے تھے۔ مجبوراً مولوی صاحب دلی واپس آ گئے۔ یہاں ان کی مصروفیت انجمن ترقی اردو کے دفتر کو کسی نئی جگہ منتقل کرنا تھا۔ آنریبل قدوائی صاحب نے اینگلو عربک کالج میں انجمن کا دفتر منتقل کرنے کی تجویز پیش کی کیوں کہ ان دنوں فسادات کی وجہ سے یہ عمارت ویران پڑی تھی۔ اس سلسلے میں کالج کمیٹی کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین خاں سے درخواست کی گئی جسے انہوں نے منظور کر لیا۔ ابھی انجمن کا دفتر عربک کالج منتقل بھی نہ ہو پایا تھا کہ زاہد حسین صاحب کا دلی سے کراچی تبادلہ ہو گیا اور مولوی عبدالحق کا دلی میں رہنا پھر ایک دفعہ نا ممکن بن گیا۔ چنانچہ مولوی صاحب 4مارچ1948 کو لاہور چلے آئے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد یعقوب خان، حامد علی و دیگر ملازمین نے انجمن کا بچا کھچا اثاثہ اینگلو عربیک کالج میں منتقل کر دیا۔ آثار تو یہ تھے کہ شاید اینگلو عربیک کالج کو سنبھالتے دو تین سال لگ جائیں گے، اس سے پہلے درس و تدریس ممکن نہ ہو سکے گی، لیکن پاکستان سے جو سکھ اور ہندو مہاجرین کا ریلہ دہلی پہنچا، وہ ہندی سے آشنا نہ تھے، بلکہ اردو تعلیم کے خواہاں تھے۔ اس لئے ان کے لڑکے لڑکیوں کو تعلیم دینے کے لئے اینگلو عربیک کالج کو جلد کھول دیا گیا اس لئے:
” ہم انجمن کا سامان اور کتب خانہ پھر نمبر 1دریا گنج میں منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے اس آر جار میں کتابوں کی ترتیب میں ابتری پیدا ہو گئی، اور شکست و ریخت سے نقصان پہنچا۔“
مولوی عبدالحق صاحب کے پاکستان میں ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں انجمن ترقی اردو بھی معتوب ہو گئی اور مولوی عبدالحق کی ذات کو شک و شبہ سے دیکھا جانے لگا اور انجمن کے خلاف نئی سازش کا جال بچھنا شروع ہوا۔
عبداللطیف خان مالک لطیفی پریس دلی نے بھی اس خبر کی تصدیق کی:
” اگر میں جلد دلی نہ پہنچا تو حکومت انجمن کو امداد بھی نہ دے گی (جس کی منظوری ہو چکی ہے) زمین بھی ضبط کر لے گی اور کتب خانے سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔“
مولوی عبدالحق صاحب نے اس خبر کے بعد دوبارہ ہندوستان جانے کی تیاریاں کیں۔ ہندوستان کے ہائی کمشنر متعینہ پاکستان سری پرکاش نے مولوی عبدالحق صاحب کے لئے ایک خصوصی پرمٹ جاری کیا، جس کے تحت یہ انجمن کی ضرورت کے لئے جب چاہیں ہندوستان جا سکتے ہیں اور واپس آ سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ 3 اکتوبر1948 کو دہلی روانہ ہوئے اور 5 اکتوبر کو انجمن کے معاملات کے سلسلے میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ملے۔ سید ہاشمی فرید آباد ی لکھتے ہیں:
” حقیقت حال بیان کی کہ انجمن کے لئے کوئی مکان نہیں ملتا۔ انجمن کے نام سے لوگ کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں ۔انہوں نے فرمایا کہ بہت بد گمانیاں ہیں۔ آپ لاہور یا کراچی کو اپنا صدر مقام بنائیں، یہ ٹھیک نہیں ہے کہ آپ کی ایک ٹانگ یہاں اور ایک ٹانگ وہاں۔۔۔۔ جناب کیفی صاحب سے ملا، وہ اس سے قبل ڈاکٹر تارا چند سے ملے تھے۔ انہوں نے بھی ایسی ہی باتیں کیں کہ حکومت ہم سے بد گمان ہے۔“
12اکتوبر1948 کو مولوی عبدالحق صاحب دوبارہ مولانا ابو الکلام آزاد سے ملے اور انہیں اپنے اس فیصلے سے آگاہ کیا کہ وہ انجمن کو کراچی لے جانے پر مجبور ہیں لیکن انہیں انجمن کا کتب خانہ لے جانے کے ساتھ ساتھ وہ رقم بھی واپس ملنی چاہئے جو انجمن نے حکومت ہند کو زمین کی قیمت میں ادا کی تھی۔ مولانا ابو الکلام نے یہ معاملات حل کر دینے کا یقین دلایا۔ لیکن اس وعدے کے بر خلاف17اکتوبر1948 کو دریا گنج میں انجمن کا دفتر سر بہر کر دیا گیا۔ مولوی عبدالحق انتہائی مایوسی کے عالم میں21 اکتوبر1948 کو سرتیج بہادر سپرو صدر انجمن ترقی اردو کو نئی صورتحال سے آگاہ کرنے الہ آباد گئے۔ انہوں نے بھی واقعات سن کر افسوس کیا اور ڈاکٹر تارا چند اور مسٹر شنکر پرشاد چیف کمشنر کے نام مکاتیب میں انجمن کے معاملات کی طرف توجہ دلوائی۔ کلکتے سے عبدالرحمن صدیقی دلی آئے اور مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین خان، تارا چند اور رفیع احمد قدوائی سے ملے اور انجمن کے معاملات میں بات چیت کی لیکن سرتیج بہادر سپرو اور عبدالرحمن صدیقی صاحب کی کوششیں لا حاصل رہیں۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے خط محررہ 3جنوری 1953 بنام مولانا امین زبیری صاحب، اس واقعہ کی داستان اس طرح بیان کی ہے:
” مد محفوظ بھارت کی انجمن کے پاس رہا اور امپریل بنک سے ہم کوئی رقم نکالنے نہ پائے تھے کہ بھارت کی انجمن نے کارروائی کر کے رقم رکوا دی۔ پولیس نے چیف کمشنر کے حکم سے کتب خانہ کو سر بمہر کر دیا۔ اس موقع پر سرتیج بہادر سپرو نے چیف کمشنر کو خط لکھا اور شکایت کی کہ یہ کارروائی نا مناسب اور نا جائز کی گئی ہے۔ چیف کمشنر نے لکھا کہ یہ میں نے ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر تارا چند کے اشارے پر کیا ہے۔ سرتیج بہادر سپرو نے یہ نقل مجھے بھیج دی۔ یہ بڑی لمبی داستان ہے۔ خط میں اس کی گنجائش نہیں کبھی موقع ہو گا تو بیان کروں گا۔“
پاکستان ہائی کمیشن کا فعل بھی انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق صاحب کے حق میں مثبت نہ ہوا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا:
” مجھے سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہائی کمشنر اور ان کے عملے سے کسی قسم کی مدد نہ ملی صرف جھوٹے وعدے کرتے رہے۔ یہ ان کے متعلق عام شکایت تھی۔ لوگ حیران تھے کہ ایسے شخص کو ہائی کمشنر کیوں مقرر کیا گیا جو پاکستان سے زیادہ بھارت کا خیر خواہ ہے۔“
دلی میں مولوی عبدالحق صاحب پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔ حکومت ہند نے مولوی صاحب اور ان کے رفقا کار پر باقاعدہ پولیس متعین کر دی جو ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کرتی اور بعض اوقات ان کے مہمانوں کو بھی ناجائز تنگ کرتی۔ ان میں بعض ان کے ہمدرد بن کر مخبری کرتے۔ مولوی عبدالحق صاحب کا بیان ہے:
” اکثر ایک مرد معقول باریش مقطع ملنے آیا کرتے تھے اور اردو سے اور ہمارے کام سے بہت ہمدردی ظاہر کرتے تھے ۔بڑے چرب زبان تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا تعلق سی آئی ڈی سے ہے۔“
آخر کار 6جنوری1948 کو مولوی صاحب نے دل پر پتھر رکھ کر دلی سے مجبوراً ہجرت کی اور بھوپال کی راہ لی۔ وہاں اٹھارہ دن قیام کر کے 24جنوری کو بمبئی گئے بقول سید فرید ہاشمی صاحب:
” دو ایک کام تھے، وہ کئے آخر 28جنوری1948 کو بمبئی سے یہ شعر پڑھتا ہوا جہاز میں سوار ہوا:
رخصت اے ہندوستان، اے بوستان بے خزاں
رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی مہمان
” وہ جو کہتے ہیں:
’ شاعری جزویست از پیغمبری‘
کبھی کبھی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے۔ حالی نے یہ شعر75سال پہلے لکھا تھا۔ اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ کبھی ایسا وقت آئے گا!“
جہاز ساڑھے بارہ بجے کراچی پہنچا ہوا خانے پر شعیب قریشی صاحب، سید ہاشمی، خان عبداللطیف خان صاحب اور حسام الدین راشدی ملنے آئے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر کیا کہ خیر و عافیت سے پاکستان پہنچ گئے اب یہاں نئی مہم کا آغاز ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭
کراچی کا دور
انجمن ترقی اردو کی تاسیس اور جدوجہد
1948 تا1961
آزادی کا اعلان ہوتے ہی برصغیر فسادات کی لپیٹ میں آ گیا اور ایسی آگ لگی کہ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی۔ اس کے نتیجے میں انجمن ترقی اردو ہند کی بزم بھی تتر بتر ہو گئی ۔دفتر لٹیروں نے لوٹ لیا ،عمارت انشورنس کمپنی کے قبضے میں چلی گئی، ملازمین اور کارکن شہید ہو گئے یا جس کے جہاں سینگ سمائے چلے گئے۔ تمام ادارے تقسیم ہو کر رہ گئے۔ اس لئے تشکیل پاکستان کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی، جو ہندوستان کی انجمن ترقی اردو سے جداگانہ اور آزاد اپنے کام و سفر کا آغاز کر سکے کیونکہ تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان کے علاقوں کی شاخوں کا الحاق ہندوستان کے مرکز سے رہنے کا جواز نہ تھا۔ صرف یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پاکستان میں انجمن ترقی اردو کا مرکز کہاں ہو۔ جس وقت اورنگ آباد سے انجمن کو منتقل کرنے کے لئے 24,25 اکتوبر1936کو علی گڑھ میں کل ہند کانفرنس منعقد کی تھی تو اس میں پنجاب سے ڈاکٹر اقبال مرحوم کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا مگر وہ اپنی علالت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے تھے، لیکن انجمن کی اورنگ آباد سے منتقل کے بعد نئے مرکز کے سلسلے میں دعوت نامے کے جواب میں مولوی عبدالحق صاحب کے نام اپنے مکتوب 27ستمبر1936 میں تفصیلی اور مدلل رائے دی تھی:
” میرے خیال میں اس کا مستقر لاہور ہونا چاہئے اور اس کے لئے ایک سے زیادہ وجوہ ہیں:
1۔مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لئے جو لڑائیاں آئندہ لڑنی پڑیں گی ان کا میدان پنجاب ہو گا۔ پنجابیوں کو اس میں بڑی دقتیں پیش آئیں گی کیونکہ اسلامی زمانے میں یہاں کے مسلمانوں کی مناسب تربیت نہیں کی گئی مگر اس کا کیا علاج کہ آئندہ رزمگاہ یہی سر زمین معلوم ہوتی ہے۔
2۔ آپ انجمن اردو سے متعلق ایک پبلشنگ ہاو ¿س قائم کرنا چاہتے ہیں، اس کی کامیابی بھی لاہور ہی میں ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ایک بڑا پبلشنگ سنٹر ہے اور بہت سا طباعت کا کام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ انگریزی پبلشنگ کی طرف بھی یہاں کے مسلمان توجہ کر رہے ہیں۔
3۔ یہاں کے لوگوں میں اثر قبول کرنے کا مادہ زیادہ ہے۔ سادہ دل صحرائیوں کی طرح ان میں ہر قسم کی باتیں سننے اور ان سے متاثر ہو کر ان پر عمل کرنے کی صلاحیت اور مقامات سے بڑھ کر ہے۔ ایک معمولی جلسے کے لئے آٹھ دس ہزار مسلمانوں کا جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ بیس ہزار کا مجمع بھی غیر معمولی نہیں۔ یہ بات پنجاب کے ہندوو ¿ں میں بھی نہیں پائی جاتی۔
اور اسی قسم کے خیالات کا اظہار مولانا ظفر علی خان، حافظ محمود شیرانی اور پنجاب کے دیگر اکابرین نے کیا تھا، اس لئے جب پاکستان میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی جانے لگی تو مولوی عبدالحق صاحب کے ذہن میں انجمن ترقی اردو کے مرکز کے لئے لاہور کا نام آیا۔
مولوی عبدالحق صاحب نے لاہور میں پنجاب کے وزیر مہاجرین میاں افتخار الدین کو خط لکھا کہ وہ انجمن کا دفتر لاہور لانا چاہتے ہیں اور اسی مضمون کا مکتوب 19اکتوبر1947 کو میاں بشیر احمد صاحب کو رقم کیا جس میں تحریر تھا:
” ہم سب کی رائے یہ قرار پائی ہے کہ اب انجمن کا صدر مقام لاہور ہونا چاہئے بشرطیکہ آپ صاحبان بھی اس سے اتفاق فرمائیں۔۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ ہندوو ¿ں نے جو عمارتیں اور پریس وغیرہ چھوڑے ہیں، ان کی تقسیم عمل میں آ رہی ہے۔ اگر آپ کی توسط اور عنایت سے ہمیں کوئی اچھا پریس اور ایسا مکان مل جائے جس میں انجمن کا دفتر اور کتب خانہ وغیرہ آ سکے تو ہم بخوشی اس کو خریدنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ بہت اچھا موقع ہے۔ شاید پھر ایسا موقع نہ مل سکے ۔میں نے اس مضمون کا ایک خط میاں افتخار الدین صاحب کو بھی لکھا ہے ۔اگر ازراہ کرم تکلیف فرما کر اس بارے میں گفتگو کر کے کوئی انتظام فرما دیں تو بہت ممنون ہوں گا۔“
لیکن مولوی عبدالحق صاحب کو لاہور سے میاں افتخار الدین نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے بعد مولوی عبدالحق صاحب خود لاہور آئے اور میاں بشیر احمد کو یاد دہانی کروائی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کا نام ایک مکتوب میں مولوی عبدالحق صاحب نے میاں بشیر احمد کے رویے کے سلسلے میں تحریر کیا:
” انہوں نے لاہور کے ممتاز ادیبوں کو جو با اثر تھے، مدعو کیا جب اس معاملے کا ذکر آیا تو انہوں نے اس ڈھنگ سے گفتگو کی جس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ انجمن یہاں پر آئے۔ پروفیسر حمید احمد خان صاحب بھی اس صحبت میں تھے۔“
دوسری نظر انتخاب کراچی شہر پر پڑی جو پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی دار الحکومت بننے کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ تقسیم ہند سے قبل بھی انجمن ترقی اردو کی کراچی شاخ بڑی سر گرم عمل رہی تھی۔ اس لئے فیصلہ ہوا کہ پاکستان میں کراچی کو انجمن کا مرکز بنایا جائے اور اس کے لئے ایسے مکان کی تلاش شروع کر دی گئی جو انجمن کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ مکان کی تلاش سید علی بشیر صاحب کے ذمے تھی جنہوں نے پیر حسام الدین راشدی کے تعاون سے سہ منزلہ عمارت کا انتخاب کر لیا جو کہ گجراتی ایجوکیشن سوسائٹی کی ملکیت تھی اور جس میں لڑکیوں کا ایک ہائی اسکول چلتا تھا ۔سید ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں:
” چنانچہ اس کے لئے ہم نے ایک درخواست آنریبل پیر الہٰی بخش صاحب وزیر تعلیم کی خدمت میں پیش کی پیر صاحب نے ہماری درخواست پر سید ہاشم رضا کلکٹر کے نام سفارش کر دی۔“
لیکن اس عمارت پر مہاجرین کا قبضہ تھا۔ جب اس کا ذکر کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر حکیم محمد احسن صاحب سے ہوا تو انہوں نے شاردا مندر کی نشاندہی کی جو گجراتی ایجوکیشن سوسائٹی کی عمارت سے زیادہ وسیع اور بہتر تھی۔ اس عمارت کے حصول کے لئے از سر نو تگ و دو شروع ہوئی اور آخر کار یہ عمارت انجمن ترقی اردو پاکستان کے لئے الاٹ ہو گئی۔
” شاردا مندر گجراتیوں کا سب سے بڑا ادارہ تھا، اور اس میں تخمیناً بارہ سو طالب علم تعلیم پاتے تھے۔ انجمن کے لئے اس سے بہتر عمارت کراچی شہر میں نہیں مل سکتی تھی۔“
کراچی میں انجمن ترقی اردو کا مرکز قائم ہو جانے کے باوجود مولوی عبدالحق صاحب مستقل پاکستان ہجرت کرنے کو تیار نہ تھے۔ وہ دونوں ملکوں میں اردو کی ترویج کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اضطرابی کیفیت میں بار بار دلی اور کراچی کے چکر کاٹے۔ پاکستان آ جاتے تھے تو دلی کی انجمن کے مسائل بے چین کر دیتے تھے اور دلی میں بے سر و سامانی دیکھتے تھے تو پاکستان آ جاتے تھے جب تک انہیں مولانا ابو الکلام آزاد، تارا چند اور ڈاکٹر ذاکر حسین خان صاحب نے بالکل مایوس نہ کیا، وہ ذہنی طور پر یہ بات قبول کرنے کو تیار نہ تھے کہ بھارت میں اردو کی خدمت نہیں کی جا سکتی۔ 12فروری 1948کو انہوں نے دلی سے پیر حسام الدین راشدی کو تحریر کیا:
” جب کوئی مناسب مکان مل گیا تو دفتر و مکتب خانہ اس میں منتقل کر کے ضروری انتظامات کر کے کراچی چلا آو ¿ں گا وہاں مجھے کسی علیحدہ مکان کی ضرورت نہیں۔ شاردا مندر میں رہ کر کام کروں گا اور رات کو وہیں پڑ رہوں گا۔ میرے پاس اب کیا ہے، جس کے لئے مکان کی ضرورت ہو۔ ایک بچھونا اور دو چار جوڑے کپڑے ہیں اور بس۔۔۔۔۔ دوسرے مجھے تو دونوں ملکوں میں رہنا ہے، پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی، کام کرنے والے ساتھیوں کی تلاش ہے۔۔۔۔۔ دونوں جگہ انتظام کرنے میں کچھ مدت لگے گی۔۔۔۔۔ سارے رسالے بند ہیں۔۔ انہیں پھر زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کتابوں کی اشاعت بھی رک گئی ہے، ان کا سلسلہ پھر سے قائم کرنا ہے۔“
” کوئی ڈیڑھ دو برس تک وہ اس رائے پر قائم رہے پاکستان میں انجمن کا یہ زمانہ کار گزاری کے اعتبار سے تذبذب اور تعطل کا زمانہ ہے۔ لیکن انہیں بھارت کے مرکز اور محاذ سے دست کش ہونے پر مجبور ہونا پڑا اور آخر1949 میں صرف پاکستان میں رہ کر کام کرنے کے عزم و ارادے کے ساتھ مستقل بھارت کو خیر باد کہہ آئے۔“
ہندوستان میں مولوی عبدالحق صاحب نے جو کچھ محنت کی تھی، وہ سب اکارت ہو چکی تھی۔ اب سب کچھ نئے سرے سے کرنا تھا ۔انجمن کے اغراض و مقاصد کو نئے سرے سے مرتب کرنا تھا۔ ادارے کی اشاعتی سرگرمیاں، کالج کی بنیاد، یونیورسٹی کی مہم، غرض ہر چیز کو نئے طریقے سے شروع کرنا تھا۔ اس کے لئے مولوی عبدالحق صاحب اپنی پیرانہ سالی کی باوجود نئے عزم اور حوصلے سے میدان میں اتر آئے۔
انجمن کے پاس سرمایے کی شدید کمی تھی کیونکہ ہندوستان کی حکومت انجمن ترقی اردو کی تمام اثاثے منجمد کر دئے تھے، حالانکہ یہ وہ سرمایہ تھا جس پر انجمن کی ہر شاخ اور تنظیم کا حق تھا اور برصغیر کے دونوں ملکوں میں پھیلی ہوئی تھیں ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں:
” دہلی چھوڑنے سے پہلے یعنی ختم سال1946 میں انجمن ترقی کے پاس تقریباً دو لاکھ روپیہ نقد اور مطبوعات، کاغذ وغیرہ کوئی تین لاکھ روپیہ مصدقہ کا اثاثہ تھا۔ فروخت کتب و رسائل سے ان کی آمدنی کم و بیش 65 ہزار اور حیدر آباد کی امداد ملا کر ایک لاکھ روپیہ سالانہ سے بڑھ جاتی تھی۔ نقد و جنس کا سارا اثاثہ بھارت کی حکومت نے غصب کر لیا۔“
مولوی عبدالحق نے اپنی تیس سالہ زیست کی جمع پونجی تقریباً پچاس ہزار روپے دلی کے دور ہی میں انجمن پر نچھاور کر دیے تھے، تاہم کسی نہ کسی طرح حیدر آباد دکن سے اس کی سالانہ امداد مل گئی تھی اور بیس ہزار روپیہ حکومت پاکستان نے یک مشت، پچیس ہزار روپیہ سالانہ کراچی میونسپل کارپوریشن نے دینے کا وعدہ کیا۔ 1951 میں جب ممتاز حسین قزلباش ریاست خیر پور کے وزیر اعلیٰ اور مسٹر حسن حبیب سیکرٹری ریاست ہوئے تو پانچ ہزار کا عطیہ اور دو ہزار چار سو روپیہ سالانہ ریاست سے موصول ہوا۔ حکومت پنجاب نے 1952-53 کے بجٹ سے 50ہزار روپے انجمن کو عطا کئے۔ اس طرح انجمن ترقی اردو کی تجدید عمل میں آئی۔
1948 میں مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن کا نیا دستور مرتب کیا اور انجمن کی باقاعدہ رجسٹری کروائی پاکستان کے معرض وجود میں آنے اور انجمن ترقی اردو کی پاکستان تنظیم نو پر سر شیخ عبدالقادر صاحب کو انجمن کا صدر مقرر کیا گیا اور مولوی عبدالحق بد ستور معتمد رہے۔
1948 میں جب انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی رسم افتتاح کے لئے بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو مدعو کرنے کی تجویز ہوئی ۔ان سے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے بخوشی 15اپریل 1948کے بعد کسی بھی دن آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔لیکن اس دوران میں انجمن کے معاملات نبٹانے کے لئے مولوی عبدالحق صاحب کو دلی جانا پڑا پھر قائد اعظم علیل ہو گئے اور آخر 11ستمبر1948 کی شب ان کا انتقال ہو گیا ۔چنانچہ انجمن کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور انجمن نے رسم افتتاح کے بغیر ہی اپنے نئے سفر کا آغاز نئے حوصلے اور عزم سے کیا اس سلسلے میں انہوں نے بیگم حسن قزلباش بانو کو11جون1948 کو کراچی سے تحریر کیا:
” قائد اعظم کے پروگرام ایسے جلدی جلدی بدلے اور وہ کچھ علیل رہے، اس وجہ سے وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے کوئٹہ جاتے وقت خاص طور سے بڑی معذرت کی اور کہا کسی اور سے افتتاح کرا لیجئے، میں کسی اور موقع پر انجمن آ جاو ¿ں گا۔ اب ہم نے بغیررسم افتتاح کے کام شروع کر دیا۔“
بند رسالے دوسری مرتبہ جاری کئے گئے سب سے پہلے مئی 1948 سے انجمن ترقی اردو کا ترجمان ’ قومی زبان‘ شائع ہونا شروع ہوا1949 سے محمد سبزواری کی زیر ادارت رسالہ ’ معاشیات‘ جاری ہوا لیکن1954 میں ان کے امریکہ چلے جانے کے بعد1955سے یہ رسالہ بند ہو گیا سہ ماہی ’ اردو‘ کا جنوری1950’ سائنس“ اور ” تاریخ و سیاست‘ کا1951 میں اجراءہوا انجمن نے اپنی مطبوعات کا سلسلہ از سر نو شائع کیا۔ انجمن کی شاخیں کھل گئیں اور کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔
مولوی عبدالحق صاحب کی کاوشوں سے کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں جہاں لوگ روپے کی ریل پیل کے پیچھے سرگرداں رہتے ہیں، دس ہزار کتابوں کے ذخیرے سے لائبریری کی بنیاد رکھی۔ اس میں ایک خاص کتب خانہ ترتیب دیا گیا جس میں مخطوطات اور علم و فن کی نایاب کتابیں رکھی گئیں۔ یہ کتب خانہ آج کراچی کے بڑے اور اہم کتب خانوں میں صف اول میں شمار ہوتا ہے۔ اس کتب خانے کے افتتاح کے لئے پاکستان کی پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو مدعو کیا گیا۔ انہوں نے متحدہ ہند میں عبوری وزارتوں کے زمانے میں انجمن کے لئے چار لاکھ یک مشت اور چالیس ہزار سالانہ کی رقم منظور کی تھی۔ توقع تھی کہ اب جب وہ اس زمانے سے زیادہ با اختیار ہیں، انجمن کی دست گیری زیادہ اہم طریقے سے کریں گے۔ لیکن ان کی تقریر اور رویہ سے مولوی عبدالحق کو بہت دکھ ہوا جس کا ذکر انہوں نے ایک اپنے مکتوب محررہ 5اکتوبر1949 بنام ڈاکٹر داو ¿د رہبر(ڈاکٹر محمد اقبال پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کے صاحبزادے) سے اس طرح کیا ہے:
” ہم نے ایک عام اردو کتب خانہ بھی قائم کر دیا، جس میں اب تک دس ہزار کتابیں فراہم ہو چکی ہیں۔ اس کے افتتاح کے لئے وزیر لیاقت علی خان صاحب کو تکلیف دی۔ بڑی شان سے جلسہ کیا ایک ایڈریس کالج کی طرف سے اور دوسرا انجمن کی طرف سے پیش کیا گیا، لیکن وزیر اعظم نے تحسین و تعریف تو ایک طرف ایک لفظ بھی ہمت افزائی کا نہ کہا اور امداد کی درخواست کا جواب انکار سے دیا۔ انجمن کے بہی خواہوں کو اس جواب سے بڑی مایوسی ہوئی۔ مرکز کا محکمہ تعلیم ہمارے کاموں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ وہ حسد کرتا ہے خود کچھ نہیں کرتا، دوسرے کرتے ہیں تو انہیں کرنے نہیں دیتا۔“
مولوی عبدالحق صاحب نے دکن کے قیام کے دوران اکبر حیدری کو جامعہ عثمانیہ کا منصوبہ پیش کیا تھا اور دلی میں اتنی مصروف ترین مجاہدانہ زندگی میں بھی اردو کالج قائم کرنا اپنے مشن میں شامل کیا تھا۔ اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان میں مولوی عبدالحق صاحب اپنے اس مشن سے دستبردار ہو جاتے۔ ان کی خواہش تو کراچی میں اردو کی بین الاقوامی جامعہ قائم کرنا تھی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس مشن کے آغاز کے لئے 23جون 1949 کو ایک نہایت سادہ لیکن پر وقار تقریب میں ’ انجمن ترقی اردو کالج‘ کی بنیاد رکھی جس میں ابتدا میں صرف علوم شرقیہ کی تعلیم دی جاتی تھی اس کے طلبا بطور پرائیویٹ امیدوار جامعہ پنجاب کے امیدوار بنتے تھے۔ اس کالج کا پہلا پرنسپل پروفیسر مولوی عبدالغنی کو مقرر کیا گیا اور اس کالج میں25جون1949 سے باقاعدہ تعلیم دی جانے لگی۔ سندھ یونیورسٹی کو اس کالج کے الحاق کی درخواست دی گئی لیکن11جولائی 1949 کو سندھ یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ پنجاب یونیورسٹی کو یہ عذر تھا کہ یہ اس کی حدود و قیود سے باہر ہے۔ یہ تمام صورتحال مولوی عبدالحق کے لئے غیر متوقع تھی، اس لئے اس سے انہیں بڑی الجھن اور ذہنی پریشانی ہوئی۔ انہوں نے اس بات کا اظہار اپنے مکتوب 15 اکتوبر 1949 بنام ڈاکٹر محمد داو ¿د رہبر سے اس انداز میں کیا ہے:
” پہلے ہی پریشانیاں کیا کم تھیں۔ یہ کالج قائم کر کے میں نے بیٹھے بٹھائے ایک پریشانی اور مول لے لی۔ کوئی یونیورسٹی اس کے الحاق کے لئے آمادہ نہیں۔ سندھ یونیورسٹی نے انکار کر دیا۔ پنجاب یونیورسٹی کی حدود ارضی سے باہر ہے۔ اب میں اس سوچ میں ہوں کہ کروں تو کیا کروں، اب بند کرتا ہوں تو بدنامی الگ اور بیچارے لڑکوں کی اتنے دنوں کی محنت اور روپیہ رائیگاں جائے گا۔ انجمن نے باوجود بے سر و سامانی جو ہزاروں کا خرچ برداشت کیا، وہ بھی ضائع ہوجائے گا ۔ہم ہندوستان سے لٹ پٹ کر برباد ہو کر آئے تھے۔ توقع تھی کہ اب پاکستان ہمارے آنسو پونچھے گا اور ہماری ہمت افزائی کرے گا، لیکن اب جو دیکھتا ہوں تو یہاں کا رنگ ہی کچھ اور ہے۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے، کہاں تک لکھوں بڑی طولائی داستان ہے۔“
قریب تھا کہ مولوی عبدالحق صاحب کا یہ سارا منصوبہ تلپٹ ہو جائے، 1950 میں بمشکل اس زمانے کے وزیر خزانہ مسٹر غلام محمد اور وزیر تعلیم فضل الرحمن کی مدد سے سندھ یونیورسٹی نے کالج کا الحاق منظور کر لیا۔ کالج میں ایف اے ایف ایس سی اور آئی کام سے لے کر پی ایچ ڈی تک نہ صرف تدریس ہونے لگی، بلکہ اس نے تمام قدیم کالجوں کے مقابلے میں بھی بہتر سے بہتر نتائج حاصل کئے۔
انجمن ترقی اردو پاکستان کا پہلا صدر سر شیخ عبدالقادر صاحب کو منتخب کیا گیا تھا، ان کا انتقال ہو گیا اور 1950میں انجمن ترقی اردو پاکستان کی مجلس نظم نے مولوی عبدالحق کو اس کا صدر منتخب کیا۔
انجمن ترقی اردو نے اپنے دلی کے دور میں1939 میں بڑی سج دھج اور جوش و ولولے سے کل ہند کانفرنس منعقد کی تھی، جس کی یاد برسوں تک دلوں کو گرماتی رہی۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب انجمن کے آشیانے میں تنکے جمع ہونے لگے تو مولوی عبدالحق صاحب نے ایک بار پھر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ دلی کے دور میں کانفرنس ہندی اور اردو کے تنازع کے پس منظر میں منعقد ہوئی تھی اور اب پاکستان میں’ قوم زبان‘ کا مسئلہ چھڑا ہوا تھا۔ یہ کانفرنس 13 اپریل 1951کو سردار عبدالرب نشتر کی صدارت میں منعقد ہوئی اور اس کا افتتاح پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین صاحب نے کیا۔ انہوں نے اپنے خطبے میں مشرقی پاکستان میں اردو کی ترویج کے لئے تجاویز پیش کیں۔
گو جون1948 میں جامعہ کراچی قائم کر دی گئی اور پروفیسر اے بی اے حلیم کو اس کا وائس چانسلر نامزد کیا گیا، لیکن1953 جامعہ کراچی کا شعبہ پروفیسر شپ سے محروم تھا جس کے نتیجے میں ان طلبا کو جو ایم اے کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کے خواہشمند ہوتے تھے، مایوس ہونا پڑتا تھا۔ پروفیسر اے بی حلیم، مولوی عبدالحق صاحب کو اس منصب پر فائز کرنا چاہتے تھے لیکن مولوی عبدالحق کسی طرح رضا مند نہ ہوتے تھے لیکن چند طالب علموں کی طلب علم نے مولوی صاحب کو رضا مند کر کے سکھ کا سانس لیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ابو سعید نور الدین تحریر کرتے ہیں:
” وہ 1952 میں اقبال اکیڈمی میں ریسرچ فیلو تھے اور پی ایچ ڈی کرنے کے خواہشمند، جب وہ اس ضمن میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اے بی اے حلیم سے ملے تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب کو کراچی یونیورسٹی کا اعزازی پروفیسر اور نگران بننے پر راضی کر لیں تو وہ پی ایچ ڈی کی اجازت دے سکتے ہیں۔ انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کی منت سماجت کی اور مولوی صاحب راضی ہو گئے۔۔۔ اس کے بعد یونیورسٹی کی طرف سے باقاعدہ کارروائی ہوئی اور مولوی صاحب کو اردو کا اعزازی پروفیسر مقرر کر دیا گیا۔ اس عہدے پر وہ ڈیڑھ سال تک فائز رہے۔ اس عرصے میں وہ میرے علاوہ پی ایچ ڈی کے کئی اور طالب علم ان کی نگرانی میں کام کرتے رہے۔۔۔ وہ اس عہدے سے غالباً 1953کے آخر میں سبکدوش ہو گئے۔“
اس قسم کی روایت ابن انشاءصاحب نے بھی بیان کی ہے وہ لکھتے ہیں:
” کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کی جو پہلی کھیپ نکلی۔ اس میں ہم بھی تھے۔ ہر نئے ایم اے کے دل میں تحقیق اور پی ایچ ڈی کرنے کا سودا ہوتا ہے۔۔۔۔ اس وقت تک اردو کا پروفیسر یا صدر شعبہ کوئی مقرر نہ ہوا تھا۔ وائس چانسلر صاحب نے کہا: تمہارا داخلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اگر مولوی عبدالحق صاحب کو راضی کر لو کہ وہ اعزازی صدر شعبہ ہونا قبول کر لیں تو چشم ما روشن دل ما شاد ہم مولوی صاحب کے پاس گئے، بولے بھائی انکار کر چکا ہوں لیکن تمہارے داخلے کی یہی شرط ہے تو لاو ¿ قلم دوات، منظور کر لیتا ہوں۔ چنانچہ یونیورسٹی کو مولوی صاحب مل گئے اور ہمیں داخلہ۔“
پاکستان منتقل ہونے کے بعد مولوی صاحب کا ایک بڑا مشن اردو کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کا درجہ دلانا تھا۔ بد قسمتی سے قومی اور سرکاری زبان جو خالصتاً ایک لسانی اور ثقافتی مسئلہ تھا، سیاسی گتھیوں میں الجھاکر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملک میں اچھی خاصی ہنگامہ آرائی رہی۔ پاکستان کے معرض وجود میںآتے ہی مشرقی پاکستان کے نوجوانوں کے ایک طبقے نے بنگلہ زبان کو اس لئے قومی زبان بنانے کے لئے تحریک چلائی کہ آبادی کے اوسط کے لحاظ سے یہ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان تھی لیکن بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے اس شورش کے اثرات کو بھانپ لیا۔ ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں:
” انہوں نے اپنی زندگی کو لسانی وحدت اور استحکام کی بازی پر لگا دیا۔ ایک پرانے (ڈیکوٹہ) جہاز میں ڈھاکہ پہنچے اور ان سر پھرے طلبا کو جنہوں نے دشمنان پاکستان کے کہنے میں آ کر اس قسم کا سوال اٹھایا تھا، سمجھایا کہ اگر تم پاکستان کو قائم رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ پاکستان کی زبان صرف اور صرف اردو ہو سکتی ہے کوئی اور زبان نہیں ہو سکتی۔“
لیکن سیاستدان اور بیورو کریسی اس مسئلے کو الجھاتی چلی گئی، یہاں تک کہ محمد علی بوگرہ کے عہد وزارت میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک ایسا بل منظور کرنے کی تیاریاں ہوئیں جس میں قائد اعظم کی خواہش اور مولوی عبدالحق کی تمنا کے خلاف اردو کو نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ جب مولوی عبدالحق صاحب کو اس امر کی اطلاع ملی تو بپھرے ہوئے شیر کی طرح (1954ئ) اسمبلی ہال میں پہنچ گئے۔ شاہد احمد دہلوی صاحب بیان فرماتے ہیں:
” مولوی عبدالحق صاحب کی للکار پر لاکھوں فدائی ان کے گرد جمع ہو گئے اور جس دن اسمبلی کے اجلاس میں بوگرہ کی تجویز پیش ہونے والی تھی، مولوی صاحب اس ضعیفی اور کمزوری کے عالم میں انجمن کے دفتر سے پیدل روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ لاکھوں کا مجمع تھا ۔اسمبلی پہنچے تو مولوی صاحب اور ان کے ساتھ اتنا مجمع دیکھ کر سب سٹپٹائے، پولیس کے دستے لاٹھیاں لئے کھڑے تھے، اشک آور گیس کا بھی انتظام تھا اور گولی چلانے والے دستوں کا بھی، مجمع اس قدر مشتعل تھا کہ اگر پولیس ذرا بھی حرکت میں آتی تو غدر مچ جاتا اور یہ آگ کراچی سے پھیل کر سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔“
مجبوراً حکومت کو اسمبلی کا یہ اجلاس بغیر کسی قرار داد کے ملتوی کرنا پڑا اور حکمران بڑی عیاری سے یہ سارا معاملہ گول کر گئے جس کے نتیجے میں اردو کو قومی زبان کے ناطے سرکاری زبان کا وہ وقار حاصل نہ ہو سکا، جو پاکستان کے معرض وجود میں آ جانے کے فوراً بعد ہی مل جانا چاہئے تھا۔
مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے لئے نہ صرف عوامی تحریک چلائی اور گلی کوچوں میں نکل آئے، بلکہ قومی زبان کا درجہ دلانے کے لئے ایسے ٹھوس کام بھی کئے جس سے اردو زیادہ سے زیادہ اہم زبان بن سکے۔
اردو میں اصطلاحات کی ایسی کوئی لغت نہ تھی جو دفتری اور عدالتی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اس ضمن میں ضرورت مند ادارے اور دفاتر جب کسی اصطلاحی مشکل کا شکار ہوتے تھے، تو وہ مولوی عبدالحق صاحب سے رجوع کرتے تھے ۔اس لئے مولوی عبدالحق صاحب نے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہئے جو اس دفتری اصطلاحات کے خواہش مند اداروں، دفتر اور شعبوں کی رہنمائی کر سکے، چنانچہ حکومت نے مولوی عبدالحق صاحب ہی کے زیر صدارت ایجوکیشن ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا ۔اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مکتوب بنام مولانا عبدالماجد دریا بادی محررہ25 جون1950 میں تحریر کیا:
” میں نے حکومت سے کچھ رقم طلب کی ہے، تاکہ تمام دفتری اور عدالتی الفاظ و اصطلاحات کی ڈکشنری تیار کروں۔ علمی اصطلاحات جو اس وقت تک بن چکی ہیں، وہ سب جمع کر رہا ہے۔ انجمن اور کالج کا کام اس سے الگ ہے۔“
’ قاموس ادب‘ مولوی صاحب کے منصوبوں میں عرصے سے شامل تھی لیکن ہجوم کار مولوی صاحب کو اس عظیم منصوبہ کی تکمیل کا موقع فراہم نہیں کر رہا تھا۔ بہ مشکل تمام1955 میں وہ اس کا آغاز کر سکے۔
1953 میں مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن ترقی اردو کی گولڈن جوبلی منعقد کی، جس کے اجلاس 8مئی1953 تا 12مئی1953 جاری رہے۔ اس میں برصغیر کے دونوں ممالک کے نمائندے شامل تھے ۔اس موقع پر سب سے یادگار کام’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘ کی ترتیب و تدوین تھا ،جسے سید ہاشمی فرید آبادی نے انجام دیا تھا لیکن1947 کی المناک تباہی کا حال و تذکرہ مولوی عبدالحق صاحب نے خود تحریر کیا تھا۔
پاکستان ہجرت کرنے سے قبل مولوی صاحب کا وظیفہ خدمت جو انہیں سرکار عثمانیہ سے ملتا تھا، وہ نہ صرف ان کی، بلکہ آئے گئے کی کفالت کے کام آتا تھا۔ لیکن پاکستان آنے کے ایک سال بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ذاتی اثاثہ یہاں تک کہ تن کے کپڑے تک 1947 کی لوٹ مار کی نذر ہو گئے، جس کے نتیجے میں ان پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے انہیں رائے دی کہ وہ انجمن سے کچھ مدد لیں لیکن مولوی عبدالحق صاحب جنہوں نے ساری عمر، اپنا تن من اور دھن نچھاور کیا تھا، ان کی غیرت یہ کیسے گوارا کر سکتی تھی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے 30 جنوری1951 کے اپنے مکتوب میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کی تجویز رد کرتے ہوئے کہا:
” تم کہتے ہو میں اب کچھ انجمن سے لے لوں یہ نا ممکن ہے۔ مجھے فاقے کرنے منظور ہیں مگر انجمن سے کچھ لینا ہر گز منظور نہیں۔“
اس زمانے میں انجمن ترقی اردو کی مالی حیثیت بھی بہت کمزور ہو چکی تھی۔ انجمن کی امداد بند تھی۔ ادھر اردو کالج کھلنے سے اخراجات کا مزید بوجھ بڑھ گیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب کی فیاضی کی حد تو یہ تھی کہ انہیں جو پنشن بھی ملتی تھی وہ بھی انجمن کو عطیہ کر دیتے تھے۔ 1951 کے آخر میں انہیں کچھ رکے ہوئے پیسے ملے تو وہ بھی انجمن کو دے دئے۔ مولوی عبدالحق صاحب خود اس موضوع پر تحریر کرتے ہیں:
” حکومت نے جو پنشن میرے لئے اپنی فیاضی اور قدر دانی سے عطا فرمائی تھی، وہ میں نے انجمن کو منتقل کر دی ہے۔ انجمن رکھنا سب سے مقدم ہے۔ میں یا مجھ جیسے دوسرے افراد رہیں یا نہ رہیں، انجمن کا رہنا لازم ہے۔ میں نے حقہ، چائے وغیرہ ترک کر دئیے ہیں اور اپنی ضرورتیں بہت کم کر دی ہیں۔ کھانے کے لئے میں نے تریسٹھ روپے ماہانہ رکھے ہوئے ہیں۔ چند روپے دھوبی حجام کے سمجھ لیجئے ۔کپڑوں کی ضرورت ہے نہ جوتوں کی، البتہ دو تین طالب علموں کو مدد دیتا ہوں، وہ کچھ مدت دیتا رہوں گا۔“
انجمن کی مالی حالت اس حد تک گر گئی کہ انجمن کے ملازمین کی تنخواہیں اور دفتر کے اخراجات بھی چلنا مشکل ہو گئے اور پیسے آنے کی کوئی سبیل نہ تھی، یہاں تک کہ انجمن کے تین رسالے (سائنس، معاشیات اور تاریخ سیاست) بھی تعطل کا شکار ہو کر بند ہو گئے اور انجمن کم و بیش چالیس ہزار روپے کی مقروض ہو گئی۔ مجبوراً20 فروری1951 کو مولوی عبدالحق صاحب نے ملازمین کو سبکدوش کرنے کے نوٹس جاری کر دئیے۔ جیسے ہی یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی، تہلکہ مچ گیا اور حکومت نے فوری طور پر پندرہ ہزار روپے کی قلیل رقم کی امداد کا اعلان کیا۔ ادھر یہ انجمن کا بحرانی دور تھا، ادھر مولوی عبدالحق صاحب اور انجمن ترقی اردو کی مجلس ناظمین کے درمیان پہلے غلط فہمیاں اور پھر اختلافات پیدا ہونے لگے جس کے نتیجے میں انجمن ترقی اردو انتشار کا شکار ہو گئی۔
” اب وہ دور ابتلا آیا کہ انجمن کے کارکن جن سے مولوی عبدالحق کو توقعات تھیں، سازشیں کرنے لگے اور تخریبی کارروائیاں ہونے لگیں ۔مولوی صاحب کا کتب خانہ سر بمہر کر دیا گیا اور ان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ غرض ایسی اذیت پہنچائی کہ شرافت کو شرم آنے لگی۔“
مولوی عبدالحق صاحب کے لئے یہ دور بڑی اذیت کا دور تھا۔ مولوی عبدالحق نے اپنی ساری زندگی انجمن کے لئے داو ¿ پر لگا رکھی تھی اور اب وہی انجمن جسے مولوی عبدالحق صاحب نے پالا، پوسا، جوان کیا، ایک ایسے موڑ پر لے آئی تھی جہاں مولوی عبدالحق صاحب انجمن کو خیر باد کہنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کو 15جون1951 کو تحریر کیا:
” میں اب انجمن سے بھی الگ ہونا چاہتا ہوں۔ کالج اور انجمن کے کاموں میں الجھنیں پیدا ہونے لگی ہیں جس سے تضیع اوقات کے علاوہ طرح طرح کی فکریں دامن گیر ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ انجمن کے سالانہ جلسے میں (جولائی میں کرنا چاہتا ہوں) انجمن کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاو ¿ں گا۔۔۔۔۔ اور دنیا سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا۔“
اس سارے پس منظر پر تفصیلی روشنی شمیم احمد صاحب نے اپنے مضمون’ شیخ عبدالخالق عبدالرزاق‘ میں ڈالی ہے۔ شیخ رزاق مجلس ناظمین کے سر گرم رکن، انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کے خازن اور اس تحقیقی کمیٹی کے رکن تھے جو مولوی عبدالحق اور ان کے حریف گروپ کے معاملات کی تحقیق کرنے کے لئے قائم ہوئی تھی، ان کا کہنا ہے:
” ایک زمانے میں مولوی صاحب بہت علیل رہتے تھے، اس وقت ایک صاحب نے ان کی خدمت کی اور اس بنا پر مولوی صاحب ان پر اعتماد کرنے لگے تھے اور یہی صاحب انجمن اور مولوی صاحب کے لئے بے حد خطرناک ثابت ہوئے۔ ابتدا میں تو صورت حال زیاد سنگین نہیں ہوئی تھی لیکن جب انجمن اور پریس کے تمام حسابات معرض خطر میں پڑنے لگے تو بات خطرناک مرحلوں میں داخل ہو گئی۔ مجلس نظما اور مولوی صاحب کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی گئی۔ مجلس معاملات کی گڑ بڑ کی وجہ مذکورہ صاحب کو سمجھتی تھی اور مولوی صاحب اس بات کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔۔۔۔۔ وہ ان صاحب کے خیال کے مطابق اس کی ذمہ داری مجلس کے اراکین پر عائد کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مولوی صاحب انجمن کے سلسلے میں اس وقت تک مطلق العنان ہستی رہے تھے بلکہ خود انجمن تھے۔ وہ مجلس کے اعتراضات کو اپنے معاملات میں دخل اندازی کے مترادف سمجھتے تھے۔ حالات اس قدر نازک ہو گئے کہ ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوئی جس کا ایک ممبر میں بھی تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دونوں فریقوں کے بیانات آئے دونوں ایک دوسرے پر الزام لگا رہے تھے ۔ہم لوگوں نے ایک طریقہ وضع کیا کہ مذکورہ شخص کے بیانات اور عائد کردہ الزامات کی تحقیقات پہلے کی جائے، کیوں کہ مولوی صاحب بھی اس سے متفق تھے، اور پھر صحیح نتیجے پر پہنچنے پر سختی سے ان حالات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ تحقیق شروع ہوئی اور ان صاحب کے الزامات غلط ثابت ہوئے۔ ہم نے یہی رپورٹ مرتب کرکے پیش کر دی۔ مولوی صاحب کو اس سے اتفاق نہ تھا۔ انہیں صدمہ بھی ہوا اور وہ ہم لوگوں سے ناراض بھی ہو گئے، مگر ایسے نہیں کہ تعلقات ختم ہو جائیں، بس ایک غبار دل پر آ گیا۔“
حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہو گئے۔ کتب خانہ سر بمہر کر دیا گیا اور مولوی صاحب تن تنہا عمارت کی آخری منزل پر مقید ہو کر رہ گئے۔ کبھی کبھار کوئی پریسی مولوی عبدالحق صاحب سے ملنے چلا آتا تو مولوی صاحب اپنی روداد غم سناتے۔ مولوی عبدالحق صاحب کی سب سے زیادہ ناراضگی انجمن کے کالج کے پرنسپل مولوی آفتاب حسن اور حکیم احسن اللہ خان سے تھی جس کا اظہار انہوں نے بار بار اپنے مکاتیب میں بھی کیا ہے اور نجی محفلوں میں بھی ذکر چھیڑا ہے۔ محمد طفیل مرحوم مالک ومدیر’ نقوش‘ لاہور، نقوش کا مکاتیب نمبر شائع کرنے کے سلسلے میں مولوی عبدالحق صاحب سے ملے تو انہوں نے فرمایا:
” مولوی آفتاب (اردو کالج کے سابق پرنسپل) نے میرا ناطقہ بند کر رکھا ہے، حتی کہ میری بوڑھی ہڈیوں تک کو پیس ڈالا ہے۔ اب ایسی باتیں یاد نہ دلاو ¿ اور چپکے سے لاہور چلے جاو ¿ اور میری بد بختی کے دن کٹنے کی دعا کرو۔“
اس تمام ہجوم غم نے مولوی عبدالحق صاحب کی صحت بگاڑ کر رکھ دی اور بیماریوں نے سر اٹھانا شروع کیا۔ انہوں نے19 نومبر1957 کو ڈاکٹر عبادت بریلوی کو تحریر کیا:
” میری صحت اچھی نہیں رہی۔ اب پھر خراب ہو گئی ہے۔ کچھ دن ہوئے اسہال شروع ہوئے۔ اب پیچش نے آ گھیرا ہے۔ ادھر انجمن کی حالت بہت خراب اور ناگفتہ بہ ہے اور روز بروز نازک ہوتی جا رہی ہے۔ محمود حسن خان نے جب سے معتمد ہوئے ہیں، اب تک انجمن میں قدم رنجہ نہیں فرمایا۔ سارے اختیارات حکیم احسن (احسن اللہ خان) کو دے رکھے ہیں۔ اس نے اودھم مچا رکھی ہے۔ تغیر، تبدل، تعطل و برطرفی کا بازار گرم ہے۔ مجھے طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی جاتی ہیں۔ اصل کام معطل ہے، یہ بڑی طویل داستان ہے، خط میں سمائی نہیں ہو سکتی۔“
اس قسم کا اظہار انہوں نے 24 فروری1959 میں اسلامیہ کالج لاہور کی ’ بزم فروغ اردو‘ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔آپ نے فرمایا:
” مجھے تیس سال سے بڈھا بڈھا کہتے آ رہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو کبھی بوڑھا نہ ہونے دیا۔ لیکن دو سال کے عرصے میں بعض غداروں اور دون فطرت ساتھیوں نے مجھ پر ایسے ایسے مظالم کئے کہ بڈھا ہو گیا ہوں۔“
انہوں نے انجمن کو تباہ کرنے کی، میرے رفیقوں اور ہمدردوں کو مجھ سے الگ کرنے کی کوشش کی تاکہ مجھے ختم کر دیں لیکن مجھے پھر بھی ختم نہ کر سکے ۔انہوں نے سوچا کہ اس کا کام چھین لیا جائے تو یہ مر جائے گا۔ میں پھر بھی نہ مرا۔ میں اپنی جوانی پھر واپس لاو ¿ں گا۔ میں مرنے کے لئے تیار نہیں ہوں اور اس وقت تک نہیں مروں گا جب تک اردو یونی ورسٹی قائم نہ کر لوں۔
دوست احباب مولوی عبدالحق کو چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔وہ لوگ جنہیں بچوں کی طرح پالا پوسا، ان کی جان کے لاگو تھے اور مولوی عبدالحق صاحب کو محرومی اور احساس تنہائی کا شکار اور اسیر کر دیا تھا۔ نہ اخبار میں مولوی عبدالحق کا کوئی ذکر آتا تھا اور نہ کوئی خبر شائع ہوتی تھی اور وہ گوشہ تنہائی کے ساتھ ساتھ گوشہ گمنامی میں بھی چلے گئے تھے۔ تحسین سروری صاحب کا بیان ہے:
” اب مولوی عبدالحق صاحب کے پاس صرف ابن انشا اور۔۔۔ جایا کرتے تھے۔ میں بھی کبھی کبھی جاتا۔ انجمن کا طباعتی پروگرام اور رسائل تو بند ہو گئے تھے لیکن ’ قومی زبان‘ تھا جو مولوی عبدالحق کی نگرانی میں جاری رہا۔ جب حالات انتہا کو پہنچ گئے اور مولوی صاحب کی کسمپرسی دیکھ کر جی امڈنے لگا تو ابن انشائ سے نہ رہا گیا انہوں نے ’ لیل و نہار‘ میں ایک مضمون لکھا جس میں مولوی صاحب کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے مولوی صاحب کی حالت زار کا نقشہ کھینچ دیا۔ اب کیا تھا، قوم چونکی، اخبارات میں مولوی صاحب کی تائید میں بیانات اور ادارئیے چھپنے لگے۔ اس کے چند ہی ہفتے بعد’ لیل و نہار‘ نے ایک پورا’ عبدالحق نمبر“نکال دیا جس کے سر ورق پر مولوی صاحب کی نہایت دیدہ زیب سہ رنگی تصویر چھپی۔“
عبدالرو ¿ف عروج ’ نیا راہی‘ میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے بھی ایک ’عبدالحق نمبر‘ نکال دیا۔ مولوی عبدالحق کا مخالف گروپ یہ پروپیگنڈہ بھی کر رہا تھا کہ بابائے اردو اصل میں اردو اور انجمن ترقی اردو کے حق میں نہایت غیر مخلص ہیں ۔یہ عجیب بے عقلی کی بات تھی۔
عملی طور سے انجمن ترقی اردو اور اردو کالج سے مولوی عبدالحق صاحب کا اخراج ہو چکا تھا، کتب خانہ بند تھا اور انجمن کی ترقی معکوس شروع ہو چکی تھی کہ 18 اکتوبر1958کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بر سر اقتدار آ گئے اور ملک میں مارشل لاکا نفاذ ہو گیا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے مارشل لا کی حکومت اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان سے انجمن کے معاملات میں مداخلت کی درخواست کی۔ قدرت اللہ شہاب کے ذریعے مولوی عبدالحق صاحب کی ایوب خان صاحب سے ملاقات کا اہتمام اور انتظام ہو گیا:
” انقلاب کے بعد ایک روز بابائے اردو صدر ایوب خان سے ملنے آئے۔ صدر نے انجمن کی داستان مصائب کو غور سے سنا اور ایک دم چپ ہو گئے ۔اس کے بعد مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا: مولوی صاحب تو اردو کے قائد اعظم ہوئے نا؟ انہیں انجمن سے بے دخل کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ پاکستان بن جانے کے بعد قائد اعظم کو دیس نکالا دے کر کسی اور ملک بھیج دیا جائے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مارشل لاریگولیشن تیار ہو گیا اور انجمن کا بابا از سر نو انجمن میں آ گیا۔“
سر بمہر کتب خانہ کھل گیا۔ کتابوں کی گرد صاف ہوئی۔ کتب خانے سے مرے ہوئے پرندے اور بلیاں پھینکی گئیں اور مارشل لا ضابطہ 21 کے تحت انجمن اور اس کے ملحقہ مجلس ناظمین توڑ دی گئی۔ حلقہ الف مارشل لاکی نگرانی میں انجمن کی نئی مجلس ناظمین مولوی عبدالحق کی قیادت اور راہنمائی میں تشکیل دی گئی۔ کالج کی بازیابی ہوئی اور مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن اور اردو کالج کے کام کا نئے عزم سے آغاز کیا ۔ایک جامع لغت کے لئے ’ ترقی اردو بورڈ‘ کا قیام عمل میں آیا جس کا صدر مولوی عبدالحق صاحب کو مقرر کیا گیا۔
1959میں مولوی عبدالحق صاحب کو ان کی اعلیٰ خدمات کے صلے میں نشان قائد اعظم سے سرفراز کیا گیا اور دس ہزار روپیہ نقد انعام دیا گیا۔ لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اس موقع پر اپنی روایت کو نہ توڑا اور انعام کی یہ رقم اپنی ذات پر صرف کرنے کی بجائے فوری طور پر اردو یونیورسٹی کے نام منتقل کر دی تاکہ انجمن کی تحریک کو سنبھالا جا سکے۔ اس موقع پر ان کے بہی خواہوں اور دوستوں نے انہیں تہنیت کے پیغامات روانہ کئے لیکن مولوی عبدالحق صاحب ایسی بھٹی سے نکلے تھے کہ خوشی و مسرت ان کے لئے بے معنی چیز ہو کر رہ گئی تھی۔ اس سال مولوی عبدالحق صاحب کو ’ آدم جی پرائز کمیٹی‘ کا صدر نامزد کیا گیا۔مولوی عبدالحق عزم کا پیکر تھے۔لیکن اب وہ زندگی کے تیز و تند 90سال دیکھ چکے تھے اور انجمن کے المناک معاملات اور احباب کی چشم پوشیوں نے مولوی عبدالحق کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ اس لئے مولوی عبدالحق صاحب آئے دن بیمار رہنے لگے۔ مجبوراً انہوں نے ’ ترقی اردو بورڈ‘ سے استعفیٰ دے دیا۔
مولوی صاحب کا عمر بھر یہ وطیرہ رہا تھا کہ جو کچھ اور جہاں کہیں سے انہیں ملتا یا وہ کماتے انجمن کی نذر کر دیتے۔ اس لئے اس آخری دور میں مولوی عبدالحق کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ وہ ڈھنگ سے اپنا علاج بھی کروا سکیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں یکم جون 1961کو محمد علی صاحب کے نام اپنے ایک مکتوب میں (جو غالباً ان کی زندگی کا آخری مکتوب ہے) تحریر کیا:
” میں پچھلے دو تین مہینے سے پیچش اور یرقان میں مبتلا ہو گیا تھا۔ گھر پر بہتیرا علاج معالجہ کیا لیکن حالت روز بروز بگڑتی ہی چلی گئی۔ 5مئی 1961 کو یہاں کے مشہور ہسپتال (جناح ہسپتال) میں داخل ہو گیا اور اب تک یہیں ہوں۔۔۔ یہاں کے مصارف بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے اب مجھے روپوں کی ضرورت پڑ گئی ہے۔“
جناح ہسپتال کراچی میں کچھ فائدہ بھی ہوا لیکن بد قسمتی سے ان دنوں کراچی میں شدید گرمی کی لہر آئی جس سے مولوی صاحب کا مرض پھر شدت پکڑ گیا۔ دن رات حکیم اسرار کریوی اور اعظم سواتی خدمت کرتے رہے لیکن مرض میں کمی نہ آئی۔ جب مولوی عبدالحق صاحب کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو فیلڈ مارشل ایوب خان صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے نام ایک تار میں انہیں مری آنے کی پیشکش کی جہاں ان کا کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں صدر کے ذاتی معالج بریگیڈیر سرور کی نگرانی میں علاج کروانے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
مولوی صاحب نے جنرل ایوب خان کی اس پیشکش کو قبول کر لیا اور 23جون 1961 کو تیز گام سے پنڈی روانہ ہو گئے۔ 24جون ہی کو انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا جہاں مختلف معائنوں کے بعد پیچش اور یرقان کی شکایت تجویز ہوئی، لیکن دو ماہ کے مسلسل معائنوں کے بعد معلوم ہوا کہ مولوی عبدالحق صاحب کو جگر کا سرطان ہے۔
حکیم اسرار کریوی مولوی عبدالحق صاحب کے بہی خواہوں کو ان کی کیفیت سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے 7 جولائی 1961کو سید ساجد کو یہ مایوس کن اطلاع دی:
” دو ماہ سے ان کے ساتھ ہوں اور حالات کے گہرے مطالعے اور مشاہدے سے جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں تک ظاہر حالات و کیفیات کا تعلق ہے ۔مولوی صاحب قبلہ کی جاں بری کے امکانات، خاکم بدہن ختم ہو چکے ہیں ۔ان کے معالجوں کا بھی کم و بیش یہی خیال ہے ۔دوائیں جاری ہیں اور قسم قسم کی، لیکن شاید دواو ¿ں کا وقت ختم ہو چکا ہے اور صرف مخلص عقیدت مندوں کی دعائیں ہی کچھ کر سکتی ہیں۔“
مولوی عبدالحق صاحب کی طبیعت نہ سنبھل سکی، چنانچہ مولوی صاحب کو دوبارہ کراچی میں پاکستان نیول ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ ڈاکٹر شوکت علی کے زیر علاج رہے۔
15اگست1961 کو ان کی طبیعت ا چانک بگڑ گئی اور16اگست1961 کو صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
کمشنر کراچی جے اے مدنی خود ہسپتال گئے تدفین کا انتظام کیا گیا۔ ان کے خدمت گار اعظم سواتی نے غسل دیا۔ میونسپل کارپوریشن گراو ¿نڈ میں مولانا احتشام الحق تھانوی نے نما جنازہ پڑھائی اور14 ربیع الاول 1338 بمطابق 16اگست 1961 چھ بجے شام ان کی خواہش کے مطابق انجمن ترقی اردو کے صحن اور اس عمارت کے عقب میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ڈاکٹر سید معراج نیئر
٭٭٭٭٭
حواشی
1’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’ قومی زبان‘‘ کراچی15اگست1961ء ص72
2’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962 ص20
3’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1961ء ص72
4صوفی عبدالرشید از شمیم احمد ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1963ء ص226
5صوفی عبدالحق (سوانحی خاکہ) از غیور عالم۔۔۔’’ قومی زبان‘‘ کراچی1967ء ص 103-102
6’’ بابائے اردو بمبئی سے بلدیہ کراچی تک‘‘ از فضل احمد صدیقی ’’ قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر)ص64
7’’ بابائے اردو کے بڑے بھائی‘‘ از سراج احمد عثمانی’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1961ء ص 180-181
8ایضاً۔۔۔۔۔ص187
9’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ء ص23
10’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست تا دسمبر1961 ص123
11’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ از ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور دسمبر1973 ص17
12 ایضاً
13’’ اردو کے دوسرے درویش کی کہانی’’ از شاہد عشقی ایم اے ‘‘ ماہنامہ ’’ الشجاع‘‘ کراچی‘‘
ڈاکٹر عبدالحق نمبر اگست1959ص:31
14’’ ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن سنگ میل پبلی کیشنز لاہور1985ء ص 35
15’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص20
16ایضاً
17’’ ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور1985ء ص 22
18مولوی عبدالحق صاحب نے اسلحہ کے حصول کے لئے جو فارم بھرا اس میں اپنے والد صاحب کا نام علی حسن تحریر کیا
19’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص20
20ایضاً
21’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین قومی زبان کراچی15اگست1961ء ص72
22’’ چراغ انجمن افروز‘‘ از نصر اللہ خاں’’ قومی زبان‘‘ کراچی1961ء ص 92
23’’ اردو کا معمار اعظم۔۔۔۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق‘‘ از اقبال خان یوسفی
’’ برگ گل‘‘ عبدالحق نمبر1963ء ص321
24’’ اردو کا معمار اعظم‘‘ از حکیم اسرار احمد سہ ماہی’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن1960ء ص 58
25’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور1973ء ص 17
26’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی 1962ء ص22
27غیر مطبوعہ خط بنام شیخ اکرام ربانی مرسلہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق 17فروری1953
28’’ بابائے اردو احوال و افکار‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن ص171
29’’ یادوں کے چراغ‘‘ از ڈاکٹر مولوی عبدالحق قومی زبان اگست1960ئ ص 5
30ایضاً ص7
31ایضاً
32ذکر عبدالحق از ڈاکٹر سید معین الرحمن ص32
33’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب ص 24
34’’ بزم سر سید کی آخری شمع‘‘ از افضل صدیقی کراچی، ’’ قومی زبان‘‘ 15 اگست1961 ص123
35’’ اردو کے دوسرے درویش کی کہانی‘‘ از شاہد عشقی ایم اے ’’ الشجاع‘‘ کراچی ص31
36’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن، لاہور، مجلس ترقی ادب 1973ء ص 18
37’’ ذکر عبدالحق‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور1975ئ ص42
38’’ اردو کا معمار اعظم‘‘ از حکیم اسرار احمد، حیدر آباد دکن، سہ ماہی’’ مجلس‘‘ 1960 ص 58
39’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات اور علمی خدمات‘‘ شہاب الدین ثاقب، کراچی، انجمن ترقی اردو،1985 ص25
40’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور1973ء ص17
41’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1962ء ص 23
42’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین’’ قومی زبان‘‘ کراچی1961ئ ص78
43’’ ذکر عبدالحق‘‘ سید معین الرحمن لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز1985ئ ص32
44’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن، سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص32
45’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین’’ قومی زبان‘‘ کراچی1961ء ص75-76
46’’ مولوی عبدالحق‘‘ از شاہد احمد دہلوی’’ قومی زبان‘‘ کراچی1964 ص16
47’’ صوفی عبدالرشید‘‘ از شمیم احمد’’ قومی زبان‘‘ اگست1963ئ ص226
48’’ بابائے اردو کی کہانی ان کے معتمد کی زبانی‘‘ ۔۔۔۔۔ از بشیر احمد قریشی ہاپوڑی کراچی ’’ فریڈم انٹر پرائزز‘‘ 1983ئ ص40
49مولوی عبدالحق (سوانحی خاکہ) از غیور عالم ’’ قومی زبان‘‘ کراچی1964ء ص 108
50’’ نواب معشوق یار جنگ سے ایک ملاقات‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1964ئ ص32
51’’ بابائے اردو‘‘ از مولانا عبدالماجد دریا بادی’’ قومی زبان‘‘ کراچی، اگست1961ء ص231
52’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق۔۔۔۔ حیات و علمی خدمات‘‘ شہاب الدین ثاقب انجمن ترقی اردو کراچی1985ئ ص28
53’’ یاد ایام عشرت‘‘ از محمد اعظم سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص49
54’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص13
55’’ بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر1967ء ص 162
56’’ خطبات عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن ترقی اردو کراچی 1964 ص 334
57’’ مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ء ص169
58’’ مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری قومی زبان کراچی 1966ء ص 169
59’’ نقوش‘‘ لاہور آپ بیتی نمبر1964ئ ص53
60’’ بیسویں صدی کا سرسید‘‘ از پروفیسر سید محمد’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن1960ء ص 26
61’’ سلسلہ روز و شب‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ کراچی1968ء ص 91
62’’ مولوی عبدالحق اور تعلیمات‘‘ از محی الدین ’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ئ ص 197
63’’ دکن پر مولوی صاحب کے احسانات‘‘ از محی الدین’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ئ ص70
64’’ حیدر آباد میں مولوی ڈاکٹر عبدالحق کی خدمات پر ایک طائرانہ نظر‘‘ از نصیر الدین ہاشمی ’’ الشجاع‘‘ کراچی عبدالحق نمبر اگست1959 ص51
65’’ مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ء ص 169
66’’ رسالہ افسر اور مولانا حالی ‘‘ از شیخ محمد اشماعیل پانی پتی’’ قومی زبان‘‘ کراچی ستمبر 1968ء ص85
67’’ مولانا ظفر علی خاں احوال و آثار‘‘ از ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی مجلس ترقی ادب لاہور جون1986ء ص:68
68’’ مولوی عبدالحق اور تعلیمات‘‘ از سید ساجد علی سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر1962 ص307
69’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ از: سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص27-28
70’’ بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر1967ئ ص 193
71’’ مجلس‘‘ عبدالحق نمبر حیدر آباد دکن جنوری 1960ء ص222
72’’ دکن پر مولوی صاحب کے احسانات‘‘ از محی الدین احمد’’ قومی زبان‘‘ کراچی 1966ء ص74-73
73’’ عظیم انسان‘‘ از غلام ربانی ’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن1960ء ص17
74’’ قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر1970ء ص71
75’’ ڈاکٹر مولوی عبدالحق‘‘ از پروفیسر ہارون خاں شیروانی’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن جنوری 1960ء ص38
76’’ چند تاثرات‘‘ از محمد احمد سبزواری’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1964ء ص33-32
77’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1970 ص136
78’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب، انجمن ترقی اردو کراچی 1985ء ص35
79پروفیسر محمود احمد خان (انٹرویو ) از ڈاکٹر سید معین الرحمن قومی زبان کراچی (بابائے اردو نمبر)1966ء ص276
80’’ مولوی عبدالحق۔۔۔۔۔۔میرے تاثرات‘‘ از پروفیسر عبدالقادر سروری’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن 1960ء ص55
81ذکر عبدالحق از: ڈاکٹر سید معین الرحمن1985ء ص55
82’’ حیدر آباد میں ڈاکٹر عبدالحق کی خدمات پر طائرانہ نظر‘‘ از نصیر الدین ہاشمی’’ الشجاع‘‘ کراچی ص52
83’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن اردو‘‘ مرتبہ، سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص76
84ایضاً ص106-105
85ایضاً ص40
86ایضاً ص56
87’’ بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر) 1967ء ص160
88ذکر عبدالحق ا ز ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور1985ئ ص60-59
89’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص62
90ایضاً ص63
91ایضاً ص 93
92’’ سید ساجد علی کے نام‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1970ء ص 166-165
93’’ خطبات عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن ترقی اردو کراچی 1964ء ص 525-524
94ایضاً ص522
95’’ اردو کا زخمی سپاہی‘‘ از سجاد مرزا مجلس حیدر آباد دکن 1960ء ص2
96’’ نقوش و تاثرات‘‘ حصہ اول از حکیم امامی انجمن ترقی اردو میسور1958ء ص 196-197
97’’ بیسویں صدی کا سرسید‘‘ از پروفیسر سید محمد’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن جنوری 1960ء
98’’ عبدالحق۔۔۔۔۔۔ ہندوستانی ادب کے معمار‘‘ از مختیار الدین احمد ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی 1984ء ص41
99’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص175
100’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ ترتیب و مقدمہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور1984ء ص41
101’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص179
102ایضاً ص186-185
103ایضاً ص203
104ایضاً ص200
105ایضاً ص204-203
106’’ مکتوب بنام امین زبیری‘‘ قومی زبان کراچی(بابائے اردو نمبر)1967ء ص 144
107’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص227-226
108ایضاً ص227
109ایضاً ص228
110’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ مرتبہ ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور1973ئ ص 44-43
111’’ اردو مصفے‘‘ مرتبہ عبدالحق جوبلی کمیٹی لاہور ناشر ابو تمیم فرید آبادی فروری 1961ء ص254
112’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ئ ص115
113’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953
114ایضاً ص185
115’’ قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر اگست1964ء ص239
116’’ ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن1985ئ ص87
117’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص232
118’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتبہ جلیل قدوائی کراچی، مکتبہ اسلوب 1963ئ ص574
119’’ اردوئے مصفیٰ‘‘ مرتبہ عبدالحق جوبلی کمیٹی لاہور ناشر ابو تمیم فرید آبادی 1961ء ص319
120ایضاً ص320-319
121’’ برگ گل‘‘ بابائے اردو نمبر کراچی اردو کالج 1963ء ص77-76
122’’ مولوی صاحب‘‘ از ابن انشاء قومی زبان کراچی 1971ء ص6
123’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص245
124’’ بزم خوش نفساں‘‘ از شاہد احمد دہلوی مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی کراچی مکتبہ اسلوب 1985ء ص45-44
125’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتب جلیل قدوائی اردو اکیڈمی کراچی 1963ء ص 225
126’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید 1984ء ص92
127ایضاً ص142
128’’ مولوی عبدالحق دید و شنید‘‘ از محمد حسین خاں زبیری’’ قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر)1966ء ص120
129’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ء ص116
130’’ شیخ عبدالخالق عبدالرزاق‘‘ از شمیم احمد’’ قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1966ء ص305
131’’ جناب‘‘ از محمد طفیل ادارہ فروغ اردو لاہور1970ء ص18
132’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از عبادت بریلوی لاہور ادارہ ادب و تنقید 1984ئ ص293
133’’ بابائے اردو اسلامیہ کالج لاہور میں‘‘ از پروفیسر حمید اللہ خاں سہ ماہی ’’ اردو ‘‘ کراچی 1962ء ص36
134’’ شمع انجمن فروزاں‘‘ از تحسین سروری قومی زبان(بابائے اردو نمبر) کراچی 1963ء ص118
135’’ اینٹ کا جواب روپیہ‘‘ از قدرت اللہ شہاب’’ قومی زبان‘‘ کراچی ستمبر1968ء ص14
136’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1970ء ص200
137ایضاً ص176
٭٭٭٭٭٭
بشکریہ
حواشی
1’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’ قومی زبان‘‘ کراچی15اگست1961ء ص72
2’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962 ص20
3’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1961ء ص72
4صوفی عبدالرشید از شمیم احمد ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1963ء ص226
5صوفی عبدالحق (سوانحی خاکہ) از غیور عالم۔۔۔’’ قومی زبان‘‘ کراچی1967ء ص 103-102
6’’ بابائے اردو بمبئی سے بلدیہ کراچی تک‘‘ از فضل احمد صدیقی ’’ قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر)ص64
7’’ بابائے اردو کے بڑے بھائی‘‘ از سراج احمد عثمانی’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1961ء ص 180-181
8ایضاً۔۔۔۔۔ص187
9’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ء ص23
10’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست تا دسمبر1961 ص123
11’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ از ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور دسمبر1973 ص17
12 ایضاً
13’’ اردو کے دوسرے درویش کی کہانی’’ از شاہد عشقی ایم اے ‘‘ ماہنامہ ’’ الشجاع‘‘ کراچی‘‘
ڈاکٹر عبدالحق نمبر اگست1959ص:31
14’’ ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن سنگ میل پبلی کیشنز لاہور1985ء ص 35
15’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص20
16ایضاً
17’’ ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور1985ء ص 22
18مولوی عبدالحق صاحب نے اسلحہ کے حصول کے لئے جو فارم بھرا اس میں اپنے والد صاحب کا نام علی حسن تحریر کیا
19’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص20
20ایضاً
21’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین قومی زبان کراچی15اگست1961ء ص72
22’’ چراغ انجمن افروز‘‘ از نصر اللہ خاں’’ قومی زبان‘‘ کراچی1961ء ص 92
23’’ اردو کا معمار اعظم۔۔۔۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق‘‘ از اقبال خان یوسفی
’’ برگ گل‘‘ عبدالحق نمبر1963ء ص321
24’’ اردو کا معمار اعظم‘‘ از حکیم اسرار احمد سہ ماہی’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن1960ء ص 58
25’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور1973ء ص 17
26’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی 1962ء ص22
27غیر مطبوعہ خط بنام شیخ اکرام ربانی مرسلہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق 17فروری1953
28’’ بابائے اردو احوال و افکار‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن ص171
29’’ یادوں کے چراغ‘‘ از ڈاکٹر مولوی عبدالحق قومی زبان اگست1960ئ ص 5
30ایضاً ص7
31ایضاً
32ذکر عبدالحق از ڈاکٹر سید معین الرحمن ص32
33’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب ص 24
34’’ بزم سر سید کی آخری شمع‘‘ از افضل صدیقی کراچی، ’’ قومی زبان‘‘ 15 اگست1961 ص123
35’’ اردو کے دوسرے درویش کی کہانی‘‘ از شاہد عشقی ایم اے ’’ الشجاع‘‘ کراچی ص31
36’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن، لاہور، مجلس ترقی ادب 1973ء ص 18
37’’ ذکر عبدالحق‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور1975ئ ص42
38’’ اردو کا معمار اعظم‘‘ از حکیم اسرار احمد، حیدر آباد دکن، سہ ماہی’’ مجلس‘‘ 1960 ص 58
39’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات اور علمی خدمات‘‘ شہاب الدین ثاقب، کراچی، انجمن ترقی اردو،1985 ص25
40’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور1973ء ص17
41’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1962ء ص 23
42’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین’’ قومی زبان‘‘ کراچی1961ئ ص78
43’’ ذکر عبدالحق‘‘ سید معین الرحمن لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز1985ئ ص32
44’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن، سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص32
45’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین’’ قومی زبان‘‘ کراچی1961ء ص75-76
46’’ مولوی عبدالحق‘‘ از شاہد احمد دہلوی’’ قومی زبان‘‘ کراچی1964 ص16
47’’ صوفی عبدالرشید‘‘ از شمیم احمد’’ قومی زبان‘‘ اگست1963ئ ص226
48’’ بابائے اردو کی کہانی ان کے معتمد کی زبانی‘‘ ۔۔۔۔۔ از بشیر احمد قریشی ہاپوڑی کراچی ’’ فریڈم انٹر پرائزز‘‘ 1983ئ ص40
49مولوی عبدالحق (سوانحی خاکہ) از غیور عالم ’’ قومی زبان‘‘ کراچی1964ء ص 108
50’’ نواب معشوق یار جنگ سے ایک ملاقات‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1964ئ ص32
51’’ بابائے اردو‘‘ از مولانا عبدالماجد دریا بادی’’ قومی زبان‘‘ کراچی، اگست1961ء ص231
52’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق۔۔۔۔ حیات و علمی خدمات‘‘ شہاب الدین ثاقب انجمن ترقی اردو کراچی1985ئ ص28
53’’ یاد ایام عشرت‘‘ از محمد اعظم سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص49
54’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص13
55’’ بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر1967ء ص 162
56’’ خطبات عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن ترقی اردو کراچی 1964 ص 334
57’’ مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ء ص169
58’’ مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری قومی زبان کراچی 1966ء ص 169
59’’ نقوش‘‘ لاہور آپ بیتی نمبر1964ئ ص53
60’’ بیسویں صدی کا سرسید‘‘ از پروفیسر سید محمد’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن1960ء ص 26
61’’ سلسلہ روز و شب‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ کراچی1968ء ص 91
62’’ مولوی عبدالحق اور تعلیمات‘‘ از محی الدین ’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ئ ص 197
63’’ دکن پر مولوی صاحب کے احسانات‘‘ از محی الدین’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ئ ص70
64’’ حیدر آباد میں مولوی ڈاکٹر عبدالحق کی خدمات پر ایک طائرانہ نظر‘‘ از نصیر الدین ہاشمی ’’ الشجاع‘‘ کراچی عبدالحق نمبر اگست1959 ص51
65’’ مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ء ص 169
66’’ رسالہ افسر اور مولانا حالی ‘‘ از شیخ محمد اشماعیل پانی پتی’’ قومی زبان‘‘ کراچی ستمبر 1968ء ص85
67’’ مولانا ظفر علی خاں احوال و آثار‘‘ از ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی مجلس ترقی ادب لاہور جون1986ء ص:68
68’’ مولوی عبدالحق اور تعلیمات‘‘ از سید ساجد علی سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر1962 ص307
69’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ از: سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص27-28
70’’ بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر1967ئ ص 193
71’’ مجلس‘‘ عبدالحق نمبر حیدر آباد دکن جنوری 1960ء ص222
72’’ دکن پر مولوی صاحب کے احسانات‘‘ از محی الدین احمد’’ قومی زبان‘‘ کراچی 1966ء ص74-73
73’’ عظیم انسان‘‘ از غلام ربانی ’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن1960ء ص17
74’’ قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر1970ء ص71
75’’ ڈاکٹر مولوی عبدالحق‘‘ از پروفیسر ہارون خاں شیروانی’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن جنوری 1960ء ص38
76’’ چند تاثرات‘‘ از محمد احمد سبزواری’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1964ء ص33-32
77’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1970 ص136
78’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب، انجمن ترقی اردو کراچی 1985ء ص35
79پروفیسر محمود احمد خان (انٹرویو ) از ڈاکٹر سید معین الرحمن قومی زبان کراچی (بابائے اردو نمبر)1966ء ص276
80’’ مولوی عبدالحق۔۔۔۔۔۔میرے تاثرات‘‘ از پروفیسر عبدالقادر سروری’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن 1960ء ص55
81ذکر عبدالحق از: ڈاکٹر سید معین الرحمن1985ء ص55
82’’ حیدر آباد میں ڈاکٹر عبدالحق کی خدمات پر طائرانہ نظر‘‘ از نصیر الدین ہاشمی’’ الشجاع‘‘ کراچی ص52
83’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن اردو‘‘ مرتبہ، سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص76
84ایضاً ص106-105
85ایضاً ص40
86ایضاً ص56
87’’ بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر) 1967ء ص160
88ذکر عبدالحق ا ز ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور1985ئ ص60-59
89’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص62
90ایضاً ص63
91ایضاً ص 93
92’’ سید ساجد علی کے نام‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1970ء ص 166-165
93’’ خطبات عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن ترقی اردو کراچی 1964ء ص 525-524
94ایضاً ص522
95’’ اردو کا زخمی سپاہی‘‘ از سجاد مرزا مجلس حیدر آباد دکن 1960ء ص2
96’’ نقوش و تاثرات‘‘ حصہ اول از حکیم امامی انجمن ترقی اردو میسور1958ء ص 196-197
97’’ بیسویں صدی کا سرسید‘‘ از پروفیسر سید محمد’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن جنوری 1960ء
98’’ عبدالحق۔۔۔۔۔۔ ہندوستانی ادب کے معمار‘‘ از مختیار الدین احمد ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی 1984ء ص41
99’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص175
100’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ ترتیب و مقدمہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور1984ء ص41
101’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص179
102ایضاً ص186-185
103ایضاً ص203
104ایضاً ص200
105ایضاً ص204-203
106’’ مکتوب بنام امین زبیری‘‘ قومی زبان کراچی(بابائے اردو نمبر)1967ء ص 144
107’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص227-226
108ایضاً ص227
109ایضاً ص228
110’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ مرتبہ ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور1973ئ ص 44-43
111’’ اردو مصفے‘‘ مرتبہ عبدالحق جوبلی کمیٹی لاہور ناشر ابو تمیم فرید آبادی فروری 1961ء ص254
112’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ئ ص115
113’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953
114ایضاً ص185
115’’ قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر اگست1964ء ص239
116’’ ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن1985ئ ص87
117’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص232
118’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتبہ جلیل قدوائی کراچی، مکتبہ اسلوب 1963ئ ص574
119’’ اردوئے مصفیٰ‘‘ مرتبہ عبدالحق جوبلی کمیٹی لاہور ناشر ابو تمیم فرید آبادی 1961ء ص319
120ایضاً ص320-319
121’’ برگ گل‘‘ بابائے اردو نمبر کراچی اردو کالج 1963ء ص77-76
122’’ مولوی صاحب‘‘ از ابن انشاء قومی زبان کراچی 1971ء ص6
123’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص245
124’’ بزم خوش نفساں‘‘ از شاہد احمد دہلوی مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی کراچی مکتبہ اسلوب 1985ء ص45-44
125’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتب جلیل قدوائی اردو اکیڈمی کراچی 1963ء ص 225
126’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید 1984ء ص92
127ایضاً ص142
128’’ مولوی عبدالحق دید و شنید‘‘ از محمد حسین خاں زبیری’’ قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر)1966ء ص120
129’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ء ص116
130’’ شیخ عبدالخالق عبدالرزاق‘‘ از شمیم احمد’’ قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1966ء ص305
131’’ جناب‘‘ از محمد طفیل ادارہ فروغ اردو لاہور1970ء ص18
132’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از عبادت بریلوی لاہور ادارہ ادب و تنقید 1984ئ ص293
133’’ بابائے اردو اسلامیہ کالج لاہور میں‘‘ از پروفیسر حمید اللہ خاں سہ ماہی ’’ اردو ‘‘ کراچی 1962ء ص36
134’’ شمع انجمن فروزاں‘‘ از تحسین سروری قومی زبان(بابائے اردو نمبر) کراچی 1963ء ص118
135’’ اینٹ کا جواب روپیہ‘‘ از قدرت اللہ شہاب’’ قومی زبان‘‘ کراچی ستمبر1968ء ص14
136’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1970ء ص200
137ایضاً ص176
٭٭٭٭٭٭
بشکریہ
http://iqbalcyberlibrary.net/txt/100047.txt
No comments:
Post a Comment